اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے
یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا کُوۡنُوۡا قَوّٰمِیۡنَ لِلّٰہِ شُہَدَآءَ بِالۡقِسۡطِ ۫ وَ لَا یَجۡرِمَنَّکُمۡ شَنَاٰنُ قَوۡمٍ عَلٰۤی اَلَّا تَعۡدِلُوۡا ؕ اِعۡدِلُوۡا ۟ ہُوَ اَقۡرَبُ لِلتَّقۡوٰی ۫ وَ اتَّقُوا اللّٰہَ ؕ اِنَّ اللّٰہَ خَبِیۡرٌۢ بِمَا تَعۡمَلُوۡنَ ﴿۹﴾
(المائدہ :9)
ڈنمارک کے اخبار یولینڈ پوسٹن (Jylland Posten) کے کلچرل ونگ میں اکتوبر 2005ء کو گیارہ (11) مُصوِروں کی بنائی ہوئی 12مسخ شدہ تصاویر ہمارے آقا و مولا سید المطہرین ﷺ اور سیّد المومنین کے بارہ میں شائع کی گئیں۔ یہ تذکرہ اس قدر اذّیت ناک ہے کہ خاکسار اس کی تفصیل بیان کرنے کی ہمت نہیں پاتا۔ ان تصاویر کے ذریعہ حضور نبی کریم ﷺ اور اسلام پر دو قسم کے اعتراض وارد کئے گئے۔ ایک یہ کہ اسلام آزادیٔ ضمیر کا قائل نہیں اس کے بجائے بانئ اسلام تلوار اور طاقت کے بل بوتے پر ڈرا دھمکا کر اور تشدُّد کی راہ سے فیصلے کیا کرتے تھے۔ نعوذ باللہ۔ مزید براں یہ کہ حضور نبی پاک ﷺ کی توہین ناقابل معافی جرم ہے اور اس کی سزا سوائے قتل کے کچھ نہیں۔
دوسرا اعتراض یہ کیا گیا کہ اسلام شہوت پرستی کو ترویج دیتا ہے اور نعوذ باللّٰہ ثم نعوذ باللّٰہ نقل کُفر۔ کُفر نَباَ شد نبی کریم ﷺ عورتوں کے دلداہ تھے ۔اِس لئے آپ ﷺ نے متعدد شادیاں کیں وغیرہ۔
اب خاکسار سیرت نبوی ﷺ کی روشنی میں ان دونوں اعتراضوں کا جواب پیش کرتا ہے ۔میں یہ واضح کردوں کہ خاکسار نے سینکڑوں درخشندہ واقعات میں سے صرف چند ایک کا انتخاب کیا ہے ورنہ نبی پاک ﷺ کی زندگی کا ایک ایک لمحہ ایسا عشق انگیز، وجد آفریں اور اللہ تعالیٰ کی محبت کا گرویدہ کرنے والا ہے کہ نبی پاکﷺ کل عالم کے اولین و آخرین میں یکتا اور بے مثل اور بے نظیر وجود نکھر کر سامنے آتے ہیں۔
دلبرا مجھ کو قسم ہے تیری یکتائی کی
آپ کو تیری محبت میں بھلایا ہم نے
تاریخ اسلام کا یہ واقعہ زرّین حروف میں لکھنے کے قابل ہے کہ بنو نضیر یعنی مدینہ کے یہودیوں کے ایک قبیلہ کو ان کی چیرہ دستیوں اور متفقہ چارٹر آف مدینہ کی خلاف ورزی کے نتیجہ میں ان کی اپنی درخواست پر حضور نبی پاک ﷺ نے خیبر جانے کی اجازت دے دی جبکہ وہ اپنی شریعت کی رو سے واجب القتل تھے۔ اُنہیں حضور نبی پاک ﷺ کے وعدہ پر اس قدر اعتماد تھا کہ وہ مسلمانوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اپنے ہاتھوں اپنے گھر مسمار کر کے تمام قیمتی سامان اپنی سواریوں پر لاد کر اس شان سے خیبر کو روانہ ہوئے کہ ان کے آگے پیچھے بینڈ باجے بج رہے تھے۔ گویا شادی کا سماں ہو۔
(رحمة للعلمین از محمد سُلیمان سَلمان منصور پوری صفحہ 116)
کیا آج دنیا میں آپ کسی مفتوح اور مغلوب قوم کا نام پیش کر سکتے ہیں جو اپنے فاتح کے سامنے اس قدر اشتعال انگیزی سے نقل مکانی کر رہی ہو اور فاتح ان کے سامنے اس جرأت ِ رِندانہ پر معمولی سا ردّعمل بھی ظاہر نہ کرے۔ کیا اس مثال کو دیکھتے ہوئے کوئی شخص صدق دل سے یہ کہہ سکتا ہے کہ اسلام میں آزادئِ ضمیر کا فقدان ہے اور برداشت نام کی کوئی چیز اسلام میں نہیں ہے۔
پھر ہم دیکھتے ہیں کہ فتح مکہ کے موقع پر حضور نبی پاک ﷺ نے یہ ہدایات دی تھیں کہ سوائے اپنے دفاع کے کسی شخص پر حملہ نہ کیا جائے۔ ابتدا ءمیں 11افراد کے بارہ میں فیصلہ فر مایا کہ وہ اپنے سابقہ جرائم کی بناء پر واجب القصاص ہیں۔ پھر ان کی تعداد 6 کر دی گئی 4 مرد اور 2 عورتیں واجب القتل قرار دی گئیں اور بالآخر 4 مردوں میں سے صرف ایک اِبنِ اخطل قتل کیا گیا۔ وہ بھی اس لئے کہ اسلام قبول کر لینے کے بعد ایک دن اس نے اپنے غلام کو محض اس لئے قتل کر دیا تھا کہ اُس نے وقت پر کھانا تیار نہیں کیا تھا۔ قتل کرنےکے بعد وہ مکہ بھاگ آیا تھا باقی 3 میں سے ایک عکرمہ بن ابی جہل تھا۔ یہ بار ہا مسلمانوں کے خلاف جنگ کر چکا تھا اور اُس کا سب سے بڑا جرم یہ تھا کہ صلح حدیبیہ کے بعد اُس نے نبی پاکؐ کے حلیف بنو خَزَاعہ پر حملہ کر کے بڑا خون خرابہ کیا تھا۔
دوسرا شخص ہبار بن اَسوَد تھا۔ اُس نے حضرت صاحبزادی سیّدہ زینبؓ بنت رسولِ کریم ﷺ پر مکہ سے مدینہ کی طرف ہجرت کے موقع پر نیزہ سے حملہ کیا تھا حضرت زینبؓ اُونٹ سے نیچے گریں اور آپؓ کا حمل ساقط ہو گیا اور بالآخر مدینہ پہنچ کر آپؓ اس صدمہ سے وفات پا گئیں۔
یہ پہلو کس قدر سبق آموز ہے کہ جہاں نبی پاک ﷺ نے ایک غریب بے زر، بے زور مسکین غلام کے قاتل کو معاف نہیں فرمایا وہاں اُس رحمتِ عالم ؐ نے اپنی نور نظر حضرت سیّدہ زینبؓ کے قاتل کو معاف فرما دیا۔
اور تیسرا شخص جس کے قتل کا آپ ﷺ نے حکم دیا اور پھر اپنا فیصلہ واپس لے کر اس کی جان بخشی کی، کاتب وحی عبداللہ بن ابی سرح تھا۔ اُس بے نصیب نے یہ کہنا شروع کر دیا تھا کہ وحی تو میرے پاس آ تی ہے اور محمد ؐ مجھ سے سُن کر لکھواتا ہے۔ نعوذُ باللہ۔
دو عورتوں میں سے صرف ایک عورت کو جو قتل عمد کے جرم میں واجب القصاص تھی، سزائے موت دی گئی۔ اور دوسری عورت ہندہ زوجہ ابو سفیان جس نے حضرت حمزہؓ کا کلیجہ چبایا تھا ان کے ناک کان وغیرہ کاٹ کر ہار بنا کر اپنے گلے میں پہنا تھا اُسے بھی معاف فرما دیا۔ حتیٰ کی وحشی جس نے حضرت حمزہ ؓ کو برچھی مار کر شہید کر دیا تھا اور نعش کی بے حرمتی کی تھی اُسے بھی معاف فرما دیا۔
فتح مکہ کے موقع پر صفوان بن امیہ اُن افراد میں سے تھا جسے آپ ﷺ نے قتل کرنے کا حکم دیا تھا۔ یہ مکہ سے جدہ بھاگ گیا تا سمندر کے راستہ یمن چلا جائے۔ ان کے عزیز عُمیر بن وھب الجمعی نے ان کی معافی کی درخواست کی جو حضور ؐ نے فوراً قبول فر مالی۔ عُمیر نے عرض کیا جب تک حضورؐ اپنی کوئی نشانی نہ دیں گے وہ میری بات پر یقین نہیں کرے گا۔ نبی پاک ﷺ نے اپنی دستارِ مبارک عطا فر مائی۔ چنانچہ صفوان جدہ سے واپس آ گیا اور نبی پاکؐ سے کہنے لگا اے محمدؐ کیا آپ نے مجھے معاف کر دیا ہے جبکہ میں نے اسلام قبول کرنے کا کوئی فیصلہ نہیں کیا۔
آپ ﷺ نےفر مایا ’’ہاں میں نے معاف کر دیا۔‘‘
کچھ عرصہ کے بعد غزوہ حَنین کا واقعہ پیش آیا۔ نبی پاکؐ نے صفوان سے 100 زرہیں مانگیں۔ نبی پاکؐ کی بخشش اور درگزر نے اُسے بے خوف تو پہلے ہی کر دیا تھا۔ بڑی بےباکی سے بولا۔ اَ غَصبًا یَا مُحمد۔ اے محمدؐ میرا مال زبردستی غَصب کرنا چاہتے ہو؟
فرمایا نہیں نہیں بَل عَا رِ یةً مَضمو نةً۔ عاریۃً اپنی ضمانت پر مانگ رہا ہوں۔ فتح حنین کے بعد اس نے دیکھا کہ مال غنیمت کے جانوروں سے پوری وادی بھری ہوئی ہے۔ کہنے لگا اے محمد اتنا مال کیا کرو گے؟ فرمایا سارا تم لے لو اور ہزاروں جانور اُسے بخش دئیے۔ فتح مکہ کے موقع پرب ھی نبی پاک ﷺ کے عفو و درگزر اور آپؐ کے خُلقِ کریم اور وسیع حوصلہ کو دیکھ کر ہزاروں اہل مکہ ایمان لے آئے اور جو پیچھے رہ گئے وہ بتدریج اسلام قبول کرتے رہے۔ آپ ﷺ نے کسی کو جبراً مسلمان نہ بنایا۔ اگر بزور مسلمان بنانا ہی تھا تو پھر یہ اعلان کرنے کی کیا ضرورت تھی کہ جو شخص اپنے گھر میں رہے اُس کی جان مال محفوظ ہے۔ جو خانہ کعبہ میں جا کر پناہ لے لے وہ بھی محفوظ ہے۔ جو ابوسفیان ؓکے گھر چلا جائے وہ بھی محفوظ ہے اور جو بلال ؓکے جھنڈے تلے چلا جائے وہ بھی محفوظ ہے۔
فتح مکہ کے موقع پر وہ مہاجرین نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے جنہیں اہل مکہ نے سخت دکھ دے کر ان کے گھروں سے نکال کر گھروں پر قبضہ کر لیا تھا، اُن مہاجرین نے درخواست کی کہ اب اُن کے گھر انہیں واپس دلائے جائیں لیکن حضور نبی پاکﷺ نے یہ درخواست ردّ کر دی۔
(رحمةً للعٰلمین صفحہ 109۔110)
فتح مکہ کے موقع پر حضرت سعد بن عباد ہ کو نبی اکرم ﷺ نے انصار کا جھنڈا دیا ہوا تھا۔ انہوں نے جوش میں آ کر یہ نعرہ لگا دیا کہ۔ آج کفار مکہ ذلیل کئے جائیں گے۔ حضور نبی پاک ﷺ نے فوراً انہیں علم برداری کی عزت اور فخر سے محروم کر دیا اور جھنڈا واپس لے کر اعلان فر مایا کہ
’’آج کے دن کوئی شخص ذلیل نہیں کیا جائے گا۔‘‘
اس موقع پر اللہ تعالیٰ کے احسانوں کو یاد کرتے کرتے عاجزی اور انکساری سے آپؐ کا سر جھکتے جھکتے کجاوہ سے جا لگا تھا۔
یہ باتیں سننی بھی آسان ہیں اور سینکڑوں سالوں کے بعد کہنی بھی آسان لیکن ان پر عمل وہی پاک وجود کر سکتا ہے جو کسی اور ہی زمین اور آسمان سے تعلق رکھتا ہو۔
جب ملک شام فتح ہوا اور وہاں کی عیسائی آبادی اسلامی حکومت کے ما تحت آگئی۔ تو ایک دن جبکہ صحابئ رسول ﷺ حضرت سہل بن حنیفؓ اور قیس بن سعد ؓقادسیہ کے شہر میں کسی جگہ بیٹھے ہوئے تھے کہ ان کے پاس سے ایک عیسائی کا جنازہ گزرا۔ یہ دونوں اصحاب اسے دیکھ کر تعظیماً کھڑے ہوگئے۔ ایک مسلمان نے جو آنحضرت ﷺ کا صحبت یافتہ نہیں تھا حیران ہو کر ان سے کہا کہ یہ تو ایک عیسائی، ایک ذِمیّ کا جنازہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم جانتے ہیں مگر آ نحضرت ﷺ کا یہی طریق تھا کہ آپ ﷺ غیر مُسلِموں کا جنازہ دیکھ کر کھڑے ہو جاتے تھے اور فرماتے تھے کہ کیا اِن میں خدا کی پیدا کی ہوئی جان نہیں ہے۔
(سیرت خاتم النبّیین حصہ دوئم صفحہ 656)
مُغیرہ بن شُعبہ قبول اسلام سے پہلے اپنے ساتھیوں کے ساتھ کسی تجارتی سفر پر روانہ ہوئے۔ راستہ میں اُنہوں نے موقع پا کر اُنہیں قتل کر دیا اور مدینہ بھاگ آ ئے اور سارا مال نبی پاک ﷺ کے قدموں میں ڈال کر کلمہ پڑھ کر اسلام لے آئے ۔حضور نبی پاک ﷺ نے فرمایا اے مغیرہ ’’اَماَّ مالک فمالُ غَدرٍ فَلا حَاجَةَ لَنَا فِیہِ‘‘ کہ تیرا یہ مال دھوکہ سے کمایا گیا ہے۔ مُغیرہ ہمیں اِس دھوکے سے کمائے ہوئے مال کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔
ایک قبیلہ کا سفیر مدینہ آیا۔ حَقِ سفارت ادا کرنے کے بعد اُس نے مدینہ میں رُکنا چاہا اور اسلام قبول کرنے کی خواہش ظاہر کی آپ ﷺ نے فرمایا کہ یہ سفارت کے آداب کے خلاف ہے پہلے واپس جاؤ۔ اپنا کام مکمل کرو پھر جب چاہو اسلام قبول کر لینا۔
ابوسفیان نے غزوہ احزاب کا بدلہ لینے کے لئے چند قریشی نوجوانوں کو لالچ دے کر نبی کریم ﷺ کے قتل پر آمادہ کیا۔ان میں سے ایک نے حامی بھر لی وہ خنجر چھپا کر مدینہ آیا۔جب نبی پاک ﷺ کی نظر اُس پر پڑی تو دیکھتے ہی فرمایا اِس کی نیت ٹھیک نہیں ہے۔ ایک انصاری رئیس اُسَید بن حُضیر لپک کر اُسے چمٹ گئے اور اُن کے ہاتھ میں اُس کا چھپا ہوا خنجر آ گیا۔اب کیا تھا قریشی نوجوان خوف سے کانپنے لگا اور رونے لگا اور منت کرنے لگا کہ میری جان بخشی کر دی جائے۔حضور نبی پاکؐ نے فرمایا: اگر سچ سچ بتا دو کہ کس نیت سے آئے تھے تو معاف کر دیں گے۔ اُس نے ابو سفیان کے منصوبہ سے آگاہ کیا اور حضورؐ نے اُسے فوراً معاف فرما دیا۔ وہ نوجوان مدینہ میں کچھ دن رہ کر اسلام لے آیا۔
(سیرة خاتم النبیین صفحہ 741)
طائف میں نبی پاک ﷺ سے جو ظالمانہ سلوک کیا گیا تھا اُس سے کون واقف نہیں۔ طائف کے سرداروں نے پتھر مار مار کر آپؐ کو لہولہان کردیا تھا۔فتح مکہ کے بعد غَزوہ حُنین اور غزوہ طاس ہوئیں تو طائف سے بڑی تعداد میں فوجیں دشمن کی مدد کے لئے آئیں۔ لیکن شکست فاش کے بعد طائف میں اپنے قلعوں میں محصور ہوگئیں۔ نبی پاک ؐنے اُن کا محاصرہ کر لیا۔ چند دن کے محاصرہ کے بعد کسی طرح نبی پاک ؐ کو اطلاع ملی کہ دشمن محاصرہ کی شدت سے سخت تکلیف میں ہے اور بھوک نے ان کی ہلاکت کو اُن کے بہت قریب کر دیا ہے۔ نبی پاک ؐنے فوراً محاصرہ اُ ٹھالینے کا فیصلہ فرمایا صحابہ ؓ نے جنگی اصولوں کے پیشِ نظر عرض کیا کہ حضور ﷺ اب یہ مجبور ہو چکے ہیں اور قلعہ فتح ہونے ہی والا ہے۔ لیکن وہ پاک اور مقدس نبی ؐ جو ماں باپ سے بڑھ کر شفیق تھا اِن جانی دشمنوں کو یوں بھوک کے ہاتھوں تڑپتے ہوئے نہ دیکھ سکا۔ آپ ﷺ نے صحابہؓ کے مشورہ کو ردّ کر دیا اور محاصرہ اٹھا کر واپس مکہ تشریف لے گئے۔
فتح مکہ کے بعد طائف سے ایک وفد نبی پاک ﷺ سے ملاقات کے لئے مدینہ آیا۔ ابھی تک یہ سب کے سب بُت پرست اور مشرک تھے۔ حضور نبی پاک ؐ نے اُن کیلئے مسجد نبوی کے صحن میں خیمے لگوانے کا حکم دیا۔
بعض صحابہ ؓنے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ؐ یہ مشرک ہیں اور مشرک تو قرآن کریم کی رُو سے نجس یعنی ناپاک ہوتے ہیں۔ (سورة توبہ) اُنہیں مسجد میں ٹھہرانا کہیں مسجد کے تقدس کے خلاف نہ ہو۔ فرمایا ظاہری اعتبار سے وہ بھی اُ تنے ہی پاک و صاف ہیں جتنے کہ تم ہو۔ ہاں جہاں قرآن کریم نے اُ نہیں نجس قرار دیا ہے صرف اِن معنوں میں کہ قلبِ انسانی محبطِ نزول باری تعالیٰ ہے اور مشرکوں نے اس کی جگہ بُت بٹھا رکھے ہیں۔نبی پاک ؐ کی اس وضاحت سے سب صحابہ کے دل اطمینان سے بھر گئے۔
ایک بار حضور نبی کریم ﷺ کے پاس نجران کے عیسائیوں کا ایک وفد مدینہ میں ملاقات کے لئے آیا۔ یہ تبادلہ خیالات مسجد نبوی میں ہو رہے تھے۔ بحث کے دوران، ان کی عبادت کا وقت شروع ہونے پر انہوں نے اجازت مانگی کہ مسجد نبوی سے باہر جاکر کسی جگہ عبادت کر آئیں۔ حضورؐ نے فر مایا یہیں میری مسجد میں اپنے طریق پر عبادت کر لیں۔ یہ عیسائی جب عبادت میں مصروف تھے اور جنوب کی بجائے ان کے منہ مشرق کی طرف تھے تو چند صحابہ مسجد میں پہنچے غالباً ان صحابہ کی نظر اپنے آقاومولیٰ ؐ پر نہیں پڑی تھی۔ یہ صحابہ ان عیسائیوں کو مختلف سمت میں عبادت کرتے ہوئے دیکھ کر انہیں منع کرنے کے لئے آگے بڑھے تو حضور نبی پاک ﷺ نے سختی کے ساتھ انہیں روک دیا تایہ اُن عیسائیوں کی عبادت میں خلل نہ ڈالیں۔ آپ ﷺ نے فر مایا: ’’یہ مسجد خدا کا گھر ہے اور میں نے ہی اُن کو عبادت کی اجازت دی ہے اور جب کوئی محض اللہ کی عبادت کر رہا ہو تو کسی انسان کا حق نہیں کہ اس میں روک پیدا کرے۔
قارئین کرام! ہم سب جانتے ہیں کہ مسجد نبوی کا کیسا بلند رتبہ ہے۔ اے کاش آج مسلمانوں میں بھی یہ حوصلہ پیدا ہو جائے۔ ہم علیٰ وجہ البصیرت کہہ سکتے ہیں کہ ساری امت مسلمہ میں سوائے جماعت احمدیہ کے آج شائد ہی کسی دوسرے فرقہ کا اس پر عمل ہو۔ اے کاش تمام فرقے اس حسین اسوہ نبوی ﷺ پر عمل پیرا ہوں تا ہمارا معاشرہ کچھ سُکھ کا سانس لے سکے ۔
سن 4 ہجری میں حضور نبی اکرم ﷺ نے سینٹ کیتھرین متصل کوہِ سینا کے راہبوں اور عیسائیوں کی درخواست پر ایک امان نامہ لکھ کر دیا۔ انہیں کسی طرح یہ احساس ہو گیا تھا کہ اسلام نے بہر حال غالب آ کر رہنا ہے۔ اُ نہوں نے عرض کی کہ جب کبھی بھی اسلام ہمارے علاقہ میں غلبہ حاصل کرے آپ ہمیں ابھی سے لکھ کر دیں کہ ہم اور ہماری خانقاہ (Monastery) مسلمان فاتح قوم کی ہر قسم کی مداخلت سے محفوظ رہیں گے۔ حضور نبی پاک ﷺ نے فوراً یہ درخواست قبول فرما کر تحریر لکھ دی۔ نبی پاک ؐ کا اصل فرمان آج بھی ترکی میں محفوظ ہے۔ امان نامہ حضرت معاویہ بن ابو سفیان ؓنے تحریر کیا اور اُس پر 32 افراد کے بطور گواہان دستخط ہیں۔ ان دستخط کنندگان میں خلفائے راشدین کے علاوہ صحابہ کبار شامل ہیں۔
(سیاسی وثیقہ جات معہ اردو ترجمہ ڈاکٹر محمد حمید اللہ حیدر آبادی طبع اول 1960ء)
نبی پاک ﷺ نے اس میں حکم دیا کہ
- اس خانقاہ کی جائیداد پر کسی اور کا حق نہیں۔
- ان کی صلیب اور دیگر مذہبی شعائر کی کوئی توہین نہیں کرے گا۔
- ان کے راہب اور پادری اپنے مناصب پر کام کرتے رہیں گے۔
- نہ ان کی عبادت گاہوں میں کوئی مداخلت کرے نہ انہیں مساجد میں تبدیل کیا جائے۔
- کسی نصرانی کو مسلمان ہونے پر مجبور نہ کیا جائے۔
- ان کی عورتوں اور لڑکیوں سے ان کی رضامندی کے بغیر کوئی شادی نہ کرے۔
- ان کی عبادت گاہوں اور خانقاہوں کی مرمت کے لئے ضرورت ہو تو اسلامی مملکت مالی مدد کرے۔
ایک بار ایک بدو پہلی بار مسجد نبوی میں وارد ہوا۔ مسجد میں ساری جگہ صفیں تو بچھی نہیں تھیں۔ اُسے پیشاب آیا وہ مسجد کے ایک کونے میں خالی جگہ دیکھ کر پیشاب کرنے لگا۔ صفائی کے نکتہ نظر سے مسلمان جوتے بھی مسجد کے باہر ہی اُتار دیتے ہیں۔ مسجد کے اندر نماز کی جگہ پیشاب کرنا تو برداشت سے باہر تھا۔ صحابہ کرام ؓ مسجد کی اس توہین پر سخت برافروختہ ہوئے اور ان میں سے بعض اُس بدو کی طرف لپکے۔ نبی پاک ﷺ نے صحابہ کو فوراً روک دیا اور جب وہ بدو آرام سے فارغ ہو گیا تو آپ نے پانی کی ایک مشک خود اٹھائی اور اس جگہ کو خود پانی بہا کر صاف کر دیا۔ پھر آپ ﷺ صحابہ کی طرف متوجہ ہوئے اور اُن کو فرمایا :۔
’’تمہیں خدا تعالیٰ نے لوگوں کے لئے دکھوں اور مصیبتوں میں اضافہ کے لئے پیدا نہیں کیا بلکہ اس لئے پیدا کیا ہے کہ انسانیت کو سُکھ کا سانس ملے۔‘‘
قارئین! ڈنمارک کے کارٹونوں سے نبی پاک ﷺ اور اسلام کے خلاف یہ تاثر دیا گیا کہ نعوذ با للہ نبی پاک ﷺ اپنی توہین برداشت ہی نہیں کر سکتے تھے۔ خاکسار اس اعتراض کے جواب میں صرف ایک واقعہ بیان کرے گا۔
عبداللہ بن ابی بن سلول رئیس المنافقین تھا اور قبیلہ خزرج کا سردار تھا۔ مدینہ میں نبی پاک ﷺ کی ہجرت سے قبل اس کے لئے باقاعدہ لڑیوں کا تاج بنایا گیا اور اس کی رسم تاج پوشی کی تیاریاں مکمل ہو چکی تھیں۔ تاج پوشی سے ذرا پہلے نبی پاک ؐ کا وَرود ِ مسعود مدینہ میں ہوا اور آپؐ سب لوگوں کی توجہ کا مر کز بن گئے۔ اس وجہ سے عبد اللہ بن ابی بن سلول کے سینہ میں آگ لگ گئی اور دل ہی دل میں نبی پاک ﷺ کے خلاف منصوبے بنانے لگا۔ یہ بد بخت بہت سی کنیزیں اور لڑکیاں اپنے پاس رکھتا اور ان سے زبردستی پیشہ یعنی حرام کاری کرواتا تھا۔
(سیرت حلبیہ اردو جلد دوئم نصف اول صفحہ 312)
واقعہ افک میں بھی حضرت عائشہؓ ام المومنین پر الزام لگانے میں یہی شخص پیش پیش تھا۔ در اصل در پردہ اس کا یہ خلافت پر پہلا حملہ تھا۔ اسے احساس تھا کہ حضرت ابو بکرؓ کا نبی پاک ﷺ اور مسلمانوں کی نظر میں کیسا مقام ہے اور یہ کہ نبی پاک ﷺ کے بعد مسلمان صرف حضرت ابو بکرؓ کے ہاتھ پر جمع ہوں گے۔ غزوہ بنو مصطلق 6ھ میں ہوا۔ سیدنا حضرت فضل عمر ؓ نے تفسیر کبیر میں تفصیل سے اس واقعہ کا ذکر کیا ہے کہ کس طرح بنو مصطلق کے غزوہ سے واپسی پر اُس نے ایک خطرناک سازش کی۔
حضور تحریر فر ماتے ہیں :۔
’’رسولِ کریم ﷺ نے جب بنو مصطلق پر لشکر کشی کی تو وہاں انصار اور مہاجرین میں کنوئیں سے پانی نکالنے پر جھگڑا ہو گیا اور اُس جھگڑے نے اس قدر طول کھینچا کہ انصار اور مہاجرین نے تلواریں نکال لیں اور وہ ایک دوسرے سے لڑائی پر آ مادہ ہو گئے۔ عبداللہ بن ابی سلول نے اس موقع کو غنیمت سمجھا۔چنانچہ وہ آگے بڑھا اور اُس نے کہا۔
اے انصار! یہ تمہاری ہی غلطیوں کا نتیجہ ہے کہ آج تمہیں یہ دن دیکھنا پڑا۔ میں تمہیں پہلے ہی سمجھاتا تھا کہ تم ان مہاجرین کو سر نہ چڑھاؤ ورنہ کسی دن تکلیف اُٹھاؤ گے مگر تم نے میری بات نہ مانی۔ اب خدا کا شکر ہے کہ تمہیں بھی اس حقیقت کا احساس ہوا۔ مگر گھبراؤ نہیں اور مجھے مدینہ پہنچ لینے دو۔ پھر دیکھو کہ مدینہ کا سب سے معزز انسان یعنی وہ کمبخت خود مدینہ کے سب سے زیادہ ذلیل انسان یعنی نعوذ باللہ محمد رسول للہ ﷺ کو وہاں سے نکال دے گا اور یہ فتنہ پھر کبھی سر نہیں اُٹھائے گا۔ جب اُس نے یہ الفاظ کہے تو انصار اور مہاجرین دونوں سمجھ گئے کہ ہمارے جوش سے اس نے ناجائز فائدہ اٹھانا چاہا ہے چنانچہ وہ سنبھل گئے اور انہوں نے آپس میں صلح کر لی۔ مگر اس دوران میں کسی نے دوڑ کر رسول کریم ﷺ کو اطلاع کر دی کہ یا رسول اللہ ﷺ عبداللہ بن ابی ابن سلول نے آج اِس اِس طرح کہا ہے آپؐ نے عبد اللہ بن ابی سلول اور اس کے دوستوں کو بلایا اور فرمایا کہ کیا بات ہوئی ہے۔
انہوں نے اس واقعہ سے بالکل انکار کر دیا اور کہا یہ بالکل غلط بات ہے۔ ایسا کوئی واقعہ ہوا ہی نہیں لیکن بات سچی تھی پھیلنی شروع ہوئی اور عبداللہ کے بیٹے تک بھی یہ بات جا پہنچی کہ آج اُس کے باپ نے ایک جھگڑے کے موقع پر یہ کہا ہے کہ مجھے مدینہ پہنچ لینے دو پھر وہاں کامعزز ترین انسان یعنی وہ خود۔ مدینہ کے ذلیل ترین انسان یعنی نعوذ باللہ محمد ﷺ کو وہاں سے نکال کر رہے گا۔ وہ ایک مخلص نوجوان تھا وہ یہ سنتے ہی بیتاب ہو گیا اور اُسی وقت نبی کریم ﷺ کی خدمت میں پہنچا اور کہنے لگا یا رسول اللہؐ میں نے سُنا ہے کہ آج میرے باپ نے یہ الفاظ کہے ہیں رسول کریم ﷺ نے فرمایا۔ ہاں میرے پاس بھی رپورٹ پہنچ چکی ہے۔ اُس نے کہا یا رسول اللہؐ اس جرم کی سزا اور کیا ہوسکتی ہے کہ آپ میرے باپ کو قتل کرنے کا حکم دے دیں مگر یا رسول اللہ ؐمیں یہ درخواست کرنے کے لئے حاضر ہوا ہوں کہ اگر آپؐ میرے باپ کے قتل کا حکم نافذ فرمائیں تو کسی اور کو قتل کا حکم نہ دیں بلکہ مجھے حکم دیں کہ میں اپنے باپ کو قتل کروں۔ کیونکہ اگر آپؐ نے کسی اور مسلمان کو حکم دیا اور اُس نے میرے باپ کو قتل کر دیا تو ممکن ہے کہ شیطان کسی وقت مجھے ورغلاوے کہ یہ میرے باپ کا قاتل ہے اور میں جوش میں اُس پر حملہ کر بیٹھوں۔ اس لئے آپؐ کسی اور کو حکم دینے کے بجائے مجھے ہی یہ حکم دیں کہ میں اپنے ہاتھ سے ہی اپنے باپ کو قتل کر دوں۔ رسول کریم ﷺ نے فر مایا ہمارا ایسا کوئی ارادہ نہیں ہے۔ ہم اُسے کوئی سزا دینا نہیں چاہتے۔ اُس نے کہا یا رسول اللہؐ یہ ٹھیک ہے کہ آپ اس وقت اُسے کوئی سزا نہیں دینا چاہتے۔ لیکن اگر پھر کسی وقت اُسے سزا دینا مناسب سمجھیں تو میری در خواست ہے کہ آپؐ رحم فرما کر مجھے ہی حکم دیں کہ میں اپنے باپ کو قتل کر دوں۔ رسول کریم ﷺ نے پھر فر مایا کہ ہمارا اُسے سزا دینے کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔ ہم تمہارے باپ کے ساتھ نرمی اور ملاطفت کا ہی سلوک کریں گے۔ وہ وہاں سے اُٹھا اور خاموشی کے ساتھ چلا آیا مگر اُس کا دل اِن الفاظ کی وجہ سے جل رہا تھا اور اُسے کسی پہلو قرار اور اطمینان نہیں آتا تھا۔ جب لشکر مدینہ کی طرف واپس لوٹا اور عبد اللہ بن ابی ابن سلول اندر داخل ہونے لگا تو اُس کا بیٹا اپنی سواری سے کود کر اپنے باپ کے سامنے جا کھڑا ہوا اور اُس نے تلوار اپنی میان سے نکال لی اور باپ سے کہا۔ تمہیں یاد ہے تم نے وہاں کیا الفاظ کہے تھے تم نے کہا تھا کہ مدینہ کا معزز ترین انسان میں ہوں اور مدینہ کا ذلیل ترین انسان نعوذ باللہ محمدرسول اللہ ﷺ ہیں۔ خدا کی قسم مَیں تمہیں اُس وقت تک مدینہ میں داخل نہیں ہونے دوں گا جب تک تم میرے سامنے یہ اقرار نہ کر لو کہ مدینہ کا ذلیل ترین انسان میں ہوں اور مدینہ کا معزز ترین انسان محمد رسول اللہ ﷺ ہے۔ ورنہ میں اسی تلوار سے تمہارا سر اڑا دوں گا۔ عبداللہ نے جب یہ نظارہ دیکھا کہ اس کا بیٹا اس کے سامنے تلوار لے کر کھڑا ہے اور وہ کہتا ہے کہ کہو میں مدینہ کا ذلیل ترین انسان ہوں اور محمد رسول اللہ ﷺ مدینہ کے معزز ترین انسان ہیں تو اس کا دل لرز گیا اور اس نے سمجھ لیا کہ اگر آج میں نے یہ الفاظ نہ کہے تو میرے بیٹے کی تلوار میرا خاتمہ کئے بغیر نہ رہے گی۔ چنانچہ اس نے اپنے تمام دوستوں اور ساتھیوں کے سامنے جن میں وہ اپنی بڑائی کے گیت گایا کرتا تھا اقرار کیا کہ میں مدینہ کا ذلیل ترین انسان ہوں اور محمد رسول اللہ ﷺ مدینہ کے معزز ترین انسان ہیں اور پھر اس نے اپنے باپ کو شہر میں داخل ہونے کے لئے راستہ دیا۔
(تفسیر سورہِ مریم ،تفسیر کبیر جلد5صفحہ 354)
کچھ عرصہ بعد عبداللہ بن ابی بن سلول فوت ہو گیا تو حضور نبی پاک ﷺ نے خود اس کی نماز جنازہ پڑھانے کا اظہار فر مایا۔ چونکہ یہ شخص منافقوں کے سردارکے طور پر مشہور ہو چکا تھا اور علی الاعلان نبی پاک ؐ کی مخالفت میں پیش پیش تھا جب کبھی غلطی کرتا اور لوگ اسے معافی مانگنے کے لئے کہتے تو جواب دیتا مجھے محمدؐ کی دعاؤں کی ضرورت نہیں ہے۔
(سیرت النبیؐ کامل ابن ہشام جلد دوئم صفحہ 112)
حضرت عمرؓ بیان فر ماتے ہیں کہ
جب حضور نبی اکرم ؐ اُس کی نماز جنازہ پڑھانے کے لئے کھڑے ہوئے تو میں نبی پاک ﷺ کے سامنے کھڑا ہوا اور عرض کیا، یا رسول اللہ ؐ! کیا آپؐ اِس دشمنِ خدا کی نماز پڑھا رہے ہیں جس نے فلاں روز یہ کہا اور فلاں روز یہ کہا تھا۔ میں اس کے سارے واقعات بیان کرنے لگا اور حضور پاک ؐ تبسم فر ماتے رہے۔ اور یہی فرمایا ہاں عمر ؓ میں ہی اس کا جنازہ پڑھاؤں گا۔ حضرت عمر نے عرض کیا یا رسول اللہ کیا ایسے ہی منافقوں کے بارہ میں خدا تعالیٰ نے سورہ توبہ میں یہ نہیں فر مایا کہ اِستَغفِر لَھُم اَؤ لَا تَسْتَغْفِر لَھُم اِن تَسْتَغْفِر لَھُم سَبْعِینَ مَرَّ ةً فَلَن یَّغفِرَاللّٰہ لَھُم یعنی اے رسول تم چاہے منافقوں کے لئے مغفرت کی دُعا کرویا نہ کرو ۔ اور اگر تم ان کے لئے ستر مرتبہ بھی مغفرت کی دعا کرو گے تو پھر بھی ہر گز اللہ ان کو نہ بخشے گا۔ (توبہ:80)
رحمت عالم ﷺ نے فرمایا: ’’اے عمر ! اگر مجھ کو معلوم ہو جائے کہ ستر مرتبہ سے زیادہ دعائے مغفرت کرنے سے خدا ان کو بخش دے گا تو میں ستر مرتبہ سے زیادہ ان کے لئے مغفرت کی دعا کروں گا۔‘‘
حضرت عمرؓ کہتے ہیں پھر نبی اکرمؐ نے اس کی نماز جنازہ پڑھائی اور قبر پر بھی تشریف لے گئے اور مجھ کو رسول اللہ ﷺ کے ساتھ اس جرأت اور دلیری کرنے سے تعجب تھا۔
(سیرت النبی ﷺ کامل ابن ہشام جلد دوئم صفحہ 355)
ایک روایت ہے کہ نبی پاکؐ نے اپنا قمیص مبارک بھجوایا اور فرمایا ’’اسے غسل دینے کے بعد میرے قمیص میں دفنایا جائے شائد اسی سے اس کی بخشش ہوجائے۔‘‘
قارئین کرام! اب خاکسار چند واقعات کی روشنی میں اس گھناؤنے اعتراض کا جواب دے گا کہ نعوذ باللہ حضور نبی پاکﷺ عورتوں کے دلدادہ تھے۔ آئیے اس اعتراض کے جواب سے پہلے عرب معاشرہ اور اسلام سے پہلے کے مذاہب میں شادیوں کے رواج سے متعلق جائزہ لیں۔
اسلام سے قبل عرب معاشرہ میں بیویاں کرنے کی کوئی حدبسط مقرر نہ تھی۔ عرب معاشرہ میں بدکاری اور زناکاری عروج پر تھی۔ عرب اس پر ندامت تو دور کی بات اِن افعال قبیحہ پر فخر کرتے۔ اپنے اشعار کے ذریعہ اِشاعتِ فحشاء پر ناز کرتے۔ شراب اور سخت نشیلی ڈرگز کا استعمال عام تھا اور پھر مدہوشی میں مخالفوں کی بہو بیٹیوں کے بارہ میں مزے لے لے کر فخریہ قصے بیان کرتے۔ لونڈیاں کثرت سے رکھتے اور ان کے ذریعہ بدکاری کی آمدنی کو اچھا سمجھتے تھے۔ جو عورت بھی جنگ میں پکڑی جاتی اُس سے یہی پیشہ کرواتے تھے۔ جس بیوہ عورت پر مُتوَفّی شوہر کا قریبی رشتہ دار اپنی چادر ڈال دیتا وہی زبردستی اس کی بیوی بنادی جاتی۔ سوتیلے بیٹے اِس طریق پر سوتیلی ماؤں پر قبضہ کر لیتے تھے۔ عورتیں بے حجاب اپنے جسم کے مخفی حصوں کی نمائش کرتیں۔ جو خاندان شریف سمجھے جاتے وہ لڑکیوں کو زندہ دفن کر دیتے تھے اور اس پر فخر کرتے گویا یہ اِن کی اعلیٰ شرافت کا نشان تھا۔
(رحمة للعالمین حصہ سوئم صفحہ 625)
جناب قاضی محمد سُلمان اپنی تالیف رحمۃ للعالمین حصہ سوئم صفحہ 891 پر لکھتے ہیں۔
معترضین کے پاس اس کے خلاف دلیل صرف یہ ہے کہ اسلام نے ایک سے زیادہ عورت کو بیوی بنا لینے کی اجازت دی ہے۔ مگر غور تو کرو، کہ داؤدؑ کو خدا کا اکلوتا بیٹا (زبور۔10) کہنے والے اور اس کی سو بیویوں تھیں۔ پھر سلیمان ؑ کو خدا کا سادل والا بتانے والے اس کی ایک ہزار بیویوں پر، ابراہیم ؑ کو خلیل الرحمٰن ماننے والے اس کی بیویوں اور لونڈیوں پر، کرشن جی مہاراج کو اوتار ماننے والے ان کی سولہ ہزار ایک سو آٹھ سکھیوں پر اور ان کو ریفامر اعظم ماننے والے زمانہ حال کے لیڈر ان کی آٹھ مہارانیوں پر کوئی اعتراض زبان سے نہیں نکالتے، تو پھر ان کا کیا حق ہے کہ اسلام پر ایک سے زائد بیوی کرنے پر اعتراض کریں۔ ہم نے محترم ہستیوں کے نام لئے ان کے مذہب میں ایک سے زائد بیوی کرنے کے لئے کوئی ایسی شرط موجود نہیں، جس کا فقدان ان کو ایک سے زیادہ بیوی کرنے کے لئے روک بن سکے مگر اسلام میں شرطِ عدل موجود ہے۔
اور اس شرط کے فقدان پر احتمالِ فقدان کی حالت پر بھی فَوَاحِدۃً کا ارشاد موجود ہے، کیا کوئی مذہب ہے، جو اپنی کتاب پاک میں فَوَاحِدَ ةً کا ہم معنی لفظ نکال کر دکھاوے۔ کوئی مذہب ہے جو مسیح یا موسیؑ یا کرشن یا رام ؑچندر کے منہ سے نکلی ہوئی بات فَوَا حِدَةً کے معنی ثابت کر دے۔ اگر نہیں اور یقیناً نہیں، تب اس کو اقرار کرنا چاہئے کہ یہ بھی اسلام ہی کی خصوصیات میں سے ہے اور ایک بیوی والے جس قانون پر یورپ کو فخر ہے، وہ بھی قرآن مجید ہی کے ایک حکم کا خلاصہ اور ناقص خلاصہ ہے۔
حضرت صاحبزادہ مرزا بشیراحمد تحریر فر ماتے ہیں کہ مشہور معاند اسلام مستشرق مار گولیئس سڈنی Morgolius Sydney نے اپنی کتاب ’’محمدؐ‘‘ میں اعتراف کیا ہے کہ بیشتر یور پین مصنفین کی نظر میں نبی پاک ﷺ کی شادیاں نفسانی خواہشات پر مبنی تھیں لیکن یہ اعتراض سراسر غلط اور بے بنیاد ہے۔ آپؐ کی اکثر شادیاں عرب کے قبائل کو اسلام سے قریب لانے کے لئے، اپنے بعض اصحاب کی دلجوئی کے لئے اور بعض بے آسرا خواتین کی سر پرستی کے لئے تھیں اور بعض شادیاں اولاد نرینہ کے حصول کے لئے تھیں۔
(سیرت خاتم النبین صفحہ 445)
حضور نبی اکرم ﷺ کی تمام ازواج مطہرات میں سے صرف حضرت عائشہ ؓ اور حضرت ماریہ قبطیہؓ کنواری تھیں باقی سب کی سب یا بیوہ یا مُطَلَّقہ تھیں۔
عرب جیسے آزاد معاشرہ میں جہاں شادیاں چھوٹی عمر میں کر دی جاتی تھیں۔ نبی پاک ﷺ نے ابتدائی 25 سال کمال تقویٰ کے ساتھ تجرد کی حالت میں گزارے۔ آپؐ سارے عرب میں سردار حُسن کا شاہکار سمجھے جاتے تھے۔ شادی کی تو ایسی خاتون کے ساتھ جو حضورؐ سے عمر میں نہ صرف 15 سال بڑی تھیں بلکہ پہلے سے دو بار بیوہ ہو چکی تھیں اور حضورؐ نے اُن کے ساتھ اپنی 25 سے 50 سال تک کی عمر کا زمانہ نہایت وفا کے ساتھ گزارا۔ جب حضرت خدیجہ ؓ کی وفات ہوئی تو وہ 65 برس کی ہو چکی تھیں اور نبی پاک ﷺ اپنی وفات تک ہمیشہ حضرت خدیجہ کی محبت اور قربانیوں کا ذکر فر ماتے رہے۔ کیا یہ کسی نفس پرست، عورتوں کے دلداہ وجود کی حالت ہے یا ایک بے مثال وفا شعار عارف ربانی اور عشق خدا میں مخمور وجود کی سیرت طیبہ کا قابل تقلید نمونہ ہے۔
حضور نبی پاک ﷺ کی دوسری شادی حضرت سودہ ؓسے ہوئی۔ حضرت سودہ ؐبنت زمعہ بن قَیس حضور کے ایک خادم حضرت سکران بن عمر کی بیوہ تھیں۔ میاں بیوی نے کفار کے انتہائی مظالم سے تنگ آ کر حبشہ کی طرف ہجرت کی جہاں سکران بن عمر فوت ہو گئے۔ حضرت سودہؐ کی عمر 50 سال کی ہو چکی تھی۔ گویا شادی کی عمر سے گزر چکی تھیں یہ مسلمانوں کی انتہائی تنگی کے حالات تھے۔ حضرت سودہ ؐبےسہارا ہو چکی تھیں ان کے سہارے کے لئے نبی پاک ؐ نے ان سے شادی کی۔
حضور پاک کی تیسری شادی حضرت عائشہ ؓ سے ہوئی۔ حضرت عائشہ ؓ نبی پاک کی وفات کے بعد 48 سال تک زندہ رہیں اور ہمیشہ رسولِ کریم ﷺ کی محبت اور احسان اور عبادات کا تذکرہ کرتی رہیں اور کبھی بھی حرف شکایت آپ ﷺ کے منہ پر نہ آیا۔
نبی پاکؐ کی اکثر شادیاں 5ھ تا 9ھ کی درمیانی مدت میں ہوئیں جبکہ آپ زندگی کے 55 سال گزار چکے تھے۔ آپ ﷺ فرماتے تھے۔ ’’مَالِی فیِ الِنّسآءِ ھا جَة‘‘ کہ مجھے اپنی ذات کے لئے عورتوں کی کوئی حاجت نہیں۔ اُس کے باوجود آپ ﷺ کا مزید شادیاں کرنا ضرور کوئی، مصالح رکھتا ہے جن میں سے چند ایک کا خاکسار ذکر کر کے اپنی معروضات ختم کرے گا۔
حضرت ام المومنین صفیہ ؓ کے نکاح سے قبل جس قدر لڑائیاں مسلمانوں کے ساتھ کفار نے کیں ان سب میں یہود مخفی طور پر یا اعلانیہ شریک تھے مگر حضرت صفیہ ؓ کے ساتھ شادی کے بعد کسی ایک لڑائی میں بھی یہود مسلمانوں کے خلاف شریک نہیں ہوئے۔ خود غور کیجئے یہ شادی قومی مصالح کے لئے کس قدر ضروری تھی۔ حضرت صفیہؓ سے شادی کے وقت نبی پاک ؐ 59 برس کے تھے۔
حضرت اُم حبیبہ ؓابو سفیانؓ کی دختر تھیں۔ آپ عبداللہ بن جَحشؓ کی بیوہ تھیں اس شادی سے قبل ابو سفیان غزوہ احد، حَمرَاءُ الاَسَد، بدرُالاُخریٰ اور غزوہ احزاب میں لشکرِ کفار کی کمان کرتے ہوئے نظر آتے ہیں لیکن اس شادی کے بعد وہ کسی جنگ میں مسلمانوں کے خلاف فوج کشی کرتے ہوئے نظر نہیں آئے اور تھوڑے ہی عرصہ کے بعد خود بھی اسلام کے جھنڈے تلے آ کر پناہ لے لیتے ہیں۔ کیا کوئی کہہ سکتا ہے کہ یہ نکاح غیر ضروری تھا۔
حضرت اُم المومنین جُوَیرؓیہ بنت حارث بِن اَ بیِ ضرار کی پہلی شادی مسافِع بن صنوان سے ہو چکی تھی۔ ان کا باپ مشہور رہزن تھا اور مسلمانوں سے دلی عداوت رکھتا تھا۔ بنو مصطلق کا مشہور طاقتور جنگ جُو قبیلہ جو متعدد قبائل پر مشتمل تھا ہمیشہ اُس کے اشارہ پر ہر جنگ میں مسلمانوں کے خلاف برسر پیکار رہا۔ لیکن جونہی حضور پاک ﷺ نے اُ نہیں آزاد کر کے ان کی رضا مندی سے اُن کے ساتھ شادی کی تمام قبیلہ سب دشمنیاں بھول گیا۔ قزاقی چھوڑ دی اور مسلمانوں کے خلاف کسی جنگ میں شریک نہ ہوا ۔ انصاف سے بتائیں کہ یہ نکاح کس قدر مفید ثابت ہوا۔ حضور نبی پاکؐ کی عمر اس وقت 57 سال کی تھی۔
حضرت میمونہؓ اُم المومنین کی ایک بہن سردار نَجد کے گھر میں تھیں۔ اہل نجد ہی وہ ظالم تھے جنہوں نے دھوکے سے 70 واعِظانِ دین کو اپنے ملک میں لے جا کر شہید کر دیا تھا۔کئی بار اُنہوں نے نقصِ اَمن اور فساد انگیزی کی۔ لیکن حضرت میمونہؓ کے ساتھ شادی کے بعد ملک نجد میں صلح، امن اور اسلام پھیلانے کے بہترین مواقع پیدا ہوگئے۔ حضرت میمونہؓ کے ساتھ شادی حضور نبی پاکؐ نے 59 برس کی عمر میں کی حضرت میمونہ اس وقت 36 سال کی تھیں اور حضور ﷺ کی زوجیت میں صرف 4 سال تک رہیں۔
حضرت زینبؓ بن جحش، حضرت عائشہ ؓاور حضرت حفصہؓ کے نکاح خالص اسلامی اغراض اور مصالح دینی پر مبنی تھے۔ حضرت زینبؓ کے نکاح کے ساتھ عربوں کی متبنیٰ بنانے کی رسم کا طِلسم پاش پاش ہو گیا۔
حضرت عائشہؓ اور حضرت حفصہؓ کے ساتھ نکاح کے نتیجہ میں حفاظتِ قرآن کریم اور تعلیم نِسواں کے قومی مقاصد حاصل ہوئے اسی طرح دونوں اُمہات المومنیؓن کو خلافت ابوبکر صدیق اور خلافت عمر فاروق رضی اللہ عنھما کے دوران حضور نبی پاک ﷺ کی تربیت کے نتیجہ میں عظیم الشان خدمات کی توفیق عطا ہوئی۔
(رحمة للعالمین حصہ دوئم صفحہ 357)
مختصر یہ کہ حضور نبی پاک ﷺ کی سب شادیاں بے شمار قومی اور دینی مصالح کے لئے تھیں۔
سیدنا حضرت مسیح موعود ؑ تعدد اِزدِواج پر اعتراض کا جواب دیتے ہوئے فرماتے ہیں۔
شریعت حقّہ نے اس کو ضرورت کے واسطے جائز رکھا ہے۔ ایک لائق آدمی کی بیوی اگر اس قسم کی ہے کی اس سے اولاد نہیں ہو سکتی تو وہ کیوں بے اولاد رہے اور اپنے آپ کو بھی عقیم بنا لے۔ ایک عمدہ گھوڑا ہوتا ہے تو اس کی نسل بھی قائم رکھنے کی کوشش کی جاتی ہے انسان کی نسل کو کیوں ضائع کیا جاوے۔پادری لوگ دوسری شادی کو زنا کاری قرار دیتے ہیں تو پھر پہلے انبیاء کی نسبت کیا کہتے ہیں۔
حضرت سلیمانؑ کی کہتے ہیں کئی سو بیویاں تھیں اور ایسا ہی حضرت داؤدؑ کی تھیں۔ اگر نعوذ باللہ عیسائیوں کے قول کے مطابق ایک سے زیادہ نکاح سب زناہیں تو حضرت داؤد کی اولاد سے ہی ان کا خدا بھی پیدا ہوا ہے (یعنی حضرت یسوع مسیحؑ مضمون نگار) تب تو یہ نسخہ اچھا ہے اور بڑی برکت والا طریق ہے۔
(ملفوظات ۔ جلد دہم صفحہ 236)
ایک احمدی کے بعض سوالوں کے جواب دیتے ہوئے حضور علیہ السلام نے تَعَدُّدِ اِزدواج سے متعلق سیر حاصل بحث فرمائی اُس کا خلاصہ یہ ہے۔
- اگر انسان کو پورا علم ہو کہ عدم مساوات سے خدا تعالیٰ کس قدر ناراض ہوگا تو شائد وہ ساری عمر رنڈوا رہنے کو ترجیح دے گا۔
- اگر انسان اپنے نفس کا مَیلان اور غَلَبہ شہوات کی طرف دیکھے اور اس کی نظر بار بار خراب ہوتی ہو تو زِنا سے بچنے کے لئے دوسری شادی کر لے لیکن پہلی بیوی کے حقوق تَلَف نہ کرے کیونکہ جوانی کا بہت سا حصہ اُس نے اُس کے ساتھ گزارا ہوتا ہے اور ایک گہرا تعلق خاوند کا اُس کے ساتھ ہوتا ہے۔
- اگر مرد کو دوسری شادی کی ضرورت ہو لیکن وہ یہ دیکھے کہ اس سے پہلی بیوی کو سخت صدمہ ہوگا اور حد درجہ کی اُس کی دل شکنی ہوگی تو قربانی دے اور ایک ہی بیوی کو کافی سمجھے اور دوسری شادی نہ کرے بشر طیکہ اُسے یہ ڈر نہ ہو کہ اُس کی وجہ سے وہ معصیت میں مبتلا ہو کر کسی جائز شرعی ضرورت کا خون نہیں کرے گا۔
- صرف نفسانی لذت کے لئے دوسری شادی کرنا گناہ ہے۔
- آنحضرت ﷺ کی کئی بیویاں تھیں مگر اس کے باوجود آپ ساری ساری رات خدا تعالیٰ کی عبادت میں گزار تے تھے۔ ایک بار آپؐ کی باری حضرت عائشہ صدیقہ ؓ کے ہاں تھی۔ کچھ حصہ رات کا گزر گیا تو حضرت عائشہؓ کی آنکھ کھلی اور دیکھا کہ آپ وہاں موجود نہیں ہیں۔ انہیں شبہ ہوا کہ کہیں کسی دوسری بیوی کے ہاں ہوں گے۔ انہوں نے حضورؐ کو ہر گھر میں تلاش کیا بالآخر دیکھا کہ آپ قبرستان میں سجدہ کی حالت میں رو رہے ہیں۔ اب دیکھو آپؐ زندہ اور چہیتی بیوی کو چھوڑ کر مردوں کی جگہ قبرستان میں گئے اور رو تے رہے۔ تو کیا آپ کی بیویاں حَظِّ نَفس یا اِ تِّباعِ شہوت کی بناء پر ہو سکتی ہیں؟ ہرگز نہیں۔
- آخری نصیحت ہماری یہی ہے کہ اسلام کو اپنی عیاشیوں کے لئے سِپَر نہ بناؤ کہ آج ایک حسین عورت نظر آئی تو اُسے کر لیا اور کل کوئی اور نظر آئی تو اُسے کر لیا۔ اگر صحابہ کرام عورتیں کرنے والے اور انہیں میں مصروف رہنے والے ہوتے تو اپنے سر جنگوں میں کیوں کٹواتے۔ جو شب و روز عیش و عشرت میں غَرق رہتا ہے وہ کب ایسا دل لا سکتا ہے۔
(ملفوظات جلد 7صفحہ 63)
(تقریر جلسہ سالانہ جرمنی 2006ء)
(مولانا لئیق احمد طاہر ۔ لندن)