آج کل کروناوائرس کی عالمی وبا میں دیگرضروری احتیاطوں کے علاوہ عمومی صفائی کے ساتھ خصوصاً ہاتھوں اور جسمانی صفائی کی تلقین کی جارہی ہے۔فی الحقیقت اس بارہ میں جتنا زوراسلام نے دیا ہے، طہارت اور پاکیزگی کی ایسی تعلیم کہیں اور نہیں ملتی۔ جس پر اچھی طرح عمل ہی حفظان صحت کاضامن ہے۔ ارشاد ربانی ہے:
إِنَّ اللّٰهَ يُحِبُّ التَّوَّابِينَ وَيُحِبُّ الْمُتَطَهِّرِينَ
(البقرہ :223)
کہ پاکیزگی اور صفائی اختیار کرنے والوں سے اللہ محبت کرتا ہے۔
ہمارے نبی کریم ﷺ کو آغاز رسالت میں ہی تبلیغ اور عبادت کے ساتھ ایک اہم حکم صفائی ستھرائی کا ہوا۔فرمایا:
قُمْ فَأَنْذِرْ۔وَرَبَّكَ فَكَبِّرْ ۔وَثِيَابَكَ فَطَهِّرْ۔وَالرُّجْزَ فَاهْجُرْ
(المدثر:6-3)
کہ (اے نبیؐ) اٹھ کھڑاہو اور انتباہ کر اور اپنے رب ہی کی بڑائی بیان کر اور اپنے کپڑوں کو بہت پاک کر اور ناپاکی سے کلیةً الگ رہ۔
چنانچہ رسول کریم ﷺ نے اپنی امت کو پاکیزگی اختیار کرنے کی طرف بہت توجہ دلائی۔آپؐ نے فرمایا: الطُّهُورُ شَطْرُ الْإِيمَانِ (صحیح مسلم کتاب الطھارة باب فضل الوضوء) کہ صفائی نصف ایمان ہے۔ اسلامی نماز کے لیے پانچ وقت وضو ضروری قرار دیتے ہوئے فرمایا:
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا قُمْتُمْ إِلَى الصَّلَاةِ فَاغْسِلُوا وُجُوهَكُمْ وَأَيْدِيَكُمْ إِلَى الْمَرَافِقِ وَامْسَحُوا بِرُءُوسِكُمْ وَأَرْجُلَكُمْ إِلَى الْكَعْبَيْنِ
(المائدہ :7)
اے وہ لوگو جو اىمان لائے ہو! جب تم نماز کى طرف جانے کے لئے اٹھو تو اپنے چہروں کو دھو لىا کرو اور اپنے ہاتھوں کو بھى کہنىوں تک اور اپنے سروں کا مسح کرو اور ٹخنوں تک اپنے پاؤں بھى دھو لىا کرو۔۔۔
اس ہدایت کی مزید تاکید کرتے ہوئے رسول کریم ﷺ نے فرمایا کہ لَا تُقْبَلُ صَلَاةٌ بِغَيْرِ طُهُور (صحیح مسلم کتاب الطھارة باب الطھارة للصلاة) وضو کے بغیر نماز قبول نہیں ہوتی۔
رسول اللہ ﷺ نے صفائی کے بارہ میں اتنی تلقین کی کہ قضائے حاجت کے آداب تک سکھائے۔ یہاں تک کہ ایک دفعہ مدینہ کے ایک یہودی نے حضرت سلمان فارسیؓ کو ازراہ تمسخر یہ طعنہ دے ڈالا کہ تمہارا نبی کیسا ہے جو تمہیں پیشاب، پاخانہ کے طریق بتاتا ہے۔ حضرت سلمانؓ نے اس کے سامنے یہی بات دین اسلام کی برتری کے طور پر فخریہ انداز میں پیش کرتے ہوئے کہا کہ ہاں! واقعی ہمارے رسول اللہ ﷺ نے ہمیں یہ سب آداب سکھائے ہیں کہ ہم قضائے حاجت کے وقت دایاں ہاتھ اپنی صفائی کے لیے استعمال نہ کریں۔ ہڈی یا گوبر سے صفائی نہ کریں بلکہ اس کی بجائے کم ازکم تین ڈھیلے استعمال کریں۔
(ترمذی کتاب الطہارة باب 12)
خود نبی کریم ﷺ بیت الخلاء سے فارغ ہونے کے بعد تین مرتبہ پانی صفائی کے لیے استعمال فرماتے اوراستنجاء کے بعد اچھی طرح صفائی کے لیے (بطور صابن) مٹی یا زمین پر (جو خود جراثیم کش ہے) اچھی طرح ہاتھ رگڑ کر پھر ان کو دھوتے تھے۔
(ابن ماجہ کتاب الطھارة بَابُ مَنْ دَلَكَ يَدَهُ بِالْأَرْضِ بَعْدَ الِاسْتِنْجَاءِ)
مدینہ کے قریب ایک بستی ’’قبا‘‘ تھی اس کے باشندے بہت صفائی پسند تھے جو بیت الخلاء کے بعد پانی کے ذریعہ صفائی کرتے تھے۔ چنانچہ جب سورة توبہ کی یہ آیت اتری کہ
فِيهِ رِجَالٌ يُحِبُّونَ أَنْ يَتَطَهَّرُوا وَاللّٰهُ يُحِبُّ الْمُطَّهِّرِينَ
(التوبة: 108)
اس (مسجد قبا) مىں اىسے لوگ ہىں جو پسند کرتے ہىں کہ وہ اچھی طرح پاک صاف ہو جائىں اور اللہ اچھی طرح پاکیزگی اختیار کرنے والوں سے محبت کرتا ہے۔
رسول کریم ﷺ نے اہل قبا سے پوچھا کہ اللہ تعالیٰ نے صفائی کے معاملہ میں تماری تعریف کر کے اپنی محبت کا اظہار کیا ہے۔ تمہارا صفائی اور طہارت کا طریق کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم رفع حاجت کے بعد صفائی کے لیے محض ڈھیلے یا پتھر پر اکتفا نہیں کرتے بلکہ پانی بھی استعمال کرتے ہیں۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ لوگوں کی تعریف کی ہے۔
(ترمذی ابواب التفسیر تفسیر سورة توبہ باب 10)
آنحضرت ﷺ وضو کرتے ہوئے ہاتھ منہ، بازؤوں اور پاؤں کو تین مرتبہ دھوتے اور تین مرتبہ ناک میں پانی ڈال کرصاف کرتے۔
(بخاری کتاب الوضوء اب الوضوء ثلاثا ثلاثا)
آج کل کی موذی وباء میں ہاتھ دھونے اور ناک منہ صاف رکھنے پر زور ہے اور اسلامی وضو میں دن میں پانچ مرتبہ ان اعضاء کی صفائی معمول ہے اور چھٹے تہجد کے وقت مکمل وضو کرنے سے قریباً نصف غسل تو ہوہی جاتا ہے۔ رسول کریم ﷺ نے مکمل وضو کا یہ طریق سکھایا کہ تین دفعہ کلی اور تین مرتبہ ناک میں پانی ڈال کر صاف کرتے اور تین دفعہ ہاتھ دھو کر پھر سر پر مسح کرکے تین مرتبہ دونوں پاؤں دھوتے۔
(بخاری کتاب الصوم بَابُ سِوَاكِ الرَّطْبِ وَاليَابِسِ لِلصَّائِمِ)
آج کل باہر سے گھر آکر سر کے بالوں کو بھی دھونے کی تلقین کی جاتی ہے تاکہ وہ بھی ہر قسم کی آلودگی سے صاف ہوجائیں۔ ہمارے نبی ﷺ نے تو پہلے ہی وضو میں یہ نمونہ دیا کہ وضو کے دوران آپؐ ریش مبارک کو پانی سے دھوتے اور سر کے مسح کے وقت بالوں کو گیلے پانی سے پونچھ کر صاف کرلیتے۔ ہاتھوں اورپاؤں کے اندر انگلیاں پھیر کے خلال فرمالیتے تاکہ اچھی طرح ہاتھوں اور پاؤں کی انگلیوں کے اندر جوڑ اور فاصلہ کی صفائی کرتے۔کانوں کے اندر اور باہرمسیح کے وقت انگلیاں پھیرکر صفائی فرماتے۔
(ابوداؤد کتاب الطہارة باب الوضوء مرَّتين)
اسلام میں صفائی کا اتنا خیال رکھا گیا ہے کہ مختلف مواقع پر ٖغسل کرنے کا حکم ہے۔ مثلاً ازدواجی تعلقات کے بعد میاں بیوی دونوں کو مکمل غسل جنابت کا حکم دیا۔
(النساء:44)
ایام خاص کے بعد عورتوں کو غسل کا حکم دیا۔
(البقرہ:223)
اور جمعہ کے دن تو آپؐ نے ہر مسلمان کے لیے غسل واجب قرار دیا۔
(صحیح بخاری کتاب الجمعة بَابُ فَضْلِ الغُسْلِ يَوْمَ الجُمُعَةِ)
اسی طرح موجودہ وبا میں اطباء دیگر صفائی کے ساتھ ناخنوں وغیرہ کے کاٹنے کی ہدایت کررہے ہیں کہ ان میں بھی یہ وائرس چھپ سکتا ہے۔ رسول کریم ﷺ نے چودہ سو سال قبل مسلمانوں کوناخن کاٹنے اور مونچھیں تراشنے کی لازمی ہدایت فرمائی۔
(بخاری کتاب اللباس باب تقلیم الاظفار)
آپؐ فرماتے تھے کہ ناخنوں کی میل دیکھ کر مجھے الجھن ہوتی ہے اور مونچھوں کے بالوں کے لیے ’’شوارب‘‘ کے الفاظ استعمال کیے کہ پانی پیتے ہوئے بالائی ہونٹوں کے جو بال مشروب میں پڑکر آلودہ کرسکتے ہوں، وہ کاٹ دئیے جائیں۔
(بخاری کتاب اللباس باب تقلیم الاظفار)
بلکہ آپؐ نے توداڑھی کے پراگندہ بال بھی تراشنے کی ہدایت فرمائی۔
(ترمذی ابواب الادب بَابُ مَا جَاءَ فِي الأَخْذِ مِنَ اللِّحْيَةِ)
اسی طرح رسول کریم ﷺ دانتوں کی صفائی پر بھی بہت زور دیتے تھے جو حفظان صحت کے لیے ایک کلیدی چیز ہے۔ آپؐ فرماتے تھے کہ اگر مجھے اپنی امت کی مشکل کا خیال نہ ہوتا تو ہر نماز کے ساتھ مسواک کا حکم دیتا۔
(بخاری کتاب الجمعة بَابُ السِّوَاكِ يَوْمَ الجُمُعَةِ)
ہرچندکہ رسول کریمؐ نے اپنی امت کو تویہ حکم دے کر مشکل میں نہیں ڈالا مگر اپنی سنت سے انہیں یہ نمونہ دیا کہ خود دن میں کئی مرتبہ مسواک فرماتے تھے۔ حضرت عائشہؓ کا بیان ہے کہ آنحضرت ﷺ گھر میں آتے ہوئے اور گھر سے باہر جاتے ہوئے ہمیشہ مسواک کرتے تھے۔
(مسلم کتاب الطہارة باب السواک)
آپؐ فرمایا کرتے تھے کہ مسواک منہ صاف رکھنے کا آلہ ہے اور اللہ تعالیٰ کی رضامندی کا موجب ہے۔
(بخاری کتاب الصوم بَابُ سِوَاكِ الرَّطْبِ وَاليَابِسِ لِلصَّائِمِ)
حضرت عائشہؓ بیان فرماتی ہیں کہ آخری بیماری میں حضور ﷺ نے میرے بھائی عبد الرحمان کے پاس مسواک دیکھی تو اس کی طرف اشتیاق کی نظرڈالی، میں سمجھ گئی اور بھائی سے مسواک لے کر نرم کرکے حضورؐ کو دی جو آپ ﷺ نے استعمال فرمائی۔
(بخاری کتاب المغازی بَابُ مَرَضِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَوَفَاتِهِ)
آنحضور ﷺ صاف ستھرا لباس پسند کرتے اور فرمایا کرتے کہ یہ بات اسراف میں داخل نہیں کہ عام کام کاج کرنے والے اور مزدوری پیشہ لوگ اپنے کام کے کپڑوں کے علاوہ جمعہ کے لیے صاف ستھرا جوڑا کپڑوں کا بناکر رکھیں اور اس روز استعمال کیاکریں۔
(ابوداؤد کتاب الصلوة بَابُ اللُّبْسِ لِلْجُمُعَةِ)
صفائی ستھرائی کے ساتھ خوشبو کے استعمال کا بھی تعلق ہے۔ اس بارہ میں آنحضور ﷺ کا ذوق بہت اعلیٰ تھا۔ آپ مسجد میں پیاز، لہسن کھا کر آنے سے منع فرماتے اور عمدہ خوشبو استعمال فرماتے۔ آپؐ کے خادم حضرت انسؓ بیان کرتے ہیں کہ میں نے کبھی مشک یا کوئی اور خوشبو نہیں سونگھی جو نبی کریم ﷺ کی خوشبو سے بہتر ہو۔ حضرت جابربن سمرہؓ کا بیان ہے کہ ایک دفعہ رسول کریم ﷺ نے ان کے رخسار پر ہاتھ پھیرا تو اس سے اعلیٰ درجہ کی خوشبو آئی جیسے وہ ابھی خوشبو والے کی صندوقچی سے باہر نکلا ہو۔
(مسلم کتاب الفضائل بَابُ طِيبِ رَائِحَةِ النَّبِيِّ ؐ)
کھانے پینے میں بھی آنحضور ﷺ و صفائی کا بہت خیال رکھتے، کھانا کھانے سے قبل اور بعد میں بھی ہاتھ دھونے اور دائیں ہاتھ سے کھانے کا ارشاد فرماتے۔
(سنن نسائی کتاب الطھارة کتاب الاطعمة بَابُ الْوُضُوءِ، عِنْدَ الطَّعَامِ)
حضرت ابوقرصافہؓ بیان کرتے ہیں کہ میں نے اپنی والدہ اور خالہ کے ساتھ رسول کریم ﷺ کی خدمت میں حاضرہوکر بیعت کی۔ واپسی پر میری والدہ کہنے لگیں کہ ہم نے آج تک ایسا نفیس انسان نہیں دیکھا جس کا چہرہ اتنا حسین، لباس اتنا صاف ستھرا اور گفتگو اتنی نرم ہو۔ ان کے منہ سے تو جیسے نور پھوٹتا ہے۔
(مجمع الزوائد للھیثمی جزء 8 صفحہ279)
حضرت بانیٔ جماعت احمدیہؑ بھی اپنے آقا ومولا حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کی اس تعلیم پر کاربند تھے، آپؑ ہمیں نصیحت فرماتے ہیں:
’’جو لوگ اپنے گھروں کو خوب صاف رکھتے ہیں اور اپنی بدرؤں کو گندہ نہیں ہونے دیتے اور کپڑوں کو دھوتے رہتے ہیں اور خلال کرتے اور مسواک کرتے اور بدن پاک رکھتے ہیں اور بدبو اور عفونت سے پرہیز کرتے ہیں وہ اکثر خطرناک وبائی بیماریوں سے بچتے رہتے ہیں۔ پس گویا وہ اس طرح پر یُحِبُّ الْمُتَطَھِّرِیْنَ کے وعدے سے فائدہ اٹھا لیتے ہیں لیکن جو لوگ طہارت ظاہری کی پرواہ نہیں رکھتے آخر کبھی نہ کبھی وہ پیچ میں پھنس جاتے ہیں اور خطرناک بیماریاں ان کو آپکڑتی ہیں۔‘‘
(ایام الصلح، روحانی خزائن جلد14 صفحہ337)
(حافظ مظفر احمد)