• 10 جولائی, 2025

مکرم سید عبد الحئی شاہ ۔انتہائی دلنواز اور دلفریب شخصیت

ربوہ ایک ایسا خوبصورت اور دلربا شہر ہے جس کی صبحیں،صبح بنارس کو شرماتی ہیں اور جس کی شامیں اودھ کی شاموں کو لاجواب کرتی ہیں اور اس کے رہنے والے نیک، پاک اورمقدس چہرے والے ایسےایسے بےمثال افراد سے شرف ملاقات کی خوش نصیبی حاصل ہوتی ہےکہ سلف صالحین کی یادیں تازہ ہو جاتی ہیں۔قدم بے اختیار ان کی طرف بڑھتے ہیں اور دلوں میں محبت و عقیدت کے پھول کھلنے لگتے ہیں۔ایسی ہی ایک ستودہ صفات کا تذکرہ آج مقصود ہے۔

میانہ قد اور متناسب الاعضاء جسم،چہرہ گلاب کی طرح سرخ وشاداب۔ چوڑی پیشانی،روشن آنکھیں چال باوقار،عزم وہمت کا کوہ وقار،خلیفہ وقت کی محبت سے سرشار اور زاہد شب بیدار یہ ہیں ہمارے واجب الاحترام بزرگ مکرم عبدالحئ شاہ ۔

مجھے ان سے نیاز مندی اور حاضرباشی کا شرف ایک نایاب کتاب کے حصول کے سلسلے میں ہوا۔پہلی ہی ملاقات نے آپ کا گرویدہ کردیا۔ایسے ملے جیسے صدیوں کےشناسا ہوں۔ پوری توجہ اور انہماک سے میری بات کو سنا۔ایک بزرگ متبحرعالم،علم لدنی کے شناور،ایک کم علم،اجنبی اور کم سن کی بات پر اس طرح توجہ فرما رہے تھے گویا کوئی ہم عمر پُرانا دوست ہواور پھر میرے لئے حیرت در حیرت یہ بھی کہ وہ نایاب کتاب مہیا بھی کر دی۔

اس کے بعد تو شاہ صاحب سے ملاقاتوں کا در کھل گیا۔ گاہے بگاہے حاضر ہوتا رہا اورآپ کی شفقتوں کا مورد بنتا رہا،جب بھی آپ کے دفتر جانے کا موقع ملا آپ کو کتابوں میں منہمک پایا،کہیں قرآن کریم کے ترجمہ،کبھی تفسیر کے کام میں مشغول، کبھی علماء کی کتب پر نظر ثانی ہو رہی ہے، کہیں پروف ریڈنگ اور کہیں انڈیکس چیک کئے جا رہے ہیں۔ دفتر میں کام کرنے والوں پر بھی نگاہ ہے۔ان کی رہنمائی کی جا رہی ہے۔ نئے نئے کام ان کے سپرد کئے جارہے ہیں، ان کے کاموں کو چیک کیا جا رہا ہے۔ آنے جانے والوں سے ملاقاتیں ہو رہی ہیں، میٹنگز اٹینڈ ہو رہی ہیں اور دلچسپ بات یہ کہ یبوست اور ناراضگی یا غصہ جو عام طور پر ان لوگوں کو گھیرے رکھتا ہے جن کے کاندھوں پر کام کا بوجھ ہو۔

شاہ صاحب کے پاس پھٹکتا بھی نہیں تھا۔ بلکہ ہمہ وقت بشاشت اور مسکراہٹ آپ کے چہرہ کا احاطہ کئے رکھتی تھی۔ آپ کے چہرہ پر معصومیت وشرافت کے آثار ایسے نمایاں تھے کہ دل گواہی دیتا کہ آ پ کے سینہ میں ایک ہمدرد و مہربان دل ہے جو دوسروں کو فائدہ تو پہنچا سکتا ہے مگرایذا دہی اور دل دُکھانے کی صلا حیت سے پاک و صاف ہے۔

شاہ صاحب روایتی مناظر یا مقرر یا خطیب اور واعظ تو نہیں تھے اور نہ ہی بڑھ بڑھ کرباتیں کرنےاور اپنے آپ کوبڑھا چڑھا کر پیش کرنے کا آپ کو شوق تھا۔ بلکہ آپ کی نمایاں صفت آپ کی سادگی، انکساری اور عاجزی تھی۔بایں ہمہ یہ کہنا ہر گز مبالغہ نہ ہوگا کہ آپ گہرے علم اور عمیق نظر کے مالک تھے۔ اس بات کی گوا ہی ہر وہ شخص دے سکتا ہے جس کا آپ سے تعلق تھا۔ آپ بالعموم کم گو تھے۔ مگر عندالضرورت اپنی بات کو دلیل و برہان سے مزیّن کرتے اور ایسی پُر اثر گفتگو کرتے کہ سننے والے آپ کے فضل وکمال کے معترف ہو جاتے آپ کے پاس بیٹھنے سے تقویٰ اور روحانیت اور اخلاص وایثارکی نئی منزلوں سےآشنا ہوتے اوراخلاص، للہیت وپاکیزہ نفسی کے معانی کے نئے جہان سے متعارف ہونے کا موقع ملتا۔

محترم شاہ صاحب اپنے ساتھیوں اور بزرگوں کا تذکرہ انتہائی عقیدت اور محبت اورتشکر سے کرتے۔ ایک دفعہ حضرت قاضی محمد نذیر لائلپوری کا تذکرہ کرتے ہوئے بتانے لگے کہ آپ نہایت ذہین اور دور بین نگاہ اور نکتہ رس طبیعت کے مالک تھے۔معقولات و منقولات کے شاہسوار تھے۔علم منطق و علم کلام کے متبحر عالم تھے۔ نیز ان کا زہدوورع ،قناعت واستغناء کمال کا تھا۔ محترم قاضی صاحب نے بیسیوں مناظرے کئے اور ہر مناظرے میں آپ کا انداز نیا ہوتا تھا۔ مقابل کوقرآن و حدیث،عقلی نقلی دلائل سے اس طرح گھیرتے کہ اس کے لئے نہ جائے ماندن، نہ پائے رفتن والا معاملہ ہوتا۔ محترم شاہ صاحب نےمکرم قا ضی صاحب کی تبحّر علمی کا واقعہ بیان کرتے ہوئے بتایا کہ جب بھی کسی مخالف کی کوئی تحریر سامنے آتی محترم قاضی صاحب اس کا جواب لکھوانے لگتے اور ہم لکھنے لگتے۔ محترم قاضی صاحب کی اکثر کتب قلم برداشتہ ہیں۔

محترم شاہ صاحب کی ایک بڑی خوبی جس نے مجھے ہی نہیں بلکہ شہر کے شہر کو اپنا دیوانہ بنا رکھا تھا وہ آپ کا غیبت اورشکایت سے مجتنب رہتے ہو ئے اور دوسروں کی کمزوریوں سے صرف ِنظر کرتے ہوئے ان کی ادنیٰ ادنیٰ خوبیوں کا اعتراف اور غیر معمولی بک اپ (Buck up) تھا۔ اللہ تعالیٰ ایسے حلیم الطبع اور شفیق انسان کے ساتھ غیر معمولی رحم اور شفقت کا سلوک فرمائے اور ہمیں آپ کی ان اعلیٰ خوبیوں کا وارث بنائے۔ آمین


(عبد القدیر قمر)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 20 اپریل 2020

اگلا پڑھیں

افریقہ کورونا وائرس ڈائری نمبر 5، 21 ۔اپریل 2020