• 19 مئی, 2024

جس زمانہ کے لئے حَکَم آنا چاہئے تھا وہ زمانہ موجود ہے

جس زمانہ کے لئے حَکَم آنا چاہئے تھا وہ زمانہ موجود ہے

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:
پس اب یہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ماننے والوں کا بھی فرض ہے کہ اس فریضہ کی سرانجام دہی میں مصروف ہوں اور توحید کو قائم کرنے کی کوشش کریں۔ پھر آپ اپنے امام اور حَکَم ہونے کے بارے میں فرماتے ہیں کہ:
’’یاد رہے کہ امام الزمان کے لفظ میں نبی، رسول، محدّث، مجدّد سب داخل ہیں۔ مگر جو لوگ ارشاد اور ہدایت خلق اللہ کیلئے مامور نہیں ہوئے اور نہ وہ کمالات ان کو دئیے گئے وہ گو ولی ہوں یا ابدال ہوں امام الزمان نہیں کہلا سکتے۔ اب بالآخر یہ سوال باقی رہا کہ اس زمانہ میں امام الزمان کون ہے جس کی پیروی تمام عام مسلمانوں اور زاہدوں اور خواب بینوں اور مُلہَموں کو کرنی خداتعالیٰ کی طرف سے فرض قرار دیا گیا ہے‘‘۔ یعنی ہر مسلمان کو، ہر نیک آدمی کو، جن کو خوابیں آتی ہیں اُن کو بھی، جن کو الہام ہوئے ہیں مسیح کے آنے کے، امام کے آنے کے، اُن کو بھی ’’سو مَیں اِس وقت بے دھڑک کہتا ہوں کہ خداتعالیٰ کے فضل اور عنایت سے وہ امام الزمان مَیں ہوں اور مجھ میں خداتعالیٰ نے وہ تمام علامتیں اور تمام شرطیں جمع کی ہیں اور اس صدی کے سر پر مجھے مبعوث فرمایا ہے جس میں سے پندرہ برس گزر بھی گئے اور ایسے وقت میں مَیں ظاہر ہوا ہوں کہ جب کہ اسلامی عقیدے اختلافات سے بھرگئے تھے۔ اور کوئی عقیدہ اختلاف سے خالی نہ تھا۔ ایسا ہی مسیح کے نزول کے بارے میں نہایت غلط خیال پھیل گئے تھے اور اس عقیدے میں بھی اختلاف کا یہ حال تھا کہ کوئی حضرت عیسیٰ کی حیات کا قائل تھا اور کوئی موت کا۔ اور کوئی جسمانی نزول مانتا تھا اور کوئی بروزی نزول کا معتقد تھا۔ اور کوئی دمشق میں ان کو اتار رہا تھا اور کوئی مکّہ میں۔ اور کوئی بیت المقدس میں اور کوئی اسلامی لشکر میں۔ اور کوئی خیال کرتا تھا کہ ہندوستان میں اتریں گے۔ پس یہ تمام مختلف رائیں اور مختلف قول ایک فیصلہ کرنے والے حَکَم کو چاہتے تھے سو وہ حَکَم میں ہوں۔ میں روحانی طور پر کسر صلیب کے لئے اور نیز اختلافات کے دُور کرنے کے لئے بھیجا گیا ہوں۔ ان ہی دونوں امروں نے تقاضا کیا کہ مَیں بھیجا جاؤں۔ میرے لئے ضروری نہیں تھا کہ مَیں اپنی حقیت کی کوئی اور دلیل پیش کروں کیونکہ ضرورت خود دلیل ہے‘‘۔ جو حالات تھے وہ مسیح موعود کے آنے کا تقاضا کر رہے تھے اور ضرورت تھی اور یہی دلیل کافی تھی۔ ’’لیکن پھر بھی میری تائید میں خداتعالیٰ نے کئی نشان ظاہر کئے ہیں۔ اور مَیں جیسا کہ اور اختلافات میں فیصلہ کرنے کے لئے حَکَم ہوں۔ ایسا ہی وفات حیات کے جھگڑے میں بھی حَکَم ہوں۔ اور مَیں امام مالکؒ اور ابن حزمؒ اور معتزلہ کے قول کو مسیح کی وفات کے بارے میں صحیح قرار دیتا ہوں اور دوسرے اہل سنّت کو غلطی کا مرتکب سمجھتا ہوں۔ سو مَیں بحیثیت حَکَم ہونے کے ان جھگڑا کرنے والوں میں یہ حکم صادر کرتا ہوں کہ نزول کے اجمالی معنوں میں یہ گروہ اہل سنّت کا سچا ہے کیونکہ مسیح کا بروزی طور پر نزول ہونا ضروری تھا۔ ہاں نزول کی کیفیت بیان کرنے میں ان لوگوں نے غلطی کھائی ہے‘‘۔ ایک حد تک تو سچا ہے کہ نزول بروزی ہونا تھا، لیکن کیفیت میں غلطی کھائی۔ ’’نزول صفت بروزی تھا، نہ کہ حقیقی۔ اور مسیح کی وفات کے مسئلہ میں معتزلہ اور امام مالک اور ابن حزم وغیرہ ہمکلام اُن کے سچے ہیں کیونکہ بموجب نصِّ صریح آیت کریمہ یعنی آیت فَلَمَّا تَوَفَّیْتَنِیْ کے مسیح کا عیسائیوں کے بگڑنے سے پہلے وفات پانا ضروری تھا۔ یہ میری طرف سے بطورحَکَم کے فیصلہ ہے۔ اب جو شخص میرے فیصلہ کو قبول نہیں کرتا وہ اُس کو قبول نہیں کرتا جس نے مجھے حَکَم مقرر فرمایا ہے۔ اگر یہ سوال پیش ہو کہ تمہارے حَکَم ہونے کا ثبوت کیا ہے؟ اِس کا یہ جواب ہے کہ جس زمانہ کیلئے حَکَم آنا چاہئے تھا وہ زمانہ موجود ہے۔ اور جس قوم کی صلیبی غلطیوں کی حَکَم نے اصلاح کرنی تھی وہ قوم موجود ہے۔ اور جن نشانوں نے اس حَکَم پر گواہی دینی تھی وہ نشان ظہور میں آ چکے ہیں‘‘۔ آسمانی بھی اور زمینی بھی۔ ’’اور اب بھی نشانوں کا سلسلہ شروع ہے۔ آسمان نشان ظاہر کر رہا ہے۔ زمین نشان ظاہر کر رہی ہے اور مبارک وہ جن کی آنکھیں اب بندنہ رہیں۔‘‘

(ضرورۃالامام، روحانی خزائن جلد13 صفحہ 495-496)

(خطبہ جمعہ 22؍مارچ 2013ء)

پچھلا پڑھیں

مقدر کی رات

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 21 اپریل 2022