• 2 مئی, 2024

جو عالی ظرف ہوتے ہیں ہمیشہ جھک کر ملتے ہیں

جو عالی ظرف ہوتے ہیں ہمیشہ جھک کر ملتے ہیں
صراحی سر نگوں ہو کر بھرا کرتی ہے پیمانہ

خاکسار نےایک اینکر پرسن کی زبانی یہ محاورہ سنا کہ ’’جھک کرہی رفعتیں ملتی ہیں‘‘ تو ذہن کا ایک دریچہ ایسا کھلا جیسے کمپیوٹر میں کسی ونڈو (Window) کا بٹن دبائیں تو اس مضمون کے حوالہ سے بہت سا مواد سکرین پر لکھا ہوا ظاہر ہو جاتا ہے۔ جھکنے سے جو بلندیاں اور رفعتیں انسان کو ملتی ہیں، اس کا روحانی اور مادی دنیا سے ایک باب وا ہوا۔ یہ چیز مشاہدہ میں آئی ہے کہ پہاڑی یاٹیلہ جھک کر ہی طے کیا جاتا ہے کوہ پیماؤں کو کبھی اکڑ کر پہاڑوں پر چڑھتے نہیں دیکھا بلکہ اپنی سونٹی کے زور پر جھکے ہی دیکھا ہے۔ حجر اسود سے برکتیں بھی جھک کر چوم کر ہی حاصل ہوتی ہیں۔

دنیا کے مختلف مذاہب کی عبادتوں میں یا مختلف سوسائٹیوں اور کلچرز میں آداب و تسلیم کے جو طریق وضع ہیں ان میں جھکنا یا زمین کی طرف ذرا سا جھکاؤشامل ہے۔ دنیا کی مختلف قومیتوں کے کلچر کو دیکھیں تو کسی میں سجدہ کی صورت میں، کسی میں رکوع کی طرح Bow Down کرکے، کسی میں بائیں گھٹنے کو زمین پر ٹیک کر، بعضوں میں دونوں گھٹنوں کو زمین پر لگا کر، کسی میں ہاتھ باندھ کر ذرا سا جھک کر اپنے سے بڑوں کو ملا جاتا ہے اور کسی میں ہاتھ بلند کر کے یا ہاتھوں کو معافی والی کیفیت سے ملا کر جھکا جاتا ہے۔ بعضوں میں دو زانو ہو کر بیٹھا جا تا ہے۔ اور اگر مذہب کو دیکھا جائے تو اس طرح جھکنے جیسی حرکات و سکنات ان کی عبادات میں پائی جاتی ہیں۔ اور مذہب اسلام کی عبادت یعنی نماز میں حرکات و سکنات کا اگر احاطہ کیا جائے تو تمام مذاہب کی آداب و تسلیم کو مذہب اسلام کی نماز میں جمع کر دیا گیا ہے۔ جیسے نماز میں سجدہ اور رکوع موجود ہیں۔سجدہ کے معنی ماتھا ٹیکنا، سر جھکانا کے ہیں جبکہ رکوع کے معنوں میں عاجزی سے جھکنا شامل ہے اور سجدہ میں اعضاء کو ایسے طریق سے رکھنے کی ہدایت ہے جس کے انگ انگ سے اپنے خالق اللہ تعالیٰ کے آداب و تسلیم ظاہر ہوتے ہیں۔ سجدہ میں ماتھے اور ناک کو زمین کے ساتھ لگانا، ہاتھوں اور پاؤں کی انگلیوں کو قبلہ رخ رکھنا۔ یہ سب باتیں اپنے اس اللہ کا شکر ادا کر نا ہے جس نے ہم سب کو صحیح اور درست اعضاء کے ساتھ پیدا کیا اور ان اعضاء کو اسی خدا کے دربار میں مؤدب رکھنا دراصل ایک سبق لئے ہوئے ہے کہ جس طرح اس دنیا میں ایک ادنیٰ نوکر یا ملازم اپنے افسر کا دل چاپلوسی کرنے یا افسر کی تعریف کرنے سے جیت لیتا ہے اور عارضی انعام کا وارث ٹھہرتا ہے۔ اگر اس خدائے عز و جل کا شکر دل کی عمیق گہرائیوں سے ادا کیا جائے۔ اس کی دل سے تعریف کی جائے تو پھر انسان لازوال الٰہی نعمتوں سے حصہ پاتا ہے۔ عنوان میں دیئے گئے شعر میں شاعر نے اس مضمون کو کیا ہی اچھے، اچھوتے اور انوکھے انداز میں بیان کیا ہے کہ جو بڑے لوگ ہوتے ہیں جن کے ظرف بہت بلند ہوتے ہیں وہ ہمیشہ جھک کر ملتے ہیں۔ کیونکہ اکڑ انسان کو توڑ کر رکھ دیتی ہے اور دوسرے مصرعہ میں کیا ہی عمده حسین رنگ میں ایک مثال دے کر عظیم سبق دیا گیا ہے کہ صراحی یعنی پانی بھرے گھڑے سے پانی انڈیلنے کی ضرورت ہو یا اس سے گلاس وغیرہ بھر ناہو تو صراحی کو سرنگوں کرنا پڑتا ہے۔ اس کے بغیر بھر اجاہی نہیں سکتا۔

یہ صرف صراحی یا گھڑے کی مثال نہیں۔ دودھی جب روزانہ ہی گھروں میں دودھ دینے آتے ہیں تو وہ باقاعدہ دودھ والے برتن کو انڈیل کر پوّے میں دودھ ڈالتے ہیں۔ اس کے بغیر پوّے میں دودھ نہیں ڈالا جاسکتا۔ ماسوائے اس کے کہ برتن کھلے منہ کا ہو۔

اس سنہری اور کار آمد مثال میں انسان کو ایک اہم سبق دیا گیا ہے کہ وہ ہمیشہ انکساری، سادگی اور عاجزی سے زندگی گزارے اور انسان کو ہمیشہ دنیا میں پھلوں سے لدے درختوں کو دیکھتے رہنا چاہئے کہ جب ان پرپھل لگتا ہے تو وہ جھک جاتے ہیں۔ بعض تو زمین سے لگ کر سجدہ کرنے کی کیفیت میں ہوتے ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اس مضمون کو بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں۔
’’جب تک دل فروتنی کا سجدہ نہ کرے صرف ظاہری سجدوں پر امید رکھنا طمع خام ہے جیسا کہ قربانیوں کا خون اور گوشت خدا تک نہیں پہنچتا صرف تقویٰ پہنچتا ہے۔ ایسا ہی جسمانی رکوع و سجود بھی ہیچ ہیں جب تک دل کا رکوع و سجود و قیام نہ ہو۔ دل کا قیام یہ ہے کہ اس کے حکموں پر قائم ہو اور رکوع یہ ہے کہ اس کی طرف جھکے اور سجود یہ ہے کہ اس کے لئے اپنے وجود سے دست بردار ہو‘‘

(شہادت القرآن، روحانی خزائن جلد 6 صفحہ 398)

*آپ پھر فرماتے ہیں۔ ’’اصل بات یہ ہے کہ انسان عبادت کے لئے پیدا کیا گیا ہے اور عبادت دو قسم کی ہے۔ ایک تذلل اور انکسار۔ دوسری محبت اور ایثار۔ تذلل اور انکسار کے لئے اس نماز کا حکم ہواجو جسمانی رنگ میں انسان کے ہر ایک عضو کو خشوع اور خضوع کی حالت میں ڈالتی ہے۔ یہاں تک کہ دلی سجدہ کے مقابل پر اس نماز میں جسم کا بھی سجدہ ر کھا گیا تا جسم اور روح دونوں اس عبادت میں شامل ہوں اور واضح ہو کہ جسم کا سجدہ بے کار اور لغو نہیں اول تو یہ امر مسلم ہے کہ خدا جیسا کہ روح کا پیدا کرنے والا ہے ایسا ہی وہ جسم کا بھی پیدا کرنے والا ہے اور دونوں پر اس کا حق خالقیت ہے۔ ماسوا اس کے جسم اور روح ایک دوسرے کی تاثیر قبول کرتے ہیں۔ بعض وقت جسم کا سجدہ روح کے سجدہ کا محرک ہو جاتا ہے اور بعض وقت روح کا سجدہ جسم میں سجدہ کی حالت پیدا کر دیتا ہے۔ کیونکہ جسم اور روح دونوں باہم مر ایا متقابلہ کی طرح ہیں‘‘

(چشمہ معرفت، روحانی خزائن جلد 23 صفحہ 99-100)

ہمارے موجودہ پیارے امام حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ نے مسند خلافت پر متمکن ہونے کے معاَ بعد شر ائط بیعت پر خطبات کے سلسلے کا آغاز فرمایا تھا۔ مورخہ 29 اگست 2003ء کو شر ط نمبر7 کے ذکر میں فرمایا ’’دوسری بات جو اس شرط میں بیان کی گئی ہے وہ یہ ہے کہ فروتنی اور عاجزی اور خوش خلقی اور حلیمی اور مسکینی سے زندگی بسر کروں گا تو جیسا کہ میں نے پہلے بھی کہا ہے کہ جب آپ اپنے دل و دماغ کو تکبر سے خالی کرنے کی کو شش کریں گے۔ خالی کر یں گے تو پھر لازماَ ایک اعلیٰ وصف، ایک اعلیٰ صفت، ایک اعلیٰ خلق اپنے اندر پیدا کرنا ہو گا ور نہ پھر شیطان حملہ کرے گا کیونکہ وہ اسی کام کے لئے بیٹھا ہے کہ آپ کا پیچھا نہ چھوڑے۔ وہ خلق ہے عاجزی اور مسکینی اور یہ ہو نہیں سکتا کہ عاجز اور متکبر اکٹھے رہ سکیں۔ متکبر لوگ ہمیشہ ایسے عاجز لوگوں پر جو عباد الرحمٰن ہوں طعنہ زنیاں کرتے رہتے ہیں۔ فقرے کستے رہتے ہیں تو ایسے لوگوں کے مقابل پر آپ نے ان جیسا رویہ نہیں اپنانا بلکہ خدا تعالیٰ کے اس حکم پر عمل کرنا ہے فرمایا۔

وَعِبَادُ الرَّحۡمٰنِ الَّذِیۡنَ یَمۡشُوۡنَ عَلَی الۡاَرۡضِ ہَوۡنًا وَّاِذَا خَاطَبَہُمُ الۡجٰہِلُوۡنَ قَالُوۡا سَلٰمًا

(الفرقان: 64)

اور رحمان خدا کے بندے وہ ہیں جو زمین پر فروتنی کے ساتھ چلتے ہیں اور جب جاہل ان سے مخاطب ہوتے ہیں تو جوابا ً کہتے ہیں ’’سلام‘‘

(خطبات مسرور جلد اول صفحہ 279)

پس رمضان اپنے اللہ کی طرف جھکنے اور اس کے عیال یعنی مخلوق کی طرف شفقت اور محبت کے ساتھ جھکنے کا مہینہ ہے۔ اس سے ایک مؤمن کو ایسے سبق حاصل کرنے چاہئیں جو اس کی تمام باقی ماندہ زندگی بطور اثاثہ کے کام آئے۔

(ابو سعید)

پچھلا پڑھیں

مقدر کی رات

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 21 اپریل 2022