• 15 مئی, 2024

دُعا، ربوبیت اور عبودیت کا ایک کامل رشتہ ہے (مسیح موعود ؑ) (قسط 16)

دُعا، ربوبیت اور عبودیت کا ایک کامل رشتہ ہے (مسیح موعود ؑ)
قسط 16

کثرتِ گناہ کی وجہ سے
دُعا میں کوتاہی نہ ہو

گناہ کرنے والا اپنے گناہوں کی کثرت وغیرہ کا خیال کرکے دعا سے ہرگز باز نہ رہے۔ دُعا تریاق ہے۔ آخر دُعاؤں سے دیکھ لیگا کہ گناہ اسے کیسا برا لگنے لگا۔ جو لوگ معاصی میں ڈوب کر دعا کی قبولیت سے مایوس رہتے ہیں۔ اورتوبہ کی طرف رجوع نہیں کرتے۔ آخر وہ انبیاء اور ان کی تاثیرات کے منکر ہوجاتے ہیں۔

(ملفوظات جلد اوّل صفحہ4-5 ایڈیشن 1984ء)

اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَالَّذِیۡنَ جَاھَدُوۡا فِیۡنَا لَنَھۡدِیَنَّھُمۡ سُبُلَنَا

(العنکبوت: 70)

جو ہماری راہ میں مجاہدہ کرے گا ہم اس کو اپنی راہیں دکھلادیں گے۔

یہ تو وعدہ ہے اور ادھر یہ دعا ہے کہ

اِھۡدِ نَاالصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ

(الفاتحہ: 6)

سو انسان کو چاہئے کہ اس کو مدنظر رکھ کر نماز میں بالحاح دعا کرے۔ اور تمنا رکھے کہ وہ بھی ان لوگوں میں سے ہوجاوے جو ترقی اور بصیرت حاصل کرچکے ہیں۔ ایسا نہ ہو کہ اس جہان سے بے بصیرت اور اندھا اٹھایا جاوے۔ چنانچہ فرمایا مَنۡ کَانَ فِیۡ ھٰذِہٖٓ اَعۡمٰی فَھُوَ فِی الۡاٰخِرَۃِ اَعۡمٰی۔

(بنی اسرائیل: 73)

کہ جو اس جہان میں اندھا ہے وہ اس جہان میں بھی اندھا ہے۔

قبولِ دعا کیلئے بھی چند شرائط ہوتی ہیںمگر یہ بات بھی بحضور دل سن لینی چاہئے کہ قبولِ دعا کے لئے بھی چند شرائط ہوتی ہیں۔ ان میں سے بعض تو دعا کرنے والے کے متعلق ہوتی ہیں اوربعض دعا کرانے والے کےمتعلق دعا کرانے والے کے لئے ضروری ہوتا ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے خوف اور خشیّت کو مد نظر رکھے۔ اور اس کے غناء ذاتی سے ہر وقت ڈرتا رہے۔ اور صلحکاری اورخداپرستی اپنا شعار بنالے۔تقویٰ اور راستبازی سے خدا تعالیٰ کو خوش کرے تو ایسی صورت میں دعا کے لئے باب استجابت کھولا جاتا ہے۔اور اگر وہ خداتعالیٰ کو ناراض کرتا ہے اور اس سے بگاڑ اور جنگ قائم کرتا ہے تو اس کی شرارتیں اور غلط کاریاں دعا کی راہ میں ایک سداور چٹان ہوجاتی ہیں۔ اور استجابت کا دروازہ اس کے لئے بند ہوجاتا ہے۔ پس ہمارے دوستوں کے لئے لازم ہے کہ وہ ہماری دعاؤں کو ضائع ہونے سے بچاویں اور ان کی راہ میں کوئی روک نہ ڈال دیں جو ان کی ناشائستہ حرکات سے پیدا ہوسکتی ہیں۔

(ملفوظات جلد اوّل ایڈیشن 1984ء صفحہ 106-108)

اِیَّاکَ نَعۡبُدُ کو اِیَّاکَ نَسۡتَعِیۡنُ پر تقدّم کی وجہ

اِیَّاکَ نَسۡتَعِیۡنُ پر اِیَّاکَ نَعۡبُدُ کو تقدم اس لئے ہے کہ انسان دعا کے وقت تمام قویٰ سے کام لیکر خدا تعالیٰ کی طرف آتا ہے۔ یہ ایک بے ادبی اور گستاخی ہے کہ قویٰ سے کام نہ لے کر اور قانونِ قدرت کے قواعد سے کام نہ لے کر آوے۔ مثلاً کسان اگر تخمریزی کرنے سے پہلےہی یہ دعا کرے کہ الٰہی! اس کھیت کو ہرا بھرا کر اور پھل پھول لا۔ تو یہ شوخی اور ٹھٹھا ہے۔ اسی کو خدا کا امتحان اور آزمائش کہتے ہیں جس سے منع کیا ہے۔ اور کہا گیا ہے کہ خدا کو مت آزماؤ۔ جیسا کہ مسیح علیہ السلام کے مائدہ مانگنے کے قصہ میں اس امر کو بوضاحت بیان کیا گیا ہے۔ اس پر غور کرو اور سوچو۔

(ملفوظات جلد اوّل ایڈیشن 1984ء صفحہ 123-124)

مخالف باپ کے لئے دعا کی نصیحت

ظہر کے وقت حضور نے ایک نووارد صاحب سے ملاقات کی اور ان کو تاکید کی کہ وہ اپنے والد کے حق میں جو سخت مخالف ہیں دعا کیا کریں۔ انہوں نے عرض کی کہ حضور میں دعا کیا کرتا ہوں اور حضور کی خدمت میں بھی دعا کے لئے ہمیشہ لکھا کرتا ہوں۔ حضرت اقدس نے فرمایا کہ توجہ سے دعا کرو۔ باپ کی دعا بیٹے کے واسطے اور بیٹے کی باپ کے واسطے قبول ہوا کرتی ہے۔ اگرآپ بھی توجہ سے دعا کریں تو اس وقت ہماری دعا کا بھی اثر ہوگا۔

(ملفوظات جلدچہارم ایڈیشن 1984ء صفحہ 187-188)

عذاب سے حفاظت

بٹالہ میں طاعون کا ذکر سن کر فرمایا کہ
یہ سر زمین بہت گندی ہے خوف ہے کہ کہیں تباہ نہ ہوجائے۔ اللہ کا رحم ہے اس شخص پر جو امن کی حالت میں اسی طرح ڈرتا ہے جس طرح کسی مصیبت کے وارد ہونے پر ڈرتا ہے جو امن کے وقت خداتعالیٰ کو نہیں بھلاتا۔ خداتعالیٰ اسے مصیبت کے وقت نہیں بھلاتا اور جو امن کے زمانہ کو عیش میں بسر کرتا ہے اور مصیبت کے وقت دعائیں کرنے لگتا ہے تو اس کی دعائیں بھی قبول نہیں ہوتیں۔ جب عذابِ الٰہی کا نزول ہوتا ہے تو توبہ کا دروازہ بند ہوجاتا ہے پس کیا ہی سعید وہ ہے جو عذاب الٰہی کے نزول سے پیشتر دعا میں مصروف رہتا ہے۔ صدقات دیتا ہے اور امر الٰہی کی تعظیم اور خلق اللہ پر شفقت کرتا ہے۔ اپنے اعمال کو سنوار کر بجا لاتا ہے۔ یہی سعادت کے نشان ہیں۔ درخت اپنے پھلوں سے پہچانا جاتا ہے اسی طرح سعید اور شقی کی شناخت بھی آسان ہوتی ہے۔

…خدا تعالیٰ جو علاج فرماتا ہے وہ حتمی ہوتا ہے۔ اس سے نقصان نہیں ہوتا۔ مگر یہ بات ذرا مشکل ہے۔ کامل ایمان کو چاہتی ہے اور یقین کے پہاڑ سے پیدا ہوتی ہے۔ ایسے لوگوں کا اللہ تعالیٰ خود معالج ہوتا ہے۔ مجھے یاد ہے ایک دفعہ دانت میں سخت درد تھا۔ میں نے کسی سے دریافت کیا کہ اس کا کیا علاج ہے۔ اس نے کہا کہ موٹا علاج مشہور ہے علاجِ دنداں اخراجِ دنداں۔ اس کا یہ فقرہ میرے دل پر بہت گراں گزرا کیونکہ دانت بھی ایک نعمتِ الٰہی ہے۔ اسے نکال دینا ایک نعمت سے محروم ہونا ہے اسی فکر میں تھا کہ غنودگی آئی اور زبان پر جاری ہوا۔ وَاِذَا مَرِضۡتُ فَہُوَ یَشۡفِیۡنِ (الشعراء: 81) اس کے ساتھ ہی معًا درد ٹھہر گیا اور پھر نہیں ہوا۔

(ملفوظات جلد چہارم ایڈیشن 1984ء صفحہ229-230)

انسان کو یقین ہو کہ وہ سمیع علیم خدا کے سامنے کھڑا ہے

نماز ہے کہ ہر ایک حیثیت کے آدمی کو پانچوں وقت ادا کرنی پڑتی ہے اسے ہرگز ضائع نہ کریں۔ اسے بار بار پڑھو اور اس خیال سے پڑھو کہ میں ایسی طاقت والے کے سامنے کھڑا ہوں کہ اگر اس کا ارادہ ہو تو ابھی قبول کرلیوے۔ اسی حالت میں بلکہ اسی ساعت میں بلکہ اسی سیکنڈ میں کیونکہ دوسرے دنیوی حاکم تو خزانوں کے محتاج ہیں۔ اور ان کو فکر ہوتی ہے کہ خزانہ خالی نہ ہوجاوے اور ناداری کا ان کو فکر لگا رہتا ہے۔ مگر خدا تعالیٰ کا خزانہ ہروقت بھرا بھرایا ہے۔ جب اس کے سامنے کھڑا ہوتا ہے تو صرف یقین کی حاجت ہوتی ہے۔ اسے اس امر پر یقین ہوکہ میں ایک سمیع،علیم اور خبیر اور قادر ہستی کےسامنے کھڑا ہوا ہوں اگر اسے رحم آجاوے تو ابھی دے دیوے۔ بڑی تضرّع سے دعا کرے۔ ناامید اور بدظن ہر گز نہ ہووے اور اگر اسی طرح کرے تو(اس راحت کو) جلدی دیکھ لے گا۔ اور خداتعالیٰ کے اور فضل بھی شامل حال ہوں گے اور خود خدا بھی ملے گا تو یہ طریق ہے جس پر کاربند ہونا چاہئے۔ مگر ظالم فاسق کی دعا قبول نہیں ہوا کرتی کیونکہ وہ خدا تعالیٰ سے لاپروا ہے۔ ایک بیٹا اگر باپ کی پروا نہ کرے اور ناخلف ہو تو باپ کو اس کی پروا نہیں ہوتی تو خدا کو کیوں ہو۔

(ملفوظات جلد چہارم ایڈیشن 1984ء صفحہ 401-402)

(حسنیٰ مقبول احمد۔امریکہ)

پچھلا پڑھیں

مقدر کی رات

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 21 اپریل 2022