• 26 اپریل, 2024

ہمیں چاہیے کہ قرآن کو اپنا مقصودِ حیات بنا لیں اور اس کی بتلائی ہوئی ہدایات پر عمل کریں

وَلَقَدْ يَسَّرْنَا الْقُرْآنَ لِلذِّكْرِ

ہمیں چاہیے کہ قرآن کو اپنا مقصودِ حیات بنا لیں اور اس کی بتلائی ہوئی ہدایات پر عمل کریں

اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتا ہے۔

وَلَقَدْ يَسَّرْنَا الْقُرْآَنَ لِلذِّكْرِ

(القمر:18)

ترجمہ: اور یقیناً ہم نے قرآن کو ذکر کے لئے آسان بنایا ہے۔

ذکر کے ایک معنی نصیحت کے ہیں ۔ان معنوں کی رو سے اس آیت کا مطلب یہ ہوگا کہ قرآن مجید نصیحت کرنے کے لیے آسان ترین کتاب ہے کیونکہ اس میں وعدہ و وعید اور انذاروتبشیر کا بیان ہےاور یہ چیزیں انسان کو برائیوں سے چھڑانے اور تقوی کی طرف بلانے کا مؤثر ذریعہ ہیں۔

دوسری جگہ فرمایا۔

وَكَذٰلِكَ أَنْزَلْنَاهُ قُرْآنًا عَرَبِيًّا وَصَرَّفْنَا فِيهِ مِنَ الْوَعِيدِ لَعَلَّهُمْ يَتَّقُونَ أَوْ يُحْدِثُ لَهُمْ ذِكْرًا

(طٰہٰ: 114)

ترجمہ: اسی طرح ہم نے اس (کتاب )کو عربی زبان کے قرآن کی صورت میں اتارا ہے اوراس میں ہرقسم کے انذار کو کھول کھول کر بیان کیا ہے تاکہ وہ تقویٰ اختیارکریں۔یا (یہ قرآن) اُن کے لئے (خداکی) یاد کا سامان(نئے سرے سے) پیداکرے۔

الغرض ’’ذکر‘‘ یعنی نصیحت ہونے کے لحاظ سے قرآن مجید انتہائی آسان ،عمدہ اوربہترین کتاب ہے کیونکہ اس میں وعظ ونصیحت کے تمام طریقے اختیارکئے گئے ہیں۔پیارسے،محبت سے،شفقت و ہمدردی سے،جَنّات کی بشارت دے کر،زجر وتوبیخ سے،انذاری پیشگوئیوں سے،دوزخ کا عذاب یاددلاکر، اچھے اوربُرے لوگوں کی مثالیں بیان کرکے۔۔۔غرضیکہ ہر طور اور طریقے سے نصائح بیان کی گئی ہیں اور نیکی وبھلائی کو اختیار کرنے، صراطِ مستقیم پر چلنے اور بدی اوربرائی سے بچنے کی ترغیب دی گئی ہے۔فرمایا۔

إِنَّ هَذَا الْقُرْآنَ يَهْدِي لِلَّتِي هِيَ أَقْوَمُ وَيُبَشِّرُ الْمُؤْمِنِينَ الَّذِينَ يَعْمَلُونَ الصَّالِحَاتِ أَنَّ لَهُمْ أَجْرًا كَبِيرًا وَأَنَّ الَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ بِالْآخِرَةِ أَعْتَدْنَا لَهُمْ عَذَابًا أَلِيمًا

(بنی اسرائیل:11-10)

ترجمہ:یہ قرآن یقیناً اس (راہ کی) طرف رہنمائی کرتاہے جو سب سے زیادہ درست ہے اور مومنوں کو جو مناسبِ حال کام کرتے ہیں بشارت دیتا ہے کہ ان کے لئے بہت بڑا اجر (مقدر) ہے اور (قرآن) یہ (بھی کہتا ہے) کہ جو لوگ آخرت پر ایمان نہیں لاتے ان کے لئے ہم نے دردناک عذاب تیار کیا ہے۔

نیک اقوال، نیک اعمال وافعال اور نیک راہوں کی تفصیلات اس میں بیان ہیں۔ اسی طرح بری باتوں، برے کاموں اور بُری راہوں کو بھی کھول کر بیان کردیا گیا ہے۔ اس میں ان لوگوں کا بھی ذکر ہے جن پر انعاماتِ الٰہیہ نازل ہوئے اور اس کی رحمتوں اور برکتوں کی بارش ان پر برسی اور ان لوگوں کا بھی تذکرہ ہے جن پر اس کا غضب بھڑکا اور وہ اس کے قہر اور عذاب کا مورد بنے۔

غرضیکہ یہ کتاب کیا ہے؟ یہ تمام اوصاف، تمام کمالات اورتمام خوبیوں کی جامع ہے۔ بنی نوع انسان کے لئے ایک کامل اور مکمل نصیحت نامہ ہے تاکہ وہ اس پر عمل کریں اور نجات پائیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے۔

كِتَابٌ أَنْزَلْنَاهُ إِلَيْكَ مُبَارَكٌ لِيَدَّبَّرُوا آيَاتِهِ وَلِيَتَذَكَّرَ أُولُو الْأَلْبَابِ

(ص:30)

ترجمہ: یہ (قرآن) ایک کتاب ہے جسے ہم نے تیری طرف نازل کیا ہے۔ سب خوبیوں کی جامع ہے تاکہ وہ اس (یعنی اللہ تعالیٰ) کی باتوں پر غور کریں اور تاکہ عقلمند لوگ نصیحت حاصل کریں۔

اب اگرکوئی چاہے تو ان آیات سے،ان حالات و واقعات سے، ان حکمتوں سے ،ان نصیحتوں اورعبرتوں سے سبق حاصل کرے اورنیکوکاروں کی راہ اختیارکرتے ہوئے منعم علیہ گروہ میں شامل ہوجائے اورچاہے تو ان اعلیٰ درجہ کی صداقتوں اوران حقائق وعبر سے منہ موڑنے اوراعراض کرنے کے نتیجہ میں مغضوب علیہم کے ساتھ جا ملے۔

پھر قرآن مجیداس لحاظ سے بھی آسان ہے کہ یہ کتاب ’’ام الالسنة‘‘ عربی زبان میں ہےجو نہایت درجہ فصیح وبلیغ اور اپنے مطالب کو واضح طورپر اور کھول کر بیان کرنے والی ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ یہ کتاب بِلِسَانٍ عَرَبِيٍّ مُبِينٍ ہے۔ یعنی اپنے مطالب کو کھول کر بیان کرنے والی زبان میں ہے۔ اور قرآن مجید کی یہ بھی امتیازی شان ہے کہ وہ ہر بات کو دلائل کے ساتھ بیان کرتا ہے۔

پھر یہ کتاب تلاوت وقرأت اورکتابت کے لحاظ سے بھی آسان ہے۔ اگر کسی اور زبان میں قرآن نازل ہوتا تو بہت مشکل پیش آتی۔ مثلاً سنسکرت زبان میں اگر قرآن نازل ہوتا تو سوائے ہندوستان کے ان گنتی کے چند لوگوں کے جنہیں یہ زبان آتی ہو باقی اسے نہ سمجھ سکتے۔ مگر خدائے رحمان نے قرآن مجید کو ایسی زبان میں اتارا جو ’’ام الالسنة‘‘ ہے اور تمام زبانیں اس سے نکلی ہیں۔ اس وجہ سے ان زبانوں کو اس کے ساتھ ایک تعلق اور ربط ہے اور اس کے ساتھ گہرا اشتراک رکھتی ہیں۔ اس لحاظ سے قرآن مجید دنیا بھر کے انسانوں کے لئے آسان ترین کتاب ہے اورہر زمانہ میں دنیا کا ہرشخص باآسانی اسے سیکھ سکتاہے اور اس کے معانی اور مطالب تک رسائی حاصل کرسکتا ہے۔

ہر قرآن مجید اس لحاظ سےبھی آسان ہے کہ عربی زبان وسیع المعانی اور وسیع المفہوم ہے اس سے ہر شخص اس کی آیات میں تدبر کرکے اپنی اپنی عقل اورفراست اوراپنے اپنے فہم کے مطابق اس سے فائدہ اٹھا سکتا ہے۔

پھر ’’ذِكْرٌ‘‘ یعنی حفظ اوریاد کرنے کے لحاظ سے بھی قرآن کریم آسان ترین کتاب ہے۔ دنیا بھر میں قرآن کریم ہی وہ واحد کتاب ہے جس کے حُفاظ سینکڑوں ہزاروں کی تعداد میں ہر دور اور ہر زمانہ میں پائے جاتے رہے ہیں۔ اور آج بھی خدا کے فضل سے بکثرت ایسے لوگ موجود ہیں جنہیں اول سے آخر تک حرف بحرف کلامِ پاک زبانی یاد ہے۔ اس کے علاوہ دنیا کی کوئی اور الہامی کتاب یا غیر الہامی کتاب ایسی نہیں ۔

غیروں کو بھی اس کا اعتراف ہے۔ چنانچہ Mr.MARMADUKE نے The Meanings of the Glorious Koran میں سورۃ القمر کی اسی آیت کے تحت نوٹ میں لکھاہے۔

It is a fact that The Koran is marvellously easy for believers to commit to memory. Thousands of people in the east know the whole Book by heart. The translator, who finds great difficulty in remembering well known English quotations accurately, can remember page after page of The Koran in Arabic with perfect accuracy

ترجمہ: ’’یہ ایک حقیقت ہے کہ اس کتاب کا حفظ کرنا،اہل ایمان کے لئے حیرت انگیز حدتک آسان ہے۔ مشرق کے ہزاروں لوگوں کویہ کتاب ازبر ہے۔مترجم جو کہ انگریزی کے مشہور اقوال کو ازبر کرنے میں بے حد دقت محسوس کرتا ہے (وہ) قرآن مجید کے صفحات کے صفحات (جوکہ) عربی زبان میں (ہے) نہایت آسانی سے ٹھیک ٹھاک ازبر کرتا چلا جاتا ہے۔‘‘

پھر قرآن کریم اس لحاظ سے بھی “الذِّكْرُ”ہے کہ اس میں تمام ابدی صداقتوں اوراعلیٰ درجہ کی حکمتوں کا تذکرہ ہے۔ “فِيهَا كُتُبٌ قَيِّمَةٌ”ارشاد خداوندی ہے۔

تمام وہ اصول وقواعد اورتمام وہ امورجو انسان کی ذہنی،جسمانی، اخلاقی یا روحانی ترقیات اورقوائے انسانی کی کامل نشوونما کے لئے ضروری ہیں سب کے سب اس میں بیان ہیں۔پھر وہ اصول وقواعد ایسے آسان ہیں کہ دنیا کے ہرخطے میں بسنے والا ہر شخص ان پر عمل کرسکتاہے کیونکہ قرآن مجید تمام دنیا کے لئے ہے۔

اس کی تعلیمات واحکامات عملی طورپر بھی آسان ہیں۔کوئی ایسا حکم نہیں جس پر انسان عمل نہ کرسکتاہو کیونکہ قرآن مجید کے تمام احکامات فطرت انسانی کے عین مطابق ہیں اورہرشخص انہیں اپنا سکتاہے۔

پھر باوجود اس کے کہ دنیا کی کوئی صداقت ایسی نہیں جو اس میں درج نہ ہو۔اورکوئی ایسا علم نہیں جو اس میں بیان نہ ہو۔قرآن مجید اپنے ظاہر ی حجم کے لحاظ سے انتہائی مختصر کتاب ہے اورہرشخص بآسانی اس کا مطالعہ کرسکتاہے۔اوراس کے بیان کردہ عقائد اوراصول وقواعد کا علم حاصل کرسکتاہے ورنہ اگرانسان کو ہزارعمر نوح بھی دی جاتی تو وہ دنیا کی تمام صداقتوں اورحکمت کی باتوں کو جمع نہ کرسکتا اورپھر خاص طورپر اس انداز میں جس میں قرآن نے جمع کردیں کہ اختصار بھی ہے مگر فصاحت وبلاغت کو بھی کمال تک پہنچایاہے۔

سیدنا حضر ت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ ’’جس قدرقرآن شریف میں امورتکمیل دین کے جیسے مسائل توحید اورممانعتِ انواع واقسام شرک اورمعالجاتِ امراض روحانی اور دلائل ابطال مذاہب باطلہ اوربراہین اثبات عقائد حقہ وغیرہ بکمال شد ومد بیان فرمائے گئے ہیں وہ دوسری کتابوں میں درج نہیں۔‘‘

(براہین احمدیہ حصہ دوم)

فرمایا: “کوئی ذہن ایسی صداقت نکال نہیں سکتا جو پہلے ہی سے اس میں درج نہ ہو۔ کوئی فکر ایسے برہان عقلی پیش نہیں کرسکتا جو پہلے ہی سے اس نے پیش نہ کی ہو۔ کوئی تقریر ایسا قوی اثر کسی دل پر ڈال نہیں سکتی جیسے قوی اور پر برکت اثر لاکھوں دلوں پر وہ ڈالتا آیا ہے۔ وہ بلاشبہ صفات کمالیہ حق تعالیٰ کا ایک نہایت مصفا آئینہ ہے جس میں سے وہ سب کچھ ملتا ہے جو ایک سالک کو مدارجِ عالیہ معرفت تک پہنچنے کے لئے درکار ہے۔”

(سرمہ چشمہ آریہ)

بِه مَاشِئْتَ مِنْ عِلْمٍ وَعَقْلٍ وَاَسْرَارِه اَبكارِ المعاني

ترجمہ : اس میں ہر وہ علم اورعقل موجود ہے جس کاتو طالب ہے۔اورقسم قسم کے بھید اورنئی صداقتیں اس میں بھری ہوئی ہیں۔

پھر حضورعلیہ السلام نے فرمایا۔ ’’یقینی اورکامل اورآسان ذریعہ شناخت اصول حقہ کا اوران سب عقائد کا کہ جن کے علم یقینی پر ہماری نجات موقوف ہے صرف قرآن شریف ہے۔‘‘

(براہین احمدیہ حصہ دوم)

اسی طرح حضورعلیہ السلام نے فرمایا۔ ’’۔۔۔۔ فرقان مجید نے اپنی فصاحت اوربلاغت کو صداقت اورحکمت اور ضرورت حقہ کے التزام سے ادا کیا ہے اور کمال ایجاز سے تمام دینی صداقتوں پر احاطہ کرکے دکھایا ہے۔ چنانچہ اس میں ہریک مخالف اور منکر کے ساکت کرنے کے لئے براہین ساطعہ بھری پڑی ہیں اورمومنین کی تکمیل یقین کے لئے ہزار دقائق حقائق کا ایک دریائے عمیق وشفاف اس میں بہتا ہؤا نظر آ رہا ہے۔ جن امور میں فساد دیکھا ہے انہیں کی اصلاح کے لئے زور مارا ہے۔ جس شدت سے کسی افراط یا تفریط کا غلبہ پایا ہے اسی شدت سے مدافعت بھی کی ہے۔ جن انواع اقسام کی بیماریاں پھیلی ہوئی دیکھیں ان سب کا علاج لکھا ہے۔ مذاہب باطلہ کے ہریک وہم کو مٹایا ہے۔ ہریک اعتراض کا جواب دیا ہے۔ کوئی صداقت ایسی نہیں جس کو بیان نہیں کیا۔ کوئی فرقہ ضالّہ نہیں جس کا رد نہیں لکھا اورپھر کمال یہ کہ کوئی کلمہ نہیں کہ بلا ضرورت لکھا ہو اور کوئی بات نہیں کہ بے موقع بیان کی ہو اور کوئی لفظ نہیں کہ لغو طورپر تحریرپایا ہو اورپھر باوصف التزام ان سب امور کے فصاحت کا وہ مرتبہ کمال دکھلایا جس سے زیادہ متصور نہیں اوربلاغت کو اس کمال تک پہنچایا کہ کمال حسن ترتیب اور موجز اور مدلل بیان سے علم اولین وآخرین تک چھوٹی سی کتاب میں بھر دیا تاکہ انسان جس کی عمر تھوڑی اورکام بہت ہیں بے شماردردسر سے چھوٹ جائے اور تا اسلام کو اس بلاغت سے اشاعت ِ مسائل میں مدد پہنچے اورحفظ کرنا اوریاد رکھنا آسان ہو۔‘‘

(براہین احمدیہ حصہ چہارم)

’’الذِّكْرُ‘‘ کے معنی شرف اور بزرگی ،عزت وشہرت اور ثناء یعنی تعریف کے بھی ہیں۔ ان معنوں کی رو سے گویا اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں یہ بتلادیا ہے کہ حقیقی شرف وبزرگی اورعزت وشہرت اور مقام محمود حاصل کرنے کے لئے قرآن مجید انسان کے لئے آسان ترین لائحہ عمل ہے۔ اس میں ایسے اصول وقواعد اور ایسی تعلیمات بیان ہیں جن پر عمل پیرا ہو کر انسان ذہنی وجسمانی، اخلاقی وروحانی، علمی وعملی، دینی ودنیوی غرضیکہ ہرقسم کی ترقیات وکمالات حاصل کرسکتاہے اور مراتب عالیہ کو پاسکتا ہے۔ یہ وہ عظیم الشان کتاب ہے جو انسان کو زمین کی پستیوں سے اٹھا کر آسمان کی رفعتوں تک پہنچادیتی ہے۔

يَجُرُّ اِلَى العُلْيَا وَ جَاءَ مِنَ الْعُلى
كَمَا هواَمْرٌ ظاهرٌ ليسَ يَحْجَبُ

وہ بلندی کی طرف سے آیاہے۔ اور وہ بلندی کی طرف کھینچتا ہے جیساکہ یہ بات ظاہر ہے مخفی نہیں۔

دوسری جگہ اللہ تعالیٰ نے خود قرآن مجید کا ایک نام ’’ذِكْرٌ‘‘ بھی بتلایا ہے جیسے فرمایا: إِنْ هُوَ إِلَّا ذِكْرٌ وَقُرْآَنٌ مُبِينٌ (یونس:69) یعنی یہ تو ذکر اورقرآن مبین ہے گویا

؎آفتاب است وکند چوں آفتاب

والی بات ہے ۔خود بھی معزز ومکرم اوربزرگ کلام ہے جس کی عزت وبزرگی کا چرچا ساری دنیا میں ہو رہا ہے۔ اور جس کی تعریف اور مدح وثناء کسی انسان کے بس کی بات نہیں۔اورپھر یہ عظیم الشان کلام دوسروں کو بھی عزت وشرف بخشتا ہے اور اعلیٰ درجہ کے کمالات تک پہنچاتا ہے۔چنانچہ اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے مخاطب ہو کرفرمایا:۔ وَإِنَّهُ لَذِكْرٌ لَكَ وَلِقَوْمِكَ کہ یہ قرآن آپ ؐ کے لئے اور آپ ؐ کی قوم کے لئے عزت وشہرت اور شرف وبزرگی کا موجب ہے۔

اورتاریخ شاہد ہے کہ وہی لوگ جو کبھی جہالت کی تاریکیوں میں بھٹکتے تھے، قرآن مجید کو پانے کے بعد نورِ علم وعرفان سے مالامال ہوگئے اور وہ مقام ارفع واعلیٰ حاصل کیا کہ دنیا بھر کے معلم اور استاد اور رہنما ٹھہرے۔ سچ فرمایا ہے مامورِزمانہ نے

آنکش کہ عالمش شد ،شد مخزن معارف
واں بے خبر زعالم کیں عالمے ندیدہ

یعنی جو اس کا عالم ہوگیا وہ خود معرفت کا خزانہ بن گیا اورجس نے اس عالم کونہیں دیکھا اسے دنیا کی کچھ خبر ہی نہیں۔

قرآن مجید کے نزول سے قبل اہل عرب مادی و روحانی ہر لحاظ سے پسماندہ تھے مگر قرآن عظیم کو اپنے لئے ضابطہ حیات قرار دینے کے بعد اور اس کی اتباع اور پیروی کے نتیجے میں ان کی زندگیوں میں ایک عظیم تغیر بپا ہوگیا ۔ انہوں نے دنیاوی لحاظ سے بھی حیرت انگیز ترقی کی اور انتہائی قلیل عرصے میں جزیرہ عرب سے نکل کر دنیا پر چھا گئے اور دنیا نے یہ بھی دیکھا کہ عرب کے معمولی اونٹ چرانے والے قرآن مجید کی برکت اور اس کی تاثیر سے عرب و عجم کے بادشاہ بن گئے اور روحانی لحاظ سے بھی انہوں نے وہ مرتبہ و مقام پایاکہ آسمانِ روحانیت کے ستارے بن کر چمکے اور خدا کے برگزیدہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’أصحابي كالنُّجومِ بأيِّهمُ اقتديتُمُ اهتديتُم یعنی میرے صحابی ستاروں کی مانند ہیں ان میں سے جس کی بھی تم اقتدا کروگے ہدایت پاؤگے۔‘‘

اللہ اللہ !وہی جو کبھی خود گمراہی میں بھٹک رہے تھے قرآن مجید کی برکت سے آج دنیا کے ہادی بن گئے۔ عرش کے خدا نے بھی قرآن مجید میں ان کی تعریف فرمائی اوررَضِيَ اللّٰهُ عَنْھُمْ وَرَضُوْا عَنْهُ کا عظیم الشان اعلان فرمایا۔

سیدنا حضرت مسیح موعودؑ اسی امرکا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں۔
’’یہ بات کسی سمجھدار پر مخفی نہیں ہو گی کہ آنحضرتﷺ کا زاد بوم ایک محدود جزیرہ نما ملک ہے جس کو عرب کہتے ہیں جو دوسرے ملکوں سے ہمیشہ بے تعلق رہ کر گویا ایک گوشۂ تنہائی میں پڑا رہا ہے۔ اس ملک کا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ظہور سے پہلے بالکل وحشیانہ اور درندوں کی طرح زندگی بسر کرنا اور دین اور ایمان اور حق اللہ اور حق العباد سے بے خبر محض ہونا اور سینکڑوں برسوں سے بت پرستی و دیگر ناپاک خیالات میں ڈوبے چلے آنا اور عیاشی اور بدمستی اور شراب خواری اور قمار بازی وغیرہ فسق کے طریقوں میں انتہائی درجہ تک پہنچ جانااور چوری اور قزّاقی اور خونریزی اور دختر کشی اور یتیموں کا مال کھا جانےاور بیگانہ حقوق دبا لینے کو کچھ گناہ نہ سمجھنا۔ غرض ہر یک طرح کی بری حالت اور ہر یک نوع کا اندھیرا اور ہر قسم کی ظلمت و غفلت عام طور پر تمام عربوں کے دلوں پر چھائی ہوئی ہونا ایک ایسا واقعہ مشہور ہے کہ کوئی متعصب مخالف بھی بشرطیکہ کچھ واقفیت رکھتا ہو، اس سے انکار نہیں کر سکتااور پھر یہ امر بھی ہر یک منصف پر ظاہر ہے کہ وہی جاہل اور وحشی اور یاوہ اور نا پارسا طبع لوگ اسلام میں داخل ہونے اور قرآن کو قبول کرنے کے بعد کیسے ہو گئے اور کیونکر تاثیرات کلام الٰہی اور صحبت نبی معصوم ؐ نے بہت ہی تھوڑے عرصہ میں ان کے دلوں کو یکلخت ایسا مبدّل کر دیا کہ وہ جہالت کے بعد معارف دینی سے مالا مال ہو گئے اور محبت دنیا کے بعد الٰہی محبت میں ایسے کھوئے گئے کہ اپنے وطنوں، اپنے مالوں، اپنے عزیزوں، اپنی عزتوں، اپنی جان کے آراموں کو اللہ جلّشانہ کے راضی کرنے کے لئے چھوڑ دیا۔۔۔ پس وہ کیا چیز تھی جو اُن کو اتنی جلدی ایک عالم سے دوسرے عالم کی طرف کھینچ کر لے گئی۔ وہ دوہی باتیں تھیں ایک یہ کہ وہ نبی معصومؐ اپنی قوت قدسیہ میں نہایت ہی قوی الاثر تھاایسا کہ نہ کبھی ہوا اور نہ ہو گا۔ دوسری خدائے قادر مطلق حیّ و قیّوم کے پاک کلام کی زبردست اور عجیب تاثیریں تھیں کہ جو ایک گروہ کثیر کو ہزاروں ظلمتوں سے نکال کر نور کی طرف لے آئیں۔‘‘

(سرمہ چشمہ آریہ)

؎ یوسف بقعر چاہے محبوس ماند تنہا
ویں یوسفے کہ تن ہا از چاہ برکشیدہ

یعنی یوسف تو ایک کنوئیں کی تہ میں اکیلا گراتھا مگراس یوسف نے بہت سے لوگوں کو کنوئیں میں سے نکالا۔

پس اے وہ شخص جو حقیقی عزت و شہرت اور شرف و بزرگی حاصل کرنا چاہتا ہے اور مقام محمود کا طالب ہے تجھے چاہیے کہ قرآن کو اپنا مقصودِ حیات بنا لے اور اس کی بتلائی ہوئی ہدایات پر عمل کرے۔ کیونکہ یہی وہ بزرگ کلام ہے جس پر عمل کرنے والوں نے اعلیٰ درجات حاصل کئے پس تو بھی ایسا ہی کر۔

اس جگہ ’’الذِّكْرُ‘‘ سے مراد ذکر الہی بھی ہوسکتا ہے ۔گویا قرآن مجید ذکر الہٰی کے لئے نہایت آسان ہے۔ خدا کو یاد کرنے کا بہترین ذریعہ قرآن مجید ہے کیونکہ قرآن مجید ذکر الہٰی پر مشتمل ہے اور دوسری طرف اللہ تبارک و تعالی کا ارشاد ہے:۔ أَلَا بِذِكْرِ اللّٰهِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوبُ یعنی یہ بات غور سے سن کے اللہ کے ذکر سے ہی دل مطمئن ہوتے ہیں ۔سکون و اطمینان قلب حاصل كرنے كے لئے كثرت سے ذكر الٰہی کرنا چاہئے اورچونکہ قرآن مجید ذکرالٰہی پر شتمل ہے اس لئے طمانیت قلب اورسکون ِ دل حاصل کرنے کے لئے کثرت سے قرآن مجید کی تلاوت کرنی چاہئے۔

اسی طرح اگر ’’ذِكْر‘‘ سے مراد ذکر الٰہی لیاجائے تو اس کا یہ مطلب بھی ہوسکتاہے کہ قرآن وہ کتاب ہے جو انسان کو خدا کی ہستی یاددلاتی ہے ۔جب کوئی شخص اس کی فصاحت وبلاغت، اعجاز آفرینی اور اس کے حسن وجمال پر غور کرتا اور اس کی آیات میں تدبر کرتاہے تو بے اختیار خدائے عزوجل کی ہستی کا اقرار کر اٹھتا ہے اور اس کا دل حمد سے معمور ہوجاتا ہے۔ (گویا ہستی باری تعالیٰ کی سب سے بڑی اور آسان ترین دلیل قرآن مجید ہے) قرآن وہ آئینہ ہے جس میں خدا کی تصویر نظر آتی ہے۔ سیدنا حضرت مسیح موعودعلیہ السلام فرماتے ہیں۔

مخزن راز ہائے ربانی
از خدا آلۂ خدادانی
ہست آئینہ بہر روئے خدا
عالمے راکشید سوئے خدا
ہرکہ برعظمتش نظر بکشاد
بے توقف خدایش آمد یاد
وانکہ از کبر وکیں ندید آں نور
کور ماندہ زِ نورِ حق مہجور

یعنی وہ خداوند کے اسرار کا خزانہ ہے اور خدا کی طرف سے خداشناسی کا آلہ۔ (قرآن) خدا کے چہرہ کا آئینہ ہے اور اس نے ایک جہان کو خداکی طرف کھینچا ہے۔ جو اس کی عظمت کو دیکھ لیتا ہے اسے فوراً خدا یاد آجاتا ہے۔ اور جو تکبر اور دشمنی سے اس روشنی کو نہیں دیکھتا وہ اندھا اور خدا کے نور سے دور رہتا ہے۔

ماہ رمضان المبارک کو قرآن مجید سے ایک خاص مناسبت اور گہرا تعلق ہے۔ یہی وہ مبارک مہینہ ہے جس کی ایک نہایت ہی مقدس اور بابرکت رات، ’’لیلۃ القدر‘‘ میں ایک غایت درجہ مکرم ومعظم کلام کا نزول ہؤا۔۔ پس ہمیں ان مبارک ایام میں بکثرت قرآن مجید کی تلاوت کرنی چاہئے۔ اس کی آیات میں غوروفکر اور تدبر کرنا چاہئے۔ اس کی پر حکمت باتوں اور اس کے بیان کردہ احکام کا علم حاصل کرکے ان پر عمل کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔

اسی طرح ہمیں چاہئے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ سے اس کی مدد اورنصرت چاہتے ہوئے ان مبارک ایام میں خاص طورپر قرآن مجید کا کچھ حصہ زبانی یادکریں کیونکہ ارشادباری تعالیٰ ہے کہ ہم نے قرآن مجید کو ذکر یعنی حفظ کے لئے آسان بنایا ہے۔ پس کیا کوئی ہے جو اسے زبانی یاد کرے تا اس کی مدد کی جائے اور اسے اس کام کی توفیق بخشی جائے۔

اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہم سب کو عشق ِ قرآن اور فہم قرآن عطا فرمائے اورخداکرے کہ ہمارے اقوال وافعال اور ہمارے اخلاق عین قرآن کے مطابق ہوں۔ آمین ثم آمین یارب العالمین

(نصیر احمد قمرؔ)

پچھلا پڑھیں

خدمتِ خلق

اگلا پڑھیں

Covid-19 اپ ڈیٹ21۔مئی2020ء