• 26 اپریل, 2024

خدمتِ خلق

ہیں لوگ وہی جہاں میں اچھے
آتے ہیں جو کام دوسروں کے

کُنْتُمْ خَیْرَ أُمَّۃٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَتَنْہَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ

(آل عمران:111)

تم بہترین امّت ہو جو تمام انسانوں کے فائدہ کے لئے پیدا کی گئی ہو۔ تم اچھی باتوں کا حکم دیتے ہو اور بری باتوں سے روکتے ہو۔

اللہ تعالیٰ نے روئے زمین کو انسانوں سے آباد کیا ، ان کے آپس میں رشتے قائم کئے ،باہم ایک دوسرے کے ساتھ ضرورتیں وابستہ کیں ،حقوق و فرائض کا ایک کامل نظام عطا فرمایا۔

دوسروں کو فائدہ پہنچانا اسلام کی روح اور ایمان کا تقاضہ ہے ایک دوسرے کی مدد سے ہی کاروانِ انسانیت مصروف سفر رہتا اور زندگی کا قدم آگے بڑھتا ہے اگرانسان انسان کے کام نہ آتا تو دنیا کب کی ویرانہ بن چکی ہوتی ۔

انسان اپنی فطری ، طبعی ، جسمانی اور روحانی ساخت کے لحاظ سے سماجی اور معاشرتی مخلوق ہے اسے اپنی پرورش ، نشوونما ،تعلیم و تربیت، خوراک و لباس اور دیگر معاشرتی و معاشی ضروریات پوری کرنے کے لئے دوسرے انسانوں کا کسی نہ کسی لحاظ سے محتاج ہے۔

خدمت خلق وہ جذبہ ہے جسے ہر مذہب و ملت اور ضابطہ اخلاق میں قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔مذہب میں سے انسانیت اور خدمت نکال دی جائے تو صرف عبادت رہ جاتی ہے اور محض عبادت کے لئے پروردگار کے پاس فرشتوں کی کمی نہیں۔

یہی ہے عبادت یہی دین و ایماں
کہ کام آئے دنیا میں انساں کے انساں

خدمت خلق ایک جامع تصور ہے۔ یہ لفظ ایک وسیع مفہوم رکھتا ہے ۔خلق کے اندر روئے زمین پر رہنے والے ہر جاندار کا اطلاق ہوتا ہے اور ان سب کی حتی الامکان خدمت کرنا ، ان کا خیال رکھنا ہمارا فرض ہے ۔

انسان انسان ہونے کی حیثیت سے ہمدردی کا مستحق ہے خواہ اس کا تعلق کسی قوم اورمذہب سے ہو۔ بلا شبہ انسانوں کے لئے انسانوں کا ایثار ہی اس دنیا کا حقیقی حسن ہے وہ لوگ واقعی بڑے باہمت ، قابل داد اور قابل ستائش ہیں جو دوسروں کے کام آتے ہیں۔ سورج کی عظمت یہ نہیں کہ وہ روشنی اور حرارت کا منبع ہے بلکہ سورج کا کمال یہ ہے کہ وہ اپنی روشنی اور حرارت سے پوری دنیا کو فائدہ پہنچاتا ہے۔

خدا کا بندہ وہی ہے مری نگاہوں میں
جو ہو شمار ہر انساں کے خیر خواہوں میں
خدا نہ جس سے ہو راضی وہ بندگی کیا ہے
کسی کے کام نہ آئے تو آدمی کیا ہے

ہمارے پیارے نبی حضرت محمد ﷺ نے وحی سے قبل بھی ایک شاندار اور قابلِ تحسین زندگی گزاری ۔دوست دشمن سبھی اس بات کے معترف تھے کہ آپ ؐ خوش خلق اور مہمان نواز ہیں ، مظلوموں کے حامی اور مصیبت زدگان کے سرپرست آپ ﷺنے انسانیت کی جھولی میں اخلاق عظیم کے جواہرات بھرے ،مظلوم کو ظالم سے نجات دلائی ، جاہل کو علم سے آراستہ کیا۔

ایک غیر مسلم شاعر نے آنحضرت ﷺ کو اس طرح خراج عقیدت پیش کیا۔

مرے سینے کی دھڑکن ہیں
میری آنکھوں کے تارے ہیں
سہارا بے سہاروں کا
خدا کے وہ دُلارے ہیں

حضرت انس ؓ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت ﷺنے فرمایا جو کوئی مسلمان درخت لگائے یا کھیتی کرے اور اس کے لگائے ہوئے درخت یا کھیتی کی پیداوار انسان پرندے یا جانور کھائیں تو یہ اس درخت لگانے یا کھیتی کرنے والے شخص کی طرف سے صدقہ ہے۔

( ترمذی ابواب الاحکام باب فی فضل الغرس )

اگرچہ دیگر مذاہب بھی خدمت خلق کی تبلیغ کرتے اور اسے فروغ دیتے ہیں لیکن اسلام زکوٰۃ کی شکل میں اسے فرض کرکے اوروں سے ایک قدم آگے جاتا ہے۔ عبادت سے جنت ملتی ہے جبکہ خدمت خلق سے خدا ملتا ہے ۔

رکھو گے تم جو مولا کے بندوں کو کچھ عزیز
تم سے کرے گا ہر طرح وہ پیار دیکھنا

حضرت ابوہریرہ ؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ عزوجل قیامت کے روز فرمائے گا۔اے ابن آدم ! میں بیمار تھا تو نے میری عیادت نہیں کی۔ بندہ کہے گا۔ اے میرے رب ! میں تیری عیادت کیسے کرتا جبکہ تو ساری دنیا کا پروردگار ہے۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا ۔ کیا تجھے پتہ نہیں چلا کہ میرا فلاں بندہ بیمار تھا تو تو نے اس کی عیادت نہیں کی تھی۔ کیا تجھے معلوم نہ تھا کہ اگر تم اس کی عیادت کرتے تو مجھے اس کے پاس پاتے۔اے ابن آدم ! میں نے تجھ سے کھانا طلب کیا تو تو نے مجھے کھانا نہیں دیا۔ اس پر ابن آدم کہے گا ۔ اے میرے رب ! میں تجھے کیسے کھانا کھلاتا جب کہ تو تو رب العالمین ہے۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا۔ تجھے یاد نہیں کہ تجھ سے میرے فلاں بندے نے کھانا مانگا تھا تو تو نے اسے کھانا نہیں کھلایا تھا۔ کیا تجھے معلوم نہیں تھا کہ اگر تم اسے کھانا کھلاتے تو تم میرے حضور اس کا اجر پاتے۔

اے ابن آدم ! میں نے تجھ سے پانی مانگا تھا مگرتو نے مجھے پانی نہیں پلایا تھا۔ ابن آدم کہے گا۔ اے میرے رب ! میں تجھے کیسے پانی پلاتا جب کہ تو ہی سارے جہانوں کا رب ہے۔

اس پر اللہ تعالیٰ فرمائے گا ۔ تجھ سے میرے فلاں بندے نے پانی مانگا تھا۔ مگر تم نے اسے پانی نہ پلایا۔ اگر تم اس کو پانی پلاتے تو اس کا اجر میرے حضور پاتے۔

(مسلم کتاب البر والصلۃ باب فضل عیادۃ المریض)

نبی کریمؐ نے انسان کی ہمدردی و خدمت کے حوالہ سے مومن کامل کی مثال کھجور کے درخت سے دی اور ایسے دلچسپ انداز میں پیش فرمائی کہ مجلس کے ہرشخص کے ذہن میں بیٹھ گئی۔ پہلے تو پوچھاکہ درختوں میں سے وہ درخت کون سا ہے جس کی کوئی چیز ضائع نہیں ہوتی بلکہ ہر چیز کارآمد ہے۔صحابہ نے جنگل کے سارے درختوں کے نام گنوادیئے مگر یہ پہیلی بوجھ نہ سکے۔حضورؐ نے فرمایا یہ کھجور کا درخت ہے۔جس کی مثال مومن کے وجود سے دی جاسکتی ہے۔

(بخاری کتاب العلم باب الحیاء فی العلم )

یعنی جس طرح کھجور کا درخت تن تنہا میدان یا صحراء میں کھڑا آندھیوں طوفانوں کے تھپیڑے برداشت کرتاہے۔ اس کاپودا کچھ تقاضا نہیں کرتامگر دھوپ میں سایہ دیتا ہے،پھل بھی دیتا ہے،اس کے پتے بھی کام آتے ہیں اور تنا بھی۔ اسی طرح مومن کا وجود بھی نافع الناس ہوتا ہے۔
حضر ت زید بن ثابت ؓ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔

“اللہ تعالیٰ اس وقت تک انسان کی ضرورتیں پوری کرتا رہتا ہے جب تک کہ وہ اپنے مسلمان بھائی کی حاجت روائی کے لئے کوشاں رہے۔”

(حدیقۃ الصالحین صفحہ643 از ملک سیف الرحمان)

حضرت ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرتﷺ نے فرمایا۔
“جس شخص نے کسی مسلمان کی دنیاوی بے چینی اور تکلیف کو دور کیا۔ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کی بے چینیوں اور تکلیفوں کو اس سے دور کرے گا۔ اور جس شخص نے کسی تنگدست کو آرام پہنچایا اور اس کے لئے آسانی مہیا کی اللہ تعالیٰ آخرت میں اس کے لئے آسانیاں مہیا کرے گا۔ جس نے کسی مسلمان کی پردہ پوشی کی اللہ تعالیٰ آخرت میں اس کی پردہ پوشی کرے گا۔ اللہ تعالیٰ اس بندے کی مدد پر تیار رہتا ہے جو اپنے بھائی کی مدد کے لئے تیار ہو۔”

(مسلم کتاب الذکر باب فضل الاجتماع علی تلاوۃالقرآن وعلی الذکر)

بےبہا کاموں میں یہ بھی کام آنا چاہئے
خدمتِ آدم میں بھی تو نام آنا چاہئے
چاہتے ہو گر خدا کی تم عنایت بار بار
آدمی کو آدمی کے کام آنا چاہئے

حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں۔
“پس تم جو میرے ساتھ تعلق رکھتے ہو۔ یاد رکھو کہ تم ہر شخص سے خواہ وہ کسی مذہب کا ہو‘ ہمدردی کرو اور بلاتمیز ہر ایک سے نیکی کرو کیونکہ یہی قرآن شریف کی تعلیم ہے۔”

(ملفوظات جلد4 صفحہ219)

حضرت بانیٔ سلسلہ احمدیہ اپنے منظوم فارسی کلام میں اپنی بعثت کا مقصد بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:۔

مَرا مطلوب و مقصود و تمنّا خدمتِ خلق است
ہمیں کارم ہمیں بارم ہمیں رسمم ہمیں راہم

یعنی میری زندگی کی سب سے بڑی تمنا اور خواہش خدمت خلق ہے۔ یہی میرا کام، یہی میری ذمہ داری، یہی میرا فریضہ اور یہی میرا طریقہ ہے۔

حضور علیہ السلام نے شرائط بیعت میں بھی اس بات کو شامل کیا ہے۔
شرائط بیعت میں چوتھی شرط ہے۔ “یہ کہ عام خلق اللہ کو عموماً اور مسلمانوں کو خصوصاً اپنے نفسانی جوشوں سے کسی نوع کی ناجائز تکلیف نہیں دے گا، نہ زبان سے نہ ہاتھ سے نہ کسی اور طرح سے” اورنہم شرط ہے۔ “یہ کہ عام خلق اللہ کی ہمدردی میں محض للہ مشغول رہے گا اور جہاں تک بس چل سکتا ہے اپنی خدا داد طاقتوں اور نعمتوں سے بنی نوع کو فائدہ پہنچائے گا۔”

حضرت مفتی محمد صادق روایت کرتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود اکثر فرمایا کرتے تھے کہ “ہمارے بڑے اصول دوہیں۔ اول خدا کے ساتھ تعلق صاف رکھنا اور دوسرے اس کے بندوں کے ساتھ ہمدردی اور اخلاق سے پیش آنا۔”

(ذکر حبیب صفحہ180)

سیدناحضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں۔
“ آنحضرت ﷺ کی طرف دیکھو کہ کس قدر خدمات میں عمر کو گزارا اور حضرت علیؓ کی حالت کو دیکھو کہ اتنے پیوند لگائے کہ جگہ نہ رہی۔ حضرت ابوبکرؓ نے ایک بڑھیا کو ہمیشہ حلوہ کھلانا وطیرہ کررکھا تھا۔ غور کرو کہ یہ کس قدر التزام تھا۔ جب آپ فوت ہوگئے تو اس بڑھیا نے کہا کہ آج ابوبکرؓ فوت ہوگیا۔ اس کے پڑوسیوں نے کہا کہ کیا تجھ کو الہام ہوا یا وحی ہوئی؟ تو اس نے کہا نہیں آج حلوا لے کر نہیں آیا اس واسطے معلوم ہوا کہ فوت ہوگیا۔ یعنی زندگی میں ممکن نہ تھا کی کسی حالت میں بھی حلوا نہ پہنچے۔ دیکھو کس قدر خدمت تھی۔ ایسا ہی سب کو چاہیے کہ خدمتِ خلق کرے۔”

(ملفوظات جلد 3صفحہ 369۔370)

حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں۔
“میری تو یہ حالت ہے کہ اگر کسی کو درد ہوتا ہو اور میں نماز میں مصروف ہوں ۔ میرے کان میں اس کی آواز پہنچ جاوے تو میں یہ چاہتا ہوں کہ نماز توڑ کر بھی اگر اس کو فائدہ پہنچا سکتا ہوں تو فائدہ پہنچاؤں اور جہاں تک ممکن ہے اس سے ہمدردی کروں۔ یہ اخلاق کے خلاف ہے کہ کسی بھائی کی مصیبت اور تکلیف میں اس کا ساتھ نہ دیا جاوے۔ اگر تم کچھ بھی اس کے لئے نہیں کر سکتے تو کم از کم دعا ہی کرو۔اپنے تو درکنار ، میں تو کہتا ہوں کہ غیروں اور ہندوؤں کے ساتھ بھی ایسے اخلاق کا نمونہ دکھاؤ اور ان سے ہمدردی کرو۔ لاابالی مزاج ہرگز نہیں ہونا چاہئے۔

(ملفوظات جلد 4 صفحہ 82۔83)

یہی وہ تعلیم تھی جس کے نتیجہ میں جماعت احمدیہ نے جذبہ ہمدردی سے سرشار ہو کر سب سے زیادہ توجہ خدمت خلق کی طرف دی۔مخلوق ِخدا سے ہمدردی اور ان کی مصیبتوں کو دور کرنا جماعت احمدیہ کے بنیادی مقاصد میں شامل ہے۔

چنانچہ خدمت خلق جماعت احمدیہ کی تاریخ کا ایک سنہری باب ہے۔اس وقت اللہ تعالیٰ کے فضل سے خلافتِ خامسہ کے بابرکت دَور میں جماعتِ احمدیہ خیرِ اُمت بنتے ہوئے دنیا بھر میں بسنے والے انسانوں کی بھلائی کے لئے کام کررہی ہے۔ جماعت کی تنظیم ہیومینٹی فرسٹ دنیا بھر میں دکھی انسانیت کی خدمت کرنے کی توفیق پارہی ہے ۔

انفرادی طور پر خدمتِ خلق کے بہت سے مواقع ہماری زندگی میں آتے ہیں جب ہم دوسروں کی خدمت کرکے اللہ تعالیٰ کو خوش کرسکتے ہیں ۔ کسی بھی بات کو معمولی نہ سمجھیں ۔مسافر کی مدد کرنا ، غریب کو کھانا کھلانا ،غرباء کو کپڑے وغیرہ دینا،ایسے طالبعلم جو اپنی تعلیم کے اخراجات برداشت نہ کرسکتے ہوں ان کی مدد کرنا ،چرند پرند کے لئے خوراک کا انتظام کرنا ،غرض کہ ایسے بہت سے کام ہیں جن کو کرکے ہم خدمتِ خلق کرنے والوں میں شامل ہوسکتے ہیں ۔

خدمت خلق کے لئے ضروری نہیں کہ آپ کے پاس مال ہو کیونکہ صرف مالی مددکرنا ہی خدمت خلق نہیں بلکہ کسی کی عیادت کرنا،کسی کی رہنمائی کرنا ، کسی کو تعلیم دینا ،کوئی ہنر سکھانا ،بے روزگار کی کام تلاش کرنے میں مدد کرنا،اچھا اور مفید مشورہ دینا، راستے سے تکلیف دہ چیز ہٹانا،نیکیوں کا حکم دینا اور برائیوں سے روکنا، کسی کے لئے دعا کرنا،یہ تمام امور خدمت خلق میں آتے ہیں ۔

خدمت خلق یہ بھی ہے کہ آپ کی ذات سے کسی کو تکلیف نہ پہنچے۔نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے۔ مسلمان وہ ہے جس کے ہاتھ اور زبان سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں۔

خدمت خلق انسان دوستی کا دوسرا نام ہے۔جدید تحقیق سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ دوسروں کی مدد کرنے والے انسانوں کا ذہنی دباؤ کم ہوتا ہے ،دوسروں کا درد رکھنے والوں کے دل زیادہ صحت مند ہوتے ہیںاور ایساانسان مختلف امراض سے محفوظ رہتا ہے ۔خدا کی رحمت کے مستحق وہی لوگ ہوتے ہیں جو اس کی مخلوق کے حق میں مہربان ہوتے ہیں۔ایسے محبوب اور پیارے لوگ ہی کسی معاشرے کا حقیقی سرمایہ ہوتے ہیں ۔ لوگوں کی خدمت سے انسان نہ صرف لوگوں کے دلوں میں بلکہ اللہ تعالیٰ کے ہاں بھی عزت و احترام پاتا ہے۔

مولانا رومیؒ فرماتے ہیں کہ “خدا تک پہنچنے کے بہت سے راستے ہیں لیکن میں نے خدا کا پسندیدہ راستہ مخلوق سے محبت کو چُنا۔”

دنیا میں ایسی انمول ہستیاں بھی ہیں جو کہ مخلوق کی بھلائی کے لئے ایسی ایسی بے مثال خدمات سر انجام دیتی ہیں کہ رہتی دنیا تک ان کا نام امر ہوجاتا ہے اور خدمتِ انسانیت کے لئے کئے گئے ان کے کام صدقہ جاریہ کا روپ دھارلیتے ہیں۔

کاش ہم میں بھی ہو پیدا وہی انداز لگن
تاکہ دنیا بھی عقیدت سے ہمیں یاد کرے

ہمیں چاہئے کہ ہم سراپا خیر بن کر فلاح انسانیت کے لئے کام کریںتاکہ یہ معاشرہ جنت نظیر بن جائے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے۔

ہیں لوگ وہی جہاں میں اچھے
آتے ہیں جو کام دوسروں کے

(حافظ عبدالحمید)

پچھلا پڑھیں

آج کی دعا

اگلا پڑھیں

توبہ کی دوسری شرط ندم ہے