• 25 اپریل, 2024

خلیفہ وقت کی باتوں پر لبیک کہنا یہ ہر احمدی کی ذمہ داری ہے

خلیفہ وقت کی باتوں پر لبیک کہنا یہ ہر احمدی کی ذمہ داری ہے
اور یہی چیز جماعت کی اکائی کو بھی قائم رکھ سکتی ہے

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:
یہ بھی واضح کر دوں کہ عہدیداران کا آپس کا رویہ اور سلوک بھی ایک دوسرے کے ساتھ بہت اچھا ہونا چاہئے، معیاری ہونا چاہئے۔ یہ بھی بہت ضروری ہے اور یہ کاموں میں برکت ڈالنے کے لئے انتہائی ضروری ہے۔ اگر پھوٹ پڑی رہے، ایک دوسرے سے اختلافات بڑھتے چلے جائیں، عزتوں اور اَناؤں کا سوال پیدا ہوتا چلا جائے، صبر اور حوصلہ کم ہوتا جائے تو پھر نتیجے بہت منفی قسم کے نکلتے ہیں۔ حضرت خلیفۃ المسیح الاول رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایک آیت کی تفسیر میں ایک واقعہ بیان کیا کہ ایک رئیس تھا، اُس کے پاس کسی شخص نے شکایت کی کہ آپ کا جو فلاں عزیز ہے یا امیر زادہ ہے اُس نے مجھے بڑی گالیاں دی ہیں۔ اُس رئیس نے اُس کو (دوسرے شخص کو، امیرزادے کو) بلایا اور اُس کو بے انتہا گالیاں دیں اور وہ خاموشی سے سنتا رہا۔ اُس کے بعد رئیس نے اُسے کہا کہ تم نے اس شخص کو کیوں گالیاں دیں؟ تو وہ امیر زادہ کہنے لگا کہ اس شخص نے پہلے مجھے برا بھلا کہا تھا اور مجھ سے صبر نہیں ہو سکا اس لئے میں نے اس کو گالیاں دیں۔ تو اُس رئیس نے اُسے کہا کہ مَیں نے تمہیں گالیاں دیں اور تم خاموشی سے سنتے رہے۔ اس کا مطلب ہے یہ بات نہیں کہ تم میں صبر نہیں تھا۔ تم میں صبر تھا تو تم میری باتیں سنتے رہے۔ صرف اس لئے تم نے اس کو گالیاں دیں اور ضرورت سے زیادہ برا بھلا کہہ دیا کہ وہ تمہارے سے کم تر تھا یا تم اُس کو کمتر سمجھتے تھے اور اگر تم صبر دکھاتے، جو دکھا سکتے تھے اور یہی تم نے میرے سامنے دکھایا جب مَیں نے تمہارے صبر کا ٹیسٹ لیا۔

(ماخوذ از حقائق الفرقان جلد اول صفحہ454 سورۃ آل عمران زیر آیت نمبر18)

پس صبر دکھانے کے یہ ہمارے معیار ہیں کہ جس طرح ہم اونچے کے سامنے صبر کرتے ہیں، اپنی حیثیت سے بڑے کے سامنے یا طاقتور کے سامنے ہم صبر کرتے ہیں، کمزور یا اپنے برابر والے سے بھی اتنا ہی صبر دکھائیں تو تبھی ہم ہر قسم کے فتنے اور فساد ختم کر سکتے ہیں۔ دنیا کو ہم نصیحت کرتے ہیں، اسلام کی خوبصورت تعلیم بتاتے ہیں، لیکن وقت آنے پر ہم میں سے وہ اکثریت ہے جو صبر کا دامن چھوڑ دیتی ہے۔ اگر ہم یہ معیار حاصل کر لیں تو ہماری تبلیغ کے میدان بھی مزید کھلتے چلے جائیں گے۔

عام افرادِ جماعت یہ نہ سمجھیں کہ یہ ساری واقفینِ زندگی اور عہدیداران کی ذمہ داریاں ہیں، آپس میں محبت و پیار کو بڑھانا، صلح اور صفائی کو قائم رکھنا، اللہ تعالیٰ کی رسی کو مضبوطی سے پکڑے رکھنا، اللہ تعالیٰ اور اُس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی باتوں کو سننا اور اُن پر عمل کرنا، حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی تعلیم کے مطابق اپنے تقویٰ کے معیار بڑھانا، خلیفہ وقت کی باتوں پر لبیک کہنا یہ ہر احمدی کی ذمہ داری ہے اور یہی چیز جماعت کی اکائی کو بھی قائم رکھ سکتی ہے۔ عہدیداران کی عزت و احترام کرنا اور جماعتی معاملات میں اُن کی اطاعت کرنا یہ ہر فردِ جماعت پر فرض ہے۔ آپس کے تعلقات میں گھروں میں بھی اور باہر بھی اپنے اعلیٰ اخلاق کے نمونے قائم کرنا، ہر احمدی کی ذمہ داری ہے۔ تبھی آگ کے گڑھے میں گرنے سے بچائے جائیں گے اور پھر صرف خدا تعالیٰ نے یہی نہیں کہا کہ تبلیغ صرف مبلغین کا کام ہے یا چند اُن لوگوں کا کام ہے جو اپنے آپ کو دعوتِ الی اللہ کے لئے پیش کر دیتے ہیں۔ بیشک اللہ تعالیٰ نے ایک گروہ کا ذکر کیا ہے لیکن دعوتِ الی اللہ کے بارے میں عام حکم ہے۔ اگر ہمیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ہر حکم کے پیروی کرنے اور اسوہ پر چلنے کا اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے تو تبلیغ کے کام میں بھی پیروی کرنی ہو گی۔

مَیں نے جو تیسری آیت سورۃ نحل کی پڑھی، اُس میں اللہ تعالیٰ نے یہی فرمایا ہے اور یہ ذمہ داری ہم پر ڈالی ہے۔ یہ ہر ایک کی ذمہ داری ہے، ہر مربی کی، ہر عہدیدار کی، ہر فردِ جماعت کی، مرد کی اور عورت کی کہ خدا کے راستے کی طرف بلائیں اور پھر بلانے کا طریق بھی بتا دیا۔ فرمایا کہ حکمت سے خدا تعالیٰ کی طرف بلاؤ۔

(خطبہ جمعہ 5؍اپریل 2013ء بحوالہ الاسلام ویب سائٹ)

پچھلا پڑھیں

اعلانِ ولادت

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 21 مئی 2022