• 18 مئی, 2024

’’اولاد کو مہمان سمجھنا چاہئے‘‘ (حضرت مسیح موعودؑ)

’’اولاد کو مہمان سمجھنا چاہئے‘‘
’’یہ (اولاد) سب خدا تعالیٰ کا مال ہے اور ہمارا اس میں کچھ تعلق نہیں‘‘ (حضرت مسیح موعودؑ)

گزشتہ دنوں سوشل میڈیا پر پاکستان میں موجودہ سیاست کے کلچر میں گالی گلوچ کو پروان چڑھتے اور نوجوانوں کی اخلاقیات کے تباہ ہونے کے امکانات کے حوالے سے ایک میسج گردش کرتے دیکھا۔ جس کا خلاصہ یہ تھا کہ المیہ یہ نہیں کہ سیاست میں بڑھتے ہوئے گالم گلوچ کے کلچر سے نوجوان بگڑ رہا ہے اور ان کے اخلاق تباہ ہو رہے ہیں بلکہ اس سے بڑھ کر یہ زیادہ فکر والی بات ہے کہ ہم مستقبل میں آنے والی نسلوں کے لئے آوارہ، بگڑے ہوئے اور گالم گلوچ کرنے والے ماں باپ سوسائٹی میں چھوڑ کے جا رہے ہیں۔ ابھی خاکسار اس پوسٹ کے حوالے سے اپنے ذہن میں منتشر خیالات کو یکجا کرنے میں مصروف تھا کہ ملفوظات کے مطالعہ کے دوران اولاد کے حوالے سے چند اقتباسات خاکسار کی نظر سے گزرے تو اس مضمون میں چمک آ گئی۔ کیونکہ حضرت مسیح موعودؑ اور ہمارے خلفاء کے تربیت اولاد کے بارے میں ارشادات کو یکجائی طور پر دیکھیں تو یہی نتیجہ نکلتا ہے کہ اپنی اولادوں اور نسلوں کی ایسی تربیت و اصلاح کریں کہ وہ مستقبل کے معمار بن کر اپنی اولادوں کو درست سمت میں ڈالتے ہوئے ان کی تعلیم و تربیت کریں۔ ہم میں سے ہر ایک کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ ان کی اولاد ہو۔ اگر بیٹیاں ہی بیٹیاں ہیں اور خود انسان جائیدادوں اور زمینوں کا مالک ہے تو نرینہ اولاد کی خواہش ہوتی ہے اور وہ اس خواہش کو پورا کرنے کے لیے دعاؤں اور دواؤں کا سہارا لیتاہے۔ بزرگوں سے دعائیں کرواتا ہے اور حکماء و ڈاکٹرز سے ادویات لیتا اور بسا اوقات دوسری، تیسری شادی بھی کرتا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے ایک دوست منشی عبدالحق پٹیالوی صاحب نے اپنے ہاں نرینہ اولاد کے لیے دعا کی درخواست کی۔ اس موقع پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جو لطیف اور پُر مغز تقریر فرمائی وہ اس اداریہ کے ذریعے ہدیہ قارئین الفضل کی جاتی ہے۔

آپؑ فرماتے ہیں۔
’’انسان کو سوچنا چاہئے کہ اسے اولاد کی خواہش کیوں ہوتی ہے؟ کیونکہ اس کو محض طبعی خواہش ہی تک محدود نہ کر دینا چاہئے کہ جیسے پیاس لگتی ہے یا بھوک لگتی ہے۔ لیکن جب یہ ایک خاص اندازہ سے گزر جاوے تو ضرور اس کی اصلاح کی فکر کرنی چاہئے۔ خدا تعالیٰ نے انسان کو اپنی عبادت کے لیے پیدا کیا ہے۔ جیسا کہ فرمایا ہے۔

وَمَا خَلَقۡتُ الۡجِنَّ وَالۡاِنۡسَ اِلَّا لِیَعۡبُدُوۡنِ

(الذاریات: 57)

اب اگر انسان خود مومن اور عبد نہیں بنتا ہے اور اپنی زندگی کے اصل منشاء کو پورا نہیں کرتا ہے۔ اور پورا حق عبادت ادا نہیں کرتا۔ بلکہ فسق و فجور میں زندگی بسر کرتا ہے اور گناہ پر گناہ کرتا ہے تو ایسے آدمی کی اولاد کے لیے خواہش کیا نتیجہ رکھے گی۔ صرف یہی کہ گناہ کرنے کے لیے وہ اپنا ایک اور خلیفہ چھوڑنا چاہتا ہے۔ خود کونسی کمی کی ہے جو اولاد کی خواہش کرتا ہے۔ پس جب تک اولاد کی خواہش محض اس غرض کے لیے نہ ہو کہ وہ دیندار اور متقی ہو اور خداتعالیٰ کی فرماں بردار ہو کر اس کے دین کی خادم بنے بالکل فضول بلکہ ایک قسم کی معصیت اور گناہ ہے اور باقیات صالحات کی بجائے اس کا نام باقیات سئیات رکھنا جائز ہو گا۔ لیکن اگر کوئی شحض یہ کہے کہ میں صالح اور خدا ترس اور خادم دین اولاد کی خواہش کرتا ہوں تو اس کا یہ کہنا بھی نرا ایک دعویٰ ہی دعویٰ ہو گا جب تک کہ وہ خود اپنی حالت میں ایک اصلاح نہ کرے۔ اگر خود فسق و فجور کی زندگی بسر کرتا ہے اور منہ سے کہتا ہے کہ میں صالح اور متقی اولاد کی خواہش کرتا ہوں تو وہ اپنے اس دعویٰ میں کذّاب ہے۔ صالح اور متقی اولاد کی خواہش سے پہلے ضروری ہے کہ وہ خود اپنی اصلاح کرے اور اپنی زندگی کو متقیانہ زندگی بنا وے۔ تب اس کی ایسی خواہش ایک نتیجہ خیز خواہش ہو گی اور ایسی اولاد حقیقت میں اس قابل ہو گی کہ اس کو باقیات صالحات کا مصداق کہیں لیکن اگر یہ خواہش صرف اس لیے ہو کہ ہمارا نام باقی رہے اور وہ ہمارے املاک و اسباب کی وارث ہو یا وہ بڑی نامور اور مشہور ہو۔ اس قسم کی خواہش میرے نزدیک شرک ہے۔ یاد رکھو کسی نیکی کو کبھی اس لیے نہیں کرنا چاہئے کہ اس نیکی کے کرنے پر ثواب یا اجر ملے گا۔ کیونکہ اگر محض اس خیال سے نیکی کی جاوے تو وہ ابتغاء لمرضات اللّٰہ نہیں ہوسکتی بلکہ اس ثواب کی خاطر ہو گی اور اس سے اندیشہ ہو سکتا ہے کہ کسی وقت وہ اسے چھوڑ بیٹھے۔ مثلاً اگر کوئی شخص ہر روز ہم سے ملنے کو آوے اور ہم اس کو ایک روپیہ دے دیا کریں تو وہ بجائے خود یہی سمجھے گا۔ کہ میرا جانا صرف روپے کے لیے ہے جس دن سے روپیہ نہ ملے اسی دن سے آنا چھوڑ دے گا۔ غرض یہ ایک قسم کا باریک شرک ہے۔ اس سے بچنا چاہئے۔ نیکی کو محض اس لیے کرنا چاہئے کہ خدا تعالیٰ خوش ہو اور اس کی رضا حاصل ہو اور اس کے حکم کی تعمیل ہو۔ قطع نظر اس کے کہ اس پر ثواب ہو یا نہ ہو۔

ایمان تب ہی کامل ہوتا ہے جبکہ یہ وسوسہ اور وہم درمیان سے اٹھ جاوے۔ اگرچہ یہ سچ ہے کہ خدا تعالیٰ کسی کی نیکی کو ضائع نہیں کرتا۔ اِنَّ اللّٰہَ لَا یُضِیۡعُ اَجۡرَ الۡمُحۡسِنِیۡنَ

(التوبہ: 120)

مگر نیکی کرنے والے کو اجر مدنظر نہیں رکھنا چاہئے۔ دیکھو اگر کوئی مہمان یہاں محض اس لیے آتا ہے کہ وہاں آرام ملے گا۔ ٹھنڈے شربت ملیں گے یا تکلف کے کھانے ملیں گے۔ تو وہ گویا ان اشیاء کے لیے آتا ہے۔ حالانکہ خود میزبان کا فرض ہوتا ہے کہ وہ حتی المقدور ان کی مہمان نوازی میں کوئی کمی نہ کرے اور اس کو آرام پہنچاوے اور وہ پہنچاتا ہے۔ لیکن مہمان کا خود ایسا خیال کرنا اس کے لیے نقصان کا موجب ہے۔ تو غرض مطلب یہ ہے کہ اولاد کی خواہش صرف نیکی کے اصول پر ہونی چاہئے۔ اس لحاظ سے اور خیال سے نہ ہو کہ وہ ایک گناہ کا خلیفہ باقی رہے۔ خدا تعالیٰ بہتر جانتا ہے کہ مجھے کبھی اولاد کی خواہش نہیں ہوئی تھی۔ حالانکہ خدا تعالیٰ نے پندرہ یا سولہ برس کی عمر کے درمیان ہی اولاد دے دی تھی۔ یہ سلطان احمد اور فضل احمد قریباً اسی عمر میں پیدا ہو گئے تھے اور نہ کبھی مجھے یہ خواہش ہوئی کہ وہ بڑے بڑے دنیا دار بنیں۔ اور اعلیٰ عہدوں پر پہنچ کر مامور ہوں۔ غرض جو اولاد معصیت اور فسق کی زندگی بسر کرنے والی ہو۔ اس کی نسبت تو سعدی رحمہ اللہ کا یہ فتویٰ ہی صحیح معلوم ہوتا ہے۔

کہ پیش از پدر مُردہ بہ ناخلف

پھر ایک اور بات ہے کہ اولاد کی خواہش تو لوگ بڑی کرتے ہیں اور اولاد ہوتی بھی ہے۔ مگر یہ کبھی نہیں دیکھا گیا کہ وہ اولاد کی تربیت اور ان کو عمدہ اور نیک چلن بنانے اور خدا تعالیٰ کے فرماں بردار بنانے کی سعی اور فکر کریں۔ نہ کبھی ان کے لیے دعا کرتے ہیں اور نہ مراتب تربیت کو مدنظر رکھتے ہیں۔ میری اپنی تو یہ حالت ہے کہ میری کوئی نماز ایسی نہیں ہے جس میں اپنے دوستوں اور اولاد اور بیوی کے لیے دعا نہیں کرتا۔ بہت سے والدین ایسے ہیں جو اپنی اولاد کو بری عادتیں سکھا دیتے ہیں۔ ابتدا میں جب وہ بدی کرنا سیکھنے لگتے ہیں تو انکو تنبیہہ نہیں کرتے۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ دن بدن دلیر اور بے باک ہوتے جاتے ہیں۔ ایک حکایت بیان کرتے ہیں کہ ایک لڑکا اپنے جرائم کی وجہ سے پھانسی پر لٹکایا گیا۔ اس آخری وقت میں اس نے خواہش کی کہ میں اپنی ماں سے ملنا چاہتا ہوں۔ جب اس کی ماں آئی تو اس نے ماں کے پاس جا کر اسے کہا کہ میں تیری زبان کو چوسنا چاہتا ہوں۔ جب اس نے زبان نکالی تو اسے کاٹ کھایا۔ دریافت کرنے پر اس نے کہا کہ اسی ماں نے مجھے پھانسی پر چڑھایا ہے کیونکہ اگر یہ مجھے پہلے ہی روکتی تو آج میری یہ حالت نہ ہوتی۔ حاصل کلام یہ ہے کہ لوگ اولاد کی خواہش تو کرتے ہیں مگر نہ اس لیے کہ وہ خادم دین ہو بلکہ اس لیے کہ دنیا میں ان کا کوئی وارث ہو اور جب اولاد ہوتی ہے تو اس کی تربیت کا فکر نہیں کیا جاتا۔ نہ اس کے عقائد کی اصلاح کی جاتی ہے اور نہ اخلاقی حالت کو درست کیا جاتا ہے۔ یہ یاد رکھو کہ اس کا ایمان درست نہیں ہو سکتا جو اقرب تعلقات کو نہیں سمجھتا۔ جب وہ اس سے قاصر ہے تو اور نیکیوں کی امید اس سے کیا ہو سکتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اولاد کی خواہش کو اس طرح پر قرآن میں بیان فرمایا ہے۔

رَبَّنَا ھَبۡ لَنَا مِنۡ اَزۡوَاجِنَا وَذُرِّیّٰتِنَا قُرَّۃَ اَعۡیُنٍ وَّاجۡعَلۡنَا لِلۡمُتَّقِیۡنَ اِمَامًا یعنی خدا ہم کو ہماری بیویوں اور بچوں سے آنکھ کی ٹھنڈک عطا فرماوے۔ اور یہ تب ہی میسر آسکتی ہے کہ وہ فسق و فجور کی زندگی بسر نہ کرتے ہوں بلکہ عباد الرحمن کی زندگی بسر کرنے والے ہوں اور خدا کو ہر شے پر مقدم کرنے والے ہوں اور آگے کھول کر کہہ دیا وَاجۡعَلۡنَا لِلۡمُتَّقِیۡنَ اِمَامًا اولاد اگر نیک اور متقی ہو تو یہ ان کا امام ہی ہو گا۔ اس سے گویا متقی ہونے کی بھی دعا ہے‘‘

(ملفوظات جلد2 صفحہ370-373 ایڈیشن 1984ء)

* اسی مضمون کو حضرت مسیح موعودؑ نے قرآن کے حوالہ سے یوں بیان فرمایا کہ اولاد کو صالح بنانے کے لئے والدین کا صالح ہونا ضروری ہے۔ خضر اور موسی علیہما السلام نے جب یتیم بچوں کی دیوار گرائی وہاں یہ نہیں لکھا کہ یتیم بچے نیک تھے بلکہ فریا کہ ان دونوں کا والد صالح تھا پس اس حوالے سے آپ ایسے لوگوں کے لیے جو اولاد کے متمنی تو ہوتے ہیں مگر تربیت ایسی نہیں کر پاتے کہ اولاد امتحان اور ابتلاء کا ذریعہ بن جاتی ہے۔ فرماتے ہیں
’’اولاد کا ابتلا بھی بہت بڑا ابتلا ہے۔ اگر اولاد صالح ہو تو پھر کس بات کی پروا ہو سکتی ہے۔ خدا تعالیٰ خود فرماتا ہے۔

وَھُوَ یَتَوَلَّی الصّٰلِحِیْنَ

(الاعراف: 197)

یعنی اللہ تعالیٰ آپ صالحین کا متولی اور متکفل ہوتا ہے۔ اگر بد بخت ہے تو خواہ لاکھوں روپیہ اس کے لیے چھوڑ جاؤ۔ وہ بدکاریوں میں تباہ کر کے پھر قلاش ہو جائے گی اور ان مصائب اور مشکلات میں پڑے گی جو اس کے لئے لازمی ہیں۔ جو شخص اپنی رائے کو خدا تعالیٰ کی رائے اور منشا سے متفق کرتا ہے وہ اولاد کی طرف سے مطمئن ہو جاتا ہے اور وہ اسی طرح پر ہے کہ اس کی صلاحیت کے لیے کُوشش کرے اور دعائیں کرے۔ اس صورت میں خود اللہ تعالیٰ اس کا تکفل کرے گا اور اگر بدچلن ہے تو جائے جہنم میں اس کی پروا تک نہ کرے۔ حضرت داؤد علیہ السلام کا ایک قول ہے کہ میں بچہ تھا۔ جوان ہوا۔ اب بوڑھا ہو گیا۔ میں نے متقی کو کبھی ایسی حالت میں نہیں دیکھا کہ اسے رزق کی مار ہو اور نہ اس کی اولاد کو ٹکڑے مانگتے دیکھا۔ اللہ تعالیٰ تو کئی پشت تک رعایت رکھتا ہے۔ پس خود نیک بنو اور اپنی اولاد کے لیے ایک عمدہ نمونہ نیکی اور تقویٰ کا ہو جاؤ اور اس کو متقی اور دیندار بنانے کے لیے سعی اور دعا کرو۔ جس قدر کوشش تم ان کے لیے مال جمع کرنے کی کرتے ہو اسی قدر کوشش اس امر میں کرو۔ خوب یاد رکھو کہ جب تک خدا تعالیٰ سے رشتہ نہ ہو اور سچا تعلق اس کے ساتھ نہ ہو جاوے۔ کوئی چیز نفع نہیں دے سکتی۔ یہودیوں کو دیکھو کہ کیا وہ پیغمبروں کی اولاد نہیں؟ یہی وہ قوم ہے جو اس پر ناز کیا کرتی تھی اور کہا کرتی تھی۔ نَحۡنُ اَبۡنٰٓؤُا اللّٰہِ وَاَحِبَّآؤُہٗ (المائدہ: 19) ہم اللہ تعالیٰ کے فرزند اور اس کے محبوب ہیں مگر جب انہوں نے خدا تعالیٰ سے رشتہ توڑ دیا اور دنیا ہی دنیا کو مقدم کر لیا تو کیا نتیجہ ہوا؟ خدا تعالیٰ نے اسے سؤر اور بندر کہا۔ اور اب جو حالت ان کی مال و دولت ہوتے ہوئے بھی ہے وہ کسی سے پوشیدہ نہیں۔ پس وہ کام کرو جو اولاد کے لیے بہترین نمونہ اور سبق ہو اور اس کے لیے ضروری ہے کہ سب سے اول خود اپنی اصلاح کرو۔ اگر تم اعلیٰ درجہ کے متقی اور پرہیز گار بن جاؤ گے۔ اور خدا تعالیٰ کو راضی کر لو گے تو یقین کیا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ تمہاری اولاد کے ساتھ بھی اچھا معاملہ کرے گا۔ قرآن شریف میں خضراور موسیٰ علیہما السلام کا قصہ درج ہے کہ ان دونوں نے مل کر ایک دیوار کو بنا دیا جو یتیم بچوں کی تھی وہاں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَکَانَ اَبُوۡہُمَا صَالِحًا۔ ان کا والد صالح تھا۔ یہ ذکر نہیں کیا کہ وہ آپ کیسے تھے۔ پس اس مقصد کو حاصل کرو۔ اولاد کے لیے ہمیشہ اس کی نیکی کی خواہش کرو۔ اگر وہ دین اور دیانت سے باہر چلے جاویں۔ پھر کیا؟ اس قسم کے امور اکثر لوگوں کو پیش آجاتے ہیں۔ بددیانتی خواہ تجارت کے ذریعہ ہو یا رشوت کے ذریعہ یا زراعت کے ذریعہ جس میں حقوقِ شرکاء کو تلف کیا جاتا ہے۔ اس کی وجہ یہی میری سمجھ میں آتی ہے کہ اولاد کے لیے خواہش ہوتی ہے کیونکہ بعض اوقات صاحب جائیداد لوگوں کو یہ کہتے سنا ہے کہ کوئی اولاد ہو جاوے جو اس جائیداد کی وارث ہوتا کہ غیروں کے ہاتھ میں نہ چلی جاوے مگر وہ نہیں جانتے کہ جب مر گئے تو شرکاء کون اور اولاد کون۔ سب ہی تیرے لیے تو غیر ہیں۔ اولاد کے لیے اگر خواہش ہو تو اس غرض سے ہو کہ وہ خادمِ دین ہو۔ غرض حق العباد میں پیچ در پیچ مشکلات ہیں جب تک انسان ان میں سے نکلے نہیں مومن نہیں ہو سکتا۔ نری باتیں ہی باتیں ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا کسی سے رشتہ ناطہ نہیں۔ اس کے ہاں اس کی بھی کچھ پروا نہیں کہ کوئی سید ہے یا کون ہے۔ آنحضرت ﷺ نے خود فاطمہؓ سے کہا کہ یہ خیال مت کرنا کہ میرا باپ پیغمبر ہے۔ اللہ تعالیٰ کے فضل کے بغیر کوئی بھی بچ نہیں سکتا۔ کسی نے پوچھا کہ کیا آپؐ بھی؟ فرمایا ہاں۔ میں بھی۔ مختصر یہ کہ نجات نہ قوم پر منحصر ہے نہ مال پر بلکہ اللہ تعالیٰ کے فضل پر موقوف ہے اور اس کو اعمالِ صالحہ اور آنحضرت ﷺ کا کامل اتباع اور دعائیں جذب کرتی ہیں۔ قوم کا ابتلا بھی مال کے ابتلا سے کم نہیں۔ بعض لوگ دوسری قوموں کو حقیر سمجھتے ہیں۔ اس ابتلا میں سید سب سے زیادہ مبتلا ہیں ایک عورت گدا گر ہمارے ہاں آئی۔ وہ کہتی تھی میں سیدانی ہوں۔ اس کو پیاس لگی اور پانی مانگا تو کہا کہ پیالہ دھوکر دینا کسی امتی نے پیا ہوگا۔ اس قسم کے خیالات ان لوگوں میں پیدا ہوئے ہوئے ہیں۔ خدا تعالیٰ کے حضور ان باتوں کی کچھ قدر نہیں۔ اس نے فیصلہ کر دیا ہے۔

اِنَّ اَکۡرَمَکُمۡ عِنۡدَ اللّٰہِ اَتۡقٰکُمۡ

(الحجرات: 14)

(ملفوظات جلد8 صفحہ109-111 ایڈیشن 1984ء)

*پھر ایسے لوگ بھی دنیا میں پائے جاتے ہیں جن کے ہاں اولاد ہو جاتی ہے وہ اپنی اولاد سے شرک کی حد تک پیار کرتے ہیں۔ اولاد سے پیار منع نہیں لیکن پیار اور زجر ساتھ ساتھ چلنا چاہئے۔ جس طرح ایک درخت کو زیادہ پانی بھی تباہ کر دیتا ہے اور پانی بالکل نہ دینا یا تھوڑا دینا بھی نقصان دہ ثابت ہوتا ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی جب بچہ سات سال کی عمر کو چھوئے اور نماز نہ پڑھے تو تنبیہہ اور دس سال کی عمر میں زجر کی تعلیم دی ہے۔ ایسے لوگوں سے جب ان کی اولاد چھین لی جاتی ہے تو وہ خدا کو مورد الزام ٹھہرانے لگ جاتے ہیں۔ آپ علیہ السلام اس مضمون کے حوالے سے فرماتے ہیں۔
’’دین کی جڑاس میں ہے کہ ہر امر میں خدا تعالیٰ کو مقدم رکھو۔ دراصل ہم توخدا کے ہیں اور خدا ہمارا ہے اور کسی سے ہم کو کیا غرض ہے کہ ایک نہیں کروڑ اولاد مر جائے پر خدا راضی رہے تو کوئی غم کی بات نہیں۔ اگر اولاد زندہ بھی رہے تو بغیر خدا کے فضل کے وہ بھی موجب ابتلاء ہو جاتی ہے۔ بعض آدمی اولاد کی وجہ سے جیل خانوں میں جاتے ہیں۔ شیخ سعدی علیہ الرحمۃ نے ایک شخص کا قصہ لکھا ہے کہ وہ اولاد کی شرارت کے سبب پابہ زنجیر تھا۔ اولاد کو مہمان سمجھنا چاہئے اس کی خاطر داری کرنی چاہئے۔ اس کی دلجوئی کرنی چاہئے۔ مگر خدا تعالیٰ پر کسی کو مقدم نہیں کرنا چاہئے اولاد کیا بنا سکتی ہے۔ خدا تعالیٰ کی رضا ضروری ہے۔‘‘

(ملفوظات جلد10 صفحہ90 ایڈیشن 1984ء)

*پھر فرماتے ہیں
’’اولاد کا فتنہ ایسا سخت ہے کہ بعض نادان اولاد کے مر جانے کے سبب دہر یہ ہو جاتے ہیں۔ بعض جگہ اولاد انسان کو ایسی عزیز ہو تی ہے کہ وہ اس کے واسطے خدا تعالیٰ کا شریک بن جاتی ہے۔ بعض لوگ اولاد کے سبب سے دہریہ ملحداور بے ایمان بن جاتے ہیں۔ بعضوں کے بیٹے عیسائی بن جاتے ہیں تو وہ بھی اولاد کی خا طر عیسائی ہو جاتے ہیں۔ بعض بچے چھوٹی عمر میں مر جاتے ہیں تو وہ ماں باپ کے واسطے سلب ایمان کا موجب ہو جاتے ہیں۔ لیکن اللہ تعالیٰ ظالم نہیں۔ جب کسی پر صدمہ سخت ہو اور وہ صبر کرے تو جتنا صدمہ ہو اتنا ہی اس کا اجر بھی زیادہ ہو تا ہے۔ خد ا تعالیٰ رحیم غفور اور ستار ہے۔ وہ انسان کو اس واسطے تکلیف نہیں پہنچاتا کہ وہ تکلیف اُٹھا کر دین سے الگ ہو جائے بلکہ تکالیف اس واسطے آتی ہیں کہ انسان آگے قدم بڑھائے۔‘‘

(ملفوظات جلد10 صفحہ84-85 ایڈیشن 1984ء)

*اس مضمون کو ایک اور موقع پر اپنی اولاد کے حوالے سے یوں بیان فرمایا ہے۔
’’ہم نے تو اپنی اولاد وغیرہ کا پہلے ہی سے فیصلہ کیا ہوا ہے کہ یہ سب خدا تعالیٰ کا مال ہے اور ہمارا اس میں کچھ تعلق نہیں اور ہم بھی خدا تعالیٰ کا مال ہیں جہنوں نے پہلے ہی سے فیصلہ کیا ہوتا ہے ان کو غم نہیں ہوا کرتا۔‘‘

(ملفوظات جلد9 صفحہ409)

ہر دور میں خلفاء احمدیت نے تربیت اولاد کے موضوع پر جماعت کو نصائح فرمائی ہیں تاکہ نئی نسلیں بھی اپنے بزرگوں کی نیکیوں پر قائم رہنے والی ہوں اور صراط مستقیم سے ہٹنے والی نہ ہوں اسی ضمن میں حضرت خلیفة المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا۔
’’جماعت اور اسلام کا غلبہ تو اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے بلکہ اللہ تعالیٰ کی تقدیر ہے۔ اس خدا کی تقدیر ہے جو تمام طاقتوں کا مالک خدا ہے اور وہ ناقابلِ شکست اور غالب ہے۔ اگر کوئی ہم میں سے راستے کی مشکلات دیکھ کر کمزوری دکھاتا ہے، اگر ہماری اولادیں ہمارے ایمان میں کمزوری کا باعث بن جاتی ہیں، اگر ہماری تربیت کا حق ادا کرنے میں کمی ہماری اولادوں کو دین سے دور لے جاتی ہے، اگر کوئی ابتلا ہمیں یا ہماری اولادوں کو ڈانواں ڈول کرنے کا باعث بن جاتا ہے تو اس سے دین کے غلبے کے فیصلے پر کوئی فرق نہیں پڑتا۔ ہاں جو کمزوری دکھاتے ہیں وہ محروم رہ جاتے ہیں اور خدا تعالیٰ دوسروں کو سامنے لے آتا ہے، اور لوگوں کو سامنے لے آتا ہے، نئی قومیں کھڑی کر دیتا ہے۔ پس اس اہم بات کواور یہ بہت ہی اہم بات ہے ہمیں ہمیشہ ہر وقت اپنے سامنے رکھنا چاہئے اور اس کو سامنے رکھتے ہوئے اپنی نسلوں کی تربیت کی فکر کی ضرورت ہے۔ سب سے اہم بات اس سلسلے میں ہمارے اپنے پاک نمونے ہیں۔‘‘

(خطبات مسرور جلد8 صفحہ507)

نرینہ اولاد کے لئے ایک دعا

آخر میں اس ایک مقبول دعا کا ذکر کرنا بھی قارئین کےلیے مفید ہو گا۔ یہ دعا علامہ ایچ ایم طارق کی کتاب ادعیة المہدی کے صفحہ نمبر 56۔ 58 پرایک مرید باصفا کی اولا د نرینہ کیلئے خاص مقبول دعا کے عنوان سے درج ہے۔

حضرت خلیفہ نور الدین جمونی صاحب (محقق قبرمسیح) کے ہاں نرینہ اولاد نہ ہوتی تھی۔ ان کی روایت ہے کہ 1893ء میں وہ اپنی دوسری اہلیہ کے ہمراہ قادیان آئے۔ ان کے بطن سے بہت سی اولاد ہوئی جو مرجاتی رہی۔ خلیفہ صاحب نے حضرت مسیح موعود ؑ سے اولاد کے بارہ میں دعا کروائی۔ آپ کی اہلیہ نے بھی حضور ؑ سے اس کے لئے تعویذ مرحمت فرمانے کی درخواست کی۔

حضور ؑ نے انہیں اپنے دست مبارک سے ایک دعا لکھ کردی۔ جو معجزانہ رنگ میں مقبول ٹھہری اور دسمبر 1893 میں خلیفہ صاحب کے ہاں لڑکا پیدا ہوگیا۔ جس کا نام عبدالرحیم رکھا گیا۔ چھ سال کی عمر میں یہ بچہ حضور کی خدمت میں قادیان بغرض زیارت آیا اور اس کی اداسی کے باعث واپسی وطن کے لئے اجازت چاہی گئی تو حضور ؑ نے اسے مخاطب کرکے فرمایا واہ تیرے پیدا ہونے کے لئے ہم رو رو کر دعائیں کرتے رہے اب تُو یہاں رہنے سے تنگ ہے ابھی ہم نے تو تیری دعوت کرنی ہے۔ پھر دوسرے دن حضور نے باغ میں احباب کو اکٹھا کرکے شہتوت بدانہ منگوا کر فرمایا لو میاں تمہاری دعوت ہوگئی۔ بیرسٹر عبدالعزیز خلیفہ نائب امیر کینیڈا انہیں کے خلف الرشید ہیں۔

یہ میاں عبدالرحیم صاحب ریاست جموں کشمیر میں ترقی کرتے کرتے سیکرٹری کے عہدہ تک پہنچے۔

(بحوالہ i الحکم 7 تا 14 نومبر1939ء صفحہ5-6 ازعبدالواحد ایڈیٹر اصلاح، بحوالہiiسیرت احمد از مولوی قدرت اللہ سنوری صفحہ179-180، بحوالہ iii سفرنامہ پیر سراج الحق نعمانی مطبوعہ جون1915 صفحہ 259)

وہ دعا جو انہیں لکھ کر دی گئی اور اب تک غیرمطبوعہ تھی۔ خاکسار کو 3جون 2005ء میں سفر کوئٹہ میں خلیفہ جمیل احمدصاحب وخلیفہ طاہر احمد صاحب سے ملی۔ جو یہ ہے۔

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم

اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ مَجْمَعِ الرَّحْمَۃِ وَبَارِکْ عَلٰی اَحْمَدَ شَفِیْعِ المُذْنِبِیْنَ وَالمُذْنِبَاتِ وَعَلٰی اٰلِہٖ وَاَصْحَابِہٖ اَجْمَعِیْنَِ وَلَا حَوْلَ وَلَاقُوَّۃَ اِلَّا بِاللّٰہِ وَھُوَاَرْحَمُ الرَّحِمِیْنَ وَالْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔مَالِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَاِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ اِھْدِنَاالصِّرَاطِ الْمُسْتَقِیْمَ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَّلَا الضَّآلِیْنَ۔آمین۔

وَالَّذِیۡنَ سُعِدُوۡا فَفِی الۡجَنَّۃِ خٰلِدِیۡنَ فِیۡہَا مَا دَامَتِ السَّمٰوٰتُ وَالۡاَرۡضُ اِلَّا مَا شَآءَ رَبُّکَ ؕ عَطَآءً غَیۡرَ مَجۡذُوۡذٍ ۔رَبِّ ارْحَمْ عَلٰی نُوْرِ دِیْنِ وَامْرَأَتِہٖ وَنَجِّہِمَا مِنْ ھُمُوْ مِہِمَا وَاعْطِ لَھُمَا وَلَدًا صَالِحًا وَاجْعَلْ لَّہُمَا بَرَکَۃً وَّشِفَآءً بِکَتَابِیْ ھٰذَا بِنَبِیّکَ وَکِتَابِکَ وَرَحْمَتِکَ الَّتِیْ لَاتُغَادِرُصَغِیْرَۃً وَّلَا کَبِیْرَۃً رَبِّ فَتَقَبَّلْ دَعْوَتِیْ وَلَا تَذَرْھَا فَرْدًا وَّاَنْتَ خَیْرُالْوَارِثِیْنَ۔ آمِیْن ثُمَّ آمِیْن

ترجمہ: اے اللہ! رحمتیں بھیج محمد ﷺ پر جو رحمت کے جمع ہونے کی جگہ ہیں اور برکتیں بھیج احمدؐ پر جو گناہگار مردوں اور عورتوں کے شفاعت کرنے والے ہیں۔ اور آپ ؐکی آل اور سب اصحاب پر بھی۔ اور کوئی طاقت اور قوت کسی کو حاصل نہیں سوائے اللہ کے اور وہ سب رحم کرنے والوں سے بڑھ کر رحم کرنے والا ہے۔

تمام تعریفیں اللہ کے لئے ہیں جوتمام جہانوں کا رب ہے جو بے حد مہربان اور باربار رحم کرنے والا ہے۔ جزا سزا کے دن کا مالک ہے۔ تیری ہی ہم عبادت کرتے ہیں اور تجھ سے ہی ہم مددمانگتے ہیں۔ ہمیں سیدھی راہ پر چلا۔ ان لوگوں کی راہ پر جن پر تو نے انعام کیا۔ نہ ان لوگوں کی راہ پرجن پر غضب کیا گیا اور نہ گمراہوں کا (راستہ)۔ آمین (قبول فرما)

اور وہ لوگ جو خوش بخت ہیں جنت میں ہونگے وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے جب تک آسمان اور زمین ہیں سوائے اس کے کہ اللہ چاہے۔ یہ انعام نہ ختم ہونے والا ہے۔ میرے رب! رحم کرنوردین اورا س کی بیوی پر اور ان دونوں کو ان کے غموں سے نجات دے اور ان کو نرینہ نیک اولاد عطافرما اور میری اس تحریر کو ان کے لئے برکت اور شفا بنا دے۔ اپنے نبی کے وسیلہ سے اور اپنی کتاب (قرآن) کے طفیل اور اپنی اس رحمت کے صدقے جو کسی چھوٹے اور بڑے گناہ کو نہیں چھوڑتی (مگر ڈھانپ لیتی ہے۔)

میرے رب! میری دعا قبول کر اور ان کو تنہا نہ چھوڑ کہ تو تمام وارثوں سے بہترین وارث ہے۔ (آمین ثم آمین) اے اللہ قبول فرما پھر قبول فرما۔

اللہ کرے کہ ہر صاحب اولاد ان نصائح کو سامنے رکھتے ہوئے اپنی اولاد کو اسی نیکی اور تقوی کے قالب میں ڈھالنے والا ہو۔ اپنی اولاد سے شرک کی حد محبت کرنے سے بچنے والا اور اسے خدا کی امان میں دینے والا ہو اس کے لیے خدا سے گڑگڑا کر دعائیں کرنے والا ہو کہ وہ ہمیشہ سیدھے راستے پر چلنے والی ہو اور امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا خیال رکھنے والی ہو۔ آمین ثم آمین

(ابو سعید)

پچھلا پڑھیں

امام وقت اور خلیفہ کی ضرورت

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 21 جون 2022