• 3 مئی, 2024

قرآنی انبیاء (قسط 18)

قرآنی انبیاء
تو سردار جمیع انبیاء ہے
قسط 18

ہمارے پیارے آقا حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی پر بہت کچھ لکھا گیا ہے۔ آپ کے چاہنے والوں نے ہر دور میں آپ کی محبت کے ابواب رقم کئے ہیں۔ اور حقیقت تو یہ ہے کہ صرف آپ کےماننے والوں پر ہی کیا موقوف آپ کے نہ مانے والے بھی اور وہ لوگ بھی جومذھبا مسلمان نہیں ہیں آپ کی حیرت انگیز خوبیوں والی زندگی کامطالعہ کر کے یہ کہنے پر مجبور ہو جاتے ہیں کہ۔

عشق ہو جائے کسی سے کوئی چارہ تو نہیں
صرف مسلم کا محمد پہ اجاره تو نہیں

آپؐ سے پہلے آنے والے انبیاء محدود علا قوں، مخصوص اقوام اور معین اوقات کے نبی تھے۔ آپ کے آنے سے پہلی مرتبہ دنیا نے ایک عالمگیر نبی کامنہ دیکھا۔ آپ ہر قوم، ہر ملک اور ہر زمانے کے نبی ہیں۔ بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ آپ سے پہلے زمانے بھی آپ ہی کےزمانے تھے اور آپ سے قبل آنے والے انبیاء درحقیقت اس عظیم الشان نبی کے آنے کی تیاری کروانے کیلئے آئے تھے۔

آپؐ واحد نبی ہیں جن کے حالات زندگی پوری تفصیلات کے ساتھ اور مستند تفصیلات کے ساتھ محفوظ ہیں۔ اس لئے آپؐ کی زندگی کے تمام حالات و واقعات کو پوری جزئیات کے ساتھ قلمبند کرنا بہت زیادہ صفحات چاہتا ہے اور صرف آپؐ کی زندگی کے حالات پر ہی کئی جلدوں پر مشتمل کتابیں لکھی جا سکتی ہیں۔ اورلکھی بھی گئی ہیں۔ آئندہ آنے والے صفحات میں آپؐ کی زندگی کے حالات وواقعات مختصر اًبیان کئے گئے ہیں تاکہ انبیاء کا یہ سلسلہ ایک ہی جلد میں مکمل کیا جا سکے۔

ایک لمبے عرصے کے بعد زمزم کا چشمہ جو حضرت اسماعیل کی برکت سے مکہ میں جاری ہوا تھا بند کر دیا گیا۔ ہوا یوں کہ قبیلہ جرھم کے سردار عمرو بن الحرث کو بعض مشکلات کی وجہ سے مکہ چھوڑنا پڑا تو اس نے اپنے قیمتی اموال وغیرہ زمزم کے کنویں میں ڈال کر اسے اوپر سے بند کر دیا اور خود مکہ چھوڑ گیا۔ یہ واقعہ حضرت رسول کریمﷺ کی پیدائش سے کئی سو سال پہلے ہوا تھا اور اس تمام عرصے کے دوران اہل مکہ زمزم کی برکت سے محروم رہے۔ اب اس واقعے کو ایک طویل عرصہ گزر چکا تھا اور لوگ زمزم کو بالکل بھول چکے تھے۔ کہ ایک روز حضرت رسول کریم ﷺ کے دادا حضرت عبد المطلب کو الله تعالیٰ نے خواب میں اس چشمے کے بارے میں بتایا اور اسے کھودنے کا حکم دیا۔ خواب میں ہی آپ کو چشمے کی جگہ کے بارے میں بھی بتایا گیا لیکن معین طور پر جگہ کا پتہ نہ بتایا گیا۔ چنانچہ آپ اپنے بیٹے حارث کے ساتھ اپنے اس خواب کی روشنی میں زمزم کی تلاش میں مصروف ہو گئے۔ علاقے کے لوگ آپ کو زمزم تلاش کرتے دیکھتے تو آپ کا مذاق اڑاتے لیکن آپ کو اپنے خواب پر پورا یقین تھا۔ اس لئے آپ نے تلاش جاری رکھی اور اللہ تعالیٰ سے دعائیں بھی جاری رکھیں اور اسی دوران آپ نے نذر مانی کہ اگر اللہ تعالیٰ مجھے دس بچے دے گا تو میں ان میں سے ایک کو خدا تعالیٰ کی راہ میں قربان کر دوں گا۔

بہر حال یہ تلاش چلتی رہی اور ایک روز واقعی آپ کو چاہ زمزم مل گیا اور زمزم کے ساتھ ہی وہ خزانہ بھی مل گیا جو قبیلہ جرھم کا سردار مکہ چھوڑتے ہوئے زمزم میں دفن کر گیا تھا۔ اس واقعہ نے قریش میں آپ کی عزت بہت بڑھا دی اور سب لوگ آپ کی قدر کرنے لگے۔

اس واقعہ کے بعد کچھ سالوں کے اندر اندر ہی اللہ تعالیٰ نے عبدالمطلب کی وہ دعا بھی پورے طور پر قبول کرلی جو آپ نے دس بیٹوں کے لئے مانگی تھی۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو دس صحت مند اور توانا بیٹے عطا کئے اور آپ بڑی محبت کے ساتھ ان کی پرورش کرنے لگے۔ جب بچے کچھ بڑے ہو گئے تو حضرت عبد المطلب کو اپنی وہ بات یادآئی جو انہوں نے بچوں کی پیدائش سے پہلے کی تھی کہ اے اللہ! اگر میرے دس بچے ہوں گے تو میں ان میں سے ایک کو تیری راہ میں قربان کر دوں گا۔ اب یہ نذر بار بارانہیں یاد آرہی تھی اس لئے اس وعدے کو پورا کرنے کیلئے آپ نے اپنے بیٹوں میں سے ایک کو اللہ کی راہ میں قربان کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ قرعہ اندازی کی گئی تو آپ کے سب سے پیارے بیٹے عبداللہ کے نام قرعہ نکلا۔ اب وعدے کے مطابق حضرت عبداللہ کو اللہ کی راہ میں قربان کیا جانا تھا اور حضرت عبد المطلب اس کے لئے بالکل تیار تھے۔

قبیلے کے باقی لوگوں کو جب اس بات کی خبر ہوئی تو وہ سب حضرت عبدالمطلب کے پاس پہنچے کہ آپ یہ کیا غضب کررہے ہیں کہ اپنے اتنے پیارے بیٹے کو قربان کرنا چاه رہے ہیں۔ حضرت عبدالمطلب نے ان کو اپنے وعدے کے بارے میں بتایا اور کہا کہ میں اپنا وعدہ ضرور پورا کروں گا۔ جب انہوں نے محسوس کیا کہ حضرت عبد المطلب اپنے اس وعدے کو ضرور پورا کریں گے تو ایک تعلق دار نے آپ کو مشورہ دیا کہ آپ یوں کریں کہ اپنے اس بیٹے عبداللہ اور دس اونٹوں کے درمیان (جو اس وقت ایک آدمی کا خون بہا ہوا کرتا تھا) قرعہ اندازی کرلیں۔ اگر اونٹوں کے نام قرعہ نکلے تو اونٹ قربان کر دیں اور اگر عبداللہ کے نام قرعہ نکلے تو عبداللہ کو۔

چنانچہ آپ نے ایساہی کیا لیکن قرعہ عبداللہ کے نام نکل آیا۔ حضرت عبد المطلب نے دس اونٹ اور بڑھا دیئے اور پھر قرعہ ڈالا لیکن اس مرتبہ بھی قرعہ عبداللہ کے نام کانکلا۔ یوں اونٹ بڑھاتے بڑھاتے ان کی تعداد ایک سو تک پہنچ گئی۔ جب سو اونٹوں اور عبداللہ کے درمیان قرعہ ڈالا گیا تو قرعہ اونٹوں کے نام نکل آیا۔ جس پر حضرت عبد المطلب کو بہت خوشی ہوئی اور آپ نے فوراً ایک سو اونٹ ذبح کر دیئے۔ حضرت عبد اللہ جوان ہو گئے اور آپ کی شادی قریش کے ایک معزز قبیلے بنو زہرہ کی ایک شریف خاتون حضرت آمنہ سے ہو گئی۔ یہ دونوں میاں بیوی ہمارے پیارے آقا حضرت محمد مصطفی ﷺکے والدین تھے۔

شادی کے تھوڑے عرصے بعد ہی حضرت عبد اللہ ایک تجارتی قافلے کے ساتھ ملک شام گئے۔ جہاں سے واپسی پر راستے میں آپ یثرب یعنی مدینہ کے مقام پر بیمار پڑگئے۔ اور چند دن بعد یہیں انتقال فرما گئے۔ یوں حضرت رسول کریم ﷺ اپنی پیدائش سے پہلے ہی یتیم ہو گئے۔

حضرت رسول کریم ﷺ کی پیدائش 12 ربیع الاول بمطابق 20 اپریل 570ء کوپیر کے دن مکہ میں ہوئی۔ آپ کے دادا حضرت عبدالمطلب کو آپ کی پیدائش کی بےانتہاخوشی تھی۔ آپ حضرت آمنہ کے پاس آئے اور بچے کو ہاتھوں میں لے کر کعبہ کاطواف کیا اور خدا تعالیٰ کا شکر ادا کیا۔ آپ کی والدہ نے آپ کا نام محمد رکھا اور آپ کے دادا نے آپ کا نام احمد رکھا۔

عرب کے معزز قبیلوں کا دستور تھا کہ وہ اپنے بچوں کو پرورش کے لئے شریف خاندانوں کی دیہاتی دائیوں کے سپرد کر دیا کرتے تھے چنانچہ اسی دستور کے مطابق آنحضرت ﷺ کو قبیلہ بنو سعد کی ایک دایہ حلیمہ سعدیہ کے سپرد کر دیا گیا۔ جو آپؐ کو اپنے گاؤں لے گئیں۔ اور آپؐ کی پرورش کرنے لگیں۔ جب رضاعت کی مدت گزرگئی اور دو سال پورے ہو گئے تو حضرت حلیمہ سعدیہ آپ کو واپس آپ کی والدہ کے پاس مکہ لے آئیں۔ لیکن ان دنوں مکہ کی آب و ہوا کچھ خراب تھی جس کی وجہ سے آپ کے بیمار ہونے کا خطرہ تھا۔ اس لئے حضرت حلیمہ سعدیہ نے اصرار کیا کہ بچے کو واپس ان کے گاؤں بھیج دیا جائے۔ چنانچہ ان کے شدید اصرار پر حضرت آمنہ نے دوبارہ بچے کو ان کے سپرد کر دیا اور وہ انہیں لیکر ایک مرتبہ پھر گاؤں آگئیں۔ یوں آپ مزید دو سال تک حضرت حلیمہ سعدیہ کے ساتھ ان کے گھر میں رہے۔

حضرت حلیمہ سعدیہ کی اس چار سالہ خدمت کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیشہ یاد رکھا اور جب بھی کبھی حلیمہ سعدیہ سے آپ کی ملاقات ہوتی آپ انہیں ’’میری ماں‘‘ کہہ کر مخاطب کرتے۔ ان کے اعزاز میں اپنی جگہ سے کھڑے ہو جاتے اور انہیں بیٹھنے کیلئے جگہ دیتے۔ 4 سال کی عمر میں آپ حلیمہ سعدیہ کے پاس سے اپنی والدہ کے پاس آگئے۔ لیکن ابھی آپ کو اپنی والدہ کے پاس رہتے ہوئے دو سال ہی ہوئے تھے کہ حضرت آمنہ آپ کو لیکر اپنے عزیزوں سے ملنے کے لئے یثرب تشریف لے گئیں۔ جہاں آپ نے ایک مہینہ قیام کیا۔ یثرب سے واپسی کے موقع پر راستے میں آپ بیمارپڑ گئیں اور ابواء کے مقام پر اپنے چھ سالہ بچے کو چھوڑ کر اپنے خالق حقیقی سے جاملیں۔ یوں والد کے بعد اب آپ کی والدہ بھی آپ کا ساتھ چھوڑ گئیں تھیں۔

والدہ کے بعد آپ کے دادا حضرت عبد المطلب نے آپ کی کفالت کی اور آپ ان کے ساتھ رہنے لگے۔ حضرت عبد المطلب آپ سے بہت پیار کرتے تھے۔ آپ کو اپنے کندھوں پر اٹھا کر سیر کروایا کرتے تھے۔ اور جب خانہ کعبہ کا طواف کرتے تو اس وقت بھی آپ کو اپنے کندھوں پر اٹھائے رکھتے۔ لیکن یہ شفیق ہستی بھی دو سال بعد آپ کا ساتھ چھوڑ گئی۔ اور آٹھ سال کی عمر میں آپ کے دادا بھی فوت ہو گئے۔ ان چند سالوں میں یہ تیسری محبت کرنے والی ہستی تھی جو آپ سے جدا ہو گئی تھی۔

اب آپؐ کے چچا حضرت ابوطالب نے آپ کی پرورش کا ذمہ لیا۔ اور حضرت عبد المطلب کی وصیت کے مطابق آپ کے کفیل مقرر ہوئے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی اچھی عادات کی وجہ سے ابو طالب بھی آپ سے بہت محبت کرتے تھے۔ اور اپنے بچے ہونے کے باوجود آپ سے انتہائی محبت اور پیار کا سلوک کیا کرتے تھے۔ آپ کا بےانتہا خیال رکھتے تھے اور رات کے وقت آپؐ کو اپنے ساتھ سلایا کرتے تھے۔

آپؐ کی عمر بارہ سال تھی کہ ایک مرتبہ حضرت ابو طالب کو ایک تجارتی قافلے کے ساتھ شام کی طرف جانا پڑا۔ آپؐ کو جب اس بات کا علم ہوا تو آپ اپنے چچا کی محبت میں ان کے ساتھ لپٹ گئے اور آپ سے درخواست کی کہ مجھے بھی اپنے ساتھ لے چلیں۔ حضرت ابو طالب جو آپ سے شدید محبت کرتے تھے آپ کی اس بات کو ٹال نہ سکے اور آپؐ کو اپنے ساتھ لیکر شام کی طرف روانہ ہو گئے۔ جس وقت آپ کاقافلہ سفر کرتا ہوا بصری کے مقام پر پہنچا تو قافلے نے وہاں پڑاؤ کیا۔ اس جگہ ایک عیسائی عالم جس کا نام بحیری تھا رہا کرتا تھا۔ اس عیسائی عالم نے کشفی طور پر بعض ایسی باتیں دیکھیں جن سے اسے معلوم ہو گیا کہ گزشتہ آسمانی کتابوں میں جس عظیم الشان نبی کی آمد کا ذکر ہے وہ پیدا ہو چکا ہے اور اسی قافلے میں موجود ہے۔ چنانچہ اس نے مختلف نشانیوں کے ذریعے آنحضرت ﷺکو پہچان لیا اور آپ ؐ کے چچا حضرت ابوطالب سے کہا کہ یہ بچہ بڑا ہو کر ایک عظیم الشان ہستی بننے والا ہے اس لئے اس کی حفاظت کرنا۔

دن گزرتے گئے اور آپ اپنے چچا کے گھر مکہ میں پرورش پاتے رہے۔ یہاں تک کہ آپ جوان ہو گئے اور آپ نے ارادہ کیا کہ اب اپنے چچا کا ہاتھ بٹائیں اور کوئی کام کاج کریں۔ چنانچہ آپ نے تجارت شروع کردی اور اس سلسلے میں مختلف ممالک کی طرف تجارتی سفر شروع کردیئے۔ آپ نے ان تجارتی سفروں میں ہمیشہ سچائی کو ملحوظ خاطر رکھا۔ اور کبھی بھی جھوٹ دھوکے یا فریب کے ذریعے سے تجارت کرنے کی کوشش نہیں کی آپ ہمیشہ لین دین کے معاملے میں حساب صاف رکھا کرتے تھے۔غرض کاروباری دنیا میں قدم رکھنے کے بعد آپ کی دیانت، امانت، راست گفتاری اورحق گوئی اس طرح مشہور ہو گئی کہ قوم آپ کو صادق اور امین کہنے گی۔ آپ کی یہ اچھی شہرت حضرت خدیجہ تک بھی پہنچی جو مکے کی ایک شریف اور مالدار خاتون تھیں۔ آپ بیوہ تھیں اور اپنے پہلے شوہر کی وفات کے بعد اب تک آپ نے شادی نہیں کی تھی۔ آپ نے جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی امانت اور دیانت کے بارے میں سناتو اپنے کاربار کے لئے آپ کی خدمات حاصل کرنے کافیصلہ کیا اور اپنی تجارت کا کچھ سامان دے کر آپ کو ایک تجارتی سفر پر روانہ کیا۔ آپ کے ساتھ انہوں نے اپنا ایک غلام بھی بھیجا تاکہ وہ آپ کی عادات کا مشاہدہ کر سکے۔ اس تجارتی سفر سے واپس آکر اس غلام نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اعلی اخلاق، سچائی اور راستبازی کی بے انتہا تعریف کی۔ جسے سن کر حضرت خدیجہؓ  نے آپ سے شادی کرنے کا فیصلہ کر لیا اور آپ کی خدمت میں رشتے کا پیغام بھجوا دیا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے چچا حضرت ابوطالب سے اس سلسلے میں مشورہ کیا تو انہوں نے اس شادی کے پیغام کو قبول کرنے کی رائے دی۔ چنانچہ آپ کی شادی 25 سال کی عمر میں حضرت خدیجہؓ سے ہو گئی جو اس وقت 40 برس کی تھیں۔ آپ کی تمام اولاد سوائے حضرت ابراهیم کے اسی بیوی سے پیدا ہوئی۔

پھر ایسا ہوا کہ کسی وجہ سے کعبہ کی عمارت کو کچھ نقصان پہنچ گیا۔ جس کی تعمیر قریش کا فرض تھا۔ قریش یہ چاہتے تھے کہ عمارت کو گرا کر از سر نو بہتر رنگ میں تعمیر کیاجائے۔ لیکن وہ اس بات سے ڈرتے تھے کہ کہیں خانہ کعبہ کو گرانے کی وجہ سے ان پرکوئی عذاب نہ آجائے۔ آخر ولید بن مغیرہ نے اس کام کو شروع کیا اور پھر تمام قریش اس کام میں شریک ہو گئے اور خانہ کعبہ کو گرا کر از سر نو تعمیر کیا جانے لگا۔ حجر اسود کا مبارک پتھر نصب کرنے کے معاملے میں قریش کے مختلف قبائل میں جھگڑا پڑ گیا۔ ہر ایک قبیلہ یہ چاہتا تھا کہ وہ حجر اسود کو نصب کر کے عزت حاصل کرے۔ اس بات پرجھگڑا بڑھ گیا اور تعمیر کا کام کئی روز تک رکا رہا۔ آخر مغیرہ کے بیٹے ابوامیہ نے یہ تجویز پیش کی کہ کل جو شخص حرم میں سب سے پہلے آتا دکھائی دے اس کو اس معاملے میں منصف بنالیا جائے۔ خدا کا کرنا ایسا ہوا کہ اس روز سب سے پہلے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم حرم میں تشریف لائے۔ آپ کو دیکھتے ہی تمام قبائل خوشی سے چلا اٹھے کہ امین آ گیا۔ امین آگیا۔ اب فیصلہ یقیناً بہترین ہوگا۔ اور آپ نے واقعی خدا تعالیٰ کے فضل سے ایسا بہترین فیصلہ کیا کہ تمام قریش حیران رہ گئے۔ آپ نے تمام معاملہ سن کر اپنی چادربچھائی اور حجر اسود اس پر رکھ کر تمام قبائل کے سرداروں سے کہا کہ اس چادر کے کناروں سے پکڑ لیں اور اٹھا کر حجراسود نصب کرنے کی جگہ پر لے چلیں۔ چنانچہ تمام قبائل کے سردار اس چادر میں حجر اسود کو اٹھائے ہوئے اس کے نصب کرنے کی جگہ تک پہنچے جہاں پر جا کر آپ نے اپنے ہاتھوں سے اس پتھر کو خانہ کعبہ میں نصب کر دیا۔ اس طرح وہ خطرناک جھگڑا جو آگے چل کر ایک عظیم لڑائی کی صورت اختیار کرنے والا تھا آپ کی فراست اور عقلمندی کے نتیجے میں نہایت عمدگی سے طے ہوگیا۔

اب آپ کی عمر مبارک 40 برس کی ہونے والی تھی یہ وہ دور تھا جس میں آپ کثرت کے ساتھ عبادات میں مشغول رہا کرتے تھے۔ آپ کی عبادتوں اور ریاضتوں میں بے انتہا تیزی آگئی تھی اور آپ عبادات کے علاوہ کوئی دوسرا کام نہیں کیا کرتےتھے۔ آپ کئی کئی دن کے لئے اپنے کھانے پینے کا سامان لیکر مکہ سے باہر ایک غار میں چلے جایا کرتے تھے اور وہاں تنہا عبادت میں مصروف رہا کرتے تھے۔ یہ غار مکہ سے تین میل کے فاصلے پر تھا اور اس کا نام غار حرا تھا۔

انہی دنوں میں آپ کو کثرت کے ساتھ سچے خواب آنے لگے اور بالآخر وہ دن آگیا جس دن اللہ تعالیٰ نے آپ کو نبوت کی نعمت سے سرفراز فرمایا اور تمام دنیا کیلئے نبی مبعوث کر دیا۔ یہ بہت بڑی اور عظیم ذمہ داری تھی جسے اٹھانے کے تصور سے ہی آپ پریشان ہو رہے تھے کہ کیا ا تنا عظیم کام میں کر سکوں گا۔ کیا میں اس عظیم کام کا حق ادا کرسکوں گا۔ ذمہ داری کے اس احساس کو دل میں لئے آپ گھبراہٹ کے ساتھ گھر پہنچے اور حضرت خدیجہؓ سے کہا کہ مجھ پر کپڑا ڈال دو۔ مجھ پر کپڑا ڈال دو۔ آپ کی یہ حالت دیکھ کر حضرت خد یجہؓ بھی گھبرا گئیں لیکن جب آپ نے تمام واقعہ بیان کیا تو انہوں نےآپ کو تسلی دی کہ خدا کی قسم خدا تعالیٰ آپ کو ضائع نہیں ہونے دے گا۔ آپ کی نیکی اور تقوی کی وجہ سے اور اعلی اخلاق کی وجہ سے اللہ تعالى يقينا آپ کی مدد کرےگا۔ اس واقعہ کے کچھ عرصہ کے بعد متواتروحی اور الہام کا سلسلہ شروع ہو گیا اور اللہ تعالیٰ نے آپ کو تبلیغ کا حکم فرمایا۔ آپ تمام دنیا کی طرف رسول کے طور پر مبعوث کئے گئے تھے۔ ہر زمانے کیلئے اور ہر قوم کیلئے۔

چنانچہ آپ نے اپناکام شروع کیا اور لوگوں کو خدائے واحد کی طرف بلانا شروع کردیا۔ آپ کی تبلیغ کے نتیجے میں آپ کے قریبی لوگ جو آپ کے حالات سے واقف تھے فوراً ایمان لے آئے۔ جن میں حضرت خديجہؓ  حضرت ابوبکرؓ ، حضرت علیؓ اور حضرت زیدؓ بن حارثہ وغیرہ کے نام سرفہرست ہیں۔ کچھ عرصے کے بعد آنحضرتﷺکو خفیہ تبلیغ کے بجائے کھلے عام تبلیغ کرنے کا حکم ملا۔ چنانچہ آپ نے کوہ صفاپر چڑھ کر ہر ایک قبیلے کو مخاطب کر کے انہیں اللہ تعالیٰ کا پیغام پہنچایا اور انہیں بتایا کہ خدا تعالیٰ پر ایمان لے آؤ کیونکہ یہی تمہارے لئے بہتر ہے۔

روز بروز آپ کے ساتھ شامل ہونے والے مسلمانوں کی تعداد بڑھتی جارہی تھی اور اسی وجہ سے مخالفت بھی زور پکڑتی جارہی تھی۔ کمزور اور غریب مسلمان مظالم کی چکیوں میں پس رہے تھے۔ قریش کے وہ ظالم سردار جو مسلمان نہیں ہوئے تھے۔ غریب مسلمانوں پر طرح طرح کے ظلم ڈھایا کرتے تھے۔ حضرت بلالؓ حضرت خبیبؓ حضرت خبابؓ اور دوسرے بہت سے مسلمان بہت زیادہ ستائے جارہے تھے۔بہت بڑھ گئیں تو الله تعالیٰ کے حکم سے آنحضرت ﷺنے کمزور اور دکھی مسلمانوںکو مکہ سے ہجرت کرنے کی اجازت دے دی۔ یوں آپ کی نبوت کے پانچویں سال یعنی 5 نبوی میں بعض مسلمان حبشہ کی طرف ہجرت کر گئے جہاں کا بادشاہ نجاشی ایک رحمدل اور انصاف پسند حکمران تھا۔ مسلمانوں کی اس ہجرت کا یہ بھی فائدہ ہوا کہ یہ ایک بادشاہ جو مذهبا عیسائی تھا مسلمانوں کے عقائد کے بارے میں جان کر مسلمان ہوگیا۔

6نبوی میں حضرت حمزہ جو آپ کے حقیقی چچا تھے مسلمان ہو گئے۔ ان کے ایمان لانے کا موقعہ کچھ یوں بنا کہ ایک روز حضرت حمزہ شکار کھیل کر شام کو گھر لوٹے تو گھر کی ایک خادمہ نے آپ کو بتایا کہ آج ابوجہل نے تمہارے بھتیجے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو بہت برا بھلا کہا تھا۔ بہت گالیاں دیں لیکن محمدؐ اس کی تمام باتیں سن کر چپ ہو رہا اور اس نے کچھ جواب نہ دیا۔ آپ نے یہ باتیں سنیں تو بھتیجے کی محبت نے دل میں جوش مارا۔ آپ فورا ً اٹھے اور ابوجہل کو تلاش کرنے لگے۔ ابوجهل ایک مجلس میں بیٹھا ہوا تھا آپ وہاں گئے اور جاتے ہی اپنی کمان ابو جہل کے سر میں اس زور سے ماری کہ وہ چکرا کر رہ گیا۔ پھر آپ نے ابو جہل سے کہا تو نے آج میرے بھتیجے محمد کو گالیاں دی تھیں۔ آج سے میں بھی محمدؐ کے ساتھ اس کے دین میں شامل ہوں۔ اب اگر کسی میں ہمت ہے تو محمدؐ کو کچھ کہہ کر دیکھے۔ جوش میں کہے ہوئے حضرت حمزہؓ کے یہ کلمات آپ کی زندگی بدل گئے اور آپ واقعی مسلمان ہو گئے۔

اس واقعے کے کچھ عرصے بعد ہی حضرت عمرؓ  بھی ایمان لے آئے اور حضرت رسول کریم ﷺ کے خادموں میں شامل ہو گئے۔ اب مسلمانوں کو کچھ طاقت حاصل ہوگئی تھی کیونکہ حضرت حمزہؓ اور حضرت عمرؓ مکہ کے دلیر اور عظیم سرداروں میں سے تھے۔ ان کے اسلام قبول کرنے کی وجہ سے کفار براہ راست مسلمانوں کو کچھ کہنے سے ڈرنے لگے۔ لیکن یہ بات ان کے لئے بہت تکلیف کا موجب تھی اس لئے انہوں نے مل کر مسلمانوں کے خلاف متحدہ محاذ بنانے کا فیصلہ کیا۔ ان کے باہمی مشورے کے بعد یہ طے پایا کہ اجتماعی طور پر مسلمانوں کے ساتھ تمام تعلقات منقطع کر لئے جائیں ان کے ساتھ کوئی لین دین نہ کیا جائے اور انہیں شعب ابی طالب میں محصور کر دیا جائے۔ اس بات کو باقاعدہ ایک معاہدے کی صورت میں لکھا گیا اور کفار کے بڑےبڑے سرداروں کے دستخطوں کے ساتھ اس معاہدے کی تحریر کو خانہ کعبہ میں لٹکا دیاگیا۔ اب تمام مسلمان مکہ کے قریب واقع اس پہاڑی درے میں محصور تھے جس کا نام شعب ابی طالب تھا۔ یہ انتہائی تکلیف کے دن تھے جو طویل ہوتے چلے گئے اور اسی درے میں قید کے تین سال بیت گئے۔ بالآخر تین سال کے بعد اللہ تعالیٰ نے خاص فضل کرتے ہوئے مسلمانوں کو اس تکلیف سے نجات دی اور یہ معاہدہ ختم ہو گیا۔

آپ کی نبوت کے دسویں سال میں آپ کو دو بہت بڑے صدمے پہنچے۔ ان میں ایک آپ کے چچا حضرت ابوطالب کی وفات اور دوسرے آپ کی بیوی حضرت خدیجہؓ کی وفات کا صدمہ تھا۔ ان دونوں نے 10 نبوی میں یکے بعد دیگرے وفات پائی۔ اسی وجہ سے آنحضرت ﷺ نے اس سال کا نام عام الحزن یعنی غموں کا سال رکھ دیا۔

اسی سال آپ نے طائف کی طرف تبلیغی سفر بھی کیا جو مکہ سے 40 میل کےفاصلے پر ایک شہر تھا۔ وہاں پہنچ کر آپ نے دس روز قیام کیا اور لوگوں کو خدا تعالیٰ کاپیغام پہنچایا۔ وہاں کے بد بخت لوگوں نے آپ کی بات سننے سے انکار کر دیا بلکہ انہوں نے آپ کے پیچھے شہر کے اوباش اور آوارہ لڑکے لگادئیے جو آپ کو پتھر مارتے ہوئےشہر سے باہر چھوڑ گئے۔ انہوں نے اس قدر پتھر برسائے کہ آپ لہولہان ہو گئے اورآپ کاجو تا مبارک آپ کے بہتے ہوئے خون سے بھر گیا۔ اس موقع پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک فرشتہ آپ کے پاس حاضر ہوا اور عرض کی کہ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! ان لوگوں نے بہت زیادہ ظلم کا مظاہرہ کیا ہے اگر آپ کا حکم ہو تو سزاکے طور پر اس بستی کو پہاڑوں کے درمیان پیس دیا جائے۔ آپ نے یہ بات سن کرفرمایا نہیں یہ لوگ میرے مقام سے واقف نہیں ہیں انہیں معاف کر دیا جائے کیونکہ ان کی نسلوں میں سے ہی ایسے لوگ پیدا ہوں گے جو میری باتوں پر ایمان لائیں گے۔

تبلیغ کا یہ سلسلہ جاری رہا اور دوسری طرف کفار مکہ کی مخالفت بھی زور پکڑتی گئی۔آپ کا پیغام مکہ کے علاوہ دوسرے شہروں تک بھی پہنچ رہا تھا اور لوگ مسلمان ہورہے تھے۔ یہ بات مکہ کے کفار کیلئے بہت تکلیف دہ تھی۔ اور وہ اپنے طور پر پوری کوشش کر رہے تھے کہ کسی طرح اس پیغام کو دبادیں۔ بالآخر انہوں نے مل کر یہ فیصلہ کیا کہ محمدؐ کو قتل کر دیا جائے تاکہ یہ مسئلہ مستقل طور پر ختم ہو جائے۔ اللہ تعالیٰ نےان کے اس بڑے منصوبے سے آنحضرت ﷺ کو یوں بچایا کہ آپ کو مکہ سے ہجرت کرنے کا حکم دے دیا۔ ہجرت کا حکم ملنے پر حضور ایک رات حضرت ابوبکر صدیق کے ساتھ مکہ سے ہجرت کر گئے اور مدینہ کی جانب روانہ ہو گئے۔ صبح ہونے پر جب کفار کو آپ کی ہجرت کا علم ہوا تو وہ بہت سٹپٹائے اور آپ کا تعاقب کرنے کی کوشش کی۔ جس وقت وہ لوگ آپ کے قریب پہنچے اس وقت حضرت رسول کریم ﷺ اور حضرت ابو بکر صدیق مکہ کے قریب ایک غار میں پناہ لئے ہوئے تھے۔ اس غار کانام غار ثور تھا۔ آپ اس غار میں چھپے ہوئے تھے اور کفار مکہ آپ کے قدموں کے نشانات دیکھ کر اس غار کے منہ تک آگئے لیکن اللہ تعالیٰ کے حکم سے ایسا ہوا کہ غار کےمنہ پر مکڑی نے جالا بن دیا اور ایک کبوتری نے انڈے دے دیئے جنہیں دیکھ کر کفارنے خیال کیا کہ اس غار کے اندر کوئی نہیں ہے ورنہ اگر کوئی اندر جاتا تو یہ مکڑی کا جالااور انڈے ضرور ٹوٹ جاتے۔ یوں وہ ناکام و نامراد واپس لوٹ گئے۔ اور چند روز میں آنحضرت ﷺ اور حضرت ابوبکر صدیق خیریت کے ساتھ مدینہ منورہ پہنچ گئے۔ہجرت کا یہ واقعہ آپؐ کی نبوت کے چودھویں سال میں پیش آیا۔ روایات کے مطابق آپ 12 ربیع الاول 14 نبوی بمطابق 27 جون 622ء کو مدینہ منورہ پہنچے۔مدینہ میں موجود مسلمان آپؐ کی آمد کے منتظر تھے۔ جب آپؐ وہاں پہنچے تو وہ آپؐ کے استقبال کے لئے شہر سے باہر نکل آئے اور بڑی محبت کے ساتھ آپ کو لیکر شہر میں داخل ہوئے۔ آپؐ نے حضرت ابو ایوب انصاری کے گھر قیام کیا۔

مدینہ پہنچ کر سب سے پہلے آپ نے ایک مسجد تعمیر کی جس کا نام ’’مسجد نبوی ؐ‘‘ ہے یہ مسجد اس جگہ تعمیر کی گئی تھی جہاں آپؐ کی مدینہ آمد کے وقت آپ کی اونٹنی بیٹھی تھی۔ مدینہ کے ساز گار حالات کی وجہ سے نماز باجماعت ادا ہونے لگی اور لوگوں کو نماز کے بلانے کیلئے اذان کی ابتداء ہوگئی۔ قریش مکہ آپ کی ہجرت کی وجہ سے سخت غصے میں تھے اور وہ چاہتے تھے کہ کسی طرح سے آپؐ کو نقصان پہنچائیں۔ اس مقصد کیلئے وہ طرح طرح کی سازشیں کیا کرتے تھے۔ چنانچہ آپؐ کی ہجرت کے دوسرے سال یعنی2 ہجری میں کفار مکہ ایک ہزار افراد پر مشتمل ایک لشکر لیکر مدینہ کی طرف روانہ ہوئے۔ آنحضرت ﷺ کو جب اس لشکر کی آمد کی اطلاع ملی تو آپؐ بھی اپنے 313 ساتھیوں کے ساتھ اس لشکر کے مقابلے کیلئے مدینہ سے باہر نکلے اور بدر کے میدان میں ان دونوں لشکروں کا آمنا سامنا ہوا۔ کفار مکہ کے ایک ہزار مسلح افراد کے سامنے یہ 313افراد جن میں سے اکثر ہتھیاروں سے مسلح بھی نہیں تھے۔ بظاہر بہت حقیر معلوم ہو رہے تھے لیکن اللہ تعالیٰ نے انہی 313 کمزور افراد کو غلبہ عطا کر دیا اور کفار کا ایک ہزار کا لشکر بری طرح شکست کھا گیا۔

بدر کی اس جنگ میں مسلمانوں کو عظیم فتح حاصل ہوئی اور کفار کے بڑے بڑےسردار مثلاً ولید، عتبه، شیبہ اور ابوجهل و غیره مارے گئے۔ اس جنگ میں کفار کے 70آدمی مارے گئے اور تقریبًا اتنی ہی تعداد میں قیدی بنا لئے گئے جب کہ باقی میدان چھوڑکر بھاگ گئے۔ اس جنگ نے ایک طرف تو کفار مکہ کی کمر توڑ کر رکھ دی اور دوسری طرف یہودی اور مدینہ کے اردگرد کے تمام قبائل بھی اسلام کی طاقت کو محسوس کرنےلگے تھے۔ مدینہ کے مشرکین پر بھی اس کا گہرا اثر ہوا اور بہت سے لوگ اس فن کو دیکھ کر مسلمان ہو گئے یوں مدینہ میں ایک مضبوط مسلمان حکومت قائم ہو گئی۔

3ہجری میں کفار مکہ نے جنگ بدر کی شکست کا بدلہ لینے کے لئے ایک مرتبہ پھرمسلمانوں پر حملہ کرنے کا منصوبہ بنایا۔ چنانچہ اس مرتبہ ابوسفیان کی قیادت میں 5 ہزارکا لشکر مکہ سے مدینہ کی طرف چڑھائی کرنے کیلئے نکلا اور مدینہ کے شمال میں 3 میل کے فاصلے پر واقع ’’احد‘‘ کے میدان میں پہنچ کر پڑاؤ کیا۔ آنحضرت ﷺ اس لشکر کی آمد کی خبر سن کر ایک ہزار صحابہ کے ساتھ ان کے مقابلے کے لئے نکلے اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس جنگ میں بھی مسلمان اپنے سے تین گنابڑی فوج پر غالب آگئے۔ کفار کی فوج میدان چھوڑ کر بھاگ گئی۔ لیکن مسلمانوں کی یہ فتح بعض مسلمانوں کی غلطی کی وجہ سے بہت سارے غم بھی دے گئی۔ ہوا یوں کہ جنگ سے قبل آنحضور ﷺ نے مسلمان لشکر کی پشت پر موجود ایک درے پر پچاس تیر اندازوں کو مقرر فرمایا تھا تاکہ وہ مسلمان لشکر کی پشت سے اس کی حفاظت کریں۔ آپؐ نے ان تیراندازوں کو حکم دیا تھاکہ خواہ کچھ بھی ہو جائے تم اس درے سے نہ ہٹنا۔ لیکن جب کفار نے میدان جنگ سے بھاگنا شروع کر دیا توان تیر اندازوں نے سمجھا کہ مسلمانوں کی فتح ہو چکی ہے۔ فتح کی خوشی میں ان تیر اندازوں میں سے چند ایک کے سوا اکثر درہ چھوڑ کر نیچے موجودمسلمانوں کی طرف بھاگے تاکہ فتح کی خوشیوں میں ان کے ساتھ شریک ہو سکیں۔ یہ ایک بہت بڑی غلطی تھی جو ناسمجھی میں ان سے سرزد ہو گئی۔ اسی اثناء میں خالد بن ولید کی نظر جو اس وقت مسلمان نہیں ہوئے تھے اور کفار کی طرف سے لڑائی میں شامل تھے اس خالی درے پر پڑی۔ انہوں نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ اس درے کی طرف سے مسلمانوں پر حملہ کر دیا۔ مسلمان جوفتح کی خوشی منارہے تھے اس اچانک حملے سے گھبرا گئے ان کے قدم اکھڑ گئے۔ بہت سا جانی نقصان بھی ہوا اور آنحضرت ﷺ کوبھی زخم پہنچے۔ یوں اس جنگ میں فتح کے باوجود بہت تکلیف پہنچی۔

5ہجری میں کفار مکہ کے ساتھ غزوہ خندق ہوا اور ہجرت کے ساتویں سال یہودی قبائل کے ساتھ مسلمانوں کی ایک جنگ خیبر کے مقام پر ہوئی جو غزوہ خیبر کے نام سےمعروف ہے۔ مکہ سے مدینہ ہجرت کر جانے کے بعد حضرت رسول کریم ﷺکوایک لمباعرصہ مکہ واپس جانے کا موقع نہیں ملا۔ اس عرصے میں کفار مکہ مدینہ کی طرف کئی چڑھائیاں کر چکے تھے۔

6ہجری میں حضور اکرم ﷺنے خواب میں دیکھا کہ مسلمان بیت اللہ کا طواف کر رہے ہیں۔ اس خواب کی روشنی میں آنحضرت ﷺ کو خیال پیدا ہوا کہ عمره کیلئے جانا چاہئے۔ آپؐ نے صحابہؓ سے مشورہ کیا تو انہوں نے عرض کیا کہ اسی سال چلتے ہیں۔ چنانچہ 6ہجری میں چودہ سو مسلمانوں کے ساتھ آپؐ عمرے کی نیت سے مکہ کی طرف روانہ ہوئے اور مکہ سے 19 میل کے فاصلے پر حدیبیہ نامی ایک آبادی کےپاس پڑاؤ کیا اور اپنا ایک قاصد مکہ کے سرداروں کی طرف بھجوایا اور انہیں بتایا کہ ہم عمرہ کرنا چاہتے ہیں۔ اس پر سرداران مکہ نے جوابا ًکہا کہ ہم کیسے یہ بات گوارہ کر سکتےہیں کہ ہمارے دشمن مسلمان ہمارے شہر میں آکر کعبہ کا طواف کر جائیں یہ بات ہمارے لئے شرمندگی کا سبب بنے گی۔ یہ گفت و شنید کئی روز تک چلتی رہی اور بالآخرمسلمانوں اور کفار مکہ کے درمیان صلح کا ایک معاہدہ ہو گیا جس کی رو سے مسلمانوں کواس سال عمرے کے بغیر واپس جانا تھا اور وہ آئندہ کسی سال عمرے کیلئے آ سکتے تھے۔اس صلح نامے کی رو سے جس کا نام ’’معاہدہ حدیبیہ‘‘ رکھا گیا تھا مسلمانوں اور کفار مکہ نے آپس میں جنگ نہ کرنے کا بھی معاہدہ کیا تھا۔ یوں اس سال تو مسلمان عمرہ کئے بغیرواپس آگئے لیکن اس معاہدے کی وجہ سے چونکہ اب جنگوں کا خطرہ ٹل گیا تھا اس لئےتبلیغ کے لئے حالات سازگار ہو گئے اور لوگ کثرت کے ساتھ مسلمان ہونے لگے۔

7ہجری میں حضرت خالد بن ولیدؓ اور حضرت عمرو بنؓ العاص جیسے عظیم سپہ سالار بھی مسلمان ہو گئے اور اسلام کے خدام میں شامل ہو گئے۔

8ہجری میں ایک ایسا واقعہ ہوا جس نے کفار مکہ کے ساتھ آخری معرکے کی بنیادرکھ دی۔ ہوا یوں کہ قریش کے ایک حلیف قبیلے بنو بکر نے مسلمانوں کے ایک حلیف قبیلے بنو خزاعه پر اپنی کسی پرانی دشمنی کی وجہ سے حملہ کر دیا اور انہیں کافی نقصان پہنچایا اب صلح حدیبیہ کی شرائط کی رو سے قریش کا فرض تھا کہ وہ بنوبکر کو اس جنگ سے باز رکھتے لیکن انہوں نے ایسا نہ کیا بلکہ انہوں نے اپنے حلیف قبیلے کی اس جنگ میں مدد بھی کی۔

بنو خزاعہ کے لوگ روتے پیٹتے آنحضرتﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور اپنی مظلومیت کی داستان سنائی۔ یہ قبیلہ چونکہ مسلمانوں کا حلیف قبیلہ تھا اس لئے ان کی مدد کرنا مسلمانوں کا فرض تھا۔ آنحضرتﷺ نے اپنا ایک قاصد قریش کی طرف روانہ کیا کہ یا تو وہ بنو خزاعہ کے مقتولوں کا خون بہا ادا کریں یا بنوبکر کی حمایت سے علیحدگی کا اعلان کریں یا پھر یہ اعلان کر دیں کہ ہم نے معاہدہ حدیبیہ توڑ دیا ہے۔ قریش مکہ نے جوش میں آکر تیسری بات ماننے کا اعلان کر دیا اور کہا کہ ہم معاہدہ حدیبیہ توڑنے کااعلان کرتے ہیں۔ آنحضرت ﷺ اس معاہدے کے ٹوٹنے کے نتیجے میں اپنے ساتھی قبیلے بنو خزاعہ کی مدد کیلئے مکہ کی طرف روانہ ہوئے۔

8ہجری میں آپؐ اپنے دس ہزار ساتھیوں کے ساتھ مکہ کی طرف نکلے اور قریش کو اس لشکر کی آمد کی اطلاع تب ملی جب مسلمان مکہ کے بالکل قریب پہنچ چکے تھے۔ وہ اس عظیم الشان لشکر سے ٹکرا کر خود کو موت کے منہ میں دھکیلنا نہیں چاہتے تھے اس لئے انہوں نے ہتھیار ڈال دیئے اور بغیر جنگ و جدال کے مکہ فتح ہو گیا۔ یہ عظیم الشان فتح اسلامی تاریخ میں ایک اہم سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہے۔ مکہ فتح ہونے کے بعد آنحضرت ﷺ اپنے ساتھیوں کے ساتھ مکہ میں داخل ہوئے۔ خانہ کعبہ کا طواف کیا اور وہاں موجود مشرکین کے 360بتوں کو آپؐ نے اپنی چھڑی سے پاش پاش کردیا۔ آج ایک لمبے عرصے کے بعد خانہ کعبہ بتوں کی آلائشوں سے پاک ہو چکا تھا۔ توحید کا حقیقی علمبردار توحید کے مرکز میں خدائے واحد کا نام بلند کر رہا تھا اور کفار مکہ سہمے سہمے اپنے متعلق فیصلے کے منتظر تھے۔ اور پھر آپؐ نے ایسا عظیم الشان فیصلہ کیا جو تاریخ میں سنہرے حروف سے لکھے جانے کے قابل ہے۔ آپ نے تمام مخالفین کو معاف کردیا اور کہا کہ جاؤ تم پر کوئی گرفت نہیں ہے۔ تم سب آزاد ہو۔ اس عظیم فتح کے نتیجے میں لوگ اب فوج در فوج مسلمان ہونے لگے اور مسلمان کی تعداد ہزاروں سے لاکھوں تک پہنچ گئی۔

10 ہجری میں ہونے والے حج کے موقعے پر ایک لاکھ چو بیسں ہزار سے زائد مسلمان شریک تھے۔ یہ حج آنحضرت ﷺکا آخری حج تھا کیونکہ اس کے بعد 11ہجری کے آغاز میں ہی آپؐ علیل ہوگئے اور یہ علالت آخری علالت ثابت ہوئی۔

19 صفر 11ہجری کو آپؐ قبرستان تشریف لے گئے وہاں سے واپس لوٹے تو آپؐ کی طبیعت ناساز تھی۔ پہلے سر میں درد ہوا اور پھر بخار چڑھ گیا اور چند روز میں ہی اس بیماری نے آپؐ کو بہت کمزور کر دیا۔ اور نماز کے لئے مسجد جانا بھی مشکل ہو گیا۔ تاہم پھر بھی جب آپؐ کی طبیعت سنبھلتی آپ نماز ادا کرنے کے لئے مسجد تشریف لے جاتے۔ جب آپؐ کی کمزوری زیادہ بڑھ گئی تو آپ نے حضرت ابو بکر صدیقؓ کو نماز پڑھانے کا ارشاد فرمایا۔ وفات کے روز آپؐ کی طبیعت قدرے سنبھل گئی۔ فجر کی نماز کا وقت تھا آپؐ نے اپنے حجرے سے پردہ اٹھا کر مسجد میں جھانک کر دیکھا تو مسلمان حضرت ابوبکر صدیقؓ کی امامت میں نماز فجر ادا کر رہے تھے۔ آپؐ کے چہرے پر یہ منظر دیکھ کر بشاشت کی ایک لہر دوڑ گئی۔ آپؐ جس عظیم مقصد کے لئے مبعوث کئے گئے تھے واقعی آپؐ نے اس مقصد کو پورا کر دیا تھا۔ آپؐ اپنے پیچھے ایک متقی اور عبارت گزار جماعت چھوڑ کر جارہے تھے۔ یہ پیر12 ربیع الاول 11 ہجری کا دن تھا اور اسی روز ظہر کے قریب آپؐ اپنے مولائے حقیقی سے جا ملے۔ (اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّاۤ اِلَیۡہِ رٰجِعُوۡنَ)

صحابہؓ کی دنیا اندھیر ہو گئی۔ اپنے محبوب آقا سے جدائی کا تصور ہی ان کے ہوش اڑائے دے رہا تھا۔ وہ غم کی شدت سے دیوانے ہوئے جارہے تھے اور حضرت عمرؓ تو یہاں تک کہہ رہے تھے کہ جس کسی نے یہ کہا کہ محمد مصطفیٰﷺ وفات پا گئے ہیں میں اس کا سر قلم کر دوں گا۔ یہ غم کی شدت کا نتیجہ تھا جس نے سب کو بے قابو کر رکھاتھا۔ تب اللہ تعالیٰ نے حضرت ابو بکر صدیقؓ کو توفیق دی کہ وہ منبر پر چڑھے اور لوگوں کومخاطب کرکے فرمایا کہ

اے لوگو! (قرآن کریم کہتا ہے کہ) محمد مصطفیٰﷺ اللہ کے ایک رسول تھے اور آپؐ سے پہلے تمام رسول فوت ہو چکے ہیں تو کیا اگر محمد فوت ہو جائیں یا قتل ہو جائیں تو تم اپنی ایڑیوں کے بل پھر جاؤ گے۔

اس آیت کا پڑھنا تھا کہ لوگوں کو ہوش آگیا وہ جان گئے کہ ان کا پیارا رسول ﷺ جسمانی طور پر ان سے جدا ہو چکا ہے۔ لیکن وہ جانتے تھے کہ یہ پیارا رسول ﷺاپنی محبت کی وجہ سے اپنی یادوں کی وجہ سے اپنی تعلیمات کی وجہ سے اور اپنی شریعت کے لحاظ سے ہمیشہ زندہ رہے گا۔

حضرت ابو بکرؓ صدیق آپؐ کے پہلے خلیفہ مقرر ہوئے۔ اور اس کے بعد مغرب کے قریب صحابہؓ نے آپؐ کی نماز جنازہ پڑھنا شروع کی جنازہ کی جگہ کشادہ نہ ہونے کی وجہ سے ایک جماعت کے بعد دوسری جماعت نماز ادا کرتی رہی۔ اور حضرت عائشہؓ کے اسی حجرے میں جہاں آپ کی وفات ہوئی تھی آپ کی تدفین عمل میں آئی۔

آج کا دن کتنا درد انگیز تھا۔ آج وہ روشن سورج جس نے اپنی نورانی روشنی سےسارا عالم منور کر دیا تھا غروب ہو چکا تھا۔ ہم آج بھی اس بات کو سوچ کر کانپ اٹھتے ہیں کہ جس وقت آپؐ کے صحابہؓ  آپؐ کی تدفین سے فارغ ہو کر واپس لوٹ رہے ہوں گے تو ان کے دل کتنی اذیت محسوس کر رہے ہوں گے ان کی دنیا تو اس روشن سورج کے غروب ہونے کے ساتھ ہی تاریک ہو گئی تھی۔ ان کی آنکھوں سے بہنے والے آنسو اس صدمے کے بالمقابل کتنے حقیر لگ رہے ہونگے۔ آپؐ کے آگے پیچھے اور دائیں بائیں لڑنے کا عہد کرنے والے صحابہؓ اس بات سے قاصر تھے کہ اس سفر میں آپ کے ساتھ جاسکتے۔ ان کے دل پھٹ رہے تھے اور دنیا ویران محسوس ہو رہی تھی۔ یہ ایک ایسی حقیقت تھی جس سے فرار ناممکن تھا۔ لیکن اس سے بھی عظیم تر حقیقت یہ تھی کہ وہ روشن سورج جسمانی لحاظ سے غروب ہونے کے باوجود روحانیت کے آسمان پرپوری آب و تاب کے ساتھ چمک رہا تھا۔ اور ہر زمانے میں اسی شان و شوکت کےساتھ چمکتا رہا ہے آج بھی چمک رہا ہے اور آئندہ بھی ہمیشہ چمکتا رہے گا اور یوں یہ عظیم الشان نبی ہمیشہ کی زندگی پاگیا ہے۔

(فرید احمد نوید۔ پرنسپل جامعہ احمدیہ انٹرنیشنل گھانا)

پچھلا پڑھیں

امام وقت اور خلیفہ کی ضرورت

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 21 جون 2022