• 24 جون, 2025

محمد اسلم بھروانہ صاحب شہید دارالذکر لاہور کا ذکر خیر

گزشتہ ماہ 28مئی 2020ء کو سانحہ لاہور کو پورے دس سال بیت گئے تھے،وہ ایک ایسا دن تھا جب اقوام عالم نے مذہب کے نام پر خانہ خدا کے اندر انسانی جانوں سے خون کی ہولی کھیلتے دیکھی، دور حاضر کے تاریخ کا شاید وہ بدترین اور سیاہ ترین دن تھا کہ خدا کی عبادت کے لئے اکٹھے ہونے والوں پر محاذ جنگ کی طرح گولیوں اور بموں کی بوچھاڑکردی گئی تھی، دیکھتے ہی دیکھتے ’’دارالذکر‘‘ کی درودیواریں عاشقان مسیح و موعود و خلافت احمدیت کے جانثاروں کے خون سے سرخ ہو گئی تھیں، تقریبا ساڑھے تین گھنٹے مسلسل، گولیوں اور بموں کے دھماکوں کو سننے کے بعدجب عقبی گیٹ کا تالہ توڑنے کے بعد سپیشل پولیس کی بھاری نفری کے ساتھ خاکسار ’’دارالذکر‘‘ کے اندر داخل ہوا تو صحن میں انسانی خون پانی کی طرح ہر طرف موجود تھا، جوتوں کے جوڑے انسانی خون میں نہ صرف لت پت تھے بلکہ بارود کی آگ کی وجہ سے جل بھی چکے تھے۔ اسی طرح جس طرح ان کو پہن کر آنے والے جلا دیئے گئے تھے، لاہور کے پیاروں، مخلصین جماعت احمدیہ لاہور کے جسموں کے چتھڑے بکھرے پڑے تھے، بارود کی بدبو ہر طرف پھیلی ہوئی تھی، نعشوں کے درمیان سے گزرتا ہوا جب اندر مین ہال میں داخل ہوا تو وہاں کے مناظر ناقابل بیان تھے، پلرز، دیواریں، چھتیں مکمل طور پر خون آلودہ تھیں اور غمزدہ اندھیرے میں بارود اور انسانی خون کی ملی جلی بدبو ہر طرف پھیلی ہوئی تھی، محراب کے بالمقابل سامنے مین دروازے کے قریب اندر پلر کے پاس اس دہشت گرد کا سر الگ اور دھڑ الگ پڑا ہوا تھا، میں نے اس کے منحوس سر کو نفرت سے ایک ہلکی ٹھوکر ماری اور بدبخت کے چہرہ کو دیکھا جس ہلکی ہلکی داڑھی تھی اورشیطانی نحوست چھائی ہوئی تھی، یہ وہ دہشت گرد تھا جو ہال کے اندر اور باہر صحن میں جاکر فائرنگ کرتا رہا اور گرنیڈ پھینکتا رہا تھا اورپھر آخر پر خود کو اڑایا تھا، اسی جگہ کی چھت پر لگے بجلی کے پنکھےمکمل ٹیڑھے ہو چکے تھے اور خون میں لتھڑے ہوئے تھے، پلر اور لوھے کی دروازوں پر مسلسل گولیوں کے نشانات، اور گرنیڈ بموں کے نشانات سے واضح ہورہا تھا کہ دہشت گردوں نے بربریت اور وحشت کا ایسا کھیل کھیلا ہے جس کی دور حاضر میں کوئی مثال ملنا مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن ہے۔ ان شہدائے لاہور کی قربانی کی بازگشت دنیا کے کناروں تک پہنچی تھی اور تا قیامت یہ شہداء زندہ رہیں گے۔ ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ ’’اور جو لوگ اللہ کی راہ میں قتل کئے جاتے ہیں ان کے بارے میں یہ نہ کہو کہ وہ مردہ ہیں بلکہ وہ تو زندہ ہیں لیکن تمہیں خبر نہیں‘‘ (سورہ البقرہ)۔ احباب جماعت احمدیہ لاہور نے اپنی جانوں کی قربانیاں دےکر تاریخ احمدیت کا ایک نیا باب رقم کیا تھا، جو انسانی استقامت، صبر، اخلاص و وفا کی ایک سے بڑھ کر ایک داستاں اپنے اندر سموئے ہوئے ہے۔ ایسی ہی جانی قربانیوں کے بارے میں حضرت مسیح موعود بانی جماعت احمدیہ فرماتے ہیں ’’یہ استقامت ہے جس سے خدا ملتا ہے۔ جس کی رسولوں، نبیوں ،صدیقوں اور شہیدوں کی خاک سے اب تک خوشبو آ رہی ہے‘‘ (اسلامی اصول کی فلاسفی)۔ شہدائے لاہور حضرت مسیح موعود علیہ اسلام کا الہام ’’لاہور میں ہمارے پاک محب ہیں‘‘ کے مصداق بھی ہیں۔ حضرت خلیفہ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے شہدائے لاہور کے بارے میں ارشاد فرمایا تھا کہ ’’آج ہمارے شہداء کی خاک سے بھی خوشبو آ رہی ہے جو ہمارے دماغوں کو معطر کر رہی ہے۔ ۔ مبارک ہیں لاہور کے احمدی جنہوں نے یہ استقامت دکھائی، جانے والوں نے بھی اور پیچھے رہنے والوں نے بھی‘‘۔

28مئی کے شہدائے دارالذکر لاہور میں مکرم محمد اسلم بھروانہ شہید بھی شامل ہیں، آج انہی کے بارے میں ان کی صفات ،خدمات بارے کچھ ذکر خیر کرنا ہے، مکرم محمد اسلم بھروانہ شہید کی شہادت محراب میں ہوئی تھی اور شہادت کے وقت آپ مکرم منیر احمد شیخ صاحب شہید امیر جماعت احمدیہ لاہور کے ساتھ ہی محراب میں تھے، کیونکہ آپ لاہور کی مجلس عاملہ میں سیکرٹری تربیت نومبائین اور سیکرٹری جائیداد تھے، نماز جمعہ کے وقت محراب میں موجود ہوا کرتے تھے۔ محترم محمد اسلم بھروانہ شہید بہت سی خوبیوں اور صفات کے مالک تھے، آپ ایک مکینیکل انجینئر تھے اور محکمہ ریلوے میں ایک اعلیٰ پوسٹ پر تعینات تھے اور پورے محکمہ میں ان کی قابلیت، ایمانداری اور اپنے فرائض سے لگن کے چرچے تھے اور چند گنے چنے قابل ترین افسران میں آپ سر فہرست تھے، بوقت شہادت آپ چیف مکینکل انجینئر کے عہدہ پر فائض تھے پورے محکمہ کو ان کے احمدی ہونے کا علم تھا اور یہی بات ہمیشہ ان کے پیش نظر رہتی تھی، سانحہ والے دن کے بارے میں ان کا بیٹا مکرم انصر بھروانہ بیان کرتے ہیں کہ ’’28 مئی کو جب میں اورابو گھر سے جمعہ پڑھنے نکلے اور ڈرائیور نے ہمیں گیٹ پر اتارا تو ابو نے اترتے وقت مجھ سے پوچھا کہ کہاں ڈیوٹی ہے؟ میں نے کہا کہ گیٹ پر۔ ، کہا کہ اللہ تمہاری حفاظت کرے۔ (اور ان کی یہی دعا حملہ کے وقت مجھے بچاگئی) یہ کہہ کر وہ مسجد کے اندر چلے گئے اور میں گیٹ پر کھڑا ہوگیا اور اس کے بعد وہ کبھی واپس نہیں آئے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔

لاہور آنے سے پہلے مکرم محمد اسلم بھروانہ صاحب کوئٹہ اور راولپنڈی میں تعینات رہے اور وہاں بھی بطور قائد علاقہ (کوئٹہ اور راولپنڈی) خدمت کی توفیق پاتے رہے تھے۔ مکرم محمد اسلم بھروانہ صاحب جب ٹرانسفر ہو کر لاہور آئے تو ان کی رہائش گاہ مغلپورہ میں تھی میں بھی اسی علاقہ کے قریب رہتا تھا اور پھریہیں سے ان سے تعلق پیدا ہوا، بعدازاں دارالذکر کے قریب ہی ریلوے کے آفیسرز کالونی ’’میو گارڈن‘‘ میں شفٹ ہوئے اور شہادت کے وقت وہیں قیام پذیرتھے۔ وقت کے ساتھ ان کے ساتھ تعلق بڑھتا ہی رہا جب آپ مجلس خدام الاحمدیہ علاقہ لاہور کے قائد نامزد ہوئے تو آپ نے خاکسار کو اپنی مجلس عاملہ میں بحیثیت معتمد، ناظم اطفال علاقہ شامل کیا اور یوں میرا ان کے ساتھ تعلق اور قریبی ہو گیا، مرکزی ڈاک پر ضروری کارروائی اور قائدین اضلاع سے رابطوں کے حوالے سے تقریبا چوبیس گھنٹے ان کے ساتھ روابط رہے، میٹنگز انہی کے گھر ہوا کرتی تھیں، بہت دفعہ اہم امور کے سلسلہ میں وہ خاکسار کو اپنے دفتر میں بھی بلا لیا کرتے تھے، وہاں ان کی عزت و تکریم کو دیکھتا تو سر فخر سے بلند ہو جاتا۔ ، وہ ایک انتہائی شفیق، کم گو، دور اندیش عبادت گزار ہونے کے علاوہ خلافت اور خلیفہ وقت کے ساتھ انتہائی وفا، خلوص کا تعلق رکھنے والی شخصیت تھیں، اپ کے ساتھ مزید تعلق کے بعد جو وصف سامنے آیا وہ ان کی بہادری تھی، مشکل حالات اور وقت میں بھی وہ معمولی سی گھبراہٹ اپنے اوپر آنے نہیں دیتے تھے یہی وجہ ہے کہ آپ کے دور میں لاہور میں جماعت پر ایک عمومی قسم کی سخت آزمائش آئی ہوئی تھی اورلاہور کے ہسپتالوں میں احمدی ڈاکٹروں پر مسلسل جان لیوا حملے ہورہے تھے آپ نے مکرم حمید نصراللہ خان صاحب امیر جماعت احمدیہ کی ہدایات و راہنمائی میں اپنی ٹیم کے ساتھ اس آزمائش میں کامیابی حاصل کی تھی۔ ایک بار آپ کے بیٹے کو اغواء کر لیا گیا تھا اور مخالفین اس کو فیصل آباد لیکر جا رہے تھے اس سخت ترین مشکل گھڑی میں آپ نے گھبراہٹ کا شکار ہونے کی بجائے نہایت بہادری اور حکمت سے مقابلہ کیا اور بالاخر بیٹا بخیریت گھر پہنچ گیا تھا۔

آپ کے ساتھ کام بحیثیت مجلس خدام الاحمدیہ علاقہ لاہور کرنے کے نتیجہ میں یہ بات بھی مشاہدے میں آئی کہ جماعتی کارکنوں اور عہدیداروں کے ساتھ انتہائی محبت اور نرمی کا سلوک کرنا آپ کا خاصہ تھا، خود نمائی کو بالکل پسند نہیں کرتے تھے اور پیچھے رہ کر کارکنوں کے ذریعے نگرانی کے ساتھ جماعتی کاموں کی تکمیل کرایا کرتے، انہی کے دور کے ابتدائی سالوں میں جب علاقہ لاہور بین العلاقہ مقابلہ میں دوم قرار پایا تو شوریٰ پر خاکسار کو انعام لینے کے لئے ربوہ بھیج دیا تھا،اس طرح وہ کارکنوں کی نہ صرف حوصلہ افزائی کرتے بلکہ تربیت کے مواقع بھی فراہم کرتے۔ آپ کے ساتھ بین الاضلاعی دوروں میں آپ کی تربیتی فکر کو بھی دیکھا اور سمجھا، قصور، اوکاڑہ، شیخوپورہ کے علاوہ اندرون لاہور میں بھی آپ نے دورے کئے تھے آپ کی گفتگو مختصر لیکن بہت مدلل اور متاثر کن ہوا کرتی تھی۔

اولادکی تربیت ایک اہم اور بھاری ذمہ داری ہے اس کو محترم اسلم بھروانہ صاحب شہید نے ایمانداری اور فکر کے ساتھ نبھایا ان کے دونوں بیٹوں اظہر بھروانہ صاحب اور انصر بھروانہ صاحب کے ساتھ جب بھی کہیں بھی ملاقات ہوتی تو وہ بہت احترام سے ملتے، گھر میں میزبانی کرنے میں بھی اپنے شہید والد محترم کا بھرپور ساتھ نبھاتے تھے، اس مضمون کے لئے مکرم انصر بھروانہ صاحب نے ایک تربیتی بات بطور خاص خاکسار کو بھیجی ہے جو سپرد قلم ہے، انصر صاحب بتاتے ہیں کہ ’’میری اپنے شہید والد صاحب سے کئی مرتبہ اس بات پر بحث ہوتی رہی کہ ہمارے ہمسائے جو آپ سے کافی چھوٹے گریڈ کے آفیسر ہیں لیکن ان کے پاس اتنی اچھی اور مہنگی گاڑیاں ہیں، ہمارے پاس کیوں نہیں ہیں؟ وہ کبھی بھی میری اس بات کا جواب نہیں دیتے بلکہ ہنس کے ٹال دیتے تھے، جب ہم میوگارڈن ریلوے کالونی میں شفٹ ہوئے تو ایک دن پھر یہی سوال ان کے سامنے دہرایاکہ یہاں بھی سب کے پاس بہت گاڑیاں ہیں، تو اس پر انہوں نے مجھے اپنے پاس بٹھاکر کہا: ’’بیٹا !میں بھی یہ سب کچھ کرسکتا ہوں مگر ان سب کے لئے مجھے اپنے محکمہ کے ساتھ غداری کرنا پڑے گی جو میں کبھی نہیں کروں گا، مجھے اپنی اگلی زندگی، اس زندگی سے بہت عزیز ہے‘‘۔ ابو نے مجھے مزید بتایا کہ ابھی مجھے تین کمپنیوں سے ریلوے کے معاہدے کرنے کا انچارج بنایا گیا تھا اور اس معاہدہ کی لاگت تقریبا ایک سو کروڑ روپے تھی مجھے ان تینوں کمپنیوں نے کہا کہ معاہدے کا چالیس فیصد لے لو اور ان کے ساتھ معاہدہ پر دستخط کردو۔مگر میں نے انہیں یہ کہا کہ میں اس کمپنی سے معاہدہ کروں گا جو میرے محکمہ کے لئے بہتر ہوگا، اور کہا کہ بیٹا جی میں اپنے ایک دستخط کے ساتھ اتنی دولت کما سکتا ہوں کہ تم سوچ بھی نہیں سکتے مگر میں ایسا کبھی نہیں کروں گا، میں نہیں چاہتا کہ میری وجہ سے میری جماعت کا نام بدنام ہو اور لوگ مجھے اچھے لفظوں سے یاد نہ کریں ۔تم آج تو عیش و آرام کی زندگی گزار لوگے مگر اگلی زندگی میں کیا کروگے، میرے بعد لوگوں سے کیا کیا سنو گے؟یہ تربیت اولاد کی ایک ایسی شاندار اور روشن مثال ہے جو اس دور میں شاید ہی کہیں سننے کو ملے۔ خاکسار کی مکرم سید قمر سلیمان احمد صاحب وکیل وقف نو سے ٹیلی فون پر بات ہوئی تو انہوں نے اسلم بھروانہ صاحب کے متعلق ایک واقع سنایا، انہوں نے بتایا کہ ’’ربوہ میں جلسہ سالانہ کے لنگرز کی ہر سال ٹیسٹنگ لازمی ہوتی ہے، ایک دن جلسہ سالانہ کے لنگر خانہ میں ان سے ملاقات ہوئی تو میں نے پوچھا کہ آپ یہاں کہاں؟ تو انہوں نے جواب دیا کہ میں نے بعد از ریٹائرمنٹ خود کو وقف کردیا ہے، اسی لئے میں اس لنگر خانہ کی ٹیسٹنگ کے لئے آیا ہوں۔‘‘ اس بات سے بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ محترم بھروانہ صاحب کے اندر خدمت دین کا جذبہ کس قدر کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا۔

مکرم عبدالحفیظ گوندل صاحب سابق قائد علاقہ لاہور حال مقیم کنیڈا بیان کرتے ہیں کہ ’’محترم محمد اسلم بھروانہ صاحب شہید میرے ساتھ جب نائب قائد علاقہ لاہور تھے تو ان کے ساتھ ہم دور دراز کے شہروں میں جایا کرتے تھے جن میں بہاولنگر، ساہیوال کے علاقے بھی شامل تھے۔ ان دوروں کے دوران میں نے یہ بات نوٹ کی کہ رات کو جب بھی بھروانہ صاحب کی آنکھ کھلتی تو وہ اٹھ کر نماز تہجد ادا کرتے اور پھر فجر کے لئے سوجاتے۔‘‘ گوندل صاحب نے ایک اور واقعہ بتایا جو خود اسلم بھروانہ صاحب نے گوندل صاحب کو سنایا تھا جس کا تعلق ضیاء الحق سے تھا۔ان دنوں میں (اسلم بھروانہ صاحب) کوئٹہ میں رہتے تھے۔ ایک دفعہ ضیاء الحق کوئٹہ دورہ پر آیا تو اس نے سرکاری افسران سے خطاب کرنا تھا، میں بھی اس اجلاس میں وہاں موجود تھا اور سینے پر کلمہ طیبہ کا بیج لگایا ہوا تھا، ایک اہلکار نے آکر مجھے کہا کہ اتاریں اس کو، لیکن میں نے صاف انکار کردیا تھا۔ اس وقعہ سے جہاں ان کی بہادری اور جرات کا پتاچلتا ہے وہیں خلافت کے ساتھ وفا اور اخلاص کا بھی پتاچلتا ہے۔ مکرم اسلم بھروانہ صاحب شہید کے دور قیادت میں لاہور کے قائد ضلع مکرم عبدالحلیم طیب صاحب (حال مقیم کینڈا) تھے آپ نے کئی سال بھروانہ صاحب کے ساتھ کام کیا، آپ بھروانہ صاحب کے بارہ میں بیان کرتے ہیں کہ ’’جب مجھے قائد ضلع لاہور خدمت کرنے کی توفیق مل رہی تھی اس وقت وہ قائد علاقہ لاہور تھے اس طرح بہت قریب سے ان کو دیکھنے کا موقع ملا، اللہ تعالیٰ نے ان کو جن صفات سے نوازا ہوا تھا ان میں ایک وصف بہادری کا بھی تھا، اس حوالے سے ایک واقعہ خاص طور پر قابل ذکر ہے جس کا انہوں نے ہی ذکر کیا تھا اور وہ یہ کہ ایک دن وہ (اسلم بھروانہ صاحب) اپنے دفتر میں بیٹھے ہوئے تھے اور ریلوے یونین کا ایک بڑا لیڈر دفتر میں آن ٹپکا اور غنڈہ گردی کرنے کے علاوہ مجھے ڈرانے دھمکانے کے لہجہ میں مخاطب ہوا۔ میں نے اس کو سمجھانے کی کوشش کی مگر وہ اپنے زعم میں تھا اور بڑبڑانے سے باز نہ آیا۔ میں نے اس کو اپنے کمرہ ہی میں بند کرلیا اور آستین اوپر کر لیں اور کہا کہ اب جرأت ہے تو بات کر، اس پر وہ اتنا خوفزدہ ہوا کہ پاؤں پڑ گیا اور معافی مانگنے لگا۔ میں نے اسے کہا کہ آئندہ کبھی ایسی غلطی نہ کرنا۔ مکرم عبدالحلیم طیب صاحب مزید بیان کرتے ہیں کہ بھروانہ صاحب سادہ لیکن باوقار زندگی گزارنے والے تھے، ہمیشہ سچ پر رہنے والے اور سچی گواہی دینے والے تھے، چونکہ بعض معاملات میں ان سے پوچھا جاتا تو ہمیشہ سچ بات کرتے اور صائب مشورہ دیتے تھے۔

مکرم تبسم مقصود صاحب ایڈوکیٹ حال مقیم کینڈا محترم اسلم بھروانہ صاحب کی مجلس عاملہ کے ممبر تھے نے خاکسار کو بتایا کہ محترم بھروانہ صاحب کو جماعتی کاموں کی اتنی فکر ہوا کرتی تھی کہ مجھے فون کرکے اپنے دفتر ہی بلا لیا کرتے تھے جو میرے گھر کے قریب ہی تھا اور پھر دوروں کا پروگرام بناتے اور دیگر شعبوں کےبارہ میں میرے ساتھ مشاورت کرتے تھے، شہدائے لاہور کے بارے میں جتنا بھی لکھا جائے وہ کم ہے۔ اللہ تعالیٰ شہدائے لاہور کی مغفرت فرمائے اور انکی اولادوں اور اہل خانہ کو انہی کی طرح اخلاص و وفا کا پیکر بنائے، آمین۔

٭…٭…٭

(مرسلہ: منور علی شاہد۔ جرمنی)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 20 جولائی 2020

اگلا پڑھیں

ہر انسان کا سر دو زنجیروں میں ہے