• 5 مئی, 2024

حضرت مسیح موعودؑ کی مہمان نوازی کا معیار

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:
… یہ بھی بتا دوں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی مہمان نوازی کا معیار کیا تھا؟ تا کہ ہمارے معیار مزید اونچے اور بہتر ہوں۔ ایک دن آپ کی طبیعت ٹھیک نہیں تھی، آپ آرام فرما رہے تھے، ایک مہمان آ گئے۔ آپ کو پیغام بھیجا گیا تو آپ باہر تشریف لائے اور فرمایا ’’میں نے سوچا مہمان کا حق ہوتا ہے جو تکلیف اٹھا کر آیا ہے۔ اس لئے مَیں اس حق کو ادا کرنے کے لئے باہر آ گیا ہوں۔‘‘

(ملفوظات جلد5 صفحہ163)

پس آج بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے مہمانوں کے لئے ہمیں یہی معیار قائم کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ جس مہمان نوازی کا آج ہمیں موقع دیا جا رہا ہے وہ نہ صرف مہمان ہیں بلکہ ایک دینی مقصد کے لئے سفر کر کے آنے والے مہمان ہیں۔ اس لئے آ رہے ہیں کہ جلسے کے تین دنوں میں اللہ تعالیٰ اور اُس کے رسول کی باتیں سنیں گے۔ اس لئے آ رہے ہیں کہ اپنی روحانی اور دینی تربیت کے سامان کریں گے۔ اس لئے آرہے ہیں کہ آپس میں پیار اور بھائی چارے اور محبت کی فضا کو قائم کریں گے۔ بہت سے مہمان ایسے بھی ہیں جو بڑی تکلیف اُٹھا کر آتے ہیں۔ بعض بڑے اچھے حالات میں اپنے گھروں میں رہنے والے یہاں آتے ہیں تو یہاں دنیاوی آسائش کے لحاظ سے ان دنوں میں تقریباً تنگی میں گزارہ کرتے ہیں لیکن پھر بھی آتے ہیں۔ بعض غریب مہمان ہیں وہ اپنے پر بوجھ ڈال کر دور دراز ملکوں سے صرف جلسے کی برکات حاصل کرنے کے لئے آتے ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے آتے ہیں۔ خلیفۂ وقت سے ملنے اور اُس کی باتیں سننے کے شوق میں آتے ہیں۔ اب بیشک ایم ٹی اے نے دنیائے احمدیت کو بہت قریب کر دیا ہے لیکن پھر بھی جلسے کے ماحول کا اپنا ایک علیحدہ اور الگ اثر ہے۔

پس ہمیں یہ نہیں سمجھنا چاہئے کہ آج کل کونسی تکلیف ہے جو یہ مہمان اُٹھا رہے ہیں۔ بعض بڑی عمر کے ہیں جو مختلف عوارض کے باوجود تکلیف اُٹھاتے ہیں اور سفر کرتے ہیں۔ بعض جیسا کہ مَیں نے کہا، اپنے گھر کی آسائشوں کو چھوڑ کر دین کی خاطر سفر کرتے ہیں، مارکی میں سوتے ہیں اور سادہ کھانے کو ترجیح دیتے ہیں۔ پس ایسے مہمانوں کا ہم پر بہت حق ہے۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے اکثریت ایسے مہمانوں کی ہوتی ہے جو صرف اور صرف جلسے کی غرض سے آتے ہیں اور اب تو سفر کے اخراجات بھی بہت بڑھ گئے ہیں لیکن خرچ کرتے ہیں اور پرواہ نہیں کرتے۔ پس ان مہمانوں کایہ احترام کرنا ہم پر فرض ہے۔ یہ بہت ہی قابلِ احترام مہمان ہیں جن کی نیت اللہ اور رسول کی رضا ہے۔

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ایک اور موقع پر مہمانوں کے بارے میں نصیحت کرتے ہوئے فرمایا۔
’’دیکھو بہت سے مہمان آئے ہوئے ہیں۔ ان میں سے بعض کو تم شناخت کرتے ہو اور بعض کو نہیں۔ اس لئے مناسب یہ ہے کہ سب کو واجب الاکرام جان کر تواضع کرو…‘‘ فرمایا ’’تم پر میرا حسنِ ظن ہے کہ مہمانوں کو آرام دیتے ہو۔ ان سب کی خوب خدمت کرو۔‘‘

(ملفوظات جلد3 صفحہ492)

پس جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے مہمان ہیں اور دینی غرض سے آئے ہیں، جن کی نیت اللہ تعالیٰ کی رضا کا حصول ہے تو ان کے لئے پھر ہمیں ایک توجہ کے ساتھ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے حسنِ ظن کا پاس کرنے اور خیال رکھنے کی ضرورت ہے۔ اور ہر مہمان کے لئے خدمت کا جذبہ ہمارے دل میں ہونا چاہئے۔ اور دل میں ہمیشہ یہ خیال رہنا چاہئے کہ مہمان کا حق ہوتا ہے۔ جہاں جہاں ہماری ڈیوٹیاں ہیں ہم نے اس حق کے ادا کرنے کی کوشش کرنی ہے۔ ہر کارکن اور ہر ڈیوٹی دینے والے کے دل میں یہ ہونا چاہئے تا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے حسنِ ظن پر پورا اتریں۔ ہم یہ کہنے کے قابل ہوں کہ اے خدا کے مسیح! اور اے رسولِ خدا صلی اللہ علیہ وسلم کے عاشقِ صادق! تیری ہر نصیحت پر ہم آج بھی عمل کرنے والے ہیں۔

(خطبہ جمعہ 23اگست 2013ء بحوالہ الاسلام ویب سائٹ)

پچھلا پڑھیں

رپورٹ جلسہ یوم خلافت مانساکونکو، گیمبیا

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 21 جولائی 2022