اللہ تعالیٰ کی طرف سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو عطا ہونے والے لقب سلطان القلم کے عین مطابق آپ ؑ نے قلم کے ہتھیار سے قوموں کے دل جیتے اور ان کی صراط مستقیم کی طرف راہنمائی فرمائی۔ حضرت اقدس ؑ کی ہر تحریر اور اس میں جڑے ہوئے ہر لفظ پُر معارف اور پُر اثر ہیں۔ ہم جب آپ کے علم کلام کا مطالعہ کرتے ہیں تو کرتے چلے جاتے ہیں، چھوڑنے کو دل ہی نہیں کرتا۔ گزشتہ دنوں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ملفوظات میں سے ایک فقرہ ’’مخالفتِ نفس بھی ایک عبادت ہے‘‘ پر قلم آزمائی کا اللہ تعالیٰ نے خاکسار کوموقع دیا۔ اس کے لئے جب خاکسار نے ملفوظات حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کا مطالعہ کیا تو روحانی جماعتوں کی مخالفت، اس کے للّہی جماعتوں کے لئے اچھے نتائج اور ترقیات کے حوالہ سے بہت سے اور ارشادات بھی نظروں سے گزرے۔ ان میں سے بعض ارشادات تو دو اور دو، چار کی طرح پاکستان میں مخالفین کی طرف سے احمدیت کی ہونے والی مخالفت اور اٹھنے والی فتنہ پرور ہواؤں اور ان کے مقابل پر جماعت احمدیہ پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے افضال و انعامات کی بارشیں برستی اور ان کے نتیجہ میں جماعت کی عالمی ترقیات پر لاگو ہوتے نظر آئے۔ گو اس سے قبل بھی اس موضوع پر خاکسار کئی دفعہ قلم آزمائی کر چکا ہے۔ تاہم اس دفعہ نئے زاویہ سےاپنے بیان کو سجانے کی کوشش ہوگی۔ وباللّٰہ التوفیق۔
اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے۔
اَحَسِبَ النَّاسُ اَنۡ یُّتۡرَکُوۡۤا اَنۡ یَّقُوۡلُوۡۤا اٰمَنَّا وَ ہُمۡ لَا یُفۡتَنُوۡنَ
(العنکبوت: 3)
ترجمہ: کیا لوگ یہ گمان کر بیٹھے ہیں، یہ کہنے پر کہ ہم ایمان لے آئے وہ چھوڑ دیئے جائیں گے اور آزمائے نہیں جائیں گے؟
(ترجمہ از حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ)
مادی اور روحانی دنیا میں انسان کو مخالفت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اور اگر اس مخالفت کو دونوں میدانوں میں وہ برداشت کر لیتا ہے، اپنے اوپر حاوی نہیں ہونے دیتا تو وہ کامیابی حاصل کرتا ہے۔
*ہم اس دنیا میں دیکھتے ہیں کہ سونے کے بکھرے ہوئے ذرات کو جب تیز آتش میں ڈالا جاتا ہے تو وہ کندن بن کر نکلتا ہے ورنہ ریت کے ذرات کے ساتھ سونے کے یہ ذرات اپنی اصلیت کی پہچان بھی نہیں کرواسکتے۔ پھر ہم دیکھتے ہیں کہ سُنار جب سونے کو بھٹی میں ڈالتا ہے تو ایسے زیورات تیار ہوتے ہیں جو نسوانی گلے، کلائیوں اور ہاتھوں کی زینت بن کر خوبصورتی میں اضافہ کرتے ہیں۔
*ہیرا، دیگر پتھروں میں مدغم، اپنے وجود کی پہچان بھی نہیں کرا سکتا مگر جب اس پتھر کو ہیرے سے بنے تیز دھار آلہ (کہتے ہیں کہ ہیراہی ہیرے کو کاٹتا ہے) سے کاٹا اور تراشا جاتا ہے تو اس میں ایسی چمک و دمک آجاتی ہے کہ جب اس پر روشنی پڑتی ہے تو مختلف لہروں میں کئی رنگوں کی شعائیں پھیلتی نظر آتی ہیں جو آنکھوں کو خیرہ کرتی ہیں اور یہی ہیرے جب زیورات میں جڑے جاتے ہیں تو انسان کی خوبصورتی میں اضافہ کا باعث بنتے ہیں۔
*انگلش کا ایک محاورہ خاکسار اپنے آرٹیکلز میں کثرت سےاستعمال کرتا ہے وہ بھی ان معنوں پرایک نئی شان سے اطلاق پاتا ہے۔ آئیے پڑھتے ہیں اور وہ یہ ہے
The More You Press, More Will Rise
کہ کسی چیز کو اگر آپ جبراً دبائیں تو وہ پہلے سے بڑھ کر اوپر کو نکلتی ہے۔ آپ اس پرنگ کی مثال دے سکتے ہیں۔ میں عموماً سات ربڑی گیند (Tennis Ball) کی مثال دیا کرتا ہوں کہ جتنی طاقت اور زور سےنیچے زمین پراسے مارو گے وہ زمین سے ٹکرا کر اس سے کہیں زیادہ طاقت اور زور سے آسمان کی طرف جائے گا۔ عام زمین کی نسبت پکے فرش پر زیادہ زور سےضرب لگتی ہے تو اس کی اچھال بھی زیادہ ہوتی ہے۔
*پرانے وقتوں میں ہم دھوبی کو دیکھا کرتے تھے کہ وہ گندے اور میلے کچیلے کپڑوں کو پتھر کی سِل پر زور زور سے مارتا تھا تو میل و دنس اندر سے نکل جاتی تھی اور کپڑے نکھر کر اصل رنگ میں آجاتے تھے۔ آج کل واشنگ مشینیں یہی کام کرتی ہیں۔
*اس سلسلہ میں بہت مثالیں دی جا سکتی ہیں۔ لیکن طوالت سے بچتے ہوئے ایک ایسی مثال اس مضمون کی مطابقت سے دینا چاہتا ہوں جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بیان فرمائی۔ اس کا میرے الفاظ میں مفہوم کچھ یوں ہے کہ
ایک لیمپ میں پانی ملا تیل جل رہا تھا۔ تیل پانی کے اوپر تھا۔ ان دونوں میں ہلکا سا جھگڑا اس بات پر ہو گیا کہ پانی تیل سے بولا کہ میں تم سے پاک صاف ہوں۔ وضو کے کام آتا ہوں۔ لوگ نہا دھو کر اپنے آپ کو صاف کرتے ہیں۔ میں تم سے نیچے کیوں ہوں۔ میرا مقام تو تم سے بالا ہونا چاہئے۔ اللہ تعالیٰ نے تیل کو زبان دی اور وہ یوں گویا ہوا کہ اے پانی! میں چھوٹا سا سرسوں کا بیج تھا مجھے زمین میں بکھیر دیا گیا۔ میرے کچھ ساتھیوں کو پرندے چُگ گئے۔ کچھ کو کیڑے مکوڑے کھا گئے اور میں کچھ ساتھیوں کے ساتھ چلچلاتی دھوپ میں پڑا رہا اور میں بچا رہا۔ ہواؤں کے زور دار تھپیڑوں اور تیز شعاعوں میں پلا اوربڑا ہوا۔ پھرایک مدت کے بعد پکنے پر مجھے کاٹ کر دھوپ میں سُکھانے کے لئے بچھا دیا گیا۔ پھر مجھے کولہو میں ڈالا گیا اور رگڑا دیا گیا۔ اس پر بھی مشکلات بس نہیں ہوئیں بلکہ مجھے آگ لگا دی گئی تیل نے پانی کو مخاطب کرتے ہوئے کہا۔ اور اب میں تمہارے سامنے جل رہا ہوں۔ کیا اب بھی میرا حق نہیں کہ میں تمہارے اوپر آسکوں؟
مندرجہ بالا مثالوں سے ثابت ہوتا ہے کہ اپنے آپ کو اندرونی و بیرونی طور پر صاف رکھنے اوردینی اور دنیوی ترقیات کے لئے اپنے آپ کو تکالیف میں ڈالنا ضروری ہے یا لوگوں کی طرف سے دی گئی تکالیف اور مشکلات کو بشاشت سے سہنادرست ہے۔ کچھ اقتباسات ملاحظہ فرمائیں۔
نبی کی مخالفت کیوں ہوتی ہے
حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں۔
’’جب ایک عقیدہ پرانا ہو جاتا ہے اور دیر سے انسان اس پر رہتا ہے تو پھر اسے اس کے چھوڑنے میں بڑی مشکلات پیش آتی ہیں۔ وہ اس کے خلاف نہیں سُن سکتا بلکہ خلاف سُننے پر وہ خون تک کرنے کو تیار ہو جاتا ہے کیونکہ پرانی عادت طبیعت کے رنگ میں ہو جاتی ہے۔ اس لئے میں جو کچھ کہتا ہوں اس کی مخالفت کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ایک جمے ہوئے خیال کو یہ لوگ چھوڑنا پسند نہیں کرتے۔‘‘
(ملفوظات جلد6 صفحہ293 ایڈیشن 1984ء)
مخالفت روحانی جماعتوں کی ترقی کے لئے ضروری ہے
حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے متعدد بار مخالفت کو کھاد سے تشبیہ دی ہے۔ حضرت مصلح موعودؓ نے اس کے لئے روڑی کا لفظ استعمال فرمایا ہے۔ ہمارا اکثر روڑی، کھاد کے قریب سے گزر ہوتا ہے بلکہ آج کل جو کیمیکل کھادیں بھی تیار کی جاتی ہیں ان سب میں بد بو ہوتی ہے۔ برصغیر پاک و ہند میں سڑکوں پر پھیلی گندگی یا روڑی کے قریب سے گزرنا مشکل ہو تا ہے۔ ہم اپنی ناک پر کپڑا یا رومال رکھ کر گزرتے ہیں کیونکہ یہ ناپاک، گندی اور بد بودار ہوتی ہیں لیکن اسی کھاد یا روڑی کو جب پھولوں اورپھلدار پودوں کو دیتے ہیں تو اس سے پودے، درخت اورپھل پھول بڑھتے، پھیلتے پھولتے اور پھول پھل اور سبزیاں دیتے ہیں۔
اسی طرح روحانی جماعتوں کی مخالفت کو بھی بد بودار روڑی سے تشبیہ دے کر یہ بتایاگیا کہ مخالفین کی طرف سے جب یہ روحانی باغ میں لگے پھولوں، درختوں اور پودوں کو ملتی ہے تو وہ روحانی پھول، پودے بھی بڑھتے ہیں اورخوش ذائقہ،رسیلے پھل اور خوشنما، خوشبودار پھول لاتے ہیں۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:
’’دیکھو کاشتکاری میں سب چیزوں ہی سے کام لیا جاتا ہے۔ پانی ہے۔ بیج ہے۔ مگر پھر بھی اس میں کھاد ڈالنے کی ضرورت پڑتی ہے جو سخت ناپاک ہوتی ہے۔ پس اسی طرح ہمارے سلسلے کے لئے بھی گندی مخالفت کھاد کا کام دیتی ہے۔‘‘
(ملفوظات جلد10 صفحہ370 ایڈیشن1984ء)
مخالفت مفید ہوتی ہے
آپؑ فرماتے ہیں:
’’مخالفت سے ڈرنا نہیں چاہئےبلکہ اس سے فائدہ ہوتا ہے۔ یہی قدیم سے سُنت چلی آتی ہے۔ جب کبھی کوئی نبی پیدا ہوتا ہے لوگ اس کی مخالفت شروع کرتے ہیں۔ سبّ و شتم سے کام لیتے ہیں۔ اسی ضمن میں کتابوں کے دیکھنے اور صحیح حالات کے سننے اور معلوم کرنے کا بھی ان کو موقعہ مل جاتا ہے۔ دنیا کے کیڑے جو اپنے دنیاوی کاموں میں مستغرق ہوتے ہیں ان کو فرصت ہی کہاں ہے کہ دینی امور کی طرف متوجہ ہوں۔ لیکن مخالفت کے سبب ان کو بھی غور و فکر کرنے کا موقعہ مل جاتا ہے اور ان کے شور وغل کے سبب دوسرے لوگوں کو بھی اس طرف توجہ ہو جاتی ہے کہ دیکھنا چاہئے کہ اصل میں بات کیا ہے۔ کئی لوگوں کے ہمارے پاس خطوط آئے کہ مولوی محمد حسین یا مولوی ثناء اللہ وغیرہ کا انہوں نے نام لیا کہ ان کی مخالفانہ تحریریں اور کتب پڑھ کر ہمیں اس طرف خیال ہوا کہ آخر مرزا صاحب کی تحریر بھی منگوا کر دیکھنی چاہیئے اور جب آپ کی کتاب پڑھی تو اس کو رُو حانیت سے پُر پایا۔ اور حق ہم پر کھل گیا۔
جب انسان توجہ کرتا ہے تو اس کا دلی انصاف خود اُسے ملزم کرتا ہے جہاں مخالفت کی آگ بھڑکتی ہے اور شور اٹھتا ہے اس جگہ ایک جماعت پیدا ہو جاتی ہے۔ انبیاء سے پہلے تمام لوگ نیک و بد بھائی بھائی بنے ہوئے ہوتے ہیں۔ نبی کے آنے سے ان کے درمیان ایک تمیز پیدا ہو جاتی ہے۔ سعید لوگ الگ ہو جاتے ہیں اور شقی الگ ہو جاتے ہیں۔ اگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مخالفین کو یہ کلمہ نہ سناتے کہ
اِنَّکُمۡ وَ مَا تَعۡبُدُوۡنَ مِنۡ دُوۡنِ اللّٰہِ حَصَبُ جَہَنَّمَ
(الانبیاء: 99)
تم اور تمہارے معبود جہنم کے لائق ہیں تو کفّار ایسی مخالفت نہ کرتے مگر اپنے معبودوں کے حق میں ایسے کلمات سن کر وہ جوش میں آگئے۔ پنجاب میں سب سے زیادہ مخالفت ہوئی اور اسی جگہ خدا تعالیٰ نے سب سے زیادہ جماعت بھی بنائی ہے۔ خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ پہلے لوگ امتِ واحدہ ہوتے ہیں پھر نبی کے آنے سے ان میں اختلاف پیدا ہو جاتا ہے۔ ابو جہل نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جو مباہلہ کیا تھا۔ اور آخری دُعا کی تھی کہ اے خدا جس نے ملک میں فساد پیدا کر رکھا ہے اور قطع رحم کرتا ہے آج اس کو ہلاک کر دے جس کے نتیجہ میں وہ خود ہلاک ہوا۔ اس کی دعا سے ظاہر ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے ملک کی کیا حالت ہو گئی تھی اور باہمی فساد کو کفار کس کی طرف منسوب کرتے تھے۔ جب شور اٹھتا ہے تو ایسے آدمی بھی پیدا ہو جاتے ہیں جو انصاف کی پابندی کرتے ہیں اور خد اتعالیٰ سے ڈرتے ہیں۔ مخالفین انبیاء کی عادت ہے کہ رسم و عادت کی پیروی کرتے ہوئے ایک بات پر اَڑ جاتے ہیں اور خدا تعالیٰ سے امید منقطع کر کے اسی پر فیصلہ کر لیتے ہیں کہ ہم اسی پر مَر جائیں گے خواہ کچھ ہی ہو۔ مگر خدا تعالیٰ انہی لوگوں میں سے سعید الفطرت انسان بھی پیدا کر دیتا ہے۔‘‘
(ملفوظات جلد10 صفحہ2-3 ایڈیشن 1984)
روحانی جماعتوں کی مخالفت،
خدا کی مخالفت ہوتی ہے
حضرت مسیح موعود فرماتے ہیں:
’’ہمارے مخالف جو ہمارے ساتھ لڑائی کرتے ہیں دراصل ہمارے ساتھ لڑائی نہیں کرتے بلکہ خدا تعالی کے ساتھ لڑائی کرتے ہیں اور کون ہے جو خدا تعالیٰ کے ساتھ لڑائی میں کامیاب ہو۔‘‘
(ملفوظات جلد9 صفحہ280 ایڈیشن 1984)
پھر فرمایا:
’’یاد رکھو جو مجھ سے مقابلہ کرتا ہے وہ مجھ سے نہیں بلکہ اس سے مقابلہ کرتا ہے جس نے مجھے بھیجا ہے اگر ادنیٰ چپڑاسی کی ہتک کی جائے اور اس کی بات نہ مانی جائے تو گورنمنٹ سے ہتک کرنے والے یا نہ ماننے والے کو سزا ملتی ہے اور باز پُرس ہوتی ہے تو پھر خدا تعالیٰ کی طرف سے آنے والے کی بے عزّتی کرنا اس کی بات کی پروا نہ کرنا کیونکر خالی جا سکتا ہے۔ میں تمہیں یقین دلاتا ہوں کہ اگر میرا سلسلہ خدا کی طرف سے نہیں تو یونہی بگڑ جائے گا خواہ کوئی اس کی مخالفت کرے یا نہ کرے کیونکہ خود اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے قَدۡ خَابَ مَنِ افۡتَرٰی (طہٰ: 62) اور فرمایا مَنۡ اَظۡلَمُ مِمَّنِ افۡتَرٰی عَلَی اللّٰہِ کَذِبًا (الانعام: 22) اور وہ شخص جو رات کو ایک بات بناتا اور دن کو لوگوں کو بتاتا اور کہتا ہے کہ مجھے خدا نے ایسا کہا ہے وہ کیونکر با مراد اور با برگ وبار ہو سکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتا ہے وَلَوۡ تَقَوَّلَ عَلَیۡنَا بَعۡضَ الۡاَقَاوِیۡلِ ﴿ۙ۴۵﴾ لَاَخَذۡنَا مِنۡہُ بِالۡیَمِیۡنِ ﴿ۙ۴۶﴾ ثُمَّ لَقَطَعۡنَا مِنۡہُ الۡوَتِیۡنَ ﴿۴۷﴾ (الحاقہ: 45-47) جب ایک ایسے عظیم الشان انسان کے واسطے ایسا فرمان ہے تو پھر ادنیٰ انسان کے واسطے تو چھوٹی سی چُھری کی ضرورت تھی اور کبھی کا فیصلہ ہو گیا ہوتا۔‘‘
(ملفوظات جلد10 صفحہ425-426 ایڈیشن 1984)
اس مضمون کی تفصیل میں بہت سے ارشادات حضرت مسیح موعود ؑ کے ملتے ہیں۔ ایک موقع پر آپؑ فرماتے ہیں۔
’’یہ بیہودہ باتیں نہیں ہیں بلکہ جب سے نبوت کا سلسلہ جاری ہوا ہے یہی قانون چلا آیاہے۔ قبل از وقت ابتلاء ضرور آتے ہیں تا کچوں اور پکوں میں امتیاز ہو اور مومنوں اور منافقوں میں بیّن فرق نمودار ہو اسی لئے خدا تعالیٰ نے فرمایا ہے اَحَسِبَ النَّاسُ اَنۡ یُّتۡرَکُوۡۤا اَنۡ یَّقُوۡلُوۡۤا اٰمَنَّا وَ ہُمۡ لَا یُفۡتَنُوۡنَ (العنکبوت: 3) یہ لوگ گمان کر بیٹھے ہیں کہ وہ صرف اتنا ہی کہنے پر نجات پا جائیں کہ ہم ایمان لائے اور ان کا کوئی امتحان نہ ہو۔ یہ کبھی نہیں ہوتا۔ دنیا میں بھی امتحان اور آزمائش کا سلسلہ موجود ہے جب دنیاوی نظام میں یہ نظیر موجود ہے تو روحانی عالم میں یہ کیوں نہ ہو؟ بغیر امتحان اور آزمائش کے حقیقت نہیں کھلتی آزمائش کے لفظ سے یہ کبھی دھوکا نہ کھانا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ کو جو عالم الغیب اور یَعْلَمُ السِّرَّوَ الْخفِیَّ ہے امتحان یا آزمائش کی ضرورت ہے اور بدوں امتحان اور آزمائش کے اس کو کچھ معلوم نہیں ہوتا ایسا خیال کرنا نہ صرف غلطی بلکہ کفر کی حد تک پہنچتا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کی عظیم الشان صفات کا انکار ہے۔ امتحان یا آزمائش سے اصل غرض یہ ہوتی ہے کہ تا حقائق مخفیہ کا اظہار ہو جاوے اور شخص زیر امتحان پر اس کی حقیقت ِ ایمان منکشف ہو کر اسے معلوم ہو جاوے کہ وہ کہاں تک اللہ کے ساتھ صدق، اخلاص اور وفا رکھتا ہے اور ایسا ہی دوسرے لوگوں کو اس کی خوبیوں پر اطلاع ملے۔
پس یہ خیال باطل ہے اگر کوئی کرے کہ اللہ تعالیٰ جو امتحان کرتا ہے تو اس سے پایا جاتا ہے اس کو علم نہیں اس کو تو ذرّہ ذرّہ کا علم ہے لیکن یہ ضروری ہے کہ ایک آدمی کی ایمانی کیفیتوں کے اظہار کے لئے اس پر ابتلاء آویں اور وہ امتحان کی چکی میں پیسا جاوے کسی نے کیا اچھا کہا ہے
؎ ہر بلا کیں قوم راحق دادہ اند
زیر آں گنج کرم بنہادہ اند
(یعنی ہر آزمائش جو خدا نے اس قوم کے لئے مقدر کی ہے اس کے نیچے رحمتوں کا خزانہ چھپا رکھا ہے۔ ناقل)
ابتلاؤں اور امتحانوں کا آنا ضروری ہے بغیر اس کے کشف حقائق نہیں ہوتا۔ یہودی قوم کے لئے یہ ابتلاجو مسیح کی آمد کا ابتلا تھا بہت ہی بڑا تھا اور جب کبھی خدا تعالیٰ کی طرف سے کوئی مامور آتا ہے ضرور ہے کہ ابتلاؤں کو لے کر آوے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی پیشگوئی توریت میں مثیلِ موسیٰ والی موجود ہے لیکن کیا کہنے والے نہیں کہتے کہ کیوں اللہ تعالیٰ نے پورا نام لے کر نہ بتایا اور سارا پتہ نہ دے دیا کہ وہ عبداللہ کے گھر میں آمنہ کے پیٹ سے پیدا ہو گا اور اسماعیلی سلسلہ میں ہوگا تیرے بھائیوں کا لفظ کیوں کہہ دیا؟ اصل بات یہ کہ اگر ایسی ہی صراحت سے بتا دیا جاتا تو پھر ایمان، ایمان نہ رہتا۔ دیکھو اگر ایک شخص پہلی رات کا چاند دیکھ کر بتا دے تو وہ تیز نظر کہلا سکتا ہے لیکن اگر کوئی چودھویں کا چاند دیکھ کر کہہ دے کہ میں نے بھی چاند دیکھ لیا ہے تو کیا لوگ اس پر ہنسیں گے نہیں؟ یہی حال خدا تعالیٰ کے رسولوں اور نبیوں کی شناخت کے وقت ہوتا ہے جو لوگ قرائن قویہ سے شناخت کر لیتے اور ایمان لے آتے ہیں اور اوّل المؤمنین ٹھہرتے ہیں ان کے مدارج اور مراتب بڑے ہوتے ہیں۔ لیکن جب ان کا صدق آفتاب کی طرح کھل جاتا ہے اور ان کی ترقی کا دریا بہہ نکلتا ہے تو پھر ماننے والے عوام الناس کہلاتے ہیں۔‘‘
(ملفوظات جلد2 صفحہ255-256 ایڈیشن 2016ء)
*ایک بار پھر اپنے مضمون کے ابتدائیہ حصہ کی طرف لوٹتے ہوئے حضرت مسیح موعود ؑ کے ایک طویل ارشاد کا خلاصہ پیش ہے۔
حضور علیہ السلام فرماتے ہیں۔
’’دنیا کی وضع ہی ایسی بنی ہے اس میں مصائب کا آنا ضروری ہے۔۔۔دنیا میں جسقدر آدمی گزرے ہیں ان میں سے کون دعویٰ کر سکتا ہے کہ اس پر کبھی کوئی مصیبت وارد نہیں ہوئی۔۔۔۔دین کی راہ میں دو قسم کی تکلیفیں ہیں۔ ایک تکالیف شرعیہ جیساکہ نماز ہے روزہ ہے حج ہے اور زکوٰۃ ہے۔۔۔ یہ سب تکالیف شرعیہ ہیں۔ اور انسان کے واسطے موجب ثواب ہیں اس کا قدم خدا کی طرف بڑھاتی ہیں۔ لیکن ان سب میں انسان کو ایک وسعت دی گئی ہے اور وہ اپنے آرام کی راہ تلاش کر لیتا ہے۔۔۔لیکن تکالیف سماوی جو آسمان سے اترتی ہیں اُن میں انسان کا اختیار نہیں ہوتا۔ اور بہر حال برداشت کرنی پڑتی ہیں۔۔۔ ہر دو قسم کی تکلیف شرعی اور سماوی کا ذکر اللہ تعالیٰ نے قرآن شریف میں کیا ہے۔ الٓـمّٓ ۚ﴿۲﴾ ذٰلِکَ الۡکِتٰبُ لَا رَیۡبَۚۖۛ فِیۡہِۚۛ ہُدًی لِّلۡمُتَّقِیۡنَ ﴿۳﴾ (البقرہ: 2-3) یعنی مومن وہ ہے جو خدا تعالیٰ پر غیب سے ایمان لاتے ہیں۔ اپنی نماز کو کھڑا کرتے ہیں۔ ۔۔۔خدا تعالیٰ کے دیئے ہوئے مال میں سے خرچ کرتے ہیں۔ یہ تکالیف شرعیہ ہیں مگر ان پر پورے طور سے بھروسہ حصول ثواب کا نہیں ہو سکتا کیونکہ بہت سی باتوں میں انسان غفلت کرتا ہے۔۔۔
اس واسطے انسانی مدارج کی ترقی کے واسطے سماوی تکالیف بھی رکھی گئی ہیں۔ ان کا ذکر بھی خدا تعالیٰ نے قرآن شریف میں کیا ہے۔ جہاں فرمایا وَلَنَبۡلُوَنَّکُمۡ بِشَیۡءٍ مِّنَ الۡخَوۡفِ وَالۡجُوۡعِ وَنَقۡصٍ مِّنَ الۡاَمۡوَالِ وَالۡاَنۡفُسِ وَالثَّمَرٰتِ ؕ وَبَشِّرِ الصّٰبِرِیۡنَ ﴿۱۵۶﴾ۙ الَّذِیۡنَ اِذَاۤ اَصَابَتۡہُمۡ مُّصِیۡبَۃٌ ۙ قَالُوۡۤا اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّاۤ اِلَیۡہِ رٰجِعُوۡنَ ﴿۱۵۷﴾ؕ اُولٰٓئِکَ عَلَیۡہِمۡ صَلَوٰتٌ مِّنۡ رَّبِّہِمۡ وَرَحۡمَۃٌ۟ وَاُولٰٓئِکَ ہُمُ الۡمُہۡتَدُوۡنَ ﴿۱۵۸﴾ (البقرہ: 156-158) یہ وہ مصائب ہیں جو خدا تعالیٰ اپنے ہاتھ سے ڈالتا ہے۔ یہ ایک آزمائش ہے جس میں کبھی تو انسان پر ایک بھارے درجہ کا ڈر لاحق ہوتا ہے۔ وہ ہر وقت اس خوف میں ہوتا ہے کہ شائد اب معاملہ بالکل بگڑ جائے۔ ۔۔لیکن اللہ تعالیٰ ظالم نہیں۔ جب کسی پر صدمہ سخت ہو اور وہ صبر کرے تو جتنا صدمہ ہو اتنا ہی اس کا اجر بھی زیادہ ہوتا ہے۔ خدا تعالیٰ رحیم غفور اور ستار ہے۔ وہ انسان کو اس واسطے تکلیف نہیں پہنچاتا کہ وہ تکلیف اٹھا کر دین سے الگ ہو جائے بلکہ تکالیف اس واسطے آتی ہیں کہ انسان آگے قدم بڑھائے۔ صوفیا کا قول ہے کہ ابتلاء کے وقت فاسق آدمی قدم پیچھے ہٹاتا ہے لیکن صالح آدمی اور بھی قدم آگے بڑھاتا ہے۔۔۔
انبیاء اور رُسل کو جو بڑے بڑے مقام ملتے ہیں وہ ایسی معمولی باتوں سے نہیں مل جاتے جو نرمی سے اور آسانی سے پُوری ہو جائیں بلکہ ان پر بھاری ابتلاء اور امتحان وارد ہوئے جن میں وہ صبر اور استقلال کے ساتھ کامیاب ہوئے۔ تب خدا تعالیٰ کی طرف سے ان کو بڑے بڑے درجات نصیب ہوئے۔ ۔۔درحقیقت انسان کا تقویٰ تب محقق ہوتا ہے جبکہ اس پر کوئی مصیبت وارد ہو جب وہ تمام پہلو ترک کر کے خدا تعالیٰ کے پہلو کو مقدم کر لے اور آرام کی زندگی کو چھوڑ کر تلخ زندگی قبول کر لے تب انسان کو حقیقی تقویٰ حاصل ہوتا ہے۔ انسان کی اندرونی حالت کی اصلاح نری رسمی نمازوں اور روزوں سے نہیں ہو سکتی بلکہ مصائب کا آنا ضروری ہے۔
؎ عشق اول سرکش وخونی بود
تاگریزد ہرکہ بیرونی بود
اول حملہ عشق کا شیر کی طرح سخت ہوتا ہے۔ جس قدر انبیاء اور رسُول اور صدیق گزرے ہیں اُن میں سے کسی نے معمولی امور سے ترقی نہیں پائی بلکہ ان کے مدارج کا راز اس بات میں تھا کہ انہوں نے خدا تعالیٰ کے ساتھ موافقت تامہ کی۔ مومن کی ساری اولاد ذبح کر دی جائے اور اس کے سوائے بھی اس پر تکالیف پڑیں تب بھی وہ بہر حال قدم آگے بڑھاتا ہے۔
۔۔۔مصائب تما م انبیاء پر وارد ہوتے ہیں۔ کوئی ان سے خالی نہیں رہا۔ اسی واسطے مصائب کے برداشت کرنے والے کے لئے بڑے بڑے اجر ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن شریف میں فرمایا ہے اور اپنے رسول کو خطاب کیا ہے کہ صبر کرنے والوں کو خوشخبری دے وہ جو مصیبت کے وقت کہتے ہیں کہ ایک وقت تھا کہ ہمارا کوئی وجود ہی نہ تھا۔ خدا تعالیٰ نے ہم کو پیدا کیا ہے ہم اس کی امانت ہیں اور اسی کے پاس جانا ہے۔ ایسے لوگوں کے واسطے بشارت ہے۔ ان مصائب کے ذریعہ سے جو برکات حاصل ہوتے ہیں اور خدا تعالیٰ کی طرف سے جو خاص بشارت ملتی ہے وہ نماز روزہ زکوٰۃ سے حاصل نہیں ہو سکتی۔ نماز کما حقہ ادا ہو جاوے تو بہت عمدہ شئے ہے مگر خدا تعالیٰ کی طرف سے جو نشانہ لگتا ہے۔ وہ سب سے زیادہ ٹھیک بیٹھتا ہے اور اسی سے ہدایت اور رستگاری حاصل ہوتی ہے۔
۔۔۔مومن کی نشانی یہ ہے کہ وہ صرف صبر کرنے والا نہ ہو بلکہ اس سے بڑھ کر یہ ہے کہ مصیبت پر راضی ہو۔ خدا کی رضا کے ساتھ اپنی رضا ملا لے۔ یہی مقام اعلیٰ ہے۔ مصیبت کے وقت خدا تعالیٰ کی رضا کو مقدم رکھنا چاہئے۔ مُنعم کو نعمتوں پر مقدم رکھو۔ بہت سے لوگ ایسے ہوتے ہیں کہ جب ان پر کوئی مصیبت آتی ہے تو وہ شکوہ شروع کر تے ہیں گویا خدا تعالیٰ کے ساتھ قطع تعلق کرتے ہیں۔ ۔۔
یہ ایک ضروری نصیحت ہے اور اس کو یاد رکھو کہ اگر کوئی شخص مصیبت زدہ ہو تو اُسے ڈرنا چاہئے کہ ایسا نہ ہو کہ اس سے بڑھ کر اس پر کوئی مصیبت گرے۔ کیونکہ دنیا دارالمصائب ہے اور اس میں غافل ہو کر بیٹھنا اچھا نہیں۔ اکثر مصائب متنبّہ کرنے کے واسطے آتے ہیں۔‘‘
(ملفوظات جلد10صفحہ82-88 ایڈیشن 1984ء)
پس جماعت احمدیہ اپنی محدود تعداد، محدود وسائل کے باوجود اسلام کے نام سے دنیا بھر جو پہچانی جاتی ہے۔ دوسرے الفاظ میں یورپ اور افریقہ میں اسلام کی نمائندہ جماعت، جماعت احمدیہ سمجھی اور پہچانی جاتی ہے۔ دنیا بھر میں ہزاروں کی تعداد میں اللہ کے گھر کا قیام، 80 سے زائد قرآن کریم کے تراجم، اسلامی لٹریچر کے ذریعہ اسلام کا پیغام، مبلغین اور داعیان الی اللہ کے ذریعہ اسلام کا پیغام دنیا تک پہنچانا نیز ایم ٹی اے کے ذریعہ گھر گھر آسمان سے روحانی مائدہ کی صورت میں اپنوں کی تعلیم و تربیت اور غیروں کو پیغام حق پہنچانا، یہ ایسی کامیابیاں ہیں جو منہ بولتی تصویریں ہیں کہ جماعت احمدیہ باوجود انٹرنیشنل مخالفت کے بڑھتی اور پھیلتی جا رہی ہے۔
حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں۔
’’میں نے کل سوچا کہ اس میں کیا حکمت ہے کہ جب کوئی صادق خدا کی طرف سے آتا ہے تو اس کو لوگ کتوں کی طرح کاٹنے کو دوڑتے ہیں۔ اس کی جان، اس کا مال، اس کی عزت و آبرو کے در پے ہو جاتے ہیں۔ مقدمات میں اس کو کھینچتے ہیں۔ گورنمنٹ کو اس سے بد ظن کرتے ہیں غرض ہر طرح سے جس طرح ان سے بن پڑتا ہے اور تکلیف پہنچا سکتے ہیں اپنی طرف سے کوئی کسر باقی نہیں رکھتے۔ ہر پہلو سے اس کے استیصال کرنے پر آمادہ اور ہر ایک کمان سے اس پر تیر مارنے کو کمر بستہ ہوتے ہیں۔ چاہتے ہیں کہ ذبح کر دیں اور ٹکڑے ٹکڑے کر کے قیمہ کر دیں۔ ادھر تو یہ جوش اٹھتا ہے مگر دوسری طرف اس کے پاس ہزار در ہزار لوگ آتے ہیں۔ شرک و بدعت میں مبتلا ہوتے اور حق اللہ انسان کو دیا جاتا ہے مگر ان میں مولویوں کو اس امر کی پرواہ نہیں۔ ہزاروں کنجر اور لنگوٹی پوش فقیر بنتے اور خلق اللہ کو گمراہ کرتے ہیں مگر ان لوگوں کو قتل اور کفر کا فتویٰ کوئی نہیں دیتا ان کی ہر حرکت بدعت اور شرک سے پُر ہوتی ہے۔ ان کا کوئی کام ایسا نہیں ہوتا جو سراسر اسلام کے خلاف نہ ہو۔ مگر ان پر کوئی اعتراض نہیں کیا جاتا۔ ان کے لئے کسی دل میں جوش نہیں اٹھتا غرض اس میں میَں سوچتا تھا کہ کیا حکمت ہے تو میری سمجھ میں آیا کہ اللہ تعالیٰ کو منظور ہوتا ہے کہ صادق کا ایک معجزہ ظاہر کرے کہ باوجود اس قسم کی ممانعت کے اور دشمن کے تیر و تبر چلانے کے صادق بچایا جاتا اور اس کی روز افزوں ترقی کی جاتی ہے خدا کا اہاتھ اسے بچاتا اور اس کو شاداب و سر سبز کرتا ہے۔ خدا کی غیرت نہیں چاہتی کہ کاذب کو بھی اس معجزہ میں شریک کرے۔ اسی واسطے اس کی طرف سے دنیا کے دلوں کو بے پرواہ کر دیتا ہے۔ گویا اس جھوٹے کی کسی کو یہ پرواہ نہیں ہوتی۔ اس کا وجود دلوں کو تحریک نہیں دے سکتا۔ مگر برخلاف اس کے صادق کا وجود تباہ ہونے والے دلوں کو بے قرار اور بے چین کر کے ایک رنگ میں ایک طرح سے بے خبر کر دیتا ہے اور ان کے دل بے قرار ہوتے ہیں۔ کیونکہ دل اندر ہی اندر جانتے ہیں کہ یہ شخص ہمارا کاروبار تباہ کرنے آیا ہے۔ اس واسطے نہایت اضطراب کی وجہ سے اس کے ہلاک کرنے کو اپنے تمام ہتھیاروں سے دوڑتے ہیں مگر اس کا خدا خود محافظ ہوتا ہے۔ خدا خود اس کے واسطے طاعون کی طرح واعظ بھیجتا اور اس کے دشمنوں کے واعظوں پر اسے غلبہ دیتا ہے۔ وہ خدا کے واعظ کا مقابلہ نہیں کر سکتے۔ اب دیکھیے کہ اتنے لوگ جو ہر جمعہ کو جن کی نوبت اکثر پچاس ساٹھ تک پہنچ جاتی ہے ان کو کون بیعت کے لئے لاتا ہے؟ یہی طاعون کا ڈنڈا ہے جو ان کو ڈرا کر ہماری طرف لے آتا ہے ورنہ کب جاگنے والے تھے اسی فرشتہ نےان کو جگایا ہے۔‘‘
(ملفوظات جلد4 صفحہ245-246 ایڈیشن2016ء)
اللہ تعالیٰ ہم کو ہر دم اپنے فضل وکرم کے نظارے دکھاتا چلا جائے اور اللہ کی بے شمار فتوحات ہم کو نصیب ہوں کہ مخالفوں کے لئےاس کے جواب میں ناخن چبانے کے علاوہ کچھ کام نہ بچے۔
(ابو سعید)