• 15 مئی, 2024

حضرت سیدہ خدیجہؓ

پیارے آقا و مولا سیدنا ومولانا حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم بہترین خاتون کی مثال دیتے ہوئے فرماتے ہیں ’’موسوی امت کی بہترین خاتون مریم تھیں جو آل عمران میں سے تھیں اور اس امت کی بہترین خاتون خدیجہ بنت خویلد ہیں۔‘‘ (صحیح بخاری) حضرت سیدہ خدیجہ رضی الله تعالیٰ عنہا ایک متقی، پرہیزگار، صابر و قناعت پسند خاتون تھیں۔ آپ کو اپنے خالق سے بے پناہ محبّت تھی۔ حضرت خدیجہ رضی الله تعالیٰ عنہا کی پاکیزگی اور تقدیس کا یہ عالم تھا کہ ہر وقت مخلوق خدا کی خدمت میں مشغول رہتیں۔ اور اعلیٰ سے اعلیٰ اعمال بجا لاتیں۔

حضرت سیدہ خدیجہ رضی الله تعالیٰ عنہا 555 عیسوی میں قریش کے ایک معزز خاندان میں پیدا ہوئیں۔ آپ کے والد کا نام خویلد اور والدہ کا نام فاطمہ تھا۔ آپ کا شجرہ نسب تیسری پیڑی پر رسول الله سے جا ملتا ہے۔ آپ کے والد مشہور اور امیر تاجر تھے۔ آپ شروع سے ہی ہمدرد، غریب پرور، اور بلند اخلاق کی مالک تھیں۔ یہی وجہ تھی کہ سن بلوغت میں آپ طاہرہ (پاکیزہ) کے لقب سے جانی جاتی تھیں۔

آپ کا نکاح ابو ہالہ سے ہوا جن سے آپ کے تین بچے پیدا ہوئے۔ آپ کے شوہر ابو ہالہ جوانی میں ہی وفات پا گئے۔ پھر آپ کا نکاح عتیق بن عایذ سے ہوا اور انکی بھی جلد ہی وفات ہو گئی۔ اسی سال آپ کے والد کی بھی وفات ہوئی۔ اور آپ پرغموں کے پہاڑ ٹوٹ پڑے۔ آپ کے والد تجارت کیا کرتے تھے انکی وفات کے بعد ساری ذمہ داری حضرت خدیجہ رضی الله تعالیٰ عنہا پر آن پڑی۔ آپ نے یہ ذمہ داری خوب فراست اور بصارت سے ادا کی۔

آپ سنجیدہ مزاج، ذہین، فیاض اور غم گسار خاتون تھیں۔ اس دور میں جب ملک عرب میں ہمدردی اور شفقت کا فقدان تھا حضرت خدیجہ رضی الله تعالیٰ عنہا اپنے مال کا وافر حصّہ بیواؤں، یتیموں اور مسکینوں میں تقسیم کر دیا کرتی تھیں۔ الله تعالیٰ نے قرآن مجید میں حقوق العباد کی تعلیم دیتے ہوئے فرمایا کہ ’’کون ہے جو الله کو قرضہ حسنہ دے تاکہ وہ اس کے لئے اسے کئی گنا بڑھا دے‘‘ (البقرہ: 246) اسی وعدہ کے تحت الله تعالیٰ نے انکی نیکیوں کے بدلے انکو بے انتہا اوربے حساب مال سے نوازا۔ اور یوں عرب میں آپ ایک مالدار، سخی، اور نیک عورت کے نام سے مشہور ہوئیں۔

حضرت خدیجہ رضی الله تعالیٰ عنہا کو جیسے ہی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی دیانت داری کا علم ہوا تو جلد ہی رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنا مال دے کر تجارت کی غرض سے روانہ کر دیا۔ جس کے بعد اپنی سہیلی کے توسط سے شادی کا پیغام بھجوایا۔ حضرت ابو طالب نے رشتہ قبول کرتے ہوئے اپنے بھتیجے اورحضرت خدیجہ رضی الله تعالیٰ عنہا کا نکاح چار سو درہم حق مہرپر پڑھایا۔

(طبقات ابن سعد جلد اول)

رسول الله کے حلقہ زوجیت میں آنے کے بعد آپ نے اپنا سب کچھ، مال، جائداد اور غلام پیغمبر خدا کے سپرد کر دیا۔ آپ نے یہ انتظار نہ کیا کہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم آپ سے پوچھیں بلکہ انکے جذبات اور احساسات کا خیال کرتے ہوئے اپنی خوشی سے درخواست کی کہ یہ سب کچھ آپؐ کا ہے۔ آپؐ جو چاہیں کریں۔ اس بارے میں حضرت مصلح مو عودؓ فرماتے ہیں کہ ’’حضرت خدیجہ رضی الله تعالیٰ عنہا کے حالات پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ ہزاروں روپے رکھنے والی خاتون نہیں تھیں بلکہ لاکھ پتی خاتون تھیں۔ لیکن خاوند کے احساسات کا ایسا خیال تھا کہ جب انہوں نے یہ محسوس کیا کہ رسول الله کا حساس دل ایسی زندگی میں لطف نہیں پا ئے گاکہ آپؐ کی بیوی مالدار ہو اورآپؐ بیوی کے محتاج ہوں تو محبت سے اپنا سارا مال و اسباب رسول الله ؐ کو خدمت میں پیش کرتے ہوئے فرمانے لگیں کہ آپؐ میری پیشکش کو قبول فرما کر میری دلجوئی فرمائیں۔ اور جب اورجیسے چاہیں خرچ کریں۔‘‘

(اجتماع لجنہ اماء الله 1952ء)

الله تعالیٰ نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت خدیجہ رضی الله تعالیٰ عنہا کو تین لڑکوں اور چار لڑکیوں سے نوازا۔ حضرت خدیجہ رضی الله تعالیٰ عنہا کے تینوں لڑکے کم سنی میں وفات پا گئے۔ ان صدموں کو بھی آپ نے صبراور حوصلہ سے برداشت کیا۔ حضرت قاسم ابھی شیرخوارہی تھے کہ وفات پا گئے۔ حضرت خدیجہؓ نے صبرکیا۔ ایک بار انہوں نے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا: ’’اے اللہ کے نبی! قاسم کے دودھ پلانے والے دن ابھی ختم نہیں ہوئے تھے۔ اگر اللہ نے اسے مزید چند دن کی اجازت دی ہوتی تو ہم اپنے بچے کے ساتھ کچھ اور وقت گزار لیتے۔ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا، ’’وہ جنت میں اپنے شیر خواری کے دن پورے کرلے گا۔‘‘ حضرت خدیجہ نے جواب دیا، ’’اگر اس پر یقین کیا جائے تو یہ اس غم کو کم کرے گا جو میں قاسم کے لیے برداشت کرتی ہوں۔‘‘ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’اگر تم چاہو تو میں اللہ سے دعا کروں گا کہ وہ تمہیں تمہارے بیٹے کی آوازسنا دے۔ اس طرح تمہیں تسلی ہو سکتی ہے۔ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے کمال اطاعت ساتھ جواب دیا ’’اے اللہ کے نبی! میں اللہ اور اس کے رسول کی باتوں کو سچ مانتی ہوں یقیناً ہمارا بیٹا جنّت میں کھیلتا ہوگا۔‘‘

(سنن ابن ماجہ کتاب الجنائز، باب ماجا)

حضرت خدیجہ رضی الله تعالیٰ عنہا ایک عظیم المرتبت خاتون تھیں اور رسول الله کی بے حد خدمت کرتی تھیں۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی طبیعت کے خلاف کوئی کام کرنا پسند نہیں کرتی تھیں۔

آپؐ کے معاملات میں بے جا مداخلت نہ کرتیں، آپؐ کے آرام کا بہت زیادہ خیال رکھتیں۔ حضورؐ کا ہر کام بڑی خوشی سے کرتیں۔ آپکا بستر بچھانے میں فخر محسوس کرتیں۔ وضو کا پانی خود لاکر دیتیں، خود آٹا پیستیں، گوندھتیں اور روٹی پکایا کرتیں آپؐ جب عبادت کی غرض سے گوشہ نشینی اختیار کرتے تو انکے لئے کھانا تیار کرتیں۔ جب کھانا ختم ہو جاتا تو آپؐ واپس آتے اور پھر کچھ دن کا سامان لے کر اپنے رب کے حضور حاضر ہو جاتے۔

رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم پر سب سے پہلے ایمان لانے والی بھی حضرت خدیجہ رضی الله تعالیٰ عنہا تھیں۔ الله تعالیٰ نے آپ کو خاص فہم اور دینی بصیرت سے نوازا تھا۔ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم جب منصب نبوت پر فائز ہوئے تو آپ نے انکی صداقت پر یقین لانے میں ذرا بھی تامل نہ کیا۔ اس طرح آپ کو سب سے پہلے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے کی سعادت نصیب ہوئی۔

آپ نے خدا کے پیغام کو نہ صرف روشن دلی سے قبول کیا بلکہ ساری عمراس پیغام کو پھیلانے میں رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم کے شانہ بشانہ رہیں۔ آپ نے اپنی اگلے نسل کی تربیت بھی اس رنگ میں کی کہ خدا کی وحدانیت سے محبت اور شرک سے بیزاری پیدا ہو۔ آپ نے انکو بچپن سے ہی خدا ترسی کا سبق سکھلایا اور حقوق الله اور حقوق العباد کا مفہوم سمجھایا۔ آپ کی عظیم الشان تربیت اور گھر کے روحانی ماحول نے بچوں کی تمام صلاحیتوں کو جلا بخشی۔ ’’حضرت فاطمہ رضی الله تعالیٰ عنہا نے ایک دفعہ اپنی والدہ سے سوال کیا کہ الله تعالیٰ جس نے ہمیں پیدا کیا ہے کیا وہ ہمیں نظر آ سکتا ہے؟ اس پر حضرت خدیجہ رضی الله تعالیٰ عنہا نے کمال شفقت سے فرمایا ’’اگرہم الله کی عبادت کریں اور اسکی مخلوق سے محبّت کریں تو قیامت کے دن ہم ضرور الله تعالیٰ کی زیارت کریں گے۔‘‘

(سیرت فاطمہ الزہرہ صفحہ32)

حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اعلان رسالت سے مشرکین مشتعل ہو گئے۔ اوردن بدن ظلم و ستم میں بڑھتے جاتے۔ کبھی رسول الله پر کچرا پھینکتے کبھی پتھراور کبھی مٹھی بھر مسلمانوں کو تپتی ریت پر جلاتے۔ ان حالات میں ام المومنین نے رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم کا ساتھ دینے میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔ آپ صبر اور حوصلے سے ان کی ڈھارس بندھاتیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو مشرکوں کی تکذیب سے تکلیف پہنچتی تو وہ حضرت خدیجہ رضی الله تعالیٰ عنہا سے دکھ کا اظہار کرتے۔ آپ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو تسلی دیتیں کے خدا آپ کو کبھی اکیلا نہیں چھوڑے گا۔

قریش مکّہ کی اشتعال انگیزی کی انتہا اس وقت ہوئی جب سب نے متحد ہو کر مسلمانوں کا بائکاٹ کر کے انکو شعب ابی طالب میں محصور کر دیا۔ کفّار اتنا ظلم کرتے کہ کھانے پینے کی کوئی چیز مسلمانوں تک نہ پہنچنے دیتے تھے۔ یہ محاصرہ تین سال تک جاری رہا۔ نوبت یہاں تک پہنچ گئ کہ مسلمان بےبس ہو کر درختوں کے پتے کھا کر گزارا کرتے۔ حضرت خدیجہ رضی الله تعالیٰ عنہا اسی دوران مصائب کی تاب نہ لاتے ہوئے اس جہان فانی سے کوچ کر گیئں۔ ’’انتقال کے وقت آپ کی عمر 64 سال اور کچھ ماہ تھی۔‘‘

(ابن ہشام، سیرت خاتم النبیین)

رسول الله کے لئے ایسی رفیق حیات کو رخصت کرنا جس نے زندگی کے ہر قدم میں آپؐ کا مکمّل طور پر ساتھ نبھایا ہو آسان نہیں تھا۔ ام المومنین کا جو تعلق رسول الله سے تھا وہ محتاج بیان نہیں۔ ایک دوسرے کی قدرو عزت، محبّت و وفا، فرائض کی ادا ئیگی، حسن معاشرت، تقویٰ، راستبازی، دینداری، اور غرباء پروری میں اس جوڑے کی مثال نہیں ملتی۔ آپؐ انکی وفات کے بعد بات بات پران کا ذکر فرماتے اوراشکبار ہو جایا کرتے تھے۔ ایک مرتبہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے گھر میں تھے جب حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کی بہن ہالہ ان سے ملنے آئی۔ حضور جذبات سے مغلوب ہو گئے۔ فرمانے لگے ’’یہ ہالہ ہونگی۔ اس کی آواز خدیجہ کی طرح لگتی ہے۔‘‘ جلدی سے دروازے پر آئے اور ان کا استقبال کیا۔

(حضرت سیدہ خدیجہ صفحہ34)

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ گومیں نے حضرت خدیجہ رضی الله تعالیٰ عنہا کونہیں دیکھا لیکن جسقدر رشک مجھے ان پر آتا ہے کسی اورپرنہیں آتا۔ کیونکہ آنحضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہربات پران کا تذکرہ فرمایا کرتے تھے۔ آپؐ حضرت خدیجہ ؓ کے ایثارو فدائیت, اور نیک اوصاف کی بہت قدر کرتے تھے۔ خود حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ان تعریفی کلمات میں اپنی زوجہ محترمہ کو یاد کیا کرتے تھے۔

’’خدا کی قسم! الله تعالیٰ نے مجھے خدیجہ کے بدلے اس سے بہتر کوئی بیوی نہیں دی۔ وہ مجھ پر ایمان لائی جبکہ آوروں نے کفر کیا، اس نے میری تصدیق کی جب دوسروں نے میری تکذیب کی۔ اس نے اپنے مال سے میری غم خواری کی جبکہ لوگوں نے مجھے محروم رکھا۔ اور خدا تعالیٰ نے اسی کے بطن سے مجھے اولاد بخشی جبکہ دوسری ازواج کو اس نے محروم رکھا۔‘‘

(مسند احمد بن حنبل جلد6 صفحہ118)

حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کو خوشخبری دی گئی کہ ان کے پاس جنت میں موتیوں سے بنا محل ہوگا، ’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ حضرت جبرائیل علیہ السلام آئے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! جب آپ خدیجہ رضی اللہ عنہا کو دیکھیں تو انہیں اپنے پروردگار کی طرف سے سلامتی اور میری طرف سے سلام دیں۔ اور انہیں یہ خوشخبری دیں کہ ان کے پاس جنت میں چمکتے موتیوں سے بنا ایک گھر ہوگا۔

(حضرت سیدہ خدیجہ صفحہ36)

حضرت سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا نے اسلام کی اشاعت لئے عظیم الشان قربانیاں دیں۔ اپنے شوہر کی اطاعت گزار اور فرمان بردار تھیں۔ آپ ایک عبادت گزار، ایمان دار، سخی، مہربان، اوررشتہ داروں کا احترام کرنے والی خاتون تھیں۔ آپ کی مبارک زندگی کا ہر پہلو مسلمان خواتین کے لئے نیک نمونہ ہے۔ ان کی زندگی پر عمل کرتے ہوئے ہم اپنی دنیا اور آخرت دونوں سنوارسکتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ آپکے درجات بلند فرمائے اور ہمیں آپ کے مبارک اسوہ پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔

(آمین ثم آمین)

(عطیة الباری غنی۔ امریکہ)

پچھلا پڑھیں

رپورٹ جلسہ یوم خلافت مانساکونکو، گیمبیا

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 21 جولائی 2022