• 28 اپریل, 2024

حضرت امام احمد بن حنبلؒ

تعارف

اسلام میں جو چار مشہور ائمۂ فقہ گزرے ہیں ان میں تاریخ کے لحاظ سے آخری حضرت امام احمد بن محمد تھے۔ آپؒ کی کنیت ابو عبد اللہ تھی۔ آپؒ کا نسب اس طرح سے ہے: احمد بن محمد بن حنبل بن ہلال بن اسد۔ آپؒ کا نسب نامہ نزار بن معد بن عدنان پر جا کر حضور اقدس محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و سلم کے نسب نامہ سے جا کر ملتا ہے۔ (سیرت حضرت امام احمد بن حنبل صفحہ9، از ڈاکٹر محمد عاصم اعظمی) آپؒ اپنے دادا کی نسبت سے ابن حنبل کہلائے۔ امام احمدؒ کا تعلق عرب کے مشہور جانباز بہادر قبیلہ شیبان سے تھا جس کی شجاعت کی تمام عرب میں شہرت تھی۔

حضرت امام احمدؒ کی ولادت ربیع الاول 164 ہجری کو بغداد میں ہوئی۔ آپؒ ابھی شیر خوار بچے ہی تھے کہ آپؒ کے والد وفات پا گئے۔ آپ کی پرورش آپ کی والدہ نے کی۔ تحصیلِ علم کے لئے چھوٹی عمر میں ہی آپ کو مکتب بھجوانا شروع کر دیا۔ آپؒ نہایت ذہین تھے۔ ابو سراج کا بیان ہے کہ ’’میرے والد احمد بن حنبل کی حسن سیرت اور شرافت پر تعجب کر کے کہتے تھے کہ میں اپنے بچوں کی تعلیم و تربیت پر بہت دولت خرچ کرتا ہوں، ان کے لئے معلم و مؤدب مقرر کرتا ہوں تاکہ وہ علم و فن حاصل کریں مگر ان کو کامیاب نہیں پا رہا ہوں اور یہ احمد بن حنبل یتیم لڑکا ہے، دیکھو کیسا اچھا چل رہا ہے۔‘‘

(سیرت حضرت امام احمد بن حنبل صفحہ14-15)

مکتب کی تعلیم سے فارغ ہو کر امام احمد بن حنبلؒ نے حدیث و فقہ کی تعلیم شروع کی جس کے لئے آپؒ نے حضرت امام ابو حنیفہؒ کے شاگرد قاضی ابو یوسف کی درس گاہ کو چنا۔ مگر آپؒ کے سب سے مشہور استاد حضرت امام الشافعیؒ ہیں۔ حضرت امام احمدؒ نے طلبِ علم کے لئے بہت سے سفر کئے جن میں کوفہ، بصرہ، یمن، شام، حجاز، عراق وغیرہ شہر شامل ہیں۔

امام احمدؒ کے حج

حضرت امام احمد بن حنبلؒ نے تعلیمی اسفار کے دوران پانچ حج کئے۔ آپؒ خود اس کے بارہ میں بیان فرماتے ہیں کہ ’’میں نے پانچ حج کیے۔ ان میں تین پا پیادہ اور دو سواری پر اور ان میں سے ایک حج میں صرف تیس درہم خرچ کیے۔ ایک سفرِ حج میں میں راستہ بھول گیا، سرگردانی و پریشانی جب زیادہ بڑھی تو حدیثِ نبویؐ کا یہ ٹکڑا: یا عباد اللّٰہ دلونا علی الطریق پڑھنا شروع کیا۔ اس کی برکت ظاہر ہوئی اور میں نے راستہ پا لیا۔

(سیرت حضرت احمد بن حنبل صفحہ20)

امام احمدؒ کا عشقِ رسولؐ

حضرت امام احمدؒ کو حضور اکرم محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و سلم سے نہایت درجہ عشق تھا۔ آپؒ کے پاس حضور اقدسؐ کے موے مبارک تھے۔ آپؒ ان کو منہ سے لگاتے، بوسہ دیتے، آنکھوں پر رکھتے تھے، پانی میں ڈبو کر پانی پیتے اور شفا حاصل کرتے تھے۔ آپؒ کے خلاف الزام لگا کر آپؒ کو سزائیں دلائی گئیں۔ ایک مرتبہ معتصم کے دربار میں درہ زنی کے لئے آپؒ کی قمیص اتاری گئی۔ اس وقت آپؒ کی آستین میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے موے مبارک تھے۔ آپؒ سے پوچھا گیا کہ آپؒ کی آستین میں کیا ہے؟ آپ نے جواب دیا رسول اللہؐ کے موے مبارک ہیں۔ بعض لوگ آگے بڑھے اور آپؒ کی قمیص کو پھاڑنا چاہا مگر معتصم نے ان کو روک دیا اور کہا کہ قمیص پھاڑو نہیں بلکہ اتار دو۔ امام احمدؒ کہتے ہیں کہ مجھے ڈر تھا تو صرف اسی بات کا کہ کہیں قمیص پھاڑ کر موے مبارک کی بے حرمتی نہ ہو جائے۔

(سیرت حضرت امام احمد بن حنبل صفحہ161-162)

اتباعِ سنت نبویؐ

حضرت امام احمد بن حنبلؒ بہت زیادہ متبع سنتِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تھے۔ ہمیشہ اسی کام کو سر انجام دیتے تھے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا ہو اور اس کام کو نہ کرتے تھے جو حضور اقدسؐ نے نہ کیا ہو۔ یہاں تک کہ وہ پچھنا لگواتے تو حجام کو ایک دینار عطا کرتے تھے کیونکہ روایت ہے کہ رسول اللہ نے پچھنا لگوایا اور ابو طیبہ کو ایک دینار مرحمت فرمایا۔ (امام احمد بن حنبل صفحہ68۔67، ابو زہرہ مترجم علامہ عمر فاروق) آپؒ یہاں تک اتباعِ سنتِ نبویؐ کا خیال رکھتے تھے کہ اپنی درس گاہ بھی چالیس سال کی عمر ہونے کے بعد قائم کی کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو وحی چالیس سال کی عمر میں ہوئی اور اس کے بعد آپؐ نے لوگوں کی تعلیم و تربیت کا کام شروع کیا۔

امام احمدؒ کی قناعت

حضرت امام احمدؒ ایک غریب گھرانہ سے تعلق رکھتے تھے۔ آپؒ کو اپنی جائداد کے کرایہ سے سترہ درہم ماہواری آمدنی ہوتی تھی جسے وہ اپنے اہل و عیال پر صَرف کرتے تھے اور اسی پر قناعت کرتے تھے۔ لوگوں سے نہیں مانگتے تھے۔ بلکہ جب تنگ دستی ہوتی تو آپؒ پارچہ بافوں کے ہاں مزدوری کر کے ان کے کام کرتے تھے۔ (سیرت حضرت امام احمد بن حنبل صفحہ144) ایک واقعہ آتا ہے کہ ایک دفعہ آپؒ کے کپڑے چوری ہو گئے۔ کئی روز باہر نہ جاسکے۔ آپؒ کے ایک طالب علم دوست کو پتہ چلا تو کچھ رقم دینی چاہی لیکن آپؒ نے قبول نہ کی۔ اس نے اصرار کیا کہ کب تک اس طرح گھر دبکے بیٹھے رہیں گے۔ اُدھار لے لیں اور جب آپ کے پاس رقم آجائے تو واپس کر دیں لیکن آپؒ پھر بھی راضی نہ ہوئے۔ آخر آپ نے یہ شرط رکھی کہ آپؒ اس طالب علم کے نوٹس صاف کر کے لکھ دیں تو وہ آپؒ کو اس کا معاوضہ دے گا۔ پھر جب معاوضہ ملا تو آپؒ نے اس سے کپڑے بنوائے اور گھر سے باہر جانے لگے۔ (تاریخ افکار اسلام صفحہ161، از ملک سیف الرحمن صاحب) اسی طرح لکھا ہے کہ جب آپؒ یمن میں مقیم تھے تو مالی حالات اچھے نہ تھے۔ آپؒ کے استاد محدث عبد الرزاق نے آپؒ کی مدد کرنا چاہی تو آپؒ نے منع کر دیا اور ٹوپیاں بُن کر انہیں بیچ کر گزارا کیا۔ (تاریخ افکار اسلام صفحہ161) ایک دفعہ کسی نے آپکی جائداد اور آپ کے مکان کے متعلق دریافت کیا۔ آپؒ نے فرمایا کہ ’’یہ دونوں مجھے اپنے والد سے ورثہ میں ملی ہیں، اگر میرے پاس کوئی شخص آئے اور ثابت کر دے کہ یہ اس کی ہیں تو بے تامل میں اسے سونپ دوں گا۔‘‘ (سیرت حضرت امام احمد بن حنبل صفحہ144) آپؒ نے امراء اور حکمرانوں کے دیے ہوئے عطیے اور منصب بھی کبھی قبول نہ کیے۔ صرف اپنی قلیل کمائی پر گزارا کیا۔

امام احمدؒ کی سادگی

حضرت امام احمدؒ نہایت سادہ شخصیت کے مالک تھے۔ ابو عبد اللہ کہتے ہیں کہ ایک دفعہ میں نے تکیہ اور مسند لیا اور دروازے پر بچھا دیا۔ امام احمدؒ باہر تشریف لائے، ان کے ساتھ کتابیں اور دوات تھی۔ انہوں نے چٹائی اور مسند کی طرف دیکھا اور فرمایا ’’یہ کیا ہے؟‘‘ میں نے کہا ’’یہ آپؒ کے بیٹھنے کے لئے ہے‘‘۔ اس پر آپؒ نے فرمایا ’’اسے تم اٹھا لو۔ زہد زہد ہی سے نکھرتا ہے‘‘۔ میں نے اسے اٹھا لیا اور امام زمین پر بیٹھ گئے۔ (سیرت حضرت امام احمد بن حنبل صفحہ158) امام احمد کھانے میں بھی سادگی اور قناعت اختیار کرتے تھے۔ آپؒ کے بیٹے کا بیان ہے کہ آپؒ بسا اوقات روٹی کو صرف نمک اور پانی کے ساتھ کھاتے تھے اور بعض اوقات کھجور کے ساتھ۔ آپ سادہ لباس پہنتے تھے۔ سفید موٹے کپڑے اور عمامہ باندھتے تھے۔

امام احمدؒ کی قبولیتِ دعا

ایک آدمی حضرت امام احمدؒ کے پاس آیا اور اپنی ماں کی صحت یابی کے لئے دعا کے لئے کہا جو کہ لنجی تھی۔ آپؒ نے دعا کی۔ جب وہ شخص واپس گھر آیا اور دروازے پر دستک دی تو اس کی ماں خود اپنے پیروں پر چل کر آئی اور دروازہ کھولا اور کہا کہ اللہ نے مجھے صحت و عافیت عطا کی۔ (سیرت حضرت امام احمد بن حنبل صفحہ168) ایک دفعہ جبکہ آپؒ کو جھوٹے الزام کی بنا پر سزا ہوئی اور کوڑے آپ پر برسائے گئے تو اس وقت آپ کا اِزار بند ٹوٹ گیا اور پاجامہ نیچے سرکنے لگا۔ قریب تھا کہ بے ستری ہو جاتی۔ آپؒ نے اسی وقت آسمان کی طرف سر اٹھا کر دعا کی اور فوراً ہی پاجامہ نیچے آنا رک گیا۔

امام احمدؒ کو سزا

حضرت امام احمدؒ کو اس سبب سے بہت سزائیں دی گئیں کہ آپؒ قرآن کو مخلوق نہیں کہتے تھے۔ اس ضمن میں لکھا ہے کہ ’’آپ قید ہوئے۔ چار چار بوجھل بیڑیاں پہنائی گئیں۔ پہن لیں۔ اسی حالت میں بغداد سے طرطوس لے جائے گئے۔ بوجھل بیڑیوں کی وجہ سے ہلنا دشوار تھا۔ عین رمضان المبارک کے آخری عشرہ میں بھوکے پیاسے روزہ دار کو تپتی ہوئی دھوپ میں بٹھایا گیا اور اس مقدس پیٹھ پر جو علوم و معارف نبوۃ کی حامل تھی پوری قوت سے کوڑے مارے گئے۔ ہر جلاد پوری قوت سے کوڑے لگا کر جب تھک جاتا تھا تو تازہ دم جلاد آکر پیٹنے لگتا۔ تازیانے کی ہر ضرب پر جو صدا زبان سے نکلتی تھی وہ نہ تو جزع و فزع کی تھی نہ شور و فغاں کی بلکہ وہی صدا تھی جس کی بدولت یہ سب کچھ ہو رہا تھا یعنی ’’القرآن کلام اللّٰہ غیر مخلوق‘‘۔ امام صاحب خود فرماتے ہیں کہ روزہ کی حالت میں مجھے اس قدر مارا گیا کہ جسم خون سے رنگین ہو گیا اور میں بیہوش ہوگیا۔‘‘

(مقربانِ الہی کی سرخروئی صفحہ20 از مولانا دوست محمد شاہدؓ)

امام احمدؒ کا الہام

حضرت امام احمدؒ نہایت ہی متقی صوفی ولی اللہ شخصیت تھے۔ ایک دفعہ آپؒ نے فرمایا کہ ’’اللہ تعالیٰ نے مجھ سے فرمایا کہ ’’تجھے میرا قرب صرف قرآن سے حاصل ہو سکتا ہے‘‘

(تذکرۃ الاولیاء زیرِ اسم حضرت امام احمد بن حنبلؒ از حضرت فرید الدین عطارؒ)

امام احمدؒ کے اقوال

حضرت امام احمدؒ نے ایک دفعہ فرمایا کہ ’’خدا پر اعتماد توکل ہے اور تمام امور خدا کے سپرد کر دینے کا نام رضا ہے۔‘‘ جب آپؒ سے زہد کے متعلق سوال ہوا تو فرمایا کہ ’’عوام کا زہد تو حرام اشیاء ترک کر دینا ہے اور خواص کا زہد حلال چیزوں میں زیادتی کی طمع کرنا ہے اور عارفین کے زہد کو خدا کے سوا کوئی نہیں جانتا۔‘‘

(تذکرۃ الاولیاء زیرِ اسم حضرت امام احمد بن حنبلؒ)

امام احمدؒ کی وفات

حضرت امام احمدؒ 2 ربیع الاول 241 ہجری کو بستر علالت پر پڑ گئے اور 12 ربیع الاول 241 ہجری بروز جمعہ بقضائے الٰہی وفات پاگئے۔ ایک روایت کے مطابق آپؒ کی نمازِ جنازہ پڑھنے والوں کی تعداد دس لاکھ اسّی ہزار تھی۔ وفات کے وقت بھی آپؒ کی عاجزی کا یہ حال تھا کہ جب آپؒ کی وفات ہوئی تو اس سے پہلے آپؒ کے بیٹے نے آپؒ کی طبیعت پوچھی تو فرمانے لگے کہ ’’بس دعا کرو کہ اللہ تعالیٰ ایمان پر خاتمہ کر دے کیوں کہ ابلیس لعین مجھ سے کہہ رہا ہے کہ تیرا ایمان سلامت لے جانا میرے لئے باعث ملال ہے۔ اس لئے دم نکلنے سے قبل مجھے سلامتی ایمان کے ساتھ مرنے کی توقع نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنا فضل فرمادے۔‘‘ اس کے بعد آپؒ وفات پا گئے۔

(تذکرۃ الاولیاء زیرِ اسم حضرت امام احمد بن حنبلؒ)

امام احمدؒ کے اہل و عیال

حضرت امام احمدؒ نے عباسہ بنت فضل نامی خاتون سے شادی کی جن سے آپؒ کے ہاں صالح پیدا ہوئے۔ اس شادی کے تیس سال بعد آپؒ کی اہلیہ کی وفات ہو گئی تو آپؒ نے ریحانہ نامی خاتون سے شادی کی جن سے آپؒ کے ہاں عبد اللہ پیدا ہوئے۔ عبد اللہ ابھی دس سال کے ہی تھے کہ آپؒ کی دوسری بیوی بھی انتقال کر گئیں۔ پھر آپؒ نے ایک باندی خریدی جس کے بطن سے آپؒ کے ہاں ام علی، حسن و حسین (یہ توام تھے اور بچپن میں ہی فوت ہو گئے تھے)، حسن، محمد اور سعید پیدا ہوئے۔

امام احمدؒ کی تصانیف

حضرت امام احمدؒ کی بہت سی تصانیف ہیں مگر آپؒ کی سب سے مشہور تصنیف آپؒ کا مجموعۂ حدیث ہے جس کا نام مسند احمد ہے۔ آپؒ کی چند تصانیف کے نام یوں ہیں: مسند الامام احمد، کتاب التفسیر، کتاب التاریخ، کتاب جوابات القرآن، کتاب المناسک الکبیر، کتاب المناسک الصغیر، وغیرہ۔

(سید حاشر احمد۔ طالبعلم جامعہ احمدیہ کینیڈا)

پچھلا پڑھیں

رپورٹ جلسہ یوم خلافت مانساکونکو، گیمبیا

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 21 جولائی 2022