• 24 اپریل, 2024

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ساتھ مبارک لمحات

جلسہ سالانہ یوکے 2021ء کے بعد
حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ساتھ مبارک لمحات

یہ مبارک گفتگو ماہنامہ ریویو آف ریلیجنز میں انگلش زبان میں شائع ہوئی۔ اس مائدہ کا اردو ترجمہ قارئین کے لیے مکرم انصر بلال انور۔جرمنی نے کیا ہے۔ فَجَزَاہُ اللّٰہُ خَیْرًا۔

(اداره)

خاکسار کو دو سال کے وقفہ کے بعد منعقد ہونے والے تاریخی جلسہ سالانہ یوکے 2021ء کی نسبت حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے تأثرت معلوم کرنے کا بابرکت موقع ملا۔ ریویو آف ریلیجنز نے اس تاریخی جلسہ کے حوالہ سے متفرق شعبہ جات کے کارکنان کے جذبات اور خیالات کی بابت انٹرویوز لیے جن میں روٹی پلانٹ، لنگرخانہ، کار پارکنگ اور ایم ٹی اے وغیرہ کے کارکنان شامل تھے۔ خاکسار نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ کو جلسہ کے بارہ میں ایک تیار کردہ جھلکیوں پر مشتمل ویڈیو دکھائی جس میں احباب جماعت نے عرصہٴ دراز کے بعد حضور اقدس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے دیدار پر اپنے جذبات اور احساسات کا اظہار کیا ہوا تھا۔ ہمارے شعبہ کی میٹنگ کے دوران کسی نے اس بات کا اظہار کیا کہ ہم نے عوام کے تقریباً سب لوگوں سے ان کے جذبات کے بارہ میں دریافت کرنے کی کوشش کی ہے لیکن کیا آپ نے حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز سے پوچھا ہے کہ حضور انور نے جلسہ کے دوران کیا محسوس کیا؟ حال ہی میں خاکسار کو حضور انور سے جلسہ سالانہ، اسلام آباد اور حالیہ وبا کے متعلق گفتگو کی توفیق ملی۔ اس ضمن میں خاکسار کی جانب سے پوچھے جانے والے سوالات اور حضورِ انور کے عطا فرمودہ جوابات ذیل میں پیش ہیں۔ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے خاکسار کی چند ذاتی معاملات کے بارے میں جو رہنمائی فرمائی وہ بھی استفادہٴ عام کے لیے شامل تحریر ہیں۔

ریویو آف ریلیجنز کی جلسہ سالانہ کی جھلکیوں پر مشتمل ویڈیو دیکھنے کے بعد حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے مسکراتے ہوئے فرمایا:اچھا، پھر تم نے اس ویڈیو کی ابتدا امیر (بائیرامُوِچ۔بوسنین، کارکن ایم ٹی اے) سے کی ہے۔

عامر سفیر: جی حضور۔ جلسہ سالانہ کے کامیاب انعقاد پر حضور انور کو مبارک ہو۔ حضورہم نے جس کا بھی انٹرویو لیا سب بلااستثناء حضورِانور کے عرصہٴ دراز کے بعد دیدار کی وجہ سے جذباتی کیفیت میں مبتلا تھے۔ اتنے لمبے عرصہ کے بعد جلسہ کے موقع پر اتنی بڑی تعداد میں احمدیوں کو دیکھ کرحضور کے کیا جذبات تھے؟

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز: مجھے لوگوں کو دیکھ کر اور مل کر خوشی ہوئی اور میں امید کرتا ہوں اور دعا گو ہوں کہ اللہ تعالیٰ آئندہ بھی ایسے مواقع پیدا کرتا رہے گا۔ کچھ احمدیوں کو میں نے ایک لمبے عرصہ بعد دیکھا۔ عام حالات میں وبا سے پہلے اتنے ہی یا اس سے بھی زیادہ احمدی نماز جمعہ کے لیے آیا کرتے تھے۔ میں نے لوگوں کو عرصہ دراز بعد نمازوں کی ادائیگی کے لیے آئے ہوئے دیکھا۔

عامر سفیر: اس موقع پر حضور انور کے کیا جذبات تھے؟

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز: میں نے الحمد للہ کہا۔ مجھے تو بہت خوشی تھی کہ لوگ آئے ہوئے تھے اور جمع تھے۔ تاہم میں ایسا نہیں کہ جذباتی ہو جاؤں یا اپنے جذبات کا کھلا اظہار کروں۔ لیکن میں خوش تھا اور اللہ تعالیٰ کا شکر گزار بھی تھا۔

عامر سفیر: حضور نے جلسہ سے پہلے اور جلسہ کے دوران کیا کیا دعائیں کیں؟

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز: میں نے بس یہی دعا کی کہ جلسہ خیریت سے ہوجائے اور اللہ تعالیٰ سب کو اپنے حفظ وامان میں رکھے۔

عامر سفیر: حضور کو جلسہ کے کامیاب انعقاد پر اتنا اعتماد کیسے رہا جبکہ جلسہ کا اہتمام حالات کے پیش نظر مشکل نظر آرہا تھا۔ اس کے باوجود حضور کیسے پُر عزم رہے کہ جلسہ ہو گا اور کامیاب ہو گا؟

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز: ہمیں ہمیشہ اللہ پر توکل کرنا چاہیئے اور یہی میں نے کیا۔ میری بس نیت تھی باقی میں نے اللہ پر چھوڑ دیا۔ میں نے کب اپنے آپ پر یا اپنی کوششوں پر بھروسا کیا ہے؟ میں کبھی ایسا نہیں کرتا، لیکن ہمیشہ اللہ پر ہی توکّل کیا کرتا ہوں۔ یہ اعتماد خالصتاً اللہ پر توکل کی وجہ سے ہے کہ وہ چیزوں کو ممکن بنائے گا۔ اگر اللہ کااذن ہو تو پھر مجھے فکر کرنے کی کیا ضرورت ہے؟ اللہ اس کام کو کر دکھائے گا۔

عامر سفیر: حضور انور نے معائنہ کے دوران چند جگہوں کا دورہ کیا جیسے لنگرخانہ، روٹی پلانٹ، ایم ٹی اے وغیرہ۔ مجھے اس کی کوریج کرنے کا اعزاز نصیب ہوا اور میں ساتھ ساتھ تھا۔ میں نے کئی مواقع پر دیکھا کہ خود حضورِ انور نے کچھ لوگوں کو فرمایا کہ ’اپنا منہ اور ناک مکمل طور پر ڈھانپیں! کیونکہ انہوں نے اپنا ماسک ٹھیک سے نہیں پہنا ہوا تھا۔

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز: کہا جاتا ہے کہ انفیکشن اکثر ناک سے سانس لیتے وقت جسم میں داخل ہوتا ہے اور منہ سے سانس نکالتے وقت لوگوں میں منتقل ہوتا ہے۔ جب کوئی سانس لیتا ہے تو ممکن ہے کہ ناک کے ذریعہ انفیکشن ہو اور اپنے منہ سے اسے پھیلا رہا ہو۔ یہی وجہ ہے کہ میں خاص طور پر لوگوں کو یاد دلا رہا تھا کہ وہ اپنے منہ اور ناک کو مکمل طور پر ڈھانپیں۔

انڈونیشیا کے ایک بچے نے مجھ سے پوچھا کہ ’’حضور ماسک کیوں نہیں پہنتے!‘‘- میں بہت سے دیگر طریقوں سے بہت احتیاط برتتا ہوں، بہت سی اضافی احتیاطی تدابیر اختیار کرتا ہوں اور اسی وجہ سے میں ماسک نہیں پہنتا- اور بعض اوقات لوگوں کو ماسک نہ پہننے کی چھوٹ بھی دی جاتی ہے۔ بہرحال میں اب بھی تمام احتیاطی تدابیر پر سختی سے کاربند ہوں۔

عامر سفیر: جلسہ کے پہلے روز حضورِ انور نے خطبہٴ جمعہ میں دعا کے لیے کہا کہ موسم ہمارے حق میں بدل جائے۔۔۔

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز: نہیں، میں نے یہ نہیں کہا تھا کہ ’’موسم ہمارے حق میں بدل جائے‘‘ میں نے یہ کہا تھا ’’دعا کریں کہ ہم موسم کے ہر منفی اثر سے محفوظ رہیں۔‘‘ (حضورِ انور کے اصل الفاظ یہ تھے ’’موسم ہمارے کسی پروگرام میں روک نہ بنے بلکہ اللہ تعالیٰ اسے ہمارے حق میں کر دے‘‘)۔ کچھ سال پہلے میں نے کہا تھا ’’دعا کریں کہ موسم ہمارے لیے سازگار ہوجائے۔‘‘ تاہم میں نے اس بار یہ نہیں کہا۔ میں نے یہ کہا تھا (اور یہ مراد تھی کہ) ’’دعا کریں کہ ہم موسم کے منفی اثر سے محفوظ رہیں۔‘‘ ایک بار پھر غور سے سنو کیونکہ مجھے یقین ہے کہ میں نے یہی کہا ہے…

(نوٹ: اس موقعے پر حضورِ انور کی جانب سے خطبہ جمعہ کے ترجمہ میں خاکسار کی ایک غلطی کی تصحیح کرنا مقصود ہے۔ خاکسار نے یہ ترجمہ کیا تھا کہ ’’Pray that the weather turns in our favour‘‘ جس کا مطلب یہ بنتا تھا کہ دعا کریں کہ اللہ موسم کو ہمارے حق میں بدل دے۔ جبکہ حضورِ انور کے الفاظ اس سے مختلف تھے۔)

عامر سفیر: حضور! اب جب میں نے دوبارہ غور کیا ہے تو مجھے یہی یاد پڑتا ہے کہ حضور نے یہی فرمایا تھا، مجھے غلطی لگی ہے!

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز: اور یہی ہوا ہے۔ تم نے خود دیکھا ہے کہ ہم جلسہ کے دوران ہر قسم کے منفی اثر سے محفوظ رہے اور جلسہ جاری رہا اور کامیاب منعقد ہوا۔

عامر سفیر: کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ بارش اور ہوا نے جلسہ میں وائرس کے پھیلاؤ کو کنٹرول میں رکھا اور یہ ہمارے حق میں ممد ثابت ہوا۔

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز: ہاں، کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ وائرس کا زور موسم کی وجہ سے بھی ٹوٹ گیا تھا۔ موسم کا اس سے کوئی تعلق ہے یا نہیں، یہ تو اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔

عامر سفیر: کچھ لوگوں کو یہ سن کر حیرت ہوئی جب حضور نے فرمایا کہ اگر جلسہ کی انتظامیہ نے اپنی ذمہ داری کو پوری طرح نہیں نبھایا اور جلسہ کو صحیح طریقے سے منعقد کرنے کے لیے پوری توجہ سے کام نہ لیا تو حضور ان کو تبدیل کردیں گے۔

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز: ہاں، میں نے کہا تھا کہ اگر وہ صحیح طرح سے کام نہیں کریں گے تو میں انتظامیہ کو تبدیل کردوں گا اور میں نے ان سے کہا کہ میرے پاس بہت سے لوگ ہیں جو ان کی جگہ لے سکتے ہیں اور خدمت کا حق بھی ادا کرسکتے ہیں۔

عامر سفیر: حضور! حدیقۃ المہدی کی جگہ کے مستقبل کے بارہ میں پوچھنا چاہتا ہوں کہ مستقبل میں ایسے موسمی حالات کا سامنا کس طرح ہو سکے گا؟

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز: میں حال ہی میں جلسہ کی انتظامیہ کو اس بارہ میں تفصیلی ہدایات دے چکا ہوں کہ وہ ان معاملات پر کام کریں۔ ان شاء اللہ مستقبل میں یہ حل ہو جائیں گے۔

عامر سفیر: حضور! جلسہ کے آخری روز حضور انور کے اختتامی خطاب کے بعد میں منیر عودہ صاحب کے ساتھ جلسہ گاہ کے باہر کھڑا تھا جہاں حضور انور کی گاڑی کھڑی تھی۔ ہم تقریباً 6 سے 7 میٹر کے فاصلے پر کھڑے تھے جب حضور انور نے منیر عودہ صاحب کو اپنے پاس بلایا۔ قافلے کا راستہ بھی تبدیل کر دیا گیا تھا اور اب قافلہ جلسہ سائٹ کے درمیان میں سے گزر رہا تھا۔ جب حضور گاڑی میں تشریف فرما ہوئے تو میں چند مربیان کے ساتھ کھڑا تھا اور ہم نے حضور انور کو ہاتھ ہلاتے ہوئے سلام کیا جس پر حضور انور نے ازراہِ شفقت گاڑی کی کھڑکی کا شیشہ نیچے کر کے ہماری طرف ہاتھ ہلا کر ازراہِ شفقت سلام کا جواب دیا۔ اس کے بعد میں جس قدر گاڑی کے ساتھ جا سکتا تھا چلتا رہا اور میں نے دیکھا کہ حضور انور نے راستے میں کھڑکی کا شیشہ نیچے ہی رہنے دیا۔

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز: میں نے سوچا کہ لوگ چونکہ لمبے عرصہ کے بعد آئے ہیں، تو ان کے لیے میں نے کھڑکی کا شیشہ نیچے کردیا اور ان کی طرف ہاتھ ہلایا۔ یہ صرف اس موقع پر ہی نہیں ہوا بلکہ اس سے ایک دن پہلے شام کو بھی میں نے لوگوں کے لیے کھڑکی کا شیشہ کھول دیا تھا۔ پھر لجنہ کی طرف بھی میں نے کھڑکی کا شیشہ نیچے کر دیا تھا تا وہ بھی مجھے دیکھ سکیں اور میں ان کی طرف ہاتھ ہلاؤں۔ میں نے اسی طرح مردوں کی طرف بھی کئی مرتبہ ایسا کیا، کبھی دائیں طرف کی کھڑکی کا شیشہ نیچے کر دیا اور کبھی بائیں جانب والا۔

عامر سفیر: پیارے حضور! آپ نے ایک خطاب میں فرمایا کہ ایک دفعہ حضور کو کسی جلسہ کے موقع پر اپنے چہرہ سے مٹی یا کیچڑ صاف کرنا پڑا تھا۔ کیا حضور انور وہ واقعہ بیان فرما سکتے ہیں؟

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز: یہ 1988ء کی بات ہے جبکہ میں مہتمم مجالس بیرون تھا اور تمام دنیا میں صرف ایک صدر خدام الاحمدیہ ہوا کرتے تھے، اور ہر ملک میں نیشنل قائد ہوتا تھا۔ میں اس وقت جلسہ پر مجلس خدام الاحمدیہ پاکستان کے نمائندہ کے طور پر آیا تھا جب مجلس خدام الاحمدیہ پاکستان کے سپرد دنیا بھر کے خدام کی دیکھ بھال کا کام تھا۔

عامر سفیر: لجنہ سے حضور انور کا خطاب بہت ہی انقلاب انگیز تھا۔ حضور انور سے اس خطاب کے بارے میں کچھ خیالات کا اظہار کرنے کی درخواست ہے۔

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز: میں نے کئی قسم کے حقوق کا احاطہ کرنے کی کوشش کی تھی جیسے خلع کا حق وغیرہ۔ کچھ ایسی خواتین تھیں جنہوں نے خطاب ٹھیک طرح نہیں سنا وہ کہتی ہیں کہ مجھے مردوں سے بھی ان کے حقوق و فرائض کے بارے میں اسی طرح خطاب کرنا چاہئے تھا جس طرح عورتوں سے کیا ہے۔ لیکن اگر انہوں نے غور سے سنا ہوتا تو انہیں معلوم ہوجاتا کہ میں نے کہا تھا کہ اگر آپ اپنی اصلاح کر لیں اور اپنی حالتوں کو بہتر بنا لیں تو اللہ تعالیٰ ایسی عورتوں کو اجر دے گا جو اپنے فرائض اور ذمہ داریوں کو ادا کرتی ہیں اور ایسی عورتیں پھر اس بات کی زیادہ مستحق ہیں کہ مرد ان کے حقوق ادا کریں۔

عامر سفیر: حضورِ انور نے اختتامی خطاب میں ذکر فرمایا کہ حضور نے کچھ حقوق منتخب کیے ہیں جنہیں اسلام نے قائم کیا ہے۔ حضور نے یہ بھی فرمایا تھا کہ حقوق کی ایک لمبی فہرست ہے جو ابھی بیان نہیں ہوسکی۔ حضور انور نے اختتامی خطاب کے لیے ان حقوق کا انتخاب کیسے فرمایا؟

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز: ماضی میں کچھ بڑے اور بنیادی حقوق میری نظروں سے گزرے جن میں سے انیس کو میں نے مختلف اوقات میں بیان کرنے کے لیے منتخب کیا۔ میں اس سے قبل کچھ کا ذکر کر چکا ہوں۔ پھر اس جلسہ میں مَیں نے کئی حقوق کا ذکر کیا اور آئندہ مستقبل میں بھی میں ان حقوق کا ذکر کرتا رہوں گا۔ پھر ہر حق کی فی ذاتہ مختلف حقوق و فرائض پر مشتمل شاخیں ہیں۔ حقوق کا جو آپس میں ربط ہے اس کو بھی میں نے بیان کیا ہے۔ مثال کے طور پر مَیں نے خطاب میں دوستوں کے حقوق کو مریضوں کے حقوق اور مریضوں کے حقوق کو دوستوں کے حقوق کے ساتھ جوڑ کر بیان کیا۔

عامر سفیر: حضور اب جبکہ یہ جلسہ منعقد ہو اہے کیا حضور کو لگتا ہے کہ اس سے مستقبل کے پروگرامز کے لیے راستے کھلیں گے؟

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز: اگر یہ جلسہ منعقد نہ ہوتا اور میں نے اِس کے انعقاد کی تاکید نہ کی ہوتی تو یقیناً دوسروں کے لیے ابھی بھی راستہ نہیں کھلنا تھا۔ اب اس جلسہ کے انعقاد کی وجہ سے لجنہ اماء اللہ، انصار اللہ اور خدام الاحمدیہ اپنے اپنے اجتماعات منعقد کرنا چاہتے ہیں۔ اور اس طرح راستے کھل رہے ہیں۔

عامر سفیر: حضور میں نے یہ نوٹ کیا ہے کہ جن اجلاسات میں حضور انور بنفس نفیس شامل تھے ان میں نظم پڑھنے والے عموماً نوجوان تھے بنسبت ان اجلاسات کے جن میں حضور انور موجود نہیں تھے وہ احباب عموماً بڑی عمر کے تھے اور پرانے نظمیں پڑھنے والے تھے۔

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز: اس بار میں نے نوجوانوں کو ان اجلاسات کے لیے منتخب کیا جن میں مَیں موجود تھا۔ میں نے انہیں یہ بھی کہا تھا کہ ایک ہی مصرع کو ایک سے زیادہ مرتبہ نہ دہرانا۔ کچھ ایسے بھی ہیں جنہیں یہ طریقہ کار پسند نہیں آیا۔ لیکن اس کے باوجود مردوں اور عورتوں کی طرف میں نے پرانے نظم پڑھنے والوں کی جگہ نوجوانوں کو لیا تھا۔

عامر سفیر: حضور اِس مرتبہ منیر عودہ صاحب کو بھی کافی لمبا عرصہ بعد قصیدہ پڑھنے کا موقع ملا۔

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز: ہاں۔ اس نے قصیدہ پڑھنے کے بعد کیا محسوس کیا اور اس کے کیا جذبات تھے؟

عامر سفیر: حضور! انہوں نے بتایا کہ انہیں ایسا محسوس ہورہا تھا کہ گویا ان کا دل پھٹنے لگا ہے اور وہ حضور انور کی موجودگی میں بہت گھبرائے ہوئے تھے۔ منیر عودہ صاحب نے بتایا کہ جب وہ سٹیج پر تھے تو ان کے لیے ان جذبات کا بیان بھی ناممکن ہے۔

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز: منیر عودہ نے بہت اچھا قصیدہ پڑھا تھا۔

عامر سفیر: حضور! عرصہ دراز بعد مولانا فیروز عالم صاحب کی اذان سن کر بہت سے لوگ جذباتی ہو گئے تھے۔ ان کو باکل ایسا محسوس ہونے لگا کہ حالات معمول کی طرف جا رہے ہیں۔

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز: تم نے گزشتہ جمعہ پر نہیں دیکھا؟ میں نے فیروز عالم صاحب کو مسجد مبارک میں اذان دینے کے لیے کہا تھا۔ میں نے اس لیے انہیں اذان دینے دی کیونکہ بہت سے لوگوں نے مجھے لکھا تھا کہ ان کی اذان سن کر وہ بہت جذباتی ہو گئے تھے۔ اس لیے میں نے انہیں دوبارہ اذان دینے دی تا لوگ ایک دفعہ پھر خوش ہو جائیں۔

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز: میری نواسی (یسری ٰ ڈاہری) نے بھی نظم کی شکل میں جلسہ کے بارے میں اپنے جذبات لکھے ہیں۔

عامر سفیر: حضور اگر اجازت ہو تو ہم اس نظم کو شائع کرنا چاہیں گے۔

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز: (چونکہ نظم لجنہ Blog پر پہلے ہی شائع ہو چکی ہے) لہٰذا لجنہ کے پاس اس کا copyright ہے۔ صدر لجنہ سے پوچھ لو اگر وہ اجازت دے دیں تو شائع کر لو۔

عامر سفیر: حضور! اب جبکہ احبابِ جماعت نے جلسہ پر حضور انور کے دیدار کی توفیق حاصل کی ہے۔ مستقبل میں وہ حضور انور کا دیدار کس طرح کر پائیں گے؟

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز: اب دوبارہ ورچوئل ملاقاتیں شروع ہو رہی ہیں۔ ابھی گزشتہ ہفتہ اور اتوار کو ہی دو ورچوئل ملاقاتیں ہوئی ہیں بشمول ڈنمارک کے خدام کے۔ تو اب ’’This Week With Huzur‘‘ دوبارہ سے شروع ہو جائے گا۔ لوگ بڑی بے تابی سے پروگرام کا انتظار کرتے ہیں۔ تو اب یہ دوبارہ شروع ہوگا تو اس کے ذریعہ سے لوگ مجھے دیکھ سکیں گے اور رابطہ بھی قائم رکھ سکیں گے۔ اس کے ساتھ ہم نے خدا کا بھی شکر ادا کیا ہے اور میں نے بھی تمام کارکنان کا اپنے خطبہ میں شکریہ ادا کیا ہے اور اب ہم اگلی تقریب کی جانب بڑھیں گے۔

عامر سفیر: پیارے حضور یہ ہم سب کے لیے ایک سبق ہے۔ ہم اکثر جذباتی ہو جاتے ہیں اور ایک ہی جگہ ٹھہر جا تے ہیں جبکہ حضور انور ہمیں ہمیشہ اس بات کی تلقین کرتے ہیں کہ ہمیں آگے قدم بڑھانا چاہیے اور ایک ہی جگہ نہیں ٹھہر جانا چاہیے۔

عامر سفیر: میں حضورِ انور کا دل کی گہرائیوں سے مشکور ہوں اور جزاکم اللّٰہ احسن الجزاء کہنا چاہتا ہوں کہ ایک خطاب کے دوران جب حضور انور نے ایک واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے تمام مترجمین کےلئے ایک طبی اصطلاح کی انگریزی میں وضاحت فرمائی کہ وہ مرض گاؤٹ یا شیاٹیکا کہلاتا ہے۔

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز: میں نے پہلے گاؤٹ کہا تھا پھر شیاٹیکا کہا۔ میرے خیال میں اسے شیاٹیکا ہی کہتے ہیں یعنی لنگڑی کا درد یا عِرق النساء ہے۔

عامر سفیر: حضور خاکسار یہاں اپنے جذبات کو بیان کیے بغیر نہیں رہ سکتا۔ اس مرتبہ جلسہ پر مجھے حضورِ انور کے خطابات کا معمول سے زیادہ ترجمہ کرنا پڑا کیونکہ مکرم امام صاحب کے پاس بطور افسر جلسہ گاہ اضافی ذمہ داریاں تھیں۔ حضور میں امید کرتا ہوں کہ میں نے حضور انور کو مایوس نہیں کیا ہو گا لیکن میں صرف اتنا جانتا ہوں کہ جب لوگ مجھ سے دریافت کرتے ہیں کہ میں ترجمہ کیسے کر پاتا ہوں تو میں انہیں اتنا کہتا ہوں کہ یہ صرف حضورِ انور کی ٹریننگ تھی جس نے مجھے کسی چیز کے قابل بنایا اور حضور انور نے مجھے الفاظ سکھائے اور میری تربیت کی جبکہ میں اردو بالکل نہیں جانتا تھا۔

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز: جب لوگ تم سے پوچھیں کہ کس طرح ترجمہ کرتے ہو، تو انہیں کہا کرو جس طرح وکیل اعلیٰ نے تمہیں ’’یاد کیا‘‘ اسی طرح ہم نے ایک دوسرے کو ’’یاد کیا‘‘ اور اس طرح تم نے اردو سیکھ لی۔

(نوٹ: اس موقع پر حضورِ انور نے ازراہِ تفنّن خاکسار کے ساتھ پیش آمدہ ایک واقعہ کی طرف اشارہ فرمایا ہے کہ خاکسار جب محترم چودھری حمید اللہ صاحب (مرحوم) وکیلِ اعلیٰ تحریکِ جدید کے زیرِ نگرانی اردو سیکھنے کے لیے پاکستان گیا تو ایک شام پیغام ملا کہ ’’محترم وکیلِ اعلیٰ صاحب یاد فرما رہے ہیں۔‘‘ خاکسار چونکہ اس محاورے کو نہ سمجھتا تھا کہ اس کا مطلب ’’وکیل اعلیٰ صاحب بلا رہے ہیں‘‘ ہے اس لیے ’’جَزَاکَ اللّٰہُ‘‘ کہا اور کمرے میں ہی رہا۔ چند منٹ بعد وہی کارندہ یہی پیغام لے کر آیا۔ خاکسار نے پھر جَزَاکَ اللّٰہُ کہا اور کمرے میں بیٹھا رہا۔ یہی پیغام جب تیسری مرتبہ خاکسار کو ملا تو خاکسار کو بڑی خوشی ہوئی کہ وکیلِ اعلیٰ صاحب مجھ سے کتنی شفقت کا سلوک رکھتے ہیں کہ مجھے اس قدر یاد کر رہے ہیں۔ جب چوتھی دفعہ وہ دوست یہ پیغام لے کر آئے تو انہوں نے وضاحت کی کہ ’’وکیلِ اعلیٰ صاحب آپ کو دفتر میں بلا رہے ہیں‘‘۔ اس پر خاکسار وکیلِ اعلیٰ صاحب کے پاس حاضر ہو گیا۔ حضورِ انور اس لطیفے سے بہت محظوظ ہوئے۔ اس جگہ بھی حضورِ انور کی مراد یہ ہے کہ اردو تراجم کے لیے خاکسار کی محترم وکیلِ اعلیٰ صاحب اور پھر سب سے بڑھ کر ازراہِ شفقت حضورِ انور نے تربیت کی ہے اور اللہ کے فضل سے یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے)

تم عام طور پر مجھے انگریزی میں لکھتے ہو اور میں تمہیں اردو میں جواب دیتا ہوں۔ اس سے میری انگریزی بہتر ہوتی ہے لیکن میں تمہیں اردو میں جواب دیتا رہوں گا تا کہ تمہاری اردو اچھی ہو۔ عام طور پر جب تم مجھے میری تقریروں کا ترجمہ فائنل کر بھیجتے ہو تو میں اس کے مختلف حصوں کو چیک کرتا ہوں نہ کہ لفظ بلفظ کیونکہ سارا کچھ چیک کرنا ممکن نہیں۔ اسے اردو میں جستہ جستہ مطالعہ کرنا کہتے ہیں یعنی کہیں کہیں سے پڑھنا۔ میں اس کے کچھ حصوں کو چیک کرتا ہوں اور باقی چھوڑ دیتا ہوں اور اس پر بھروسہ کرتا ہوں کہ تم نے ترجمہ صحیح کیا ہو گا۔ کیا تم نے عابد کے تراجم دیکھے ہیں؟

عامر سفیر: جی حضور میں نے انہیں پڑھا ہے اور اکثر جب میں ان کے تراجم کو دیکھتا ہوں جو انہوں نے پریس ریلیز کے لیے کئے ہوتے ہیں جن میں حضور انور کے اردو خطابات میں سے اقتباسات کا انگریزی میں ترجمہ کیا ہوتا ہے جو بہت معیاری ہوتا ہے۔ مجھے ایسا لگتا ہے کہ گویا میرے ترجمے سے کہیں عمدہ ترجمہ ہے!

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز: عابد نے رواں ترجمہ کرنا بھی سیکھ لیا ہے جب میں اسے لکھواتا ہوں۔ وہ اچھا ترجمہ کر لیتا ہے۔

عامر سفیر: حضور میں نے بھی اس کا ذاتی طور پہ مشاہدہ کیا ہے جبکہ شروع میں حضورِ انور نے مجھے بہت سے ایسے مبارک مواقع عطا فرمائے کہ میں عابد کے ہمراہ حضور انور کے ساتھ ملاقات کے لیے آتا تھا اور میں نے خود دیکھا ہے کہ حضورِ انور نے عابد کی کس طرح تربیت فرمائی ہے۔

عامر سفیر: حضور کے نزدیک یہ عالمی وبا کب ختم ہو گی اور حالات کب معمول کی طرف لوٹیں گے؟

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز: مجھے نہیں معلوم تاہم بعض سائنسدانوں کے نزدیک یہ وباء 2022ء تک جاری رہے گی۔ وَاللّٰہُ اَعْلَمُ۔ ہماری تو یہی دعا ہے کہ یہ جلد ختم ہوجائے۔

عامر سفیر: ہم نے حضور انور کی باریک بینی کو دیکھا ہے اور اس بات کا بھی مشاہدہ کیا ہے کہ حضورِ انور نے جماعت کے مختلف شعبہ جات میں بہت سے لوگوں کی اس طرح تربیت فرمائی ہے۔ حضور انور نے خاص طور پر نوجوانوں کے ساتھ گزشتہ پندرہ سالوں میں اتنا وقت گزارا ہے۔ حضور انور نے ان کی تربیت کی، انہیں غلطیاں کرنے دیں، انہیں اپنے اندر بہتری پیدا کرنے کے مواقع فراہم کیے، ان کی راہنمائی فرمائی اور قدم قدم پہ ان کے لیے دعائیں کی۔ میں نے تو اس بات کا ذاتی طور پہ تجربہ کیا ہے کہ حضور انور نے میری اور بہت سے دیگر افراد کی بھی راہنمائی فرمائی۔ حضور انورنے بہت سے نوجوان مربیان کی ٹریننگ کی جو اَب ذمہ داری والے عہدوں پر فائز ہیں۔ لیکن حضورِ انور کبھی بھی اپنے لیے تعریف قبول نہیں کرتے اور کسی بھی مقصد یا کامیابی کے حصول پر دوسروں کی ہی تعریف فرماتے ہیں!

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز: میں نے کیا کِیا ہے؟ میں نے تو کچھ بھی نہیں کیا۔ یہ سب اللہ تعالیٰ کے کام ہیں! آجکل میں باقاعدگی سے جامعہ کی شاہد کلاس کے ساتھ مسجد میں بیٹھتا ہوں اور ان کی ذاتی طور پر تربیت کر رہا ہوں۔ انہوں نے میرے ساتھ اپنا کورس مکمل کر لیا ہے اور اب میں اگلی کلاس کو پڑھاؤں گا۔

عامر سفیر: حضورِ انور نے اس جامعہ کلاس کو ہر ہفتے وقت دے کر کیا مشاہدہ فرمایا ہے؟

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز: مجھے اندازہ ہوا ہے کہ جامعہ میں انہیں کتنی تعلیم مہیا کی جا رہی ہے۔

عامر سفیر: حضور انور کی اجازت کے ساتھ میں اسلام آباد کے بارہ میں بات کرنا چاہوں گا۔ بہت سے لوگوں نے ایم ٹی اے نیوزپرپیارے آقا کو بچوں کے پارک کا افتتاح کرتے ہوئے دیکھا۔ حضورِ انور، ساتھ ہی لوگوں میں یہ جستجو پیدا ہوئی کہ آیا جب وہ اسلام آباد آئیں تو اپنے بچوں کو اس پارک میں لا سکتے ہیں یا نہیں؟

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز: اگر مقامی رہائشی انہیں استعمال کرنے کی اجازت دے دیتے دیں تو وہ استعمال کر سکتے ہیں۔

عامر سفیر: حضورِ انور کے نزدیک کیا عنقریب شام کے وقت فیملی اور انفرادی ملاقاتوں کا سلسلہ دوبارہ ممکن ہے؟

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز: ابھی بھی بعض اوقات یوں ہوا ہے کہ باہر سے لوگ جن کو ویکسین کے دونوں ٹیکے لگ چکے ہیں مجھ سے یہاں ملاقات کرنے آئے ہیں۔ کچھ لوگوں نے مجھ سے ذاتی طور پر ملاقات کی ہے۔ گو ابھی ملاقاتوں کا سلسلہ باقاعدہ طور پر شروع نہیں ہوا تاہم اگر کسی نے مجھ سے اجازت مانگی ہے تو میں بعض اوقات لوگوں کو اجازت دے بھی دیتا ہوں کہ مجھ سے آکر ملاقات کر لیں اور وہ آئے بھی ہیں۔

عامر سفیر: حضور میں نے اسلام آباد آکر ایک نئی چیز نوٹ کی ہے کہ یہاں سڑکوں کو نام دیے گئے ہیں مثلاً تاج دین روڈ، مجیدہ روڈ، حلمي الشافعي روڈ، مصطفیٰ ثابت روڈ، رضاء سٹریٹ، محمود ایوینیو اور صدر ایوینیو وغیرہ۔ حضور ان ناموں کا انتخاب کیسے کیا گیاتھا؟

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز: یہ تمام وہ افراد ہیں جو اسلام آباد میں ایک لمبا عرصہ قبل رہا کرتے تھے یا جن کی اسلام آباد کے لیے بہت خدمات ہیں۔ ان لوگوں کی ایک فہرست تیار کی گئی تھی جو ایک خاص معیار پر پورا اترتے تھے۔ پھر میں نے خود نام چنے، تب یہ نام یادگار کے طور پر طے پائے۔ میں نے مختلف لوگوں کا انتخاب کیا جن میں کچھ عرب اور چند دوسرے احباب بھی شامل ہیں۔

عامر سفیر: حضور، میں نے کچھ دیگر تبدیلیوں کے بارہ میں سنا ہے جو عنقریب واقع ہوں گی۔

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز: مجلس خدام الاحمدیہ ایک چھوٹی سی ٹک شاپ بنا رہی ہے۔ یہ شروع میں ہی کونے پر جو عمارت موجود ہے اس میں ہو گی جہاں پر صرف کچھ ہلکی پھلکی کھانے پینے کی اشیاء وغیرہ مہیا ہوں گی۔ بس یہی ہے۔ کسی وقت ایک بُک شاپ بھی کھل جائے گی۔

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز: تمہاری بیگم کا کیا حال ہے؟ اس کا حال ہی میں حمل ضائع ہو گیا تھا۔ کیا وہ اس صدمہ سے باہر آ گئی ہے؟

عامر سفیر: حضورانور کی دعاؤں سے اب اس کی طبیعت بہت بہتر ہے، الحمدللہ۔ گو اسے ابھی کچھ تکلیف تو ہے لیکن صورتحال پہلے سے بہتر ہے۔

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز: اسے صندلین دو۔ یہ ایک دیسی نسخہ ہے۔ اسے یہ مستقل دو۔ اسی طرح حمل کے دوران لگاتار Caulophyllum x200 دو۔ اللہ تعالیٰ اسے شفا عطا کرے۔

عامر سفیر: حضور انور کی اجازت سے ایک ہلکا پھلکا واقعہ بتانا چاہتا ہوں۔ میرے سات سالہ بیٹے نے 20 پینس کے ایک سکے کو نگل لیا تھا۔ ڈاکٹرز کا کہنا ہے کہ وہ ازخود ہی نکل جائے گا۔ اگر چند دن تک نہ نکلا تو ممکن ہے کہ انہیں اینڈوسکوپی یا کسی قسم کا آپریشن کرنا پڑے۔ حضورِ انور سے دعا کی درخواست ہے۔ حیرانی کی بات یہ ہے کہ وہ سات سال کی عمر میں اس بات پر مصر تھا کہ میں حضورِ انور کی خدمت میں خط لکھوں یہاں تک کہ جب ہم ہسپتال کے ایمرجنسی وارڈ پہنچے تو وہ یہی کہتا جا رہا تھا ’’کیا آپ نے حضور انور کی خدمت میں دعا کے لیے لکھ دیا ہے؟‘‘

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز: جب میں چھوٹا بچہ تھا تو میں نے ایک انگور کی شکل جیسا لوہے کا گول ٹکڑا منہ میں ڈالا اور اسے نگل لیا۔ شکر ہے کہ سانس بند نہیں ہوا اور نہ ہی وہ میرے گلے میں پھنسا بلکہ سیدھا میرے معدے میں چلا گیا۔ والد صاحب نے ہر ممکنہ کوشش کی کہ وہ کسی طرح نکل آئے۔ مجھے الٹا سیدھا کیا۔ قے کرنے کو کہا تاہم یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ آیا وہ نکلا بھی ہے کہ نہیں۔ اب اس واقعہ کو 60 سال یا شائد 65 سال گزر چکے ہیں۔ یہ ربوہ میں میرے بچپن کی بات ہے۔ امید ہے کہ وہ چھوٹا سا ٹکڑا اب وہاں موجود نہیں ہو گا۔

(سید عامر سفیر۔لندن)

پچھلا پڑھیں

ورچوئل ملاقات میں شمولیت کے بعد جذبات

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 21 ستمبر 2021