• 20 اپریل, 2024

کتاب، تعلیم کی تیاری (قسط 12)

کتاب، تعلیم کی تیاری
(قسط 12)

اس عنوان کے تحت درج ذیل تین عناوین پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات اکٹھےکئے جارہے ہیں۔

  1. اللہ تعالیٰ کے حضور ہمارے کیا فرائض ہیں؟
  2. نفس کے ہم پر کیا حقوق ہیں؟
  3. بنی نوع کے ہم پر کیا کیا حقوق ہیں؟

اللہ کے حضور ہمارے فرائض

توبہ استغفار کرنی چاہیئے۔ بغیر توبہ استغفار کے انسان کر ہی کیا سکتاہے۔ سب نبیوں نے یہی کہا ہے کہ اگر توبہ استغفار کرو گے تو خدا بخش دے گا۔ سو نماز یں پڑھو اور آئندہ گناہوں سے بچنے کے لیے خدا تعالیٰ سے مدد چاہو اور پچھلے گناہوں کی معافی مانگو اور بار بار استغفار کرو تاکہ جو قوت گناہ کی انسان کی فطرت میں ہے وہ ظہور میں نہ آوے۔ انسان کی فطرت میں دو طرح کا ملکہ پایا جاتاہے۔ ایک تو کسبِ خیرات اور نیک کاموں کے کرنے کی قوت ہے اور دوسرے بُرے کاموں کو کرنے کی قوت۔ اور ایسی قوت کو روکے رکھنا یہ خدا تعالیٰ کا کام ہے اوریہ قوت انسان کے اندر اس طرح سے ہوتی ہے جس طرح کہ پتھر میں ایک آگ کی قوت ہے۔

اور استغفار کے یہی معنی ہیں کہ ظاہر میں کوئی گناہ سرزد نہ ہو اور گناہوں کے کرنے والی قوت ظہور میں نہ آوے۔ انبیاء کے استغفار کی بھی یہی حقیقت ہے کہ وہ ہوتے تو معصوم ہیں مگر وہ استغفار اس واسطے کرتے ہیں کہ تا آئندہ وہ قوت ظہور میں نہ آوے اور عوام کے واسطے استغفار کے دوسرے معنی بھی لیے جاویں گے کہ جو جرائم اور گناہ ہو گئے ہیں اُن کے بد نتائج سے خدا بچائے رکھے اور اُن گناہوں کو معاف کردے اور ساتھ ہی آئندہ گناہوں سے محفوظ رکھے۔

(ملفوظات جلد9 صفحہ372-373 ایڈیشن 1984ء)

نئے سرے سے قرآن شریف کو پڑھو اور اس کے معانی پر خوب غور کرو۔ نماز کو دل لگا کر پڑھو اور احکام شریعت پر عمل کرو۔ انسان کا کام یہی ہے۔ آگے پھر خدا کے کام شروع ہو جاتے ہیں۔ جو شخص عاجزی سے خدا تعالیٰ کی رضا کو طلب کرتاہے خدا تعالیٰ اس پر راضی ہوتاہے۔

(ملفوظات جلد9 صفحہ 323۔ ایڈیشن 1984ء)

نفس کے ہم پر حقوق

میں تعجب کرتاہوں کہ آج کل بہت لوگ فقیر بنتے ہیں مگر سوائے نفس پرستی کے اور کوئی غرض اپنے اندر نہیں رکھتے۔ اصل دین سے بالکل الگ ہیں جس دُنیا کے پیچھے عوام لگے ہوئے ہیں اسی دُنیا کے پیچھے وہ بھی خراب ہو رہے ہیں۔ توجہ اور دم کشی اور منتر جنتر اور دیگر ایسے امو رکو اپنی عبادت میں شامل کرتے ہیں جن کا عبادت کے ساتھ کوئی تعلق نہیں بلکہ صرف دُنیا پرستی کی باتیں ہیں اور ایک ہندو کافر اور ایک مشرک عیسائی بھی ان ریاضتوں اور ان کی مشق میں ان کے ساتھ شامل ہو سکتابلکہ اُن سے بڑھ سکتا ہے اصلی فقیر تو وہ ہے جو دنیا کی اغراض فاسدہ سے بالکل الگ ہو جائے اور اپنے واسطے ایک تلخ زندگی قبول کرے تب اس کو حالتِ عرفان حاصل ہوتی ہے اور وہ ایک قوتِ ایمانی کو پاتا ہے۔ آج کل کے پیرزادے اور سجادہ نشین نماز جو اعلیٰ عبادت ہے اس کی تو پروانہیں کرتے یا ایسی جلدی جلدی ادا کرتے ہیں جیسے کہ کوئی بیگار کاٹنی ہوتی ہے اور اپنے اوقات کو خود تراشیدہ عبادتوں میں لگاتے ہیں جو خدا اور رسول نے نہیں فرمائیں۔ ایک ذکر ارّہ بنایا ہوا ہے جس سے انسان کے پھیپھڑے کو سخت نقصان پہنچتا ہے۔ بعض آدمی ایسی مشقوں سے دیوانے ہو جاتے ہیں۔ ان کو جاہل لوگ ولی سمجھنے لگ جاتے ہیں۔ خدا تعالیٰ نے اپنی رضا مندی کی جو راہیں خود ہی مقرر فرما دی ہیں وہ کچھ کم نہیں۔ خدا تعالیٰ ان باتوں سے راضی ہوتاہے کہ انسان عفت اور پرہیز گاری اختیار کرے۔ صدق و صفا کے ساتھ اپنے خدا کی طرف جھکے۔ دنیوی کدورتوں سے الگ ہو کر تبتل الیٰ اللہ اختیار کرے۔ خدا تعالیٰ کو سب چیزوں پر اختیار حاصل ہے۔ خشوع کے ساتھ نماز ادا کرے۔ نماز انسان کو منزہ بنا دیتی ہے۔ نماز کے علاوہ اُٹھتے بیٹھتے اپنا دھیان خدا تعالیٰ کی طرف رکھے یہی اصل مدعا ہے جس کو قرآن شریف میں خدا تعالیٰ نے اپنے بندوں کی تعریف میں فرمایا ہے کہ وہ اُٹھتے بیٹھتے خدا تعالیٰ کا ذکر کرتے ہیں۔ اور اس کی قدرتوں میں فکر کرتے ہیں۔ ذکر اور فکر ہر دو عبادت میں شامل ہیں۔ فکر کے ساتھ شکرگذاری کا مادہ بڑھتا ہے۔ انسان سوچے اور غور کرے کہ زمین اور آسمان، ہوااور بادل، سورج اور چاند، ستارے اور سیارے سب انسان کے فائدے کے واسطے خدا تعالیٰ نے بنائے ہیں۔ فکر معرفت کو بڑھاتا ہے۔

غرض ہر وقت خدا کی یاد میں اس کے نیک بندے مصروف رہتے ہیں۔ اسی پر کسی نے کہا کہ ؔجو دم غافل سو دم کافر۔ آج کل کے لوگوں میں صبر نہیں۔ جو اس طرف جھکتے ہیں وہ ابھی ایسے مستعجل ہوتے ہیں کہ چاہتے ہیں کہ پھونک مار کر ایک دم میں سب کچھ بنا دیا جائے اور قرآن شریف کی طرف دھیان نہیں کرتے کہ اس میں لکھا ہے کہ کوشش اور محنت کرنے والوں کو ہدایت کا راستہ ملتا ہے۔ خدا تعالیٰ کے ساتھ تمام تعلق مجاہدہ پر موقوف ہے۔ جب انسان پوری توجہ کے ساتھ دُعا میں مصروف ہوتاہے تو اس کے دل میں رقت پید اہوتی ہے۔ اور وہ آستانہ الٰہی پر آگے سے آگے بڑھتا ہے تب وہ فرشتوں کے ساتھ مصافحہ کرتا ہے۔

ہمارے فقراء نے بہت سی بدعتیں اپنے اندر داخل کر لی ہیں۔ بعض نے ہندوؤں کے منتر بھی یاد کئے ہوئے ہیں اور ان کو بھی مقدس خیال کیا جاتاہے۔ ہمارے بھائی صاحب کو ورزش کا شوق تھا۔ اُن کے پاس ایک پہلوان آیا تھا۔ جاتے ہوئے اُس نے ہمارے بھائی صاحب کو الگ لے جا کر کہا کہ میں ایک عجیب تحفہ آپ کے سامنے پیش کرتا ہوں جو بہت ہی قیمتی ہے۔ یہ کہہ کر اُس نے ایک منتر پڑھ کر اُن کو سُنایا اور کہا کہ یہ منتر ایسا پُرتاثیر ہے کہ اگر ایک دفعہ صبح کے وقت اس کو پڑھ لیا جاوے تو پھر سارا دن نہ نماز کی ضرورت باقی رہتی ہے اور نہ وضو کی ضرورت۔ ایسے لوگ خدا تعالیٰ کے کلام کی ہتک کرتے ہیں۔ وہ پاک کلام جس میں ھُدًی لِّلْمُتَّقِیْنَ (البقرۃ: 3) کا وعدہ دیا گیا ہے خود اسی کو چھوڑ کر دوسری طرف بھٹکتے پھرتے ہیں۔ انسان کے ایمان میں ترقی تب ہی ہوسکتی ہے کہ وہ خدا تعالیٰ کے فرمودہ پر چلے اور خدا پر اپنے توکل کو قائم کرے۔ ایک دفعہ حضرت رسول کریم ﷺ نے بلال کو دیکھا کہ وہ کھجوریں جمع کرتاتھا۔ آپؐ نے فرمایا کہ کس لئے ایسا کرتاہے۔ اس نے کہا کہ کل کے لئے جمع کرتاہوں۔ آپ نے فرمایا کہ کیا تو کل کے خدا پر ایمان نہیں رکھتا؟ لیکن یہ بات بلال کو فرمائی ہر کسی کو نہیں فرمائی۔ اور ہر ایک کو وعظ اور نصیحت اس کی برداشت کے مطابق کیا جاتاہے۔

(ملفوظات جلد9 صفحہ320-322۔ ایڈیشن 1984ء)

خدا تعالیٰ ایسی باتیں پسند نہیں کرتا۔ یہ مرض عورتوں میں بہت کثرت سے ہوا کرتاہے کہ وہ ذرا سی بات پر بگڑ کر اپنے خاوند کو بہت کچھ بھلا بُر اکہتی ہیں بلکہ اپنی ساس اور سُسر کو بھی سخت الفاظ سے یاد کرتی ہیں۔ حالانکہ وہ اس کے خاوند کے بھی قابلِ عزت بزرگ ہیں۔ وہ اس کو ایک معمولی بات سمجھ لیتی ہیں اور ان سے لڑنا وہ ایسا ہی سمجھتی ہیں جیسا کہ محلہ کی اور عورتوں سے جھگڑا۔ حالانکہ خدا تعالیٰ نے ان لوگوں کی خدمت اور رضاجوئی ایک بہت بڑا فرض مقرر کیا ہے یہاں تک کہ حکم ہے کہ اگر والدین کسی لڑکے کو مجبور کریں کہ وہ اپنی عورت کو طلاق دیدے تو اس کے لڑکے کو چاہئے کہ وہ طلاق دیدے۔ پس جبکہ ایک عورت کی ساس اور سُسر کے کہنے پر اس کو طلاق مل سکتی ہے تو اور کونسی بات رہ گئی ہے۔ اس لئے ہر ایک عورت کو چاہیے کہ ہر وقت اپنے خاوند اور اس کے والدین کی خدمت میں لگی رہے اور دیکھو کہ عورت جو کہ اپنے خاوند کی خدمت کرتی ہے تو اس کا کچھ بدلہ بھی پاتی ہے۔ اگر وہ اس کی خدمت کرتی ہے تو وہ اس کی پرورش کرتاہے مگر والدین تو اپنے بچہ سے کچھ نہیں لیتے وہ تو اس کے پیدا ہونے سے لے کر اس کی جوانی تک اس کی خبر گیری کرتے ہیں اور بلا کسی اجر کے اس کی خدمت کرتے ہیں اور جب وہ جوان ہوتاہے تو اس کا بیاہ کرتے ہیں اور اس کی آئندہ بہبودی کے لئے تجاویز سوچتے اور اس پر عمل کرتے ہیں اور پھر جب وہ کسی کام پر لگتا ہے اور اپنا بوجھ آپ اُٹھانے اور آئندہ زمانہ کے لئے کسی کام کرنے کے قابل ہو جاتا ہے تو کس خیال سے اس کی بیوی اس کو اپنے ماں باپ سے جُدا کرنا چاہتی ہے یا کسی ذرا سی بات پر سبّ وشتم پر اُتر آتی ہے اور یہ ایک ایسا ناپسند فعل ہے جس کو خدا تعالیٰ اور مخلوق دونو ناپسند کرتے ہیں۔

(ملفوظات جلد9 صفحہ231۔ ایڈیشن 1984ء)

بنی نوع کے ہم پر حقوق

زبانی وعظوں سے اتنا اثر نہیں ہوتا جتنا اپنی حالت درست کرکے اپنے تئیں نمونہ بنانے سے۔ تم اپنی حالت کو ٹھیک کرو اور ایسے بنو کہ لوگ بے اختیار بول اُٹھیں کہ اب تم وہ نہیں رہے۔ جب یہ حالت ہوگی تو تمہاری بیوی کیا کئی لوگ تمہارا مذہب قبول کر لیں گے۔ حدیث میں آیا ہے۔ خَیْرُ کُمْ خَیْرُ کُمْ لِاَھْلِہٖ۔ پس جب بیوی سے تمہارا اچھا سلوک ہوگا وہ تو خود بخود محجوب ہوکر تمہاری مخالفت چھوڑ دے گی اور دل سے جان لے گی کہ یہ مذہب بہت ہی اچھا ہے جس میں ایسے نرم و عمدہ سلوک کی ہدایت ہوتی ہے پھر وہ خواہ مخواہ متابعت کرے گی۔ احسان تو ایسی چیز ہے کہ اس سے ایک کُتا بھی نادم ہو جاتاہے چہ جائیکہ ایک انسان۔

(ملفوظات جلد9 صفحہ312۔ ایڈیشن 1984ء)

تواضع اور مسکنت عمدہ شے ہے۔ جو شخص باوجود محتاج ہونے کے تکبر کرتا ہے وہ کبھی مراد کو نہیں پاسکتا۔ اس کو چاہیئے کہ عاجزی اختیار کرے۔ کہتے ہیں کہ جالینوس حکیم ایک بادشاہ کے پاس ملازم تھا۔ بادشاہ کی عادت تھی کہ ایسی ردی چیزیں کھایا کرتا تھا جس سے جالینوس کو یقین تھا کہ بادشاہ کو جذام ہو جائے گا چنانچہ وہ ہمیشہ بادشاہ کو روکتا تھا مگر بادشاہ باز نہ آتا تھا۔ اس سے تنگ آکر جالینوس وہاں سے بھاگ کر اپنے وطن کو چلا گیا۔ کچھ عرصہ کے بعد بادشاہ کے بدن پر جذام کے آثار نمودار ہوئے۔ تب بادشاہ نے اپنی غلطی کو سمجھا اور اس نے انکسار اختیار کیا۔ اپنے بیٹے کو تخت پر بٹھایا اور خود فقیرانہ لباس پہن کر وہاں سے چل نکلا اور جالینوس کے پاس پہنچا۔ جالینوس نے اس کو پہچانا اور بادشاہ کی تواضع اسے پسند آئی اور پورے زور سے اس کے علاج میں مصروف ہوا۔ تب خدا تعالیٰ نے اُسے شفادی۔

(ملفوظات جلد9 صفحہ286-287۔ ایڈیشن 1984ء)

سوال پیش ہو ا کہ کسی کے مرنے کے بعد چند روز لوگ ایک جگہ جمع رہتے اور فاتحہ خوانی کرتے ہیں۔ فاتحہ خوانی ایک دُعا مغفرت ہے۔ پس اس میں کیا مضائقہ ہے؟

فرمایا کہ:
ہم تو دیکھتے ہیں وہاں سوائے غیبت اور بے ہودہ بکواس کے اور کچھ نہیں ہوتا۔ پھر یہ سوال ہے کہ آیا نبی کریمؐ یا صحابہ کرام ؓ و آئمہ عظام میں سے کسی نے یوں کیا؟ جب نہیں کیا تو کیا ضرورت ہے خواہ مخواہ بدعات کا دروازہ کھولنے کی؟ ہمارا مذہب تو یہی ہے کہ اس رسم کی کچھ ضرورت نہیں۔ ناجائز ہے جو جنازہ میں شامل نہ ہو سکیں وہ اپنے طور سے دُعا کریں یا جنازہ غائب پڑھ دیں۔

(ملفوظات جلد9 صفحہ277۔ ایڈیشن 1984ء)

(ابو سعید)

پچھلا پڑھیں

ورچوئل ملاقات میں شمولیت کے بعد جذبات

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 21 ستمبر 2021