• 4 مئی, 2025

مسیح کی گمشدہ بھیڑیں

خلاصہ یہ کہ ان تمام امور کو جمع کرنے سے ضروری طور پر یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ ضرور حضرت عیسیٰ علیہ السلام اس ملک میں تشریف لائے تھے۔ یہ بات یقینی اور پختہ ہے کہ بدھ مذہب کی کتابوں میں اُن کے اس ملک میں آنے کا ذکر ہے اور جو مزار حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا کشمیر میں ہے جس کی نسبت بیان کیا جاتا ہے کہ وہ قریباً انیس 1900 سو برس سے ہے۔ یہ اس امر کے لئے نہایت اعلیٰ درجہ کا ثبوت ہے۔ غالباً اُس مزار کے ساتھ کچھ کتبے ہوں گے جو اب مخفی ہیں۔ ان تمام امور کی مزید تحقیقات کے لئے ہماری جماعت میں سے ایک علمی تفتیش کا قافلہ طیار ہو رہا ہے جس کے پیشر و اخویم مولوی حکیم حاجی حرمین نور الدین صاحب سَلّمہٗ ربّہٗ قرار پائے ہیں یہ قافلہ اس کھوج اور تفتیش کے لئے مختلف ملکوں میں پھرے گا اور ان سرگرم دینداروں کا کام ہو گا کہ پالی زبان کی کتابوں کو بھی دیکھیں کیونکہ یہ بھی پتہ لگا ہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام اُس نواح میں بھی گم شدہ بھیڑوں کی تلاش میں گئے تھے۔ لیکن بہر حال کشمیر میں جانا اور پھر تبت میں جا کر بدھ مذہب کی پستکوں سے یہ تمام پتہ لگانا اس جماعت کا فرض منصبی ہو گا۔ اخویم شیخ رحمت اﷲ صاحب تاجر لاہور نے ان تمام اخراجات کو اپنے ذمہ قبول کیا ہے۔ لیکن اگر یہ سفر جیسا کہ خیال کیا جاتا ہے بنارس اور نیپال اور مدراس اور سوات اور کشمیر اور تبّت وغیرہ ممالک تک کیا جائے جہاں جہاں حضرت مسیح علیہ السلام کی بودوباش کا پتہ ملا ہے تو کچھ شک نہیں کہ یہ بڑے اخراجات کا کام ہے اور امید کی جاتی ہے کہ بہر حال اﷲ تعالیٰ اس کو انجام دے دے گا۔ ہر ایک دانش مند سمجھ سکتاہے کہ یہ ایک ایسا ثبوت ہے کہ اس سے یک دفعہ عیسائی مذہب کا تمام تانا بانا ٹوٹتا ہے اور انیس سو برس کا منصوبہ یکدفعہ کالعدم ہوجاتا ہے۔

(راز حقیقت، روحانی خزائن جلد 14صفحہ 163-164)

پچھلا پڑھیں

ایڈیٹر کے نام خط

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 21 ستمبر 2022