• 7 مئی, 2024

فقہی کارنر

حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں۔
خود نماز مقصود نہیں۔ قرآن کریم میں خدا تعا لیٰ فر ماتا ہے۔ اِنَّ الصَّلٰوۃَ تَنۡہٰی عَنِ الۡفَحۡشَآءِ وَالۡمُنۡکَرِ جس طرح روٹی مقصود نہیں، روٹی کھانے سے طاقت پیدا ہوتی ہے اور پھر انسان دنیا کے کام کرتا ہے۔ اسی طرح نماز اصل مقصود نہیں۔ بلکہ اس کاکام یہ ہے کہ وہ نا پسند یدہ باتوں سے روکتی ہے۔ جو شخص نماز پڑھتا ہے۔ اُس کی روح کو طاقت ملتی ہے۔ اور بُرائیوں کے مقابلہ کرنے کے لئے تیار ہو جاتی ہے۔ اس کے اندر دیانت و امانت، عدل و انصاف، رحم غرض اخلاق فاضلہ ہیں وہ سب پائے جاتے ہیں۔ اور اس کے اندر یہ طاقت بھی پیدا ہو جاتی ہے کہ وُہ دوسرے لوگوں کے اندر بھی اخلاق پیدا کرنے کی کوشش کرے۔ یہی حال روزوں کا ہے۔ روزوں کے متعلق اللہ تعالیٰ فر ماتا ہے۔ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُونَ روزوں کی یہ غرض ہے۔ تا روح کو طاقت پہنچے۔ اور وہ تقویٰ کے قابل ہو جائے۔ ۔ رسول، کریم ﷺ فر ماتے ہیں۔ وہ شخص روزہ دار نہیں جو بھوکا اور پیاسا رہتا ہے۔ روزہ دار وہ ہے جس کی زبان قابو میں رہے۔ غرض روزے کا مقصود بھوکا اور پیاسا رہنا نہیں۔ بلکہ اس کا مقصد یہ ہے کہ انسان کے اندر یہ جذبہ پیدا ہو جائے کہ اُسے کسی وقت اپنے بھائیوں اور بنی نوع انسان کی خاطر اپنی مملوکہ اور حلال چیزیں بھی چھوڑنی پڑیں تو وہ چھوڑ دے۔ روزے میں ہمارا اپنا کھانا جو حلال ذرائع سے کمایا ہوا ہوتا ہے اور شریعت کے لحاظ سے حرام نہیں ہوتا ہمارے پاس موجود ہوتا ہے ہمارا اپنا پانی ہمارے پاس موجود ہوتا ہے لیکن ہم وہ کھانا بھی نہیں کھاتے وہ پانی بھی نہیں پیتے۔ اس میں مسلمانوں کو یہ سبق دیا جاتا ہے کہ جب تم بنی نوع انسان کی خاطر اپنے بھائیوں کی خاطر خدا تعا لیٰ کے حکم کے تحت اپنی حلال چیز بھی اپنے اُپر حرام کر لیتے ہو۔ تو دوسرے کا مال تم پرکس طرح حلال ہو سکتا ہے۔ غرض روزوں میں اللہ تعالیٰ انسان کو حلال کھانے اور حلال کمانے کی طرف توجہ دلاتا ہے۔

اسی طرح حج ہے۔ لوگ اپنا کاروبار چھوڑ کر حج کے لئے جاتے ہیں۔ اور ایک جگہ جا کر اکٹھے ہو جاتے ہیں۔ اس سے خدا تعالیٰ انسان کو یہ سبق دیتا ہے کہ بنی نوع انسان کی ہمدردی کے لئے، اپنے وطن کے لئے اور رشتہ داروں کی خاطر تمہیں اپنا کام چھوڑ کر بھی جانا پڑے تو جاؤ۔ جو شخص سچے دل سے حج کرنے جاتا ہے اُسے یہ توفیق مل جاتی ہے کہ وہ بنی نوع انسان اور اپنے عزیزوں اور رشتہ داروں کی خاطر کام کرے۔ اور ایسا کرنے کے لئے اگر اُسے وطن اور کاروبار بھی چھوڑ نا پڑے تو وہ چھوڑ دیتا ہے۔ غرض نماز، روزہ، زکوٰہ، حج اور ذکر الہٰی وغیرہ روحانی غذائیں ہیں۔

(اوڑھنی والیوں کے لئے پھول جلد 2 صفحہ 53-54)

(مرسلہ: داؤد احمد عابد۔ استاد جامعہ احمدیہ برطانیہ)

پچھلا پڑھیں

ایڈیٹر کے نام خط

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 21 ستمبر 2022