• 18 مئی, 2024

احکام خداوندی (قسط 54)

احکام خداوندی
اللہ کے احکام کی حفاظت کرو۔ (الحدیث)
قسط 54

حضرت مسیح موعود ؑ فرماتے ہیں:
’’جو شخص قرآن کے سات سو حکم میں سے ایک چھوٹے سے حکم کو بھی ٹالتا ہے وہ نجات کا دروازہ اپنے ہاتھ سے بند کرتا ہے۔‘‘

(کشتی نوح)

آزمائش

’’ایمان کی شرط ہے آزمایا جانا۔ صحابہ کرامؓ کیسے آزمائے گئے۔ ان کی قوم نے طرح طرح کے عذاب دئیے۔ اُن کے اموال پر بھی ابتلاءآئے۔ جانوں پر بھی، خویش و اقارب پر بھی۔ اگر ایمان لانے کے بعد آسائش کی زندگی آجاوے تو اندیشہ کرنا چاہئے کہ میرا ایمان صحیح نہیں کیونکہ یہ سنت اللہ کے خلاف ہے کہ مومن پر ابتلاءنہ آئے۔‘‘

(حضرت مسیح موعود ؑ)

سچوں کی شناخت کے لئے مشکلات آنا ضروری ہے

اَحَسِبَ النَّاسُ اَنۡ یُّتۡرَکُوۡۤا اَنۡ یَّقُوۡلُوۡۤا اٰمَنَّا وَہُمۡ لَا یُفۡتَنُوۡنَ ﴿۳﴾ وَلَقَدۡ فَتَنَّا الَّذِیۡنَ مِنۡ قَبۡلِہِمۡ فَلَیَعۡلَمَنَّ اللّٰہُ الَّذِیۡنَ صَدَقُوۡا وَلَیَعۡلَمَنَّ الۡکٰذِبِیۡنَ ﴿۴﴾

(العنکبوت: 3-4)

کیا لوگ یہ گمان کر بیٹھے ہیں کہ یہ کہنے پر کہ ہم ایمان لے آئے وہ چھوڑ دیئے جائیں گے اور آزمائے نہیں جائیں گے؟اور ہم یقیناً اُن لوگوں کو جو اُن سے پہلے تھے آزمائش میں ڈال چکے ہیں۔ پس وہ لوگ جو سچے ہیں اللہ انہیں ضرور شناخت کر لے گا اور جھوٹوں کو بھی ضرور پہچان جائے گا۔

ابتلاء، اعمال کو آزمانے کے لئے ہیں

اَلَّذِیۡ خَلَقَ الۡمَوۡتَ وَالۡحَیٰوۃَ لِیَبۡلُوَکُمۡ اَیُّکُمۡ اَحۡسَنُ عَمَلًا ؕ وَہُوَ الۡعَزِیۡزُ الۡغَفُوۡرُ ﴿۳﴾

(الملک: 3)

وہی جس نے موت اور زندگی کو پیدا کیا تاکہ وہ تمہیں آزمائے کہ تم میں سے کون عمل کے اعتبار سے بہترین ہے۔ اور وہ کامل غلبہ والا (اور) بہت بخشنے والا ہے۔

آزمائش مجاہدو صابر کو
ممتاز کرنے کے لئے ضروری ہے

وَلَنَبۡلُوَنَّکُمۡ حَتّٰی نَعۡلَمَ الۡمُجٰہِدِیۡنَ مِنۡکُمۡ وَالصّٰبِرِیۡنَ ۙ وَنَبۡلُوَا۠ اَخۡبَارَکُمۡ ﴿۳۲﴾

(محمد: 32)

اور ہم لازماً تمہیں آزمائیں گے یہاں تک کہ تم میں سے جہاد کرنے والے اور صبر کرنے والے کو ممتاز کردیں اور تمہارے احوال کو پرکھ لیں۔

آزمائش، عاجزی اور ہدایت کے لئے ضروری ہے

وَلَقَدۡ اَرۡسَلۡنَاۤ اِلٰۤی اُمَمٍ مِّنۡ قَبۡلِکَ فَاَخَذۡنٰہُمۡ بِالۡبَاۡسَآءِ وَالضَّرَّآءِ لَعَلَّہُمۡ یَتَضَرَّعُوۡنَ ﴿۴۳﴾

(الانعام: 43)

اور یقیناً ہم نے تجھ سے پہلے کئی امتوں کی طرف (رسول) بھیجے۔ پھر ہم نے ان کو (کبھی) سختی اور (کبھی) تنگی میں مبتلا کیا تاکہ وہ عاجزی اختیار کریں۔

مصیبت کے وقت اِنَّا لِلّٰہِ کہنا

اَلَّذِیۡنَ اِذَاۤ اَصَابَتۡہُمۡ مُّصِیۡبَۃٌ ۙ قَالُوۡۤا اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّاۤ اِلَیۡہِ رٰجِعُوۡنَ ﴿۱۵۷﴾

(البقرہ: 157)

اُن لوگوں کو جن پر جب کوئی مصیبت آتی ہے تو وہ کہتے ہیں ہم یقیناً اللہ ہی کے ہیں اور ہم یقیناً اسی کی طرف لوٹ کر جانے والے ہیں۔

دُنیوی متاع آزمائش ہے

وَلَا تَمُدَّنَّ عَیۡنَیۡکَ اِلٰی مَا مَتَّعۡنَا بِہٖۤ اَزۡوَاجًا مِّنۡہُمۡ زَہۡرَۃَ الۡحَیٰوۃِ الدُّنۡیَا ۬ۙ لِنَفۡتِنَہُمۡ فِیۡہِ ؕ وَرِزۡقُ رَبِّکَ خَیۡرٌ وَّاَبۡقٰی ﴿۱۳۲﴾

(طٰہٰ: 132)

اور اپنی آنکھیں اس عارضی متاع کی طرف نہ پسار جو ہم نے اُن میں سے بعض گروہوں کو دنیوی زندگی کی زینت کے طور پر عطا کی ہے تاکہ ہم اس میں ان کی آزمائش کریں۔ اور تیرے ربّ کا رزق بہت اچھا اور زیادہ باقی رہنے والا ہے۔

ظالم بستی کو چھوڑنے کا حکم

وَجَآءَ رَجُلٌ مِّنۡ اَقۡصَا الۡمَدِیۡنَۃِ یَسۡعٰی ۫ قَالَ یٰمُوۡسٰۤی اِنَّ الۡمَلَاَ یَاۡتَمِرُوۡنَ بِکَ لِیَقۡتُلُوۡکَ فَاخۡرُجۡ اِنِّیۡ لَکَ مِنَ النّٰصِحِیۡنَ ﴿۲۱﴾ فَخَرَجَ مِنۡہَا خَآئِفًا یَّتَرَقَّبُ ۫ قَالَ رَبِّ نَجِّنِیۡ مِنَ الۡقَوۡمِ الظّٰلِمِیۡنَ ﴿۲۲﴾

(القصص: 21-22)

اور ایک شخص شہر کے پرلے کنارے سے دوڑتا ہوا آیا۔ اس نے کہا اے موسیٰ! یقیناً سردار تیرے خلاف منصوبہ بنا رہے ہیں کہ تجھے قتل کر دیں۔ پس نکل بھاگ۔ یقیناً میں تیری بھلائی چاہنے والوں میں سے ہوں۔پس وہ وہاں سے نکل کھڑا ہوا، خوفزدہ اور اِدھر اُدھر نگاہ ڈالتا ہوا۔ اس نے کہا اے میرے ربّ! مجھے ظالم قوم سے نجات بخش۔

وَاَوۡحَیۡنَاۤ اِلٰی مُوۡسٰۤی اَنۡ اَسۡرِ بِعِبَادِیۡۤ اِنَّکُمۡ مُّتَّبَعُوۡنَ ﴿۵۳﴾

(الشعراء: 53)

اور ہم نے موسیٰ کی طرف وحی کی کہ رات کو کسی وقت ہمارے بندوں کو یہاں سے لے چل۔ یقیناً تمہارا پیچھا کیا جائے گا۔

ظالم بستی کو چھوڑتے وقت پیچھے نہ دیکھتے ہوئے تیزی سے منزل کی طرف بڑھنا

وَلَا یَلۡتَفِتۡ مِنۡکُمۡ اَحَدٌ وَّامۡضُوۡا حَیۡثُ تُؤۡمَرُوۡنَ

(الحجر: 66)

اور تم میں سے کوئی پیچھے مڑ کر نہ دیکھے اور تم چلتے رہو جس طرف (چلنے کا) تمہیں حکم دیا جاتا ہے۔

تکالیف میں ہجرت کرنا یعنی اسائیلم لینا

اِنَّ الَّذِیۡنَ تَوَفّٰہُمُ الۡمَلٰٓئِکَۃُ ظَالِمِیۡۤ اَنۡفُسِہِمۡ قَالُوۡا فِیۡمَ کُنۡتُمۡ ؕ قَالُوۡا کُنَّا مُسۡتَضۡعَفِیۡنَ فِی الۡاَرۡضِ ؕ قَالُوۡۤا اَلَمۡ تَکُنۡ اَرۡضُ اللّٰہِ وَاسِعَۃً فَتُہَاجِرُوۡا فِیۡہَا ؕ فَاُولٰٓئِکَ مَاۡوٰٮہُمۡ جَہَنَّمُ ؕ وَسَآءَتۡ مَصِیۡرًا ﴿ۙ۹۸﴾ اِلَّا الۡمُسۡتَضۡعَفِیۡنَ مِنَ الرِّجَالِ وَالنِّسَآءِ وَالۡوِلۡدَانِ لَا یَسۡتَطِیۡعُوۡنَ حِیۡلَۃً وَّلَا یَہۡتَدُوۡنَ سَبِیۡلًا ﴿ۙ۹۹﴾ فَاُولٰٓئِکَ عَسَی اللّٰہُ اَنۡ یَّعۡفُوَ عَنۡہُمۡ ؕ وَکَانَ اللّٰہُ عَفُوًّا غَفُوۡرًا ﴿۱۰۰﴾ وَمَنۡ یُّہَاجِرۡ فِیۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ یَجِدۡ فِی الۡاَرۡضِ مُرٰغَمًا کَثِیۡرًا وَّسَعَۃً ؕ وَمَنۡ یَّخۡرُجۡ مِنۡۢ بَیۡتِہٖ مُہَاجِرًا اِلَی اللّٰہِ وَرَسُوۡلِہٖ ثُمَّ یُدۡرِکۡہُ الۡمَوۡتُ فَقَدۡ وَقَعَ اَجۡرُہٗ عَلَی اللّٰہِ ؕ وَکَانَ اللّٰہُ غَفُوۡرًا رَّحِیۡمًا ﴿۱۰۱﴾

(النساء: 98-101)

یقیناً وہ لوگ جن کو فرشتے اس حال میں وفات دیتے ہیں کہ وہ اپنے نفسوں پر ظلم کرنے والے ہیں وہ (اُن سے) کہتے ہیں تم کس حال میں رہے؟ وہ (جواباً) کہتے ہیں ہم تو وطن میں بہت کمزور بنا دیئے گئے تھے۔ وہ (فرشتے) کہیں گے کہ کیا اللہ کی زمین وسیع نہیں تھی کہ تم اس میں ہجرت کر جاتے؟۔ پس یہی لوگ ہیں جن کا ٹھکانا جہنّم ہے اور وہ بہت بُرا ٹھکانا ہے۔سوائے اُن مَردوں اور عورتوں اور بچوں کے جنہیں کمزور بنا دیا گیا تھا۔ جن کوکوئی حیلہ میسر نہیں تھا اور نہ ہی وہ (نکلنے کی) کوئی راہ پاتے تھے۔پس یہی وہ لوگ ہیں، بعید نہیں کہ اللہ ان سے درگزر کرے اور اللہ بہت درگزر کرنے والا (اور) بہت بخشنے والا ہے۔اور جو اللہ کی راہ میں ہجرت کرے تو وہ زمین میں (دشمن کو) نامراد کرنے کے بہت سے مواقع اور فراخی پائے گا۔ اور جو اپنے گھر سے اللہ اور اس کے رسول کی طرف ہجرت کرتے ہوئے نکلتا ہے پھر (اس حالت میں) اسے موت آ جاتی ہے تو اُس کا اجر اللہ پر فرض ہوگیا ہے۔ اور اللہ بہت بخشنے والا (اور) باربار رحم کرنے والا ہے۔

(700احکام خداوندی از حنیف احمد محمود صفحہ409-412)

(صبیحہ محمود۔جرمنی)

پچھلا پڑھیں

ایڈیٹر کے نام خط

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 21 ستمبر 2022