• 18 مئی, 2024

دُعا، ربوبیت اور عبودیت کا ایک کامل رشتہ ہے (مسیح موعود ؑ) (قسط 45)

دُعا، ربوبیت اور عبودیت کا ایک کامل رشتہ ہے (مسیح موعود ؑ)
قسط 45

تمہارا ہتھیار دعا ہے

یہ بھی یاد رکھو کہ اگر تم مداہنہ سے دوسری قوموں کو ملو تو کامیاب نہیں ہوسکتے۔ خدا ہی ہے جو کامیاب کرتا ہے۔ اگر وہ راضی ہے تو ساری دنیا ناراض ہو تو پروا نہ کرو۔ ہر ایک جو اس وقت سنتا ہے یاد رکھے کہ تمہارا ہتھیار دعا ہے اس لئے چاہیئے کہ دعا میں لگے رہو۔

یہ یاد رکھو کہ معصیت اور فسق کو نہ واعظ دور کرسکتے ہیں اور نہ کوئی اور حیلہ۔ اس کے لئے ایک ہی راہ ہے اور وہ دعا ہے۔ خدا تعالیٰ نے یہی ہمیں فرمایا ہے۔ اس زمانہ میں نیکی کی طرف خیال آنا اور بدی کو چھوڑنا چھوٹی سی بات نہیں ہے۔ یہ انقلاب چاہتی ہے اور یہ انقلاب خدا تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے اور یہ دعاؤں سے ہوگا۔

ہماری جماعت کو چاہیئے کہ راتوں کو رو رو کر دعائیں کرو۔ اس کا وعدہ ہے۔ ادۡعُوۡنِیۡۤ اَسۡتَجِبۡ لَکُمۡ (المومن: 61) عام لوگ یہی سمجھتے ہیں کہ دعا سے مراد دنیا کی دعا ہے۔ وہ دنیا کے کیڑے ہیں اس لئے اس سے پرے نہیں جاسکتے۔ اصل دعا دین ہی کی دعا ہے۔ لیکن یہ مت سمجھو کہ ہم گنہگار ہیں یہ دعا کیا ہوگی اور ہماری تبدیلی کیسے ہوسکے گی۔ یہ غلطی ہے۔ بعض وقت انسان خطاؤں کے ساتھ ہی ان پر غالب آسکتا ہے۔ اس لئے کہ اصل فطرت میں پاکیزگی ہے۔ دیکھو پانی خواہ کیسا ہی گرم ہو لیکن جب وہ آگ پر ڈالا جاتا ہے تو وہ بہر حال آگ کو بجھا دیتا ہے اس لئے کہ فطرتًا برودت اس میں ہے۔ ٹھیک اسی طرح پر انسان کی فطرت میں پاکیزگی ہے ہر ایک میں یہ مادہ موجود ہے وہ پاکیزگی کہیں نہیں گئی۔ اسی طرح تمہاری طبیعتوں میں خواہ کیسے ہی جذبات ہوں رو کر دعا کروگے تو اللہ تعالیٰ دور کردے گا۔

(حاشیہ) اصل دعا دین کے واسطے ہے اور اصل دین دعا میں ہے…. اس سے مت گھبراؤ کہ ہم گناہ سے ملوث ہیں گناہ اس مَیل کی طرح ہے جو کپڑےپر ہوتی ہے اور دُور کی جاسکتی ہے۔

(ملفوظات جلد9 صفحہ167-168 ایڈیشن 1984ء)

کس کی دعا غیر مقبول ہوتی ہے

جب تک سینہ صاف نہ ہو دعا قبول نہیں ہوتی۔ اگر کسی دنیوی معاملہ میں ایک شخص کے ساتھ بھی تیرے سینہ میں بُغض ہے تو تیری دعا قبول نہیں ہوسکتی۔اس بات کو اچھی طرح سے یاد رکھنا چاہیئے اور دنیوی معاملہ کے سبب کبھی کسی کے ساتھ بُغض نہیں رکھنا چاہیئے۔ اور دنیا اور اس کا اسباب کیا ہستی رکھتا ہے کہ اس کی خاطر تم کسی سے عداوت رکھو۔

(ملفوظات جلد9 صفحہ217-218 ایڈیشن 1984ء)

دعا میں بعض دفعہ قبولیت نہیں پائی جاتی

دعا میں بعض دفعہ قبولیت نہیں پائی جاتی تو ایسے وقت اس طرح سے بھی دعا قبول ہوجاتی ہے کہ ایک شخص بزرگ سے دعا منگوائیں اور خدا تعالیٰ سے دعا مانگیں کہ وہ اس مرد بزرگ کی دعاؤں کو سنے۔ اور بارہا دیکھا گیا ہے کہ اس طرح دعا قبول ہوجاتی ہے۔ ہمارے ساتھ بھی بعض دفعہ ایسا واقعہ ہوا ہے اور پچھلے بزرگوں میں بھی دیکھا جاتا ہے۔ جیسا کہ باوا غلام فرید ایک دفعہ بیمار ہوئے اور دعا کی مگر کچھ بھی فائدہ نظر نہ آیا۔تب آپ نے اپنے ایک شاگرد کو جو نہایت ہی نیک مرد اور پارسا تھے (شاید شیخ نظام الدینؒ یا خواجہ قطب الدینؒ) دعا کے لئے فرمایا۔ انہوں نے بہت دعا کی مگر پھر بھی کچھ اثر نہ پایا گیا۔ یہ دیکھ کر انہوں نے ایک رات بہت دعا مانگی کہ اے میرے خدا اس شاگرد کو وہ درجہ عطا فرما کہ اس کی دعائیں قبولیت کا درجہ پائیں۔ اور صبح کے وقت ان کو کہا کہ آج ہم نے تمہارے لئے یہ دعا مانگی ہے۔ یہ سن کر شاگرد کے دل میں بہت ہی رقت پیدا ہوئی اور اس نے اپنے دل میں کہا کہ جب انہوں نے میرے لئے ایسی دعا کی ہے تو آؤ پہلے انہیں ہی شروع کرو۔اور انہوں نے اس قدر زور و شور سے دعا مانگی کہ باوا غلام فرید کو شفا ہوگئی۔

… ہمیشہ بارشوں یا آندھیوں یا اور طوفانوں میں خدا تعالیٰ سے دعا مانگنی چاہیئے کہ وہ ہمارے لئے اس عذاب میں کوئی بہتری کی ہی صورت پیدا کرے اور ہر ایک شرّ سے محفوظ رکھے جو اس سے پیدا ہوتا ہے۔ اسی طرح پیغمبر خدا صلے اللہ علیہ وسلم بھی ایسے وقتوں میں دعا مانگا کرتے تھے اور جب بارش یا آندھی آتی تھی تو گھبرائے سے معلوم ہوتے تھے اور کبھی اندر جاتے تھے اور کبھی باہر جاتے تھے کہ کہیں قیامت تو نہیں آگئی۔ گو قیامت کی بہت سے نشانیاں ان کو بتائی گئی تھیں اور ابھی مسیح کی آمد کا بھی انتظار تھا مگر پھر بھی وہ خیال کرتے تھے کہ خدا تعالیٰ بڑا بے نیاز ہے۔ اس لئے سب کو چاہیئے کہ اس کی بے نیازی سے ڈرتے رہیں اور ہمیشہ ایسے موقعوں پر خصوصیت سے دعا میں لگے رہیں۔

(ملفوظات جلد9 صفحہ234-235 ایڈیشن 1984ء)

دعاء خاص

یہی دعا کرو کہ جو امر اللہ تعالیٰ کے نزدیک بہتر ہے وہی ہو جائے کیونکہ بعض دفعہ انسان ایک چیز کو اپنے لئے بہتر سمجھ کر خدا تعالیٰ سے دعا مانگتا ہے وہ حاصل ہوجاتی ہے لیکن اور شرّ اس سے پیدا ہوتا ہے جو پہلے شرّ سے بڑھ کر ہوتا ہے۔ اس واسطے دعا جامع کرنی چاہیئے۔ میں آپ کے واسطے دعا کرتا ہوں کہ خدا تعالیٰ آپ کو محفوظ رکھے اور دراصل محفوظ رکھنے والا وہی ہے۔

(ملفوظات جلد9 صفحہ242-243 ایڈیشن 1984ء)

سلب امراض و دفع بلیات

ان سب کی تہہ میں وَاسۡتَفۡتَحُوۡا وَخَابَ کُلُّ جَبَّارٍ عَنِیۡدٍ (ابراہیم: 16) کا قانون کام کررہا ہے۔ ہر نبی پہلے صبر کی حالت میں ہوتا ہے۔ پھر جب ارادۂ الٰہی کسی قوم کی تباہی سے متعلق ہوتا ہے تو نبی میں درد کی حالت پیدا ہوتی ہے۔ وہ دعا کرتا ہے۔ پھر اس قوم کی تباہی یاخیر خواہی کے اسباب مہیا ہوجاتے ہیں۔ دیکھو نوح علیہ السلام پہلے صبر کرتے رہے اور بڑی مدت تک قوم کی ایذائیں سہتے رہے۔ پھر ارادہ الٰہی جب ان کی تباہی سے متعلق ہوا تو دردکی حالت پیدا ہوئی اور دل سے نکلا رَبِّ لَا تَذَرۡ عَلَی الۡاَرۡضِ مِنَ الۡکٰفِرِیۡنَ دَیَّارًا (نوح: 27) جب تک خدا تعالیٰ کا ارادہ نہ ہو وہ حالت پیدا نہیں ہوتی۔ پیغمبر خدا صلے اللہ علیہ وسلم تیرہ سال پہلے صبر کرتے رہے۔ پھر جب درد کی حالت پیدا ہوئی تو قتال کے ذریعہ مخالفین پر عذاب نازل ہوا۔ خود ہماری نسبت دیکھو جب یہ شبھ چنتک جاری ہوا تو اس کا ذکر تک بھی نہیں کیا گیا۔ مگر جب ارادہ الٰہی اس کی تباہی کے متعلق ہوا۔ تو ہماری توجہ اس طرف بے اختیار ہوگئی اور پھر تم دیکھتے ہو کہ رسالہ ابھی اچھی طرح شائع بھی نہ ہونے پایا کہ خدا تعالیٰ کی باتیں پوری ہوگئیں۔

یہ جو کہا جاتا ہے کہ بعض اولیاء اللہ کو صفت خلق یا تکوین دی گئی۔ اس سے یہی مراد ہے کہ وہ ان کی دعا کا نتیجہ ہوتا ہے اور الٰہی صفت ایک پردہ میں ظاہر ہوتی ہے۔

(ملفوظات جلد9 صفحہ258 ایڈیشن 1984ء)

امام کا بآواز بلند اپنی زبان میں دعا مانگنا

دعا کو بآواز بلند پڑھنے کی ضرورت کیا ہے۔ خدا تعالیٰ نے تو فرمایا تَضَرُّعًا وَّخُفۡیَۃً (الاعراف: 56) اور دُوۡنَ الۡجَہۡرِ مِنَ الۡقَوۡلِ (الاعراف: 206)… ہاں ادعیہ ماثورہ جو قرآن و حدیث میں آچکی ہیں وہ بیشک پڑھ لی جاویں۔ باقی دعائیں جو اپنے ذوق و حال کے مطابق ہیں وہ دل ہی میں پڑھنی چاہئیں۔

(ملفوظات جلد9 صفحہ310 ایڈیشن 1984ء)

باپ کی دعا

باپ کی دعا اپنی اولاد کے لئے منظور ہوتی ہے۔

(ملفوظات جلد9 صفحہ343 ایڈیشن 1984ء)

(حسنیٰ مقبول احمد۔امریکہ)

پچھلا پڑھیں

ایڈیٹر کے نام خط

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 21 ستمبر 2022