• 15 مئی, 2024

تبلیغ میں پریس اور میڈیا سے کس طرح کام لیا جاسکتا ہے (قسط 61)

تبلیغ میں پریس اور میڈیا سے کس طرح کام لیا جاسکتا ہے
ذاتی تجربات کی روشنی میں
قسط 61

ڈیلی بلٹن

ڈیلی بلٹن نے اپنی اشاعت 14 مارچ 2011ء میں صفحہ A11 پر خاکسار کا ایک مضمون انگریزی میں شائع کیا ہے۔ جس کا عنوان یہ لکھا ہے۔

’’Religious Terrorism Must End‘‘۔’’مذہبی دہشت گردی کو ختم ہونا چاہئے‘‘

یہ مضمون خاکسار نے انڈونیشیا میں اپنے 3 احمدیوں کے بہیمانہ قتل پر لکھا تھا۔ جماعت احمدیہ پر تکالیف اور ظلم نیز یہ کہ بے جا مخالفت اور پھر انڈونیشا میں جو مخالفت کا واقعہ گذرا اس کو بیان کیا گیا ہے۔ اور بتایا گیا کہ یہ اسلام کی تعلیم بالکل نہیں ہے۔ جس طرح مسلمان عمل کر رہے ہیں۔ یہ تو ایک قسم کی اسلام کے خلاف ہی دہشت گردی ہے۔ جسے ختم ہونا چاہئے۔ ہم جماعت احمدیہ کے افراد اس بات پر سخت تشویش کا اظہار کرتے ہیں جو دنیا کے مختلف ممالک میں اس قسم کے واقعات رونما ہورہے ہیں۔ یہ مضمون اس سے قبل دیگر اخبارات کے حوالے سے پہلے آچکا ہے۔

الانتشار العربی

الانتشار العربی نے اپنی اشاعت 16 مارچ 2011ء میں صفحہ 23 پر حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ایک خطبہ جمعہ کا خلاصہ حضور کی تصویر کے ساتھ شائع کیا ہے۔ اس خطبہ میں حضور انور نے سورۂ فاطر کی آیات تلاوت فرمائیں اور ان کی تشریح فرمائی۔ ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے زمین میں تکبر کرنے والے اور بُرے مکر کرنے والوں کے انجام کے بارے میں فرمایا ہے۔ حضور انور نے فرمایا:
ہمارا خدا تعالیٰ پر یقین ہے کیوں کہ اس کا وعدہ ہے وَالْعَاقِبَۃُ لِلْمُتَّقِیْنَ کہ انجام متقیوں کا ہی ہے۔ اس کا ایک مطلب تو یہ ہے کہ آخر اللہ تعالیٰ کے حضور پیش ہونا ہے وہاں فتنہ و فساد اور داؤ پیچ کے نمبر نہیں ملیں گے۔ ہاں اگر پوچھا جائے گا تو تقویٰ کے بارے میں پوچھا جائے گا۔ کیوں کہ یہ تقویٰ ہی ہے جو خدا تعالیٰ تک پہنچتا ہے۔

دوسرے وَالْعَاقِبَۃُ لِلْمُتَّقِیْنَ کا واضح مطلب یہ بھی ہے کہ الٰہی جماعتوں کی کامیابی اور فتوحات، داؤ پیچ، فتنہ و فساد، بڑائی اور علوّ سے حاصل نہیں ہونے بلکہ عاجزی اور انکساری دکھانے سے اور ہر حال میں اللہ تعالیٰ کی رضا چاہنے سے اور یہی لوگ ہیں جو ان شاء اللہ پھر فتح کے نظارے بھی دیکھیں گے۔ پس یہ ظلم یہ فساد یہ سرکشیاں عارضی ہیں اور تیزی سے اپنے انجام کو پہنچ رہی ہیں۔ دنیا میں بڑے بڑے فرعون پیدا ہوئے بڑے بڑے ظالم اور جابر پیدا ہوئے لیکن سب ختم کر دیئے گئے۔

فرمایا یہ فرعون صفت لوگ جنہوں نے اپنی حکومت کو اور اپنی طاقت کو ہی خدا بنا کر عوام کے سامنے پیش کیا ہوتا ہے اس لئے یہ لوگ دشمنی میں بڑھ جاتے ہیں کیونکہ انہیں اپنی اپنی حکومت کے چلے جانے کا خطرہ ہوتا ہے لیکن اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا کہ دیکھو! فساد کرنے والوں کا انجام کیسا ہوتا ہے؟ انبیاء کے مخالفین کے انجام کی طرف نشاندہی فرما دی ہے کہ ان کا ظلم اور فتنہ و فساد دیرپا ان کو نہ بچا سکے گا۔

الاخبار

الاخبار نے اپنے عربی سیکشن میں 17 مارچ 2011ء کی اشاعت میں صفحہ 16 پر حضرت امیر المومنین خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ایک خطبہ جمعہ کا خلاصہ حضور انور کی تصویر کے ساتھ شائع کیا ہے۔جس میں حضور انور نے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی تحریرات کو پیش کیا ہے جس میں آپ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تعریف و توصیف بیان کی۔ براہین احمدیہ حصہ چہارم سے وہ عبارت پیش ہے۔

‘‘اب آسمان کے نیچے فقط ایک ہی نبی اور ایک ہی کتاب ہے یعنی حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم جو اعلیٰ و افضل سب نبیوں سے اور اَتم و اکمل سب رسولوں سے اور خاتم الانبیاء اور خیر الناس ہیں۔ جن کی پیروی سے خدا تعالیٰ ملتا ہے اور ظلماتی پردے اُٹھتے ہیں اور اس جہان میں سچی نجات کے آثار نمایاں ہوتے ہیں اور قرآن شریف جو سچی اور کامل ہدایتوں اور تاثیروں پر مشتمل ہے جس کے ذریعہ سے حقانی علوم اور معارف حاصل ہوتے ہیں اور بشری آلودگیوں سے دل پاک ہوتا ہے اور انسان جہل اور غفلت اور شبہات کے حجابوں سے نجات پا کر حق الیقین کے مقام تک پہنچ جاتا ہے ’’

حضور انور نے اس کے بعد فرمایا کہ آپ حضرت اقدس مسیح موعودؑ کی عبارتیں پڑھ جائیں آپ کو صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کی محبت اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت اور قرآن سے محبت کے سوا کچھ نہ ملے گا۔ چنانچہ یہی عبارت جو آپ کے سامنے پیش کی گئی ہے اسی پر آپ کی ساری زندگی گواہ ہے۔ آپ نے دوسرے ادیان کو چیلنج دیا اور فرمایا کہ اس وقت اگر کوئی زندہ مذہب ہے تو وہ مذہب اسلام ہے اور اگر کوئی زندہ نبی ہے تو وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات مقدسہ ہے۔ اور اگر اس وقت کوئی ایسی ذات ہے جو اللہ تعالیٰ سے ملا سکتی ہے تو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات مقدسہ و مطہرہ ہی ہے۔

اور اگر اس وقت الہامی کتابوں کو دیکھا جائے تو ان سب میں صرف اور صرف قرآن کریم ہی ایک زندہ کتاب ہے جو ہر قسم کی آلودگی اور تحریف و تبدل سے پاک ہے۔ اس کی تلاوت دلوں کو پاک اور مطہر بناتی ہے۔ صرف شرط یہ ہے کہ اخلاص سے اس کا مطالعہ کیا جائے۔

اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں سورۃ الجمعہ میں وَّ اٰخَرِیْنَ مِنْهُمْ لَمَّا یَلْحَقُوْا بِهِمْ فرمایا جس کے معانی ہیں کہ آخری زمانے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی غلامی میں آپ کا ایک عاشق صادق ہوگا جسے اللہ تعالیٰ وحی سے نوازے گا۔ اور ایمان جو ثریا پر چلا گیا ہوگا اسے واپس لائے گا۔ اور یہ سارے کام وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی متابعت میں کریں گے اور یہ زمانہ وہی زمانہ ہے جس کی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خبر دی تھی۔ پس آج اگر کوئی نبی زندہ ہے تو وہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں اور اگر کوئی کتاب زندہ ہے تو قرآن کریم ہے۔ اور یہ کہ اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر روحانی کمالات انتہا تک پہنچا دیئے اور آپ کے ذریعہ اسلام کو تمام ادیان پر غلبہ عطا فرمایا۔ آپ نے جب یہ اعلان فرمایا تو کوئی بھی میدان میں نہ آیا۔ حتی کہ عماد الدین اور ان جیسے دوسرے لوگ جنہوں نے اسلام کو ترک کیا اور اسی طرح پنڈت لیکھرام۔ یہ تمام حالات تاریخ احمدیت میں درج ہیں۔

اسی طرح ازالہ اوہام کی یہ عبارت بھی شامل ہے جس میں حضرت اقدس مسیح موعودؑ نے فرمایا۔
’’یہ عاجز اسی قوت ایمان کے جوش سے عام طور پر دعوت اسلام کے لئے کھڑا ہوا اور بارہ ہزار کے قریب اشتہارات دعوت اسلام رجسٹری کرا کر تمام قوموں کے پیشواؤں اور امیروں اور والیان ملک کے نام روانہ کئے یہاں تک ایک خط اور ایک اشتہار بذریعہ رجسٹری گورنمنٹ برطانیہ کے شہزادہ ولی عہد کے نام بھی روانہ کیا اور وزیراعظم تخت انگلستان گلیڈ سٹون کے نام بھی ایک پرچہ اشتہار اور خط روانہ کیا گیا۔ ایسا ہی شہزادہ بسمارک کے نام اور دوسرے نامی امراء کے نام مختلف ملکوں میں اشتہارات و خطوط روانہ کئے گئے۔ جن سے ایک صندوق پُر ہے۔ اور ظاہر ہے کہ یہ کام بجز قوت ایمانی کے انجام پذیر نہیں ہوسکتا۔ یہ بات خودستائی کے طور پر نہیں بلکہ حقیقت نمائی کے طور پر ہے تاحق کے طالبوں پر کوئی بات مشتبہ نہ رہے۔

نیویارک عوام

نیویارک عوام نے اپنی اشاعت 18 تا 24 مارچ 2011ء میں ایک پورے صفحہ کا اشتہار جس میں حضرت امیر المومنین خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا خطبہ جمعہ کا خلاصہ آپ کی تصویر کے ساتھ شائع کیا ہے۔ یہ خطبہ جمعہ حضور انورنے 25 فروری 2011ء کو بیت الفتوح میں ارشاد فرمایا تھا۔ اس خطبہ کی ہیڈلائنز جو اخبار نے دی وہ یہ ہے۔

’’عوام الناس اور ارباب حکومت و اقتدار میں امن کی فضا پیدا کرنے کے لئے تقویٰ کی ضرورت ہے۔ امام جماعت احمدیہ حضرت مرزا مسرور احمد کی طرف سے امن عالم کے لئے دعا کی تحریک۔ دنیا دنیوی داؤ پیچ کو سب کچھ سمجھتی ہے لیکن ایک احمدی کے لئے خدا کے آگے جھکنا ہی سب کچھ ہے‘‘

حضور نے مزید فرمایا کہ مَیں آج ایک دعا کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں۔ جس کا تعلق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ماننے والے تمام ممالک سے ہے اس وقت ان کی ہمدردی کا تقاضا ہے کہ جو بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ماننے والے کو کسی بھی قسم کے نقصان کا نشانہ بنایا جارہا ہے یا کسی ملک میں کسی بھی طرح کی بے چینی اور لاقانونیت ہے اس کے لئے ایک احمدی کو دعا کرنی چاہئے۔

آپ نے فرمایا کہ ایمان رکھنے والا ہی ایمان رکھنے والے پر ظلم کر رہا ہے۔ (یعنی مسلمان ہی مسلمان پر ظلم کر رہا ہے۔ ناقل) اور برداشت بالکل نہیں ہے۔ یہ سب کچھ گذشتہ ہفتوں سے مصر، تیونس اور لیبیا وغیرہ میں جو ہورہا ہے یہ سب کچھ دنیا میں بدنامی کا باعث ہے۔ یہ سب اس بھائی چارے کے نفی ہو رہی ہے۔ جس کا انہیں حکم ہے کہ آپس میں بھائی چارہ پیدا کرو۔ تقویٰ کے ساتھ توبہ و استغفار کرتے ہوئے خدا کے آگے جھکنا چاہئے۔ اور تقویٰ کا حصول خدا تعالیٰ سے تعلق کے ذریعہ ہی ہونا ہے۔ مومنوں کو ایک کرنے کے لئے، انصاف قائم کرنے کے، دنیا میں امن قائم کرنے کے لئے یقیناً نظام خلافت ہی ہے۔ جو صحیح رہنمائی کر سکتا ہے۔ فرمایا خلافت خدا تعالیٰ کی عنایت ہے۔ خلافت کے قیام کے لئے اللہ تعالیٰ کے رحم نے جوش مارنا تھا نہ کہ حکومتوں کے خلاف پرجوش احتجاج سے خلافت قائم ہونی تھی۔

حضور انور نے حضرت مسیح موعودؑ کا یہ حوالہ بھی سنایا کہ۔
’’یہ عاجز بھی اسی کام کے لئے بھیجا گیا ہے کہ تا قرآن شریف کے احکام بہ وضاحت بیان کر دے۔ فرمایا: مَیں سچ سچ کہتا ہوں کہ جو شخص میرے ہاتھ سے جام پئے گا جو مجھے دیا گیا ہے وہ ہرگز نہیں مرے گا۔‘‘

پاکستان ایکسپریس

پاکستان ایکسپریس نے اپنی اشاعت 18 مارچ 2011ء میں صفحہ 13 پر خاکسار کا ایک مضمون بعنوان ’’کَانَ خُلُقُہُ الْقُرْآن‘‘ قرآن مجید کی تصویر اور خاکسار کی تصویر کے ساتھ شائع کیا ہے۔

دراصل یہ کتاب ’’کَانَ خُلُقُہُ الْقُرْآن‘‘ میرے پیارے ایک بزرگ استاد نے مجھے تحفۃً دی تھی۔ جس میں انہوں نے سیرت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو قرآن کے آئینہ میں بیان کیا اور لکھا ہے۔ اس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نمازوں، استغفار اور لوگوں سے حسن سلوک، عمدہ اخلاق اور نمازوں کے قیام، تہجد کے قیام، اور آپ کی روزمرہ کی زندگی میں ہونے والے واقعات کو بیان کیا ہے۔ قرآن کریم میں یہ تعلیم ’’لَآ اِکْرَاہَ فِیْ الدِّیْنِ‘‘ کہ قرآن جبر کی تعلیم نہیں دیتا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر کس طرح عمل فرمایا۔ آپ نے سب غیر مسلموں کو امان دی، ان کے ساتھ امن کے معاہدات کئے۔ جو قیامت تک سب کے لئے مشعل راہ ہیں۔

دنیا انٹرنیشنل

دنیا انٹرنیشنل نے اپنی اشاعت 18 مارچ 2011ء میں خاکسار کا ایک مضمون بعنوان ’’عالم اسلام کے لئے دعائیں اور قیام خلافت کی تحریک‘‘ خاکسار کی تصویر کے ساتھ شائع کیا ہے۔ یہ مضمون قبل ازیں دوسرے اخبار کے حوالہ سے گذر چکا ہے۔ نفس مضمون وہی ہے کہ خلافت نعروں، تقاریر سے قائم نہیں ہوگی۔ بلکہ خلافت تو خدا تعالیٰ کا انعام ہے۔ اور خدا تعالیٰ ہی خلیفہ بناتا ہے۔ اور اس کے لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث پیش کی گئی ہے کہ آخری زمانہ میں بھی خلافت نبوت کے بعد ہوگی۔ (یعنی خلافت علیٰ منہاج النبوۃ)

پاکستان ایکسپریس نے

پاکستان ایکسپریس نے اپنی اشاعت 18 مارچ 2011ء پر ہماری ایک خبر شائع کی ہے۔ جس کا عنوان یہ لکھا۔ ’’انتہاء پسندی ایسا مسئلہ نہیں جو مسلمانوں تک محدود ہو‘‘۔ جماعت احمدیہ تمام مسلمانوں کو خطرے کی وجہ قرار دینے سے مسلمان قریب نہیں آئیں گے۔

کیلی فورنیا

کیلی فورنیا۔ جماعت احمدیہ کے اراکین نے ایک بیان میں کہا ہے کہ امریکن مسلم کمیونٹی میں انتہاء پسندی کے رجحانات کے تعین کے لئے کانگریس مین پیٹر کنگ کی قیادت میں گذشتہ جمعرات کوشروع کی گئی سماعتوں کی مخالفت کی ہے۔ بیان میں کہا گیا ہے کہ پیٹر کنگ کو معلوم ہونا چاہئے کہ جس مقصد کے تحت وہ یہ سماعتیں کر رہے ہیں بے فائدہ ثابت ہوں گی۔ اور مقصد حاصل نہیں ہوگا۔ اس لئے کہ جو لوگ ان کی مدد کر سکتے تھے اب وہ خود کانگریس مین کے اپنے عزائم کے بارے میں شکوک و شبہات میں مبتلا ہوگئے ہیں۔ پریس ریلیز میں کہا گیا ہے کہ جب پیٹرکنگ نے پچھلے ماہ ایک انٹرویو میں کہا کہ ملک (امریکہ) کو اصل خطرہ مسلم کمیونٹی سے ہے۔ تو اس بیان نے سارے مسلمانوں کو خطرے کی وجہ قرار دے دیا۔ بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ سوچے سمجھے بغیر اس قسم کی باتیں مسلمانوں کو قریب لانے کی بجائے انہیں دور کر دیں گی۔

انتہاء پسندی ایسا مسئلہ نہیں ہے جو امریکہ مسلمانوں تک محدود ہو۔ انفرادی طور پر امریکی جن کا تعلق کسی بھی مذہب سے ہو یا نظریات اور روایات سے ہو وہ بھی انتہاء پسند نقطۂ نظر رکھ سکتے ہیں جو ہمارے ملک کے لئے انتہائی خطرناک ثابت ہوسکتا ہے۔ اگر پیٹرکنگ سارے مسلمانوں کو شکوک کی نظر سے دیکھتے ہیں تو پھر یہ سماعتوں کا سلسلہ بند کر دینا چاہئے۔

جماعت احمدیہ نے اپنے بیان میں مینا سوٹا کے ایک کانگریس مین کے بیان کو بھی سراہا کہ جس میں انہوں نے کہا کہ یہ کہنا مناسب نہیں کہ ہم ایک پوری مذہبی اقلیت کے خلاف تحقیقات کریں گے۔ یہ ایک غلط اقدام ہوگا۔ اسلام پر مقدمہ چلانے کی ضرورت نہیں۔ سماعتیں اگر کرنی ہیں تو ان لوگوں تک محدود رکھیں جو اس سرزمین کو تباہ کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔

اپنے بیان میں امریکن جماعت احمدیہ نے کہا کہ ’’قادیان کے مرزا غلام احمد (علیہ السلام) کو ہم مسیح موعود مانتے ہیں اور اپنے اس یقین کا اعادہ کرتے ہیں کہ اسلام میں تشدد کی قطعی کوئی گنجائش نہیں۔ پچھلے 120 برسوں سے ہم اپنے اس مؤقف پر قائم ہیں اور ان افراد کی مذمت کرتے ہیں جو اپنے ذاتی یا سیاسی مقاصد کے حصول کے لئے اسلام کا نام استعمال کرتے ہیں۔ ہمارا کوئی سیاسی ایجنڈا نہیں ہے اور نہ ہی اس بنیاد پر ہمارا کسی سے اتحاد ہے ہم ہر اس ملک سے محبت کرتے ہیں جہاں ہم رہتے ہیں۔ امریکہ وہ عظیم سرزمین ہے جس نے ہمیں اپنے عقائد پر عمل کرنے کی پوری پوری آزادی فراہم کی ہے‘‘

نیویارک عوام

نیویارک عوام نے اپنی اشاعت 18 تا 24 مارچ 2011ء میں صفحہ 12 پر خاکسار کا ایک مضمون بعنوان ’’کَانَ خُلُقُہُ الْقُرْآن‘‘ خاکسار کی تصویر کے ساتھ شائع کیا ہے۔ نفس مضمون وہی ہے جو اس سے قبل دوسرے اخبار کے حوالہ سے پہلے گذر چکا ہے۔

پاکستان ایکسپریس

پاکستان ایکسپریس نے اپنی اشاعت 25 مارچ 2011ء میں صفحہ 13 پر خاکسار کا مضمون بعنوان ’’قائد اعظم، پاکستان اور ہم‘‘۔ قائد اعظم کی اور خاکسار کی تصویر کے ساتھ شائع کیا ہے۔

خاکسار نے اس مضمون کو اس طرح شروع کیا ہے کہ پاکستان کو معرض وجود میں آئے بہت عرصہ گزر چکا ہے۔ وہ قومیں جنہیں 1947ء کے لگ بھگ آزادی ملی، وہ اپنی محنت اور خداداد صلاحیتوں کو ایمانداری اور حب اوطنی کے جذبہ سے بروئے کار لا کر کہیں سے کہیں بلندی کی طنابیں چُھو رہی ہیں۔ لیکن قائد اعظم محمد علی جناحؒ نے 1947ء میں یہ عظیم کارنامہ انجام دیا کہ پاکستان بنایا تا اسمیں ہر ایک کو سکھ کا سانس میسر آئے۔ جس میں ہر ایک کے ساتھ انصاف ہونا تھا کیونکہ آپ کا فرمان ہی یہ تھا کہ پاکستان میں ہر ایک آزاد ہے۔ ہر ایک کومذہبی آزادی حاصل ہوگی۔ لیکن افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ آج کا پاکستان قائد اعظم کے خواب کی تعبیر بالکل نہیں ہے۔

جس ملک کو ہزاروں لاکھوں جانوں کے نذرانے دے کر حاصل کیا گیا تھا وہ سارے کا سارے ناانصافی کے خون میں نہلایا جاچکا ہے۔ آج ہی کی خبر تھی کہ قائد کے شہر میں خون کی ہولی کھیلی گئی۔ شہر قائد کو نظر لگ گئی۔ خبریں تھیں کہ کراچی میں ٹارگٹ کلنگ پھر شروع ہوگئی ہے۔ 16 افراد ہلاک کر دیئے گئے۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّاۤ اِلَیۡہِ رٰجِعُوۡنَ

اب کیا ہوگا؟ ہر ایک کی زبان پر یہ سوال ہے۔ پاکستان میں نہ عزت محفوظ نہ جان کی، نہ مال کی حفاظت۔پولیس کی کارکردگی دیکھ لیں تو وہ بھی صفر ہے۔ بلکہ اکثر جرائم میں پولیس خود شامل ہے۔ جب ملک کی حفاظت کرنے والے ہی بھیڑیوں کا کردار ادا کریں تو باقی کیا رہ جاتا ہے۔

1971ء کی جنگ کے بعد ایک ریسٹورانٹ پر یہ ملی نغمہ لگا ہوا تھا۔ ’’اے قائد اعظم ترا احسان ہے ترا احسان‘‘۔ ایک شخص نے جب یہ سنا تو کہنے لگا کہ آدھا احسان تو ہم نے چکا دیا ہے اب آدھا ہی احسان رہ گیا ہے۔ (یعنی مشرقی پاکستان ہمارے ہاتھوں سے چلا گیا)

خاکسار نے اپنے مضمون میں یہ بھی لکھا کہ وطن ماں کی طرح ہوتا ہے۔ اور ماں کے قدموں میں جنت ہوتی ہے ملک کی حفاظت کرنا ملک کو ہر بدارادہ سے بچانا ملک کے اندر انصاف قائم کرنا۔ ملک کو ترقی کی راہ پر چلانا۔ ہر محب وطن شہری کا فرض ہے۔

آنجہانی شہباز بھٹی جو اقلیتی امور کے وزیر تھے انہیں چند ہفتے قبل ہی قتل کر دیا گیا تھا۔ اس نے کہا تھا کہ اس ملک پاکستان کے لئے میں اپنے خون کا آخری قطرہ بھی دے دوں گا۔ جو اس شخص نے کہا تھا کر دکھایا۔ یہی ہر پاکستانی کی روح ہونی چاہئے۔

اب 23 مارچ آئے گا جس میں یوم تاسیس منایا جائے گا، ملی نغمے گائے جائیں گے۔ پریڈ ہوں گی۔ سب بڑے بڑے لوگ سلامی لیں گے۔ قومی ترانہ بجایا جائے گا۔ یہ سب کچھ ٹھیک ہے۔ اور ایسا ہونا بھی چاہئے۔ لیکن ان لوگوں کے دکھوں کا مداوا کون کرے گا جنہیں پاکستان میں انصاف نہیں مل رہا۔ جن کے عزیز دن دہاڑے مار دیئے گئے۔ مساجد شہید کر دی گئیں۔ پھر اور جرائم بھی بڑھ گئے ہیں۔ قوت برداشت ختم ہوکر رہ گئی ہے۔ پس یہ تو عذاب ہے۔ اور قرآن نے کہا ہے کہ منکروں پر عذاب آتا ہے۔ ہماری تو دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ پاکستان کو نظر بد سے بچائے۔ اور قومی ترانے کی یہ دعا ’’سایۂ خدائے ذوالجلال‘‘ ساکنانِ پاکستان کے حق میں قبول ہوتی رہے۔ اس کے بعد خاکسار نے ایک اور دعا حضرت مصلح موعودؓ کی لکھی۔؎

ایمان مجھ کو دے دے
عرفان مجھ کو دے دے
قربان جاؤں تیرے
قرآن مجھ کو دے دے
جن پر پڑیں فرشتوں کی رشک کی نگاہیں
اے میرے محسن ایسے انسان مجھ کو دے دے

اس کے بعد خاکسار نےحضرت مصلح موعودؓ کی ایک اور دعا بھی لکھی۔ جو ایک نظم ہے۔

نونہالان جماعت مجھے کچھ کہنا ہے
پر ہے یہ شرط کہ ضائع میرا پیغام نہ ہو

نظم کے چند اشعار لکھنے کے بعد خاکسار نے لکھا کہ ان دعاؤں کے ساتھ یوم پاکستان کے موقعہ پر ہمارا آپ کو یہی پیغام ہے کہ ’’محبت سب کے لئے، نفرت کسی سے نہیں‘‘

نیویارک عوام

نیویارک عوام نے اپنی اشاعت 25 تا 31 مارچ 2011ء میں صفحہ 12 پر خاکسار کا مضمون بعنوان ’’قائد اعظم، پاکستان اور ہم‘‘ خاکسار کی تصویر کے ساتھ شائع کیا ہے۔ یہ مضمون وہی ہے جو اس سے قبل دوسرے اخبار کے حوالہ سے پہلے گذر چکا ہے۔ نفس مضمون وہی ہے۔

انڈیا پوسٹ

انڈیا پوسٹ نے اپنی اشاعت 25 مارچ 2011ء میں صفحہ 19، 20 پر ہمارے بیان کو شائع کیا ہے جو جماعت احمدیہ نے پیٹرکنگ کے بارے میں دیا ہے۔ یہ خبر اور بیان اس سے قبل دوسرے کئی اخبارات کے حوالہ سے پہلے گذر چکی ہے۔

ہائی ڈیزرٹ (High Desert)

ہائی ڈیزرٹ (High Desert) اخبار نے اپنی اشاعت 26 مارچ 2011ء میں صفحہ B4 پر خاکسار کی تصویر کے ساتھ ہماری خبر شائع کی ہے۔ اس خبر کا عنوان اخبار نے اس طرح لگایا ہے۔

‘‘Ahmadi Muslims Concerned About Peter King’s Congressional Hearings.’’

اس خبر کا متن قریباً وہی ہے جو اس سے قبل اردو اور انگریزی اخبارات کے حوالہ سے پہلے گذر چکا ہے۔ جس میں پیٹر کنگ کے بیان پر ہمارا ردّعمل ہے کہ تمام مسلمانوں کو مورد الزام ٹھہرانے کی بجائے تحقیق کرلیں۔ اور ان کا یہ بیان کہ مسلمان متشدد ہیں یا دہشت گرد ہیں۔ مسلمانوں کو ان سے دور کر دے گا اور جماعت احمدیہ تو اس زمانے میں مسیح موعود پر ایمان لاتی ہے۔ اور ہر قسم کے جبر و تشدد اور دہشت گردی کی مذمت کرتی ہے۔

ڈیلی بلٹن

ڈیلی بلٹن نے اپنی اشاعت 28 مارچ 2011ء میں صفحہ A-9پر خاکسار کا ایک مضمون شائع کیا جس کا عنوان یہ ہے۔

’’Ahmadis Reject Bloody Messiah‘‘۔ ’’کہ جماعت احمدیہ خونی مسیح کی آمد کا انکار کرتی ہے‘‘

اس مضمون میں خاکسار نے یہ لکھا ہے کہ میں Mr. G. MeAlpin اور مسٹر غفار کا شکریہ ادا کرتا ہوں جو اخبارات میں سارے مضامین اور خبریں پڑھتے ہیں اور انہوں نے میرے مضمون پر تبصرہ کیا ہے۔ مسٹر می آلپائن نے خاکسار کے مضمون پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا کہ یہ لوگ ہم سے اتنی محبت کرتے ہیں کہ ہمیں جان سے مارنے سے بھی دریغ نہیں کرتے تو میں چاہوں گا کہ یہ ہم سے کم محبت کریں اور ہمیں جینے کا حق دیں۔ ان کا یہ تبصرہ اور ریمارکس غلط فہمی کی بنیاد پر ہے۔ اس کا جواب خاکسار نے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے حوالہ سے دیا۔ اور وہ یہ ہے کہ حضرت مسیح موعودؑ بانی جماعت احمدیہ علیہ السلام فرماتے ہیں۔
’’مسلمانوں کی اکثریت اس بات کو مانتی ہے کہ حضرت عیسیٰ آسمان سے نازل ہوں گے اور ان کا نزول دمشق کے مشرقی مینارے کے پاس ہوگا۔ اور وہ سب کفار کو قتل کر دیں گے‘‘

میں مسٹر آلپائن سے عرض کروں گا کہ وہ میرے بیان کو دوبارہ پڑھیں۔ اور اس عبارت کو پڑھیں کہ یہ ہمارا عقیدہ نہیں ہے بلکہ دیگر مسلمانوں کا عقیدہ ہے ہم ایسے مسیح کا انتظار نہیں کر رہے جو ظاہری طور پر آکر سب کفار کا صفایا اور قلع قمع کر دیں گے۔ ہمارا تو پیغام ہی یہ ہے۔ اور ہمارا ایمان یہ ہے کہ ایسا مسیح بالکل نہیں آئے گا۔ ہم تو ایسا ہرگز نہیں مانتے۔ یہ عقیدہ دیگر مسلمانوں کی اکثریت کا ہے۔ ہم تو صحیح معنوں میں اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ ’’محبت سب کے لئے، نفرت کسی سے نہیں‘‘۔ یہ ہماری جماعت کا ماٹو ہے۔ ہم تو امن پسند مسیح پر ایمان لائے ہیں جن کا نام حضرت مرزا غلام احمد علیہ السلام (1835ء – 1908ء) ہے جو کہ دمشق کے مشرق میں انڈیا کے ایک قصبہ قادیان میں پیدا ہوئے تھے اور انہوں نے مسیح موعود ہونے کا دعویٰ کیا ہے جس کا ذکر قرآن و حدیث میں پایا جاتا ہے۔ میرے اخبارات میں متعدد مضامین اس موضوع پر شائع ہوچکے ہیں اور میرا ہفتہ وار ریڈیو پروگرام بھی چلتا ہے جس میں ہم اپنے اس عقیدے کا بار بار اظہار کرتے ہیں کہ کوئی ایسا مسیح نہیں آئے گا جو خون بہائے گا۔

اور یہ کہ ہم تو امن پسند گروہ ہیں جو برداشت کی صفت پر عمل پیرا ہیں۔ نہ صرف اپنے لئے بلکہ تمام مذاہب کی عزت و احترام کرتے ہیں۔ اس لئے یہ باتیں خاکسار پھر دہراتا ہے۔

ہم امن پسند اور امن قائم کرنے والے اور محبت کرنے والے مسیح پریقین اور ایمان لاتے ہیں۔

اسی وجہ سے مسلمانوں کی اکثریت ہمیں مسلمان بھی نہیں سمجھتی کہ ہم خونی مسیح پر ایمان نہیں لاتے۔

حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام جنہوں نے مسیح موعود ہونے کا دعویٰ کیا ہے اور ہم ان پر ایمان لائے ہیں۔ انہوں نے 80 سے زائد کتب لکھی ہیں اور ان میں اس بات کا شدت سے انکار کیا ہے اور اسے ردّ فرمایا ہے کہ کوئی مسیح آسمان سے آئے گا اور جو پھر زبردستی مسلمان بنائے گا اور جونہ مانے گا اسے تلوار کے زور سے وہ قتل کر دے گا۔ جماعت احمدیہ اس پر بالکل یقین نہیں رکھتی۔ ہم نہ تو کسی نفرت انگیز اور شر انگیز کارروائی میں شرکت کرتے ہیں اور نہ ہی اس کی مدد کرتے ہیں۔ جس طرح آپ نے خبروں میں پڑھا ہوگا کہ کچھ عرصہ ہوا ہمارے 3 احمدیوں کو انڈونیشیاء میں بہیمانہ اور سفاکانہ طور پر قتل کیا گیا۔ ہمارے لوگوں کو (فرقہ احمدیہ مسلم کے لوگوں کو) تکالیف کا نشانہ بنایا جارہا ہے اور انہیں قتل کیا جارہا ہے۔ اور اس بات پر انہیں مجبور کیا جاتا ہے کہ وہ اپنے عقیدہ کی تردید کریں۔ اور یہ پاکستان، بنگلہ دیش، انڈونیشیاء اور دیگر اسلامی ممالک میں ہم سے یہ ناروا سلوک ہورہا ہے۔

ہماری جماعت کے عالمگیر خلیفہ حضرت مرزا مسرور احمد (ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز) بار بار جماعت کو صبر، برداشت اور دعاؤں کی تلقین کررہے ہیں۔ یہاں تک کہ 28 مئی 2010ء کو جب لاہور کی ہماری دو بڑی مساجد پر مسلمانوں نے حملہ کر کے 90 سے زائد لوگوں کو موقع پر ہی شہید کر دیا اور سو سے زائد لوگ بری طرح زخمی ہوئے تب بھی انہوں نے جماعت کے ممبران کو یہی تلقین کی کہ وہ صبر کریں اور دعائیں کریں۔ اور قانون کو اپنے ہاتھ میں نہ لیں اور نہ ہی کسی کا بُرا چاہیں اور نہ ہی انتقامی جذبہ اختیار کریں۔

میں Mr. G Mc Alpin کو دعوت دیتا ہوں کہ وہ ہمارا لٹریچر بھی پڑھیں اور ہماری مسجد کا وزٹ بھی کریں۔ تاکہ ہم آمنے سامنے بیٹھ کر گفتگو کریں اور تاکہ میں ان کی غلط فہمیوں کو دور کر سکوں۔ ہمیں خدا تعالیٰ کے فضل سے حکومتی سطح پر بھی لوگ اچھی طرح جانتے ہیں اور اردگرد کے علاقہ میں بھی ہماری امن کی وجہ سے شہرت ہے اور حال ہی میں انڈونیشیاء میں جوہمارے احمدی مسلمانوں کے ساتھ یہ بہیمانہ اور سفاکانہ ظلم ہوا ہے۔اس پر 28 کانگریس مین نے دستخط کر کے انڈونیشیاء کی حکومت سے اپیل کی ہے کہ وہ احمدی مسلمانوں کو اپنے ملک میں آزادی کے ساتھ اپنے مذہب پر عمل کرنے کی اجازت دیں۔ اور اس قسم کے حملوں سے باز رہیں اور درحقیقت یہ ہمارا حق ہے جو خدا نے ہمیں دیا ہے۔

مضمون کے آخر پر خاکسار کا ا خبار نے مختصراً تعارف لکھا ہے۔ میرا ای میل، ہماری ویب سائٹ، مسجد کا فون نمبر، ایڈریس معلومات کے طور پر بھی دئیے ہیں۔

(بقیہ آئندہ بروز بدھ ان شاء اللہ)

(مولانا سید شمشاد احمد ناصر۔ امریکہ)

پچھلا پڑھیں

مساجد نمبر

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ