• 18 مئی, 2024

تلخیص صحیح بخاری سوالاً و جواباً (كتاب العلم حصہ اول قسط 6)

تلخیص صحیح بخاری سوالاً و جواباً
كتاب العلم حصہ اول
قسط 6

سوال: اہل علم کا اللہ تعالیٰ کے حضور کیا مقام ہوگا؟

جواب: قرآن کریم میں ہے: یَرۡفَعِ اللّٰہُ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا مِنۡکُمۡ ۙ وَالَّذِیۡنَ اُوۡتُوا الۡعِلۡمَ دَرَجٰتٍ ؕ وَاللّٰہُ بِمَا تَعۡمَلُوۡنَ خَبِیۡرٌ (المجادلہ: 12)اللہ ان لوگوں کے درجات بلند کرے گا جو تم مىں سے اىمان لائے ہىں اور خصوصاً ان کے جن کو علم عطا کىا گىا ہے اور اللہ اُس سے جو تم کرتے ہو ہمىشہ باخبر رہتا ہے۔

رَبِّ زِدْنِي عِلْمًا (طه: 115) اے مىرے ربّ! مجھے علم مىں بڑھادے۔

مذکورہ بالا آیات سے واضح ہے کہ اللہ کے حضور بھی علمی کمی بیشی کے حساب سے مقام اور درجات ہوں گے۔

سوال: دورانِ گفتگو کوئی شخص سوال کردے تو اس کا جواب کیسے دیا جائے؟

جواب: حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ ایک بار نبی کریمؐ لوگوں میں بیٹھے ہوئے ان سے باتیں کر رہے تھے۔ اتنے میں ایک دیہاتی آیا اور پوچھنے لگا کہ قیامت کب آئے گی؟

آپؐ اپنی گفتگو میں مصروف رہے۔ بعض لوگ کہنے لگے آپؐ نے دیہاتی کی بات سنی لیکن پسند نہیں کی۔ اور بعض کہنے لگے کہ نہیں بلکہ آپ نے اس کی بات سنی ہی نہیں۔ جب آپؐ اپنی باتیں پوری کر چکے۔

تو آپؐ نے فرمایا وہ قیامت کے بارے میں پوچھنے والا کہاں گیا؟

اس دیہاتی نے کہا میں موجود ہوں یا رسول اللہ!

آپؐ نے فرمایا کہ جب امانت داری دنیا سے اٹھنے لگے تو قیامت قائم ہونے کا انتظار کر۔

اس نے کہا ایمانداری اٹھنے کا کیا مطلب ہے؟۔

آپؐ نے فرمایا کہ جب حکومتی امور نااہل لوگوں کو سونپ دئیے جائیں تو قیامت کا انتظار کر۔

سوال: کیا استاد بلند آواز سے شاگردوں کو تنبیہ کرسکتا ہے؟

جواب: عبداللہ بن عمروؓ نے بیان کیا کہ ایک سفر میں نبی کریمؐ ہم سے پیچھے رہ گئے اور آپؐ ہم سے اس وقت ملے جب عصر کی نماز کا وقت آن پہنچا تھا ہم جلدی میں وضو کر رہے تھے اور پاؤں کو سرسری سا دھو رہے تھے۔یہ نظارہ دیکھ کر آپؐ نے بلند آواز سے فرمایا دیکھو ایڑیوں کو سزا ہوگی، دو یا تین بار اس بات کو دہرایا۔

حضورؐ کے اس واقعہ سے مسلمان ماہرین تعلیم نے شاگردوں کو ڈانٹ کر پڑھانے کے جواز کی دلیل بھی اخذ کی ہے۔

سوال: کیاحدیث بیان کرنے والے کا حَدَّثَنَا أَوْ أَخْبَرَنَا وَأَنْبَأَنَا کے الفاظ استعمال کرنا مختلف معنی رکھتا ہے۔؟
جواب: ابن عیینہ کے نزدیک الفاظ، حَدَّثَنَا، اَخْبَرَنَا، اَنْبَاَنَاَ،سَمِعْتُ اور رَوَی، یَرْوِیْ۔ ایک ہی مفہوم میں استعمال ہوئے ہیں۔

سوال: حضورؐ نے صحابہؓ سے پوچھا بتاؤ وہ کون سا درخت ہے جس کے پتے نہیں جھڑتے؟

جواب: حضورؐ کا سوال سن کر لوگوں کا خیال جنگل کے درختوں کی طرف دوڑا۔ عبداللہ بن عمرؓ نے کہا میرے دل میں آیا کہ وہ کھجور کا درخت ہے۔ مگر میں اپنی کم عمری کی شرم سے نہ بولا۔ آخر صحابہؓ نے نبی کریمؐ ہی سے پوچھا کہ وہ کون سا درخت ہے؟ آپؐ نے فرمایا وہ کھجور کا درخت ہے۔

مذکورہ بالا واقعہ میں تو حضورؐ کا اسوہ یہی ہے کہ استاد اپنے شاگردوں کا علم جانچنے کے لئے سوالات کرسکتاہے۔ اور آج تک ساری دنیا کے اساتذہ اسی اصول پر عمل پیرا ہیں۔

سوال: آیا شاگرد کا استاد کے سامنے تصحیح کی غرض سے پڑھنا اور سنانا جائز ہے؟

جواب: امام حسن بصری اور سفیان ثوری اور مالک نے شاگرد کے پڑھنے کو جائز کہا ہے اور بعض نے استاد کے سامنے پڑھنے کی دلیل ضمام بن ثعلبہ کی حدیث سے لی ہے۔ جس میں انھوں نے نماز کے بارے میں اللہ تعالیٰ کےحکم کی تصدیق حضورؐ سےچاہی اور پھر اپنی قوم کو پیغام پہنچایا۔

سوال: ضمام بن ثعلبہ کے واقعہ کی تفصیل کیا ہے؟

جواب: انسؓ سے روایت ہے کہ ایک بار ہم مسجد میں نبی کریمؐ کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے، اتنے میں ایک شخص اونٹ پر سوار ہو کر آیا اور اونٹ کو مسجد میں بٹھا کر باندھ دیا۔ پھر اس نے پوچھا تم میں سے محمدؐ کون ہیں۔ نبی کریمؐ اس وقت لوگوں میں تکیہ لگائے بیٹھے ہوئے تھے۔ تو اسےآپؐ کی شخصیت کی تعیّن کروائی گئی۔

تب وہ آپ سے مخاطب ہوا کہ، اے عبدالمطلب کے فرزند!

آپؐ نے فرمایا۔ کہو میں آپ کی بات سن رہا ہوں۔

وہ بولا میں آپؐ سے کچھ دینی باتیں دریافت کرنا چاہتا ہوں اور ذرا سختی سے بھی پوچھوں گا تو آپ اپنے دل میں برا نہ مانئے گا۔

آپؐ نے فرمایا نہیں جو تمہارا دل چاہے پوچھو۔

تب اس نے کہا کہ میں نے آپؐ کو ربِّ اوّلین و آخرین کی قسم دے کر پوچھا کہ اسی نے آپؐ کورسول مبعوث کیا ہے؟ آپؐ نے فرمایا ہاں!

پھر اس نے قسمیہ ہی پانچ نمازوں، رمضان کے روزوں اور زکوٰۃ کی ادائیگی کی تصدیق حاصل کی۔

تب وہ شخص کہنے لگا جو حکم آپؐ اللہ کے پاس سے لائے ہیں، میں ان پر ایمان لایا۔ اور میں اپنی قوم کے غیر حاضر لوگوں کا بھیجا ہوا تحقیق کے لیے آیا ہوں۔ میرا نام ضمام بن ثعلبہ ہے، میں بنی سعد بن بکر کے خاندان سے ہوں۔

سوال: صحابہؓ حضورؐ سے کس طرح علم سیکھتے تھے؟

جواب: انسؓ سے روایت ہے، قرآن کریم میں حضورؐ سے سوالات کی مناہی کے بعد ہمیں یہ بات پسند تھی کہ کوئی سمجھ دار دیہاتی آئے اور آپؐ سے دینی امور پوچھے اور ہم سنیں۔

چنانچہ ایک دفعہ ایک دیہاتی آیا اور اس نے کہا کہ:
اے محمدؐ !ہمارے ہاں آپ کا مبلغ آیا تھا۔ جس نے ہمیں خبر دی کہ اللہ نے آپؐ کو اپنا رسول بنا کر بھیجا ہے۔

اس دیہاتی نے حضورؐ سے آپؐ کے دعویٰ رسالت کی تصدیق حاصل کی۔ اور پھر اس نے آسمان، زمین، پہاڑ اور دیگر نفع رساں چیزوں کی تخلیق کے بارہ میں سوالات کئے۔

اور آپؐ نے جواباً فرمایا ان سب کو اللہ عزّوجل نے پیدا کیا ہے۔

اس دیہاتی نے پھر مذکورہ بالا سب چیزوں کے تخلیق کے ربّ کی قسم دے کر پوچھا کہ اسی اللہ نے آپؐ کو اپنا رسول بنا کر بھیجا ہے؟

آپؐ نے جواب دیا کہ ہاں !اللہ نے ہی مجھے رسول مبعوث کیا ہے۔

پھر اس نے پانچ وقت کی نمازوں، زکوٰۃ ادا کرنے کی قسمیہ تصدیق حاصل کی۔ پھر اس نے بیت اللہ کےحج فرضیّت کے بارے میں پوچھا اور آپؐ نے فرمایا صاحبِ استطاعت پر فرض ہے۔

اور پھر آخر پہ اس نے مذکورہ بالا سب باتوں کی قسمیہ تصدیق حاصل کی۔ اور کہا کہ قسم ہے اس ذات کی جس نے آپؐ کو حق کے ساتھ مبعوث فرمایا میں ان باتوں پر کچھ زیادہ کروں گا نہ کم کروں گا۔

آپؐ نے فرمایا اگر اس نے اپنی بات کو سچ کر دکھایا تو وہ ضرور ضرور جنت میں داخل ہو جائے گا۔

سوال: مناولہ کیاہے اور اس کے جواز کی نص کیا ہے۔

جواب: مناولہ یہ ہےکہ تحریر ی مسوّدہ دوسرے شہروں کی طرف بھیجنا۔ حضرت انسؓ اور امام مالک ؒ وغیرہ نے حضرت عثمانؓ کا قرآن کریم لکھوا کر چاروں طرف بھیجنے کی بناء پہ اسے جائز بیان کیا ہے۔

اور ایک دفعہ حضورؐ نے امیر لشکر کو خط دیا کہ جب تک تم فلاں فلاں جگہ نہ پہنچ جاؤ اسےمت پڑھنا۔ مقرّرہ جگہ پہنچ کر اس نے لوگوں کے سامنے خط پڑھا اور آپؐ کے حکم سے آگاہ کیا۔

تو یہ دونصوص مناولہ کے جواز کی ہیں۔

سوال: حضورؐ نے اپنا خط کسریٰ کو کیسے بھجوایا؟

جواب: عبداللہ بن عباسؓ کی روایت ہے کہ رسول اللہؐ نے ایک شخص کو اپنا ایک خط دے کر حاکم بحرین کے پاس بھیجا۔ بحرین کے حاکم نے وہ خط کسری کے پاس بھیج دیا۔ جس وقت اس نے وہ خط پڑھا تو چاک کر ڈالا۔

یہ سن کر رسول اللہؐ نے اہل ایران کے لیے بددعا کی کہ وہ خط کی طرح ٹکڑے ٹکڑے ہو جائیں۔ اور ایسا ہی ہوا۔

(بقیہ آئندہ بروز بدھ ان شاء اللہ)

(مختار احمد)

پچھلا پڑھیں

مساجد نمبر

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ