• 5 مئی, 2024

ایڈیٹر کے نام خطوط

علامہ محمد عمرتماپوری۔ کوآرڈینیٹر، مسلم یونیورسٹی علی گڑھ، انڈیا سے لکھتے ہیں۔
الفضل آن لائن لندن مجریہ 8 ستمبر 2022ء میں آپ کا اداریہ ’’سوعافیت ہے اسی میں کہ قافلہ میں رہو‘‘ پڑھنے کو ملا۔ آپ کے اداریے، رپورٹ، مضامین اور کتب پابندی کے ساتھ زیرمطالعہ رہتے ہیں۔ بہت کچھ سیکھنے کو ملتا ہے ساتھ ہی سکھانے کی بھی توفیق ملتی ہے ۔شروع سے ادب کا طالب علم رہاہوں ۔اردو ادب نثر و نظم سے دلچسپی رہی ہے۔اردو دُنیا کا اپنا ایک مخصوص رنگ و آہنگ ہے ۔اسی اداریہ میں آپ نے نہ صرف اپنی جماعت کو خلافت کی رسی مضبوطی سے تھامے رہنے اور حصار میں رہنے کی تلقین و ترغیب دلائی ہے وہیں پر ملت اسلامیہ کو بھی دعوت فکر دی ہے کہ وہ بھی اپنی زبونِ حالی پر غور وخوض کریں۔عربی زبان میں محاورہ ہے ’’بھیڑیا اُسی بکری پرحملہ آور ہوتا ہے جو ریوڑ سے علیحدہ ہوتی ہے‘‘ اس نظریہ کو آپ نے مختلف مثالوں سے سمجھانے کی کوشش کی ہے۔ اللہ کرے اس کے اچھے اثرات مرتب ہوں۔ آمین۔

سائنس نے ثابت کر دیا ہے کہ انسانی دماغ بھی کمپیوٹر ہے ۔میں نے ماضی بعید کے جھروکوں میں غوطہ خوری کی تو میری نظروں کے سامنے ایک اقتباس آیا جس نے میرے وجود کو بے چین کر دیا ۔عنوان تھا ’’یہ خوش قسمتی، ہمارے لئے کیوں نہیں‘‘ معاصر اخبار الجمیعت دہلی نے اپنے جمعہ کے ایڈیشن کے سرورق پر عنوان بالا کے تحت رقم طراز ہے:
’’میں ریلوے لائن کے کنارے کھڑا تھا ایک مال گاڑی کی گڑگڑاہٹ نے مجھے اپنی طرف متوجہ کرلیا۔ یہ کئی درجن ویگنوں کی ایک طویل ناقابل شکست قطار تھی جو دیر تک میرے سامنے سے گزرتی رہی ایک کے بعد ایک خالی ڈبّے انجن کے ساتھ اس طرح چلے جا رہے تھے جیسے انہیں انجن کی پیروی کے سوا کچھ اور معلوم نہ ہو ۔کیا یہ خوش قسمتی صرف مال گاڑی کے ویگنوں کے لئے مقدر ہے؟ میں نے سوچا مال کے ڈبوں کے لئے انجن ہے کیا ہمارے انسانی قافلوں کے لئے کوئی انجن نہیں کیا یہ ممکن نہیں کہ ہمارا بھی ایک انجن ہو اور سارے افرادِ ملت اس سے جُڑ کر ایک سوچی سمجھی راہ پر رواں دواں ہو۔آہ!وہ بھیڑ جو ایک قافلہ نہیں بن سکتی ۔آہ !وہ قافلہ اپنے آپ کو ایک انجن کے سپرد کرنے کے لئے تیار نہیں۔‘‘

(ہفت روزہ الجمیعت دہلی جمعہ ایڈیشن 9مئی 1969ء)

اس حسر ت ورقت بھری تڑپ کاصرف ایک ہی مداوا ہے جس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے آپ نے اپنے نایاب پُر درد اور قابل ریکارڈ اداریہ ’’سو عافیت ہے اسی میں کہ قافلہ میں رہو‘‘ پر عام و خاص کی توجہ مبذول کرائی ہے۔کیا یہ حقیقت نہیں کہ انجن تو موجود ہے مگر یہ ملت اسلامیہ کی اپنی کوتاہ بینی اور لاپرواہی ہے کہ اس کی شناخت کر سکے۔ اور نہ اُس سے تعلق پیدا کر سکے۔یہ لوگ ایک طرف ملت اسلامیہ کی زبون حالی پر اشکبار تو ہوتے ہیں مگر واقعات کی دنیا میں مطلق نظر نہیں کرتے۔حقائق کی طرف متوجہ نہیں ہوتے ۔ہادی برحق نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بڑے ہی واشگاف الفاظ میں ارشاد فرمایا ہے:

من لم يعرف إمام زمانه فقد مات میتۃ جاہلیۃ

جو اپنے زمانہ کے امام کو شناخت کئے بغیر فوت ہوا وہ جاہلیت کی موت مرا اور دوسری ایک حدیث میں فرمایا۔ من مات و لیس فی عُنقہ بیعت جاہلیۃ

جو شخص ایسی حالت میں مرا کہ اس کی گردن میں کسی امام کی بیعت نہیں وہ جاہلیت کی موت مرا۔
تعصب کی عینک پرے رکھ کر اسلامی تاریخ کا مطالعہ کریں تو یہ بات روز روشن کی طرح واضح ہو جاتی ہے کہ ملت اسلامیہ کی مال گاڑی کو قدرت خداوندی نے کسی زمانے میں بھی بغیر انجن کے نہیں چھوڑا۔

خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ احمدی احباب نے زمانہ کےاس امام کی شناخت کی اور احمدیہ جماعت میں شامل ہو کر خدمت دین واشاعت اسلام میں لگے ہوئے ہیں ۔ان کے دل میں کبھی یاس وحسرت پیدا نہیں ہوئی بلکہ وہ مکمل طور پر مطمئن ہیں کہ ان کا ہاتھ ایک واجب الاطاعت امام کے ہاتھ میں ہے جو شب و روز ان کی رہبری فرما رہا ہے۔ اس موقع پر ہم دلی محبت اور نہایت درجہ ادب و احترام سے تمام ملت اسلامیہ کے افراد سے درخواست کرتے ہیں کہ وہ اپنے ہی بزرگ رہنما کی دلی تڑپ و آرزو کہ مال گاڑی کی اس تمثیل سے سبق حاصل کریں ۔گزشتہ تیرہ صدیوں سے ہر صدی پر امام ظاہر ہوتے رہے ہیں جو افراد ملت کی مال گاڑی کو لے کر منزل کی طرف رواں دواں ہے اور روحانی انجن کا فریضہ سرانجام دیتے رہے ۔آخر کیا وجہ ہےکہ چودہویں صدی اس ’’انجن سے خالی رہے؟

ساغر حُسن تو پُر ہے کوئی میخوار بھی ہو ہے
ہےوہ بےپردہ کوئی طالب دیدار بھی ہو
خلافت سےہی وابستہ ترقی ہے جماعت کی
یہی کاردان دین کی اصلی قیادت توہے

مکرم ابن ایف آر بسمل لکھتے ہیں:
آج 10 ستمبر 2022ء کے الفضل میں مضامین (میں تیری تبلیغ کو زمین کے کناروں تک پہنچاؤں گا) کے تسلسل میں مبلغ انچارج پرتگال مکرم فضل احمد مجوکہ صاحب کا مضمون پرتگال میں جماعت احمدیہ کا قیام بہت پسند آیا اور جذبات کو انگیخت کرنے کا باعث بنا.۔

ایک تو اس تاریخ کو حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒ کے پروگرام کے مطابق مسجد بشارت سپین کا 10ستمبر 1982ء کو افتتاح جو خدائی تقدیر کے مطابق حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ کے ہاتھوں نہایت جذباتی انداز میں ہوا جب کہ حضور اپنے خطبہ جمعہ میں اپنے پیشرو خلیفہ کی یاد میں خود بھی رو دیئے اور جماعت کو بھی رلا دیا بڑا جذباتی لمحہ تھا وہ۔

پرتگال میں جماعت کے قیام کی تاریخ میں پہلی احمدی مشنری خاتون امینہ اید لویئس دی المید اوباش صاحبہ کا ذکر اور غیر معمولی قابل رشک خدمات اور حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ کا دیا ہوا لقب (پہلی احمدی مشنری خاتون) حیرت انگیز واقعہ ہے ۔ ہم تو اس نام (Edelweiss de Almeida Dias) کو صحیح طرح pronounce بھی نہیں کر سکتے.

کاش اقبال احمد نجم صاحب یا عبد الستار خان صاحب اس قابل قدر خاتون پر، جنہیں حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ نے uniqueلقب دیا، الگ سے مضمون لکھیں جنہیں پرتگیزی ترجمہ قرآن کی نظرثانی کی سعادت بھی حاصل ہوئی.

حیات ناصر میں لکھا ہے کہ پرتگیزی زبان میں حضرت مصلح موعودؓ کے زمانہ میں ترجمہ مکمل ہو گیا تھا اور نظر ثانی باقی تھی (حیات ناصر صفحہ 495)

ہسپانیہ جو سپین اور پرتگال پر مشتمل تھا میں خاص طور پر مکرم کرم الہی ظفر صاحب کی خدمات قابل رشک ہیں ۔ چند سال قبل ان کی آخری آرامگاہ پر جاکر اس عاجز کو بھی دعا کرنے کی توفیق ملی تھی۔ اہلیہ اور چھوٹا بیٹا ہمراہ تھے اور امام مسجد بشارت نعمان صاحب وہاں تک لے کر گئے تھے فجزاھم اللّٰہ

پچھلا پڑھیں

مساجد نمبر

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ