• 25 اپریل, 2024

اسلامی اصطلاح ماشاء اللہ کا استعمال

اسلامی اصطلاح مَا شَآءَاللّٰہُ کا استعمال

اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم سورۃ الکہف آیت 33 تا 45 میں دو اشخاص کا ایک قصّہ بیان کیا ہے کہ ان میں ایک اپنے اُس باغ کا ذکر کرتا ہے جو کھجوروں سے لداہوا تھا۔ اس کے درمیان میں نہر بہتی تھی۔ جس سے وہ اپنے باغ کو پانی دیتاتھا اور ہر سال پھل حاصل کرتاتھا۔ مگر وہ اس ساری دولت پر اِتراتا ہوا دوسرے شخص سے کہتا ہے کہ میں تو کبھی یہ خیال نہیں کر سکتا کہ یہ میرا باغ برباد ہوگا اور میں قیامت پر بھی یقین نہیں کرتا کہ میں کبھی اپنے رب کی طرف لوٹایاجاؤں گا۔

دوسرے شخص نے یہ تمام گفتگو سُن کر (پہلے شخص سے) کہا کہ تو اُس ذات کا انکاری ہے جس نے تمہیں مٹی اور نطفہ سے پیدا کیااور پھر ٹھیک ٹھاک چلنے والا بنایا۔ جب تم اپنے باغ (جو خدا کی دَین (gift) ہے میں داخل ہوئے تو تُو نے مَا شَآءَ اللّٰہُ ۙ لَا قُوَّۃَ اِلَّا بِاللّٰہِ کیوں نہ کہا کہ وہی ہوگا جو اللہ نے چاہا اور یہ کہ اللہ کے سوا کسی کو کوئی قوت حاصل نہیں۔اگر تُو مجھے مال اور اولاد کے اعتبار سے اپنے سے کم تر دیکھ رہے ہو۔ بعید نہیں کہ میرا رب مجھے تیرے باغ سے بڑھ کر عطا کر دے اور تیرے باغ پر آسمان سے بطور محاسبہ کوئی عذاب اُتار دے اور وہ چٹیل بنجر زمین میں بدل دے۔ پھر ایسا ہی ہوا کہ باغ اُجڑ گیا اور وہ کہہ اُٹھا۔ اے کاش! میں کسی کو اپنے رب کا شریک نہ ٹھہراتا۔

قرآن کریم میں بیان فرمودہ اس مثال اور دیگرمتعدد احادیث سے یہ سبق ملتا ہے کہ اپنے میں کوئی خوبی، نیکی، بڑائی اور دنیوی لحاظ سے کسی نعمت اور مال و دولت پا کر ’’مَا شَآءَاللّٰہُ‘‘ کے الفاظ کہنے چاہئیں ایسا کرنے سے اللہ مزید دیتا ہے۔ ہم نے ایشیائی ممالک میں اکثر دیکھا ہے کہ خوبصورت کوٹھی کی پیشانی پر یا کار کی پُشت پر مَا شَآءَاللّٰہُ لکھا ہوتا ہے۔ جو راہ گزر اس کوٹھی کے پاس سے گزرتا ہے مَا شَآءَاللّٰہُ کہہ کر مالک مکان کو دُعا دے جاتا ہے یا گاڑی پر مَا شَآءَاللّٰہُ دیکھ اور پڑھ کر کار کے لئے مالک کے لئے دُعا ہوجاتی ہے۔

اس میں یہ بھی سبق ہے کہ کسی میں کوئی نیکی اور بھلائی یا دنیوی لحاظ سے کوئی نعمت دیکھ کر حسد کرنے کی بجائے رشک کرتے ہوئے دعائیہ کلمات ’’مَا شَآءَاللّٰہُ‘‘ کہنے چاہئیں اور اس نیکی، خوبی یا اس نعمت کے لئے دُعا بھی کرنی چاہئے۔

انسان کو ہر وقت اللہ تعالیٰ پر توکل کرنا چاہئے۔ اس کی طرف جھکنا چاہئے۔اس کی طرف سے ملنے والی نعمتوں کا شکر ادا کرنا چاہئے۔ لیکن بعض لوگ اپنے مال و منال و دولت پر گھمنڈ شروع کر دیتے ہیں۔ تکبر سے کام لیتے ہیں۔ جس کا انجام بہت بھیانک بلکہ جہنم ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو زمین پر اکڑ کر، اِتراکر چلنے سے منع فرمایا ہے۔ آنحضور ﷺ نے فرمایا۔ جس کے دل میں رائی کے دانے کے برابر بھی تکبر ہوگا وہ جنت میں داخل نہیں ہوگا۔

(مسلم کتاب الایمان)

قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتاہے کہ وہ کبر، غرور اور گھمنڈ کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔ اسی تسلسل میں خودنمائی، خود بینی بھی آتی ہے۔ جو اللہ اور اس کے رسول کو پسند نہیں۔ بلکہ کسی مبالغہ آمیز طریق پر تعریف کرنا بھی منع ہے جو ہمارے معاشرہ کا حصہ ہے۔ ہم اپنے Boss کو خوش کرنے کے لئے اس کی ایسی ایسی باتوں کی تعریف کر جاتے ہیں جو بالعموم اس کے اندر نہیں ہوتیں۔ ایک دفعہ ایک شخص نے آنحضرت ﷺ کے سامنے کسی شخص کی مبالغہ آمیز حد تک تعریف کی تو حضورؐ نے فرمایا تم نے اس کو ہلاک کر دیا اور ایک روایت میں ہے کہ فرمایا تم نے اس کی گردن ہی کاٹ ڈالی۔ اس قسم کی مدح سے آپ نےمنع فرمایا کہ جس سے ممدوح کے اندر عُجب اور خود بینی کے جراثیم جنم لیتے ہیں۔ پس انسان کو اپنے اندر نیکی کو اپنی کوشش کا نتیجہ نہیں سمجھنا چاہئے بلکہ اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب کرنا چاہئے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے خدا نے جو دیا ہے اس پر اِتراؤ مت۔

(الحدید)

حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے مندرجہ بالاسورۃ الکہف کی آیات کی تفسیر میں اس مثال میں موجود دوسرے شخص کو مسلمان قرار دیتے ہوئے تحریر فرمایا ہے:
’’مسلمان کے دل میں پھر بھی ہمدردی ہے وہ اِسے کہتا ہے کہ کیوں تونے باغ میں داخل ہوتے ہوئے یہ نہ کہا کہ سب قوت اللہ تعالیٰ کو ہی ہے اور اپنے آپ کو طاقتور سمجھا‘‘

(تفسیر کبیر جلد چہارم صفحہ 453)

اسلامی اصطلاح مَا شَآءَاللّٰہُ کا استعمال

اسلامی اصطلاحات میں سے ایک ’’اِنۡ شَآءَ اللّٰہُ‘‘ کے الفاظ ہیں۔ جو آئندہ کوئی کام کرنے سےقبل کہنے کا حکم ہے کہ اگر اللہ نے چاہا یا اگر اللہ کوجو منظور ہوا تو یہ کام انجام پائے گا۔

اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں سورۃ الکہف 24-25 میں مومنوں سے یوں مخاطب ہوا ہے۔

وَ لَا تَقُوۡلَنَّ لِشَایۡءٍ اِنِّیۡ فَاعِلٌ ذٰلِکَ غَدًا ﴿ۙ۲۴﴾ اِلَّاۤ اَنۡ یَّشَآءَ اللّٰہُ ۫ وَ اذۡکُرۡ رَّبَّکَ اِذَا نَسِیۡتَ وَ قُلۡ عَسٰۤی اَنۡ یَّہۡدِیَنِ رَبِّیۡ لِاَقۡرَبَ مِنۡ ہٰذَا رَشَدًا ﴿۲۵﴾

(الکہف:24۔25)

اور ہرگز کسی چیز سے متعلق یہ نہ کہا کر کہ میں کل اسے ضرور کروں گا۔ سوائے اس کے کہ اللہ چاہے۔ اور جب تُو بھول جائے تو اپنے ربّ کو یاد کیا کر اور کہہ دے کہ بعید نہیں کہ میرا ربّ اس سے زیادہ درست بات کی طرف میری راہنمائی کردے۔

ان آیات کی تشریح میں حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
اِلَّاۤ اَنۡ یَّشَآءَ اللّٰہُ: جہاں کہیں خدا تعالیٰ کی عظمت و جبروت کا خیال نہ ہو۔ نتیجہ اچھا نہیں ہوتا۔ سب سے پہلی مثال حضرت یوسف علیہ السلام کے بھائیوں کی ہے۔ جنہوں نے اِنَّا لَہٗ لَحٰفِظُوْنَ (یوسف :13) اِنَّا لَہٗ لَنَاصِحُوْنَ (یوسف:12) اِنَّا لَفَاعِلُوْنَ (یوسف:62) وغیرہ الفاظ کے ساتھ دعویٰ کیا۔ مگر کہیں وفا نہ ہوا۔

(ضمیمہ اخبار بدر قادیان 10مارچ 1910ء)

اس سے بڑھ کر دُکھ کی کہانی ایک ہے۔ حضرت داؤد اور حضرت سلیمان علیھما الصلوٰۃ و السلام کے نام سے عام مسلمان واقف ہیں۔ مگر سلیمان علیہ السلام کے بیٹے کے نام کی وہ شہرت نہیں جو باپ دادا کی ہے۔ اور پوتے کا نام قریباً معدوم ہے۔ حدیث میں اس راز کا ذکر ہے۔ حضرت سلیمان علیہ السلام نے ایک دفعہ کہا تھا کہ میری بیویاں بہت ہیں۔ ان سے بڑی اولاد اور عظیم الشان لوگ پیدا ہوں گے۔ اس دعویٰ کے ساتھ اِنۡ شَآءَ اللّٰہُ نہ کہا۔ نتیجہ خراب ہوا۔ معلوم ہوتا ہے کہ آنحضرت ﷺ بھی اپنی ہجرت کے ارادے کو ظاہر کرنا چاہتے تھے۔ تب اللہ تعالیٰ نے کہا کہ اِنۡ شَآءَ اللّٰہُ کہہ لو۔

(حقائق الفرقان جلد سوم صفحہ10۔ 11)

اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں مختلف مقامات پر ان الفاظ کا استعمال انبیاء علیہم السلام اور ان کی اقوام کی طرف کیا ہے جیسے سورۃ البقرہ آیت 71 میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کی قوم نے کہا کہ وَ اِنَّاۤ اِنۡ شَآءَ اللّٰہُ لَمُہۡتَدُوۡنَ اور ہم یقیناً اِنۡ شَآءَ اللّٰہُ ضرور ہدایت پانے والے ہیں۔ سورۃ یوسف آیت 100 میں حضرت یوسف علیہ السلام کی طرف سے اِنْ شَآءَ اللّٰہُ اٰمِنِیۡنَ اور سورۃ الکہف آیت 70 حضرت موسیٰ علیہ السلام کا سَتَجِدُنِیۡۤ اِنۡ شَآءَ اللّٰہُ صَابِرًا اور سورۃ القصص آیت 28 میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کے خُسر نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو مخاطب ہو کر فرمایا سَتَجِدُنِیۡۤ اِنۡ شَآءَاللّٰہُ مِنَ الصّٰلِحِیۡنَ۔

احادیث سے بھی ثابت ہے کہ آنحضرت ﷺ اور صحابہ رسول بھی اِنۡ شَآءَ اللّٰہُ لکھتے، بولتے اور پڑھتے تھے۔

ترمذی کی روایت ہے کہ اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ قَالَ مَنْ حَلَفَ عَلَی الْیَمِیْنِ فَقَالَ اِنْ شَآءَاللّٰہُ فَلَا حِنْثَ عَلَیْہِ

(ترمذی، حدیث 1451)

کہ جو قسم کھا کر حلف لے تو وہ اِنۡ شَآءَ اللّٰہِ کہے۔ اس پر کوئی گناہ نہیں۔

پھر آنحضرت ﷺ نے فرمایا :
ہر نبی کسی اہم امر کی طرف دعوت دیتا ہے میں چاہتا ہوں کہ اِنۡ شَآءَ اللّٰہُ ایسی دعوت کی طرف امت کو بلاؤں جو قیامت کے روز میری امت کے لئے شفاعت کا موجب ہو۔

(صحیح مسلم، حدیث 295)

اور ایک حدیث کے مطابق آنحضرت ﷺ نے کسی سے مخاطب ہو کر فرمایا سَاَفْعَلُ اِنۡ شَآءَ اللّٰہُ۔

(صحیح بخاری، حدیث407)

کہ اگر اللہ نے چاہا میں ایسا ضرور کروں گا۔

سو یہ مقدس کلمہ اس وقت بولا جاتا ہے جب کوئی آئندہ آنے والے وقت میں کام کرنے کا کوئی منصوبہ بنا رہا ہو تو وہ اِنۡ شَآءَ اللّٰہُ کہہ کر اس کام کے بابرکت ہونے کے لئے دُعا کرے۔ انسان ہر حالت میں کمزور ناتواں اور dependent ہے۔ اسے ہرگز اپنے وجود پر انحصار نہیں کرنا چاہئے بلکہ خدائے عزو جل کی طرف منسوب کر کے اُسی سے مدد طلب کرنی چاہئے۔ بلکہ قرآن کریم میں یہاں تک ہدایت ملتی ہے کہ اگر اِنۡ شَآءَ اللّٰہُ کہنا بھول جائے تو یاد آنے پر کہہ لیا کرو۔

(الکہف:25)

اس قرآنی حکم کی اتباع اور سیدنا حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کی سنت اور تعلیم کی پیروی میں اس مبارک اسلامی اصطلاح کو رواج دینا اور بولتے، گفتگو کرتے یا لکھتے وقت اگر مستقبل کے حوالہ سے کسی کام کا ذکر کرنا ہو تو ’’اِنۡ شَآءَ اللّٰہُ‘‘ کا لفظ استعمال کرنا چاہئے۔ احادیث میں آتا ہے کہ قرآن کریم کا ایک حرف بولنے اور پڑھنے سے 10 نیکیاں لکھی جاتی ہیں اور 10 بُرائیاں مٹائی جاتی ہیں تو ’’اِنۡ شَآءَ اللّٰہُ‘‘ میں 9 حروف استعمال ہوئے ہیں اس قول نبوی کے مطابق ’’اِنۡ شَآءَ اللّٰہُ‘‘ کہنے سے 90 نیکیاں لکھی جاتی ہیں اور 90 بدیاں دور ہوتی ہیں اور بدیاں مٹائی جانی بھی دراصل نیکی ہی ہیں یوں 180 نیکیاں انسان کما سکتا ہے۔

اِنۡ شَآءَ اللّٰہُ بولتے وقت تو درست طریق پر بولا جاتا ہے لیکن لکھتے وقت غلط العام طریق رواج پاگیا ہے یعنی لوگ ’’انشاءاللہ‘‘ لکھ دیتے ہیں۔ جو غلط ہے۔ قرآن کریم میں اور احادیث میں ہمیشہ اِنۡ شَآءَ اللّٰہُ ہی لکھا گیا ہے۔ یعنی الف، نون الگ اور ش، ا ورء الگ سے۔ جس طرح آنحضور ﷺ نے لکھا ہے اُسی طریق پر لکھنا چاہئے۔

(ابوسعید)

پچھلا پڑھیں

خطبہ جمعہ مؤرخہ 3؍ستمبر 2021ء (بصورت سوال و جواب)

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 21 اکتوبر 2021