• 29 اپریل, 2024

میرے عزیزوں کو، میرے گھر والوں کو، بیوی بچوں کو یہ پیغام دے دینا کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک قیمتی امانت ہیں

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:
ایک اور صحابی کا واقعہ بیان کرتے ہیں، یہ بھی اُحد کا موقع ہے۔ اُحد کی جنگ میں بعض صحابہ پیچھے ہٹنے پر مجبور ہونے کے بعد پھر اکٹھے ہوئے تو رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ صحابہ کو دیکھو کون کون شہید ہوا ہے اور کون کون زخمی ہوا ہے۔ اس پر بعض صحابہ میدان کا جائزہ لینے کے لئے گئے۔ ایک صحابی نے دیکھا کہ ایک انصاری صحابی میدان میں زخمی پڑے ہوئے ہیں۔ وہ اُن کے پاس پہنچے تو پتہ چلا کہ اُن کے بازو اور ٹانگیں کٹی ہوئی ہیں اور اُن کی زندگی کی آخری گھڑی ہے۔ اس پر وہ صحابی اُن کے قریب ہوا اور پوچھا کہ اپنے عزیزوں کو کوئی پیغام دینا ہے تو بتا دیں، مَیں اُن کو پہنچا دوں۔ اُن زخمی صحابی نے کہا کہ میں انتظار ہی کر رہا تھا کہ میرے پاس سے کوئی گزرے تو میں اُسے پیغام دوں۔ سو تم میرے عزیزوں کو، میرے گھر والوں کو، بیوی بچوں کو یہ پیغام دے دینا کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک قیمتی امانت ہیں۔ جب تک ہم زندہ رہے، ہم نے اپنی جانوں سے اس کی حفاظت کی اور اب کہ ہم رخصت ہو رہے ہیں تو مَیں امید کرتا ہوں کہ وہ یعنی عزیز رشتہ دار ہم سے بڑھ کر قربانیاں کر کے اس قیمتی امانت کی حفاظت کریں گے۔ فرماتے ہیں کہ غور کرو، موت کے وقت جبکہ وہ جانتے تھے کہ بیوی بچوں کو کوئی پیغام دینے کے لئے اب اُن کے لئے کوئی اَور وقت نہیں ہے۔ ایسے وقت میں جب انسان کو جائیداد اور لین دین کے بارے میں بتانے کا خیال آتا ہے، جب لوگ اپنے پسماندگان کی بہتری کی تشویش اور فکر میں ہوتے ہیں، اُس وقت بھی اس صحابی کو یہی خیال آیا کہ میں تو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حفاظت میں جان دے رہا ہوں اور عزیزوں کو پیغام دیتے ہیں کہ تم سے بھی یہی امید رکھتا ہوں کہ تم اس پر گامزن رہو گے اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جان کے مقابلے میں اپنی جانوں کی پرواہ نہیں کرو گے۔ پس جن لوگوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات کے لئے یہ قربانیاں کیں، وہ اُس پیغام کے لئے جو آپ لائے، کیا کچھ قربانیاں نہ کر سکتے ہوں گے اور انہوں نے کیا کچھ نہیں کیا ہو گا؟ صحابہ نے اس بارے میں جو کچھ کیا، حضرت مصلح موعود کہتے ہیں کہ اس کی مثال کے طور پر میں رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کا واقعہ پیش کرتا ہوں۔ آپ کی وفات کی خبر صحابہ میں مشہور ہوئی تو اُن پر شدتِ محبت کی وجہ سے گویا غم کا پہاڑ ٹوٹ پڑا۔ حتٰی کہ بعض صحابہ نے یہ خیال کیا کہ یہ خبر ہی غلط ہے کیونکہ ابھی آپ کی وفات کا وقت نہیں آیا، کیونکہ ابھی بعض منافق مسلمانوں میں موجود ہیں۔ چنانچہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی اس خیال میں مبتلا ہو گئے اور تلوار لے کر کھڑے ہو گئے کہ جو کہے گا کہ آپ فوت ہو گئے ہیں میں اُس کی گردن اُڑا دوں گا۔ آپ آسمان پر گئے ہیں، پھر دوبارہ تشریف لا کر منافقوں کو ماریں گے اور پھر وفات پائیں گے۔ بہت سے صحابہ بھی آپ کے ساتھ شامل ہو گئے اور کہنے لگے ہم کسی کو یہ نہیں کہنے دیں گے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم وفات پا گئے ہیں۔ بظاہر یہ محبت کا اظہار تھا مگر دراصل اُس تعلیم کے خلاف تھا جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم لائے۔ کیونکہ قرآنِ کریم میں صاف موجود ہے کہ اَفَا۠ئِنۡ مَّاتَ اَوۡ قُتِلَ انۡقَلَبۡتُمۡ عَلٰۤی اَعۡقَابِکُمۡ (آل عمران: 145) یعنی کیا اگر رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہو جائیں یا قتل ہو جائیں تو کیا اے مسلمانو! تم اپنی ایڑیوں کے بل پھر جاؤ گے؟

(خطبہ جمعہ 29؍ نومبر 2013ء بحوالہ الاسلام ویب سائٹ)

پچھلا پڑھیں

شہر ZION کی کنجی ملنے پرجذبات

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 21 اکتوبر 2022