• 5 مئی, 2024

ربط ہے جانِ محمد سے مری جاں کو مدام (قسط 40)

ربط ہے جانِ محمد سے مری جاں کو مدام
سچائی، راستبازی، صداقت شعاری
قسط 40

اللہ تعالیٰ اصدق الصادقین ہے جس نے دنیا کو صدق کا پیغام دینے کے لئے قرآن کریم اور حضرت رسولِ کریمﷺ کو نازل فرمایا اور حق کی آمد کے ساتھ باطل کے فرار کی پیش گوئی فرمائی:

وَقُلۡ جَآءَ الۡحَقُّ وَزَہَقَ الۡبَاطِلُ ؕ اِنَّ الۡبَاطِلَ کَانَ زَہُوۡقًا ﴿۸۲﴾

(بنی اسرائیل: 82)

حق آ گیا اور باطل بھاگ گیا۔ یقیناً باطل بھاگ جانے والا ہی ہے۔ محبوب خداﷺ بچپن سے ہی سچ بولا کرتے تھے۔ اور جھوٹ سے سخت نفرت تھی۔ آپؐ کے شب و روز جس بستی میں گزرے اس کے مکین آپؐ کے اوصاف کریمانہ کی ستائش میں رطب اللسان تھے۔ آپؐ کی عزت کرتے تھے آپؐ کو پسند کرتے تھے۔ اچھی شہرت تھی۔ آپؐ حق گوئی کے اعتراف میں ’’صادق اور امین‘‘ کے لقب سے یاد کئے جاتے تھے۔ آپؐ کو صدوق بھی کہا جاتا تھا یعنی صادق کی اعلیٰ و ارفع صورت۔ تاریخ نے ایسے بے شمار واقعات محفوظ کئے ہیں جو آپ کی بے خوف، بے لاگ صداقت کے گواہ ہیں۔ جب آپؐ پہلی وحی کے بعد گھبرائے ہوئے گھر تشریف لائے اور حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کو ساری کیفیت سنائی تو آپؓ نے جن الفاظ میں تسلی دی وہ آپؐ کی سچائی کی ناقابل تردید گواہی ہے۔ انہوں نے آپؐ کی چند صفات بیان کیں جن میں یہ اہم صفت بھی تھی کہ آپؐ تو ہمیشہ سچ بولتے ہیں۔

(بخاری 95 کتاب التعبیر باب1)

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہانے آنحضورﷺ کی سیرت و شمائل کے بارے میں فرمایا کَانَ خُلُقُہٗ القُراٰنَ کہ آپؐ کے اخلاق قرآن کے عین مطابق تھے۔ قرآن کریم اللہ تعالیٰ کی قولی کتاب ہے۔ رسول اللہﷺ اور قانون قدرت اس کی فعلی کتاب ہیں۔ آپؐ کی زندگی قرآن کریم کی تصویر اور تفسیر ہے۔ اسی لئے آپؐ کی نمایاں صفت حق گوئی، سچائی اور راست بازی ہے۔

نبی اللہ کا منصب عطا کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ نے آپؐ کو قریبی عزیزوں کو پیغام دینے کا ارشاد فرمایا تو آپؐ نے ان کو دعوت پر بلایا۔ بات کا آغاز اس طرح کیا کہ اگر میں کہوں کہ اس پہاڑ کے پیچھے ایک بہت بڑا لشکر چھپا ہوا ہے تو کیا تم اسے تسلیم کر لوگے؟ کہا جاتا ہے کہ پہاڑ ایک ٹیلہ سا تھا اتنا بڑا نہیں تھا کہ اس کے پیچھے لشکر چھپ سکے۔ لیکن آپؐ کی راست گفتاری پر سب کو اتنا اعتبار تھا کہ بلا تردد بیک زبان بولے کہ ہاں ہم مان لیں گے۔ کیونکہ ہم نےآپ کو کبھی جھوٹ بولتے نہیں دیکھا۔ اس گواہی کے بعد جب آپؐ نے وحدانیت کا پیغام دیا تو وہ مخالفت کے درپے ہو گئے۔

(بخاری کتاب التفسیر سورۃ اللہب)

اللہ تعالیٰ نے آپؐ کو ایک دلیل سکھائی جو ماموروں اور فرستادوں کی سچائی یعنی صداقت شعاری کا ثبوت ہوتی ہے۔ اور کوئی بھی غورو فکر کرنے والا اس سے انکار نہیں کرسکتا۔ فرمایا:

فَقَدۡ لَبِثۡتُ فِیۡکُمۡ عُمُرًا مِّنۡ قَبۡلِہٖ ؕ اَفَلَا تَعۡقِلُوۡنَ ﴿۱۷﴾

( یونس: 17)

اس سے پہلے میں تمہارے درمیان عمر کا ایک حصّہ گزار چکا ہوں، کیا تم عقل سے کام نہیں لیتے۔ میں تو حق کی طرف بلانے پر مامور کیا گیا ہوں۔ جو شخص بچپن اور جوانی میں انسانوں سے جھوٹ نہیں بولتا وہ بڑی عمر میں خدا پر جھوٹ کیسے بول سکتا ہے؟

اپنے قول و فعل سے صداقت شعار ی کی چوٹی پر بیٹھ کر دعوتِ عام دیتے:

یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰہَ وَکُوۡنُوۡا مَعَ الصّٰدِقِیۡنَ ﴿۱۱۹﴾

(توبہ: 119)

اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! اللہ کا تقویٰ اختیار کرو اور صادقوں کے ساتھ ہو جاؤ۔

وہ جو حق پسند تھے صرف آپؐ کی پیشانی پر حق و صداقت کا نور اور آپؐ کا کردار دیکھ کر ایمان لے آتے جیسے کہ صدیق اکبر حضرت ابوبکرؓ نے حق پہچان لیا۔ حضرت ابوبکررضی اللہ عنہ رسول اللہﷺ کے بچپن کے دوست تھے۔ انہوں نے جب آپؐ کے دعویٰ کے بارہ میں سنا تو آپؐ کے اصرار کے باوجود کوئی دلیل نہیں چاہی کیونکہ زندگی بھر کا مشاہدہ یہی تھا کہ آپؐ پاکباز اور سچے ہیں۔

(دلائل النبوۃ للبیہقی جلد2 صفحہ164 دارالکتب العلمیہ بیروت)

’’آپؐ کی دعوت پر حق قبول کرنے والا ہر مؤمن اس بات کا گواہ ٹھہرا کہ ہم آپؐ کو صادق مانتے ہیں۔ ایک دفعہ حق و صداقت کو پہچان کر آپؐ کے ہاتھ میں ہاتھ دے کر پھر جس طرح مصائب برداشت کرکے ثابت قدم رہے وہ بھی حیرت انگیز ہے قلوب میں انشراح پیدا ہوجائے تو جان ار زاں ہو جاتی ہے۔

آپؐ کی راستبازی کی تابانی مؤمنین کو ہی مسحور نہیں کرتی تھی بلکہ آپؐ کے عقائد کو غلط سمجھنے والے بھی اختلاف کے باوجود آپؐ کی حق گوئی کے اعتراف پر مجبور تھے۔ ہجرت حبشہ کے وقت جب کچھ مسلمانوں نے آنحضورﷺ کا تاریخی خط حبشہ کے بادشاہ نجاشی کو دیا اور اسلام لانے کی دعوت دی تو اس نے پہلا سوال ہی یہ کیا کہ جس نبی کا پیغام آپ لائے ہیں کیا اس نے نبوت سے پہلے کی زندگی میں کبھی جھوٹ بولا ہے؟ بے ساختہ جواب ملا نہیں نہیں۔ اُس نے کبھی جھوٹ نہیں بولا۔

ایک دفعہ قریش کا وفد نبی کریمﷺ کی شکایت لے کر ابوطالب کے پاس آیا۔ ابو طالب نے آپؐ کو سمجھایا کہ قریش کی بات مان لو۔ نبی کریمﷺ نے قریش سے فرمایا کہ اگر تم اس سورج سے روشن شعلۂ آگ بھی میرے پاس لے آؤ پھر بھی میرے لیے اس کام کو چھوڑنا ممکن نہیں۔ آنحضرتﷺ تقریر کررہے تھے اور چہرہ پر سچائی اور نورانیت سے بھری ہوئی رِقّت نمایاں ہورہی تھی اور جب آنحضرتﷺ یہ تقریر ختم کرچکے تو حق کی روشنی دیکھ کر بے اختیار ابو طاؔلب کے آنسو جاری ہوگئے اور کہا کہ میں تیری اس اعلیٰ حالت سے بے خبر تھا۔ تُو اورہی رنگ میں اور ہی شان میں ہے۔ جا اپنے کام میں لگا رہ۔ جب تک میں زندہ ہوں جہاں تک میری طاقت ہے میں تیرا ساتھ دوں گا۔‘‘

(ازالہ اوہام، روحانی خزائن جلد نمبر3 صفحہ110-111)

شعب ابی طالب کے زمانہ میں جب محصوری کی حالت میں تیسرا سال ہونے کو آیا تو نبی کریمؐ نے اللہ تعالیٰ سے علم پاکر ابو طالب کو اطلاع دی کہ بنو ہاشم سے بائیکاٹ کا جو معاہدہ خانہ کعبہ میں لٹکایا گیا تھا اس کی ساری عبارت کو سوائے لفظ اللہ کے دیمک کھاگئی ہے۔ ابوطالب کو رسول اللہ کے قول پر ایسا یقین تھا کہ انہوں پہلے اپنے بھائیوں سے کہا کہ خدا کی قسم محمدﷺ نے مجھ سے آج تک کبھی جھوٹ نہیں بولا۔ یہ بات بھی لازماً سچ ہے۔ چنانچہ وہ ان کے ساتھ سرداران قریش کے پاس گئے اور انہیں بھی کھل کر کہا کہ میرے بھتیجے نے مجھے یہ بتایا ہے کہ تمہارے معاہدہ کو دیمک کھا گئی ہے۔ اس نے مجھ سے آج تک جھوٹ نہیں بولا، بے شک تم جاکر دیکھ لو، اگر تو میرا بھتیجا سچا نکلے تو تمہیں بائیکاٹ کا اپنا فیصلہ تبدیل کرنا ہوگا۔ اگر وہ جھوٹا ثابت ہو تو میں اُسے تمہارے حوالے کرونگا۔ چاہو تو اسے قتل کرو اور چاہو تو زندہ رکھو۔ انہوں نے کہا بالکل یہ انصاف کی بات ہے۔ پھر جاکر دیکھا تو جیسے رسول اللہﷺ نے فرمایا تھا، سوائے لفظ اللہ کے سارے معاہدہ کو دیمک چاٹ چکی تھی۔ چنانچہ قریش یہ معاہدہ ختم کرنے پر مجبور ہوگئے۔

(الوفاء باحوال المصطفیٰ لابن جوزی صفحہ198 بیروت)

ہرقل شاہ روم نے اپنے دربار میں جب ابو سفیان اس سے یہ سوال کیا کہ کیا تم نے اس مدعی ٔنبوت (آنحضرتؐ) پر اس سے پہلے کوئی جھوٹ کا الزام لگایا؟ ابو سفیان نے جواب دیا کہ نہیں ہرگز نہیں۔ دانا ہرقل نے اس جواب پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ میں جانتا ہوں یہ ممکن نہیں ہوسکتا کہ اس نے لوگوں کے ساتھ تو کبھی جھوٹ نہ بولا ہو اور خدا پر جھوٹ باندھنے لگ جائے۔

(بخاری بدء الوحی)

رسول اللہﷺ کا ایک جانی دشمن نضربن حارث تھا جو دارالندوہ میں آپؐ کے قتل کے منصوبے میں بھی شامل تھا۔ کفار کی مجلس میں جب کسی نے یہ مشورہ دیا کہ ہمیں محمد (ﷺ) کے بارے میں یہ مشہور کر دینا چاہئے کہ یہ جھوٹا ہے تو نضر بن حارث سے رہا نہ گیا۔ وہ بے اختیار کہہ اٹھا کہ دیکھو! محمد (ﷺ) تمہارے درمیان جوان ہوا، اس کے اخلاق پسندیدہ تھے۔ وہ تم میں سب سے زیادہ سچا اور امین تھا۔ پھر جب وہ ادھیڑ عمر کو پہنچا اور اپنی تعلیم تمہارے سامنے پیش کرنے لگا تو تم نے کہا جھوٹا ہے۔ خدا کی قسم! یہ بات کوئی نہیں مانے گا کہ وہ جھوٹا ہے۔

(السیرۃ النبویۃ لابن ھشام جلد1 صفحہ320 مصر)

ایک دفعہ اپنے ایک سردار عتبہ کو نمائندہ بناکر رسول کریمﷺ کی خدمت میں بھجوایا گیا۔ اس نے کہا کہ آپؐ ہمارے معبودوں کو کیوں برا بھلا کہتے اور ہمارے آباء کو کیوں گمراہ قرار دیتے ہیں؟ آپؐ کی جو بھی خواہش ہے پوری کرتے ہیں۔ آپؐ ان باتوں سے باز آئیں۔ حضورؐ  تحمل اور خاموشی سے اس کی باتیں سنتے رہے۔ جب وہ سب کہہ چکا تو آپؐ نے سورۃ حٰم فُصِّلَتْ کی چند آیات تلاوت کیں، جب آپؐ اس آیت پر پہنچے کہ میں تمہیں عاد وثمود جیسے عذاب سے ڈراتا ہوں تو عتبہ نے آپؐ کو روک دیا کہ اب بس کریں اور خوف کے مارے اُٹھ کر چل دیا۔ اس نے قریش کو جاکر کہا تمہیں پتہ ہے کہ محمد(ﷺ) جب کوئی بات کہتا ہے تو کبھی جھوٹ نہیں بولتا۔ مجھے ڈر لگتا ہے کہ کہیں تم پر وہ عذاب نہ آجائے جس سے وہ ڈراتا ہے۔ تمام سردار یہ سن کر خاموش ہوگئے۔

(السیرۃ الحلبیہ13 جلد1 صفحہ303)

عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ مدینہ کے ایک بڑے یہودی عالم تھے۔ وہ مسلمان ہونے سے پہلے کا اپنا یہ واقعہ بیان کرتے ہیں کہ جب آنحضورؐ ہجرت کر کے مدینہ تشریف لائے تو لوگ دیوانہ وار آپؐ کو دیکھنے گئے، میں بھی ان میں شامل ہوگیا۔ آپؐ کا نورانی چہرہ دیکھ کر ہی میں پہچان گیا کہ یہ چہرہ جھوٹے کا چہرہ نہیں ہوسکتا۔

(ابن ماجہ کتاب الاطعمہ باب اطعام)

اس صادق نبیٔ رحمتﷺ نے اپنے متبعین کو بھی سچ بولنے اور جھوٹ سے نفرت کی قرآنی تعلیم دی: وَقُوۡلُوۡا قَوۡلًا سَدِیۡدًا ﴿ۙ۷۱﴾ (الاحزاب: 71)

اور تم ہمیشہ صاف اور سیدھی بات کیاکرو۔

حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرتﷺ نے فرمایا کہ سچائی نیکی کی طرف اور نیکی جنت کی طرف لے جاتی ہے، اور جو انسان ہمیشہ سچ بولے اللہ کے نزدیک وہ صدیق لکھا جاتا ہے، اور جھوٹ گناہ کی طرف اور گناہ جہنم کی طرف لے کر جاتا ہے اور جو آدمی ہمیشہ جھوٹ بولے وہ اللہ کے ہاں کذّاب لکھا جاتا ہے۔

(مسلم کتاب البر و الصلتہ)

حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے اپنے اور اپنے رسول کریمﷺ کے رنگ میں رنگین کر کے بھیجا تھا۔ فرماتے ہیں:

’’وَ مَنْ فَرَّقَ بَیْنِیْ وَ بَیْنَ الْمُصْطَفٰی فَمَا عَرَفَنِیْ وَ مَا رَاٰی

اور جو شخص مجھ میں اور مصطفیٰ (ﷺ) میں تفریق کرتا ہے اُس نے مجھے نہیں دیکھا ہے اور نہ پہچانا ہے۔‘‘

(خطبہ الہامیہ، روحانی خزائن جلد16 صفحہ259)

اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپؑ کو حضرت رسول اکرمﷺ کی کامل پیروی کرنے کا ارشاد ملا۔ فرماتے ہیں:

’’اَوْحٰٓی اِلَیَّ اَنَّ الدِّیْنَ ھُوَالْاِسْلَامُ وَاَنَّ الرَّسُوْلَ ھُوَالْمُصْطَفَی السَّیِّدُ الْاِمَامُ۔ رَسُوْلٌ اُمِّیٌّ آمِیْنٌ۔ فَکَمَآ اَنَّ رَبَّنَآ اَنَّ اَحَدٌ یَّسْتَحِقُّ الْعِبَادَۃَ وَحْدَہٗ فَکَذَالِکَ رَسُوْلُنَا الْمُطَاعُ وَاحِدٌ لَّانَبِیَّ بَعْدَہٗ وَلَاشَرِیْکَ مَعَہٗ وَ اَنَّہٗ خَاتَمُ النَّبِیِّیْنَ

(خدا تعالیٰ نے ) مجھے الہام کیا کہ دین اللہ اسلام ہی ہے اور سچا رسول مصطفیﷺ سردار امام ہے جو رسول امّی امین ہے۔ پس جیسا کہ عبادت صرف خدا کے لئے مسلّم ہے اور وہ واحد لاشریک ہے اسی طرح ہمارا رسول اس بات میں واحد ہے کہ اس کی پیروی کی جائے اور اس بات میں واحد ہے کہ خاتم الانبیاء ہے۔‘‘

(منن الرحمن، روحانی خزائن جلد9 صفحہ164)

آپؐ کے نقوش قدم پر چلتے ہوئے آپؐ کی اتباع میں صادق شاگرد کو وہ مقام ملا کہ صادق رسول اللہﷺ سے کامل مماثلت پیدا ہوگئی۔ اللہ تعالیٰ نے آپؑ کو سند صداقت عطا فرمائی۔ اسی اصدق الصادقین کے ارشاد پر آپؑ نے اعلان کیا:
’’کہہ اے منکرو! مَیں صادقوں میں سے ہوں۔ میرے پاس خدا کی گواہی ہے۔ کہہ میں خدا کی طرف سے مامور ہوں اور مَیں سب سے پہلے ایمان لانے والا ہوں۔‘‘

(براہین احمدیہ حصہ چہارم، روحانی خزائن جلدنمبر1 صفحہ664-665)

اللہ تبارک تعالیٰ نے اپنے فرستادہ کی حقانیت دنیا پر ظاہر کرنے کا کام بھی اپنے ذمے لیا۔ اُردو میں الہام فرمایا۔
’’میں اپنی چمکار دکھلاؤں گا۔ اپنی قدرت نمائی سے تجھ کو اٹھاؤں گا۔ دنیا میں ایک نذیر آیا، پر دنیا نے اس کو قبول نہ کیا۔ لیکن خدا اسے قبول کرے گا۔ اور بڑے زور آور حملوں سے اس کی سچائی ظاہر کردے گا۔‘‘

(براہین احمدیہ حصہ چہارم، روحانی خزائن جلدنمبر1 صفحہ 664-665)

رؤیا میں بھی اللہ تعالیٰ نے صادق کے صدق کی چمک پھیلنے کی بشارت عطا فرمائی:
’’21 اکتوبر 1899ء کو … مَیں نے خواب میں محبی اخویم مفتی محمد صادق کو دیکھا… کہ نہایت روشن اور چمکتا ہوا ان کا چہرہ ہے اور ایک لباس فاخرہ جو سفید ہے پہنے ہوئے ہیں اور ہم دونوں ایک بگھی میں سوار ہیں اور وہ لیٹے ہوئے ہیں اور ان کی کمر پر مَیں نے ہاتھ رکھا ہوا ہے۔ یہ خواب ہے اور اس کی تعبیر جو خدا تعالیٰ نے میرے دل میں ڈالی ہے یہ ہے کہ صدق جس سے مَیں محبت رکھتا ہوں ایک چمک کے ساتھ ظاہر ہوگا اور جیسا کہ مَیں نے صادق کو دیکھا ہے کہ اس کا چہرہ چمکتا ہے اسی طرح وہ وقت قریب ہے کہ مَیں صادق سمجھا جاؤں گا اور صدق کی چمک لوگوں پر پڑے گی۔‘‘

(ضمیمہ تریاق القلوب نمبر4، روحانی خزائن جلد15 صفحہ505-506)

آپؑ کے اوصاف میں بھی سچائی اور راست بازی نمایاں نظر آتی ہے۔ منصب نبوت سے پہلے ہی قادیان کے لوگ عزیز واقارب آپؑ کے تقویٰ و طہارت کے گرویدہ تھے۔ اس دعوی کے ساتھ ہی نیک طبعوں نے بغیر دلیل اور نشان کے آپ علیہ السلام کو سچا مان لیا۔ اور آپؑ کی سچائی پر شہادتیں دیں۔ آپؑ کی تحریر ہے:
’’مجھے یاد ہے کہ میں نے ایک مرتبہ امر تسر ایک مضمون بھیجا۔ اس کے ساتھ ہی ایک خط بھی تھا۔ رلیارام کے وکیل ہند اخبار کے متعلق تھا۔ میرے اس خط کو خلاف قانون ڈاکخانہ قرار دے کر مقدمہ بنایا گیا۔ وکلاء نے بھی کہا کہ اس میں بجز اس کے رہائی نہیں جو اس خط سے انکار کر دیا جاوے۔ گویا جھوٹ کے سوا بچاؤ نہیں۔ مگر میں نے اس کو ہرگز پسند نہ کیا بلکہ یہ کہا کہ اگر سچ بولنے سے سزا ہوتی ہے تو ہونے دو جھوٹ نہیں بولوں گا۔ آخر وہ مقدمہ عدالت میں پیش ہوا۔ ڈاک خانوں کا افسر بحیثیت مدعی حاضر ہوا۔ مجھ سے جس وقت اس کے متعلق پوچھا گیا تو میں نے صاف طور پر کہا کہ یہ میرا خط ہے مگر میں نے اس کو جزو مضمون سمجھ کر اس میں رکھا ہے۔ ‏ مجسٹریٹ کی سمجھ میں یہ بات آگئی اور اﷲ تعالیٰ نے اس کو بصیرت دی۔ ڈاکخانوں کے افسر نے بہت زور دیا مگر اس نے ایک نہ سنی اور مجھے رخصت کر دیا۔ میں کیونکر کہوں کہ جھوٹ کے بغیر گذارہ نہیں۔ ایسی باتین نری بیہودگیاں ہیں۔ سچ تویہ ہے کہ سچ کے بغیر گزارا نہیں۔ میں اب تک بھی جب اپنے اس واقعہ کو یاد کرتا ہوں تو ایک مزا آتا ہے کہ خدا تعالیٰ کے پہلو کو اختیار کیا۔ اس نے ہماری رعایت رکھی۔ اور ایسی رعایت رکھی جو بطور نشان کے ہوگئی۔

وَمَنۡ یَّتَوَکَّلۡ عَلَی اللّٰہِ فَہُوَ حَسۡبُہٗ

(الطلاق: 4)

یقیناً یاد رکھو جھوٹ جیسی کوئی منحوس چیز نہیں عام طور پر دنیا دار کہتے ہیں کہ سچ بولنے والے گرفتار ہو جاتے ہیں۔ مگر میں کیوں کر اس کو باور کروں؟مجھ پر سات مقدمے ہوئے ہیں اور خدا کے فضل سے کسی ایک میں بھی ایک لفظ بھی مجھے جھوٹ کہنے کی ضرورت نہیں پڑی۔ کوئی بتائے کسی ایک میں بھی خدا تعالیٰ نے مجھے شکست دی ہو۔ اللہ تعالیٰ تو آپ کی سچائی کا حامی اور مددگار ہے۔ یہ ہو سکتا ہے کہ وہ راستباز کو سزا دے؟ اگر ایسا ہو تو دنیا میں پھر کوئی شخص سچ بولنے کی جرات نہ کرے اور خدا تعالیٰ پر سے اعتقاد ہی اٹھ جاوے۔ راستباز تو زندہ ہی مر جاویں۔ اصل بات یہ ہے کہ سچ بولنے سے جو سزا پاتے ہیں وہ سچ کی وجہ سے نہیں ہوتی۔ وہ سزا ان کی بعض اَور مخفی در مخفی بدکاریوں کی ہوتی ہےاور کسی اَور جھوٹ کی سزا ہوتی ہےخدا تعالیٰ کے پاس تو ان بدیوں اور شرارتوں کا ایک سلسلہ ہوتا ہے۔ ان کی بہت سی خطائیں ہوتی ہیں اور کسی نہ کسی میں وہ سزا پا لیتے ہیں‘‘

(احمدی اور غیر احمدی میں کیا فرق ہے؟، روحانی خزائن جلد20 صفحہ478-480)

اپنے متبعین کو بھی سچ کی عادت ڈالنے اور جھوٹ سے نفرت کی تاکید فرمائی۔۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں۔
’’قرآن شریف نے جھوٹ کو بھی ایک نجاست اور رِجس قرار دیا ہے۔ جیسا کہ فرمایا ہےفَاجْتَنِبُوا الرِّجْسَ مِنَ الْأَوْثَانِ وَاجْتَنِبُوْا قَوْلَ الزُّوْرِ (الحج: 31) دیکھو یہاں جھوٹ کو بُت کے مقابل رکھا ہے۔ اور حقیقت میں جھوٹ بھی ایک بت ہی ہے۔ ورنہ کیوں سچائی کو چھوڑ کر دوسری طرف جاتا ہے۔ جیسے بت کے نیچے کوئی حقیقت نہیں ہوتی اسی طرح جھوٹ کے نیچے بجز مُلَمَّع سازی کے اور کچھ بھی نہیں ہوتا۔ جھوٹ بولنے والوں کا اعتبار یہاں تک کم ہو جاتاہے کہ اگر وہ سچ کہیں تب بھی یہی خیال ہوتا ہے کہ اس میں بھی کچھ جھوٹ کی ملاوٹ نہ ہو۔ اگر جھوٹ بولنے والے چاہیں کہ ہمارا جھوٹ کم ہو جائے، تو جلدی سے دور نہیں ہوتا۔ مدت تک ریاضت کریں۔ تب جاکر سچ بولنے کی عادت اُن کو ہوگی۔‘‘

(ملفوظات جلد3 صفحہ350 ایڈیشن 1985ء)

ایک اور جگہ فرمایا:
’’بتوں کی پرستش اور جھوٹ بولنے سے پرہیز کرو۔ یعنی جھوٹ بھی ایک بت ہے جس پر یہ بھروسہ کرنے والا خدا کا بھروسہ چھوڑ دیتا ہے۔ سو جھوٹ بولنے سے خدا بھی ہاتھ سے جاتا ہے۔‘‘

(اسلامی اصول کی فلاسفی، روحانی خزائن جلد10 صفحہ361)

ایک الہامی شعر میں صادق کی تعریف بتائی گئی۔

؎صادق آں باشد کہ ایامِ بلا
مے گذار دبا محبّت باوفا

(ملفوظات جلد سوم صفحہ373)

یعنی خدا کی نظر میں صادق وہ شخص ہوتا ہے کہ جو بلا کے دنوں کو محبت اور وفا کے ساتھ گذارتا ہے۔

(امة الباری ناصر۔ امریکہ)

پچھلا پڑھیں

شہر ZION کی کنجی ملنے پرجذبات

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 21 اکتوبر 2022