• 6 مئی, 2024

بنیادی مسائل کے جوابات (قسط 35)

بنیادی مسائل کے جوابات
قسط 35

سوال: ایک دوست نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت اقدس میں لکھا کہ حدیث رسول ﷺ حُبُّ الْوَطَنِ مِنَ الإِيمَانِ کے بارہ میں بعض غیر احمدی علماء بحث کرتے ہیں کہ یہ حضورﷺ کا قول نہیں اور اس کا حوالہ مانگتے ہیں۔ میں نے حوالہ تلاش کرنے کی کوشش کی ہے لیکن مجھے نہیں ملا۔ ہمیں ان غیر احمدی علماء کو اس کا کیا جواب دینا چاہئیے؟ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے مکتوب مؤرخہ 14 اپریل 2021ء میں اس سوال کے بارہ میں درج ارشاد فرمایا:

جواب: حضرت اقدس محمد مصطفیٰﷺ کی یہ حدیث مبارکہ مختلف کتب میں روایت ہوئی ہے۔ مثلاً علامہ ملا علی قاری نے اپنے تصنیف الموضوعات الکبریٰ میں، حافظ شمس الدین ابی الخیر محمد بن عبدالرحمٰن السخاوی نے اپنی کتاب المقاصدُ الحسنة فی بیانِ کثیرٍ مِنَ الاحادیثِ المُشتِھِرِۃِ عَلٰی الْاَلْسِنَۃِ میں اور علامہ جلال الدین سیوطی نے اپنی تالیف الدرر المنتثرة في الأحاديث المشتهرة میں اسے درج کیا ہے۔

حضورﷺ کی اس حدیث کے بارہ میں بعض علماء سلف نے فضول بحثیں کر کے اور عجیب و غریب دلائل دے کر اس کے قول رسولﷺ ہونے سے انکار کیا ہے اور اسے بعض سلف کا کلام قرار دیا ہے۔ جبکہ علماء کی یہ تمام بحثیں اور دلائل دوسری احادیث کی روشنی میں اور قرآن کریم میں بیان تعلیم کو سامنے رکھتے ہوئے قابل ردّ ٹھہرتی ہیں۔ لہٰذا علماء کی ان دلیلوں کی بناء پر اس حدیث کے حضورﷺ کا قول ہونے سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔

علماء کی دلیل یہ ہے کہ وطن کی محبت اور ایمان کے درمیان کوئی تعلق نہیں۔ کیونکہ وطن سے محبت تو کفار اور منافقین بھی کرتے تھے، حالانکہ ان کا ایمان سے ذرہ برابر بھی تعلق نہیں تھا۔ پھر وطن کی محبت کو ایمان کا حصہ کیسے قرار دیا جا سکتا ہے؟

علماء سلف کی یہ دلیل اس لئے قابل قبول نہیں کہ احادیث کی مستند کتب میں مروی حضورﷺ کی کئی ایسی حدیثیں ہیں جن کا مضمون اس مذکورہ بالا حدیث کے مضمون کی طرح مسلمانوں کے ساتھ ساتھ کفار اور منافقین پر بھی اطلاق پاتا ہے۔ جیسا کہ صحیح بخاری میں حضرت انس بن مالکؓ سے مروی یہ حدیث کہ حضورﷺ نے فرمایا لَا يُؤْمِنُ أَحَدُكُمْ حَتَّى يُحِبَّ لِأَخِيهِ مَا يُحِبُّ لِنَفْسِهِ (صحیح بخاری کتاب الایمان) یعنی تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک (کامل) مومن نہیں بن سکتا، جب تک کہ اپنے بھائی کیلئے وہی نہ چاہے جو اپنے لئے چاہتا ہے۔ اسی طرح حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے مروی ہے کہ أَنَّ رَسُولَ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَرَّ عَلَى رَجُلٍ مِنْ الْأَنْصَارِ وَهُوَ يَعِظُ أَخَاهُ فِي الْحَيَاءِ فَقَالَ رَسُولُ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ دَعْهُ فَإِنَّ الْحَيَاءَ مِنْ الْإِيمَانِ (بخاری کتاب الایمان) یعنی حضورﷺ ایک انصاری صحابی کے پاس سے گذرے جو اپنے بھائی کو حیاء کے بارہ میں نصیحت کر رہا تھا، تو رسول اللہﷺ نے فرمایا اسے (حیاء کے بارہ میں نصیحت کرنا) چھوڑ دو کیونکہ حیاء ایمان کا حصہ ہے۔ اب سوچنے والی بات یہ ہے کہ کیا اپنے بھائی کیلئے وہی کچھ پسند کرنا جو انسان اپنے لئے پسند کرتا ہے یا حیاء کی صفت کو اپنانا صرف مومنوں کیلئے ہے اور کفار اور منافقین ایسا نہیں کر سکتے؟ یعنی اگر کوئی کافر یا منافق اپنے بھائی کیلئے وہی کچھ پسند کرے جو وہ اپنے لئے پسند کرتا ہے یا کوئی کافر یا منافق حیاء کرنے والا ہو تو کیا اس بناء پر ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ کیونکہ ان باتوں میں کافر اور منافق بھی شامل ہو سکتے ہیں، اس لئے یہ احادیث (نعوذ باللّٰہ) حضورﷺ کے اقوال نہیں ہو سکتے۔

پھر قرآن وحدیث میں عہدوں کو پورا کرنے کی بڑی تاکید آئی ہے اور اسے ایک اچھی صفت گردانا گیا ہے۔ اب اگر کوئی کافر یا منافق بھی اپنے عہد کو پورا کر دے تو کیا ہم یہ کہنے میں حق بجانب ہوں گے کہ عہدوں کو پورا کرنے کی تاکید قرآنی حکم نہیں ہے یا حضورﷺ کا قول نہیں ہے کیونکہ کفار اور منافقین بھی اس پر عمل کر رہے ہیں۔

پس علماء سلف کے ان دلائل کی بناء پر ہم ہر گز یہ ماننے کو تیار نہیں کہ حُبُّ الْوَطَنِ مِنَ الإِيمَانِ کے نہایت پرحکمت الفاظ پر مبنی حدیث حضورﷺ کا قول نہیں۔ یہ یقیناً حضورﷺ کے دہن مبارک سے ہی بیان ہونے والے الفاظ ہیں جنہیں مذکورہ بالا کتب نے بیان کیا اور ان کتب کے مکمل حوالہ جات آپ کے ازدیاد علم کیلئے میں یہاں درج کر رہا ہوں۔

  1. المقاصدُ الحسنة فی بیانِ کثیرٍ مِنَ الاحادیثِ المُشتِھِرِۃِ عَلٰی الْاَلْسِنَۃِ، تالیف الامام الحافظ الناقد المورخ شمس الدین ابی الخیر محمد بن عبد لرحمٰن السخاوی المتوفیٰ 902 ہجری۔ کتاب الایمان
  2. الدرر المنتثرة في الأحاديث المشتهرة، تالیف علامہ جلال الدین سیوطی، حرف الحاء۔ (جزء 1 صفحہ 9)
  3. (الموضوعات الکبیر تالیف مُلّا علی القاری صفحہ193-197 ناشر قرآن محل، اردو بازار، کراچی)

سوال: ایک دوست نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت اقدس میں لکھا کہ کیا مسلمان یقین رکھتے ہیں کہ قوم لوط کے دو شہروں سدوم اور عمورہ کے لوگوں کو ان کے گناہوں زنا اور ہم جنس پرستی وغیرہ کی پاداش میں جلا دیا گیا تھا اور کیا یہ بات قرآن کریم سے ثابت ہے؟ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے مکتوب مؤرخہ 26 اپریل 2021ء میں اس بارہ میں درج ذیل ارشادات فرمائے:

جواب: قرآن نے یہ کہیں نہیں فرمایا کہ حضرت لوط کی قوم کو جلایا گیا تھا بلکہ یہ بائبل کا بیان ہے۔ چنانچہ بائبل میں لکھا ہے کہ ’’تب خداوند نے اپنی طرف سے سدوم اور عمورہ پر آسمان سے جلتی ہوئی گندھک برسائی۔ اس طرح اس نے ان شہروں کو اور سارے میدان کو، ان شہروں کے باشندوں اور زمین کی ساری نباتات سمیت غارت کر دیا۔ لیکن لوط کی بیوی نے پیچھے مڑ کر دیکھا ور وہ نمک کا ستون بن گئی۔‘‘

(پیدائش باب 19 آیت 24-27)

اسی طرح لکھا ہے کہ ’’اور یہ بھی دیکھیں گے کہ سارا ملک گویا گندھک اور نمک بنا پڑا ہے اور ایسا جل گیا ہے کہ اِس میں نہ توکچھ بویا جاتا نہ پیدا ہوتا اور نہ کسی قسم کی گھاس اُگتی ہے اور وہ سدُوم اور عمورہ اور اَدمہ اور ضبوئیم کی طرح اُجڑ گیا جن کو خُداوند نے اپنے غضب اور قہر میں تباہ کر ڈالا۔‘‘

(استثناء باب 29 آیت 23)

گویا بائبل کے بیان کے مطابق ان لوگوں کو جلایا اور گندھک اور نمک بنا دیا گیا تھا۔ جبکہ اس کے مقابلہ پر قرآن کریم کے بیان کے مطابق اللہ تعالیٰ نے ان کے جرائم جن میں انبیاء کو مختلف طریقوں سے تنگ کرنا، انہیں بُرا بھلا کہنا، ان کا انکار کرنا، انہیں ان کے وطنوں سے نکال دینے کی دھمکی دینا، ان کے ساتھیوں کو حقارت کی نظر سے دیکھنا، راہگیروں کو لوٹنا، ہمسایوں اور مہمانوں کے ساتھ نہایت بُرا سلوک کرنا، کمزور لوگوں کو تنگ کرنا، بد فعلی اور ہم جنس پرستی میں مبتلا ہونا وغیرہ جیسے گناہ شامل تھے۔ انہیں ان گناہوں کی پاداش میں زلزلہ کے ذریعہ اس طرح تباہ کیا کہ ان کی بستیوں کو تہہ و بالا کر کے ان پر سنگریزوں سے بنے ہوئے پتھروں کی بارش برسائی۔ چنانچہ سورۃ الحجر میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

وَجَآءَ اَہۡلُ الۡمَدِیۡنَۃِ یَسۡتَبۡشِرُوۡنَ ﴿۶۸﴾قَالَ اِنَّ ہٰۤؤُلَآءِ ضَیۡفِیۡ فَلَا تَفۡضَحُوۡنِ ﴿ۙ۶۹﴾وَاتَّقُوا اللّٰہَ وَلَا تُخۡزُوۡنِ ﴿۷۰﴾قَالُوۡۤا اَوَلَمۡ نَنۡہَکَ عَنِ الۡعٰلَمِیۡنَ ﴿۷۱﴾قَالَ ہٰۤؤُلَآءِ بَنٰتِیۡۤ اِنۡ کُنۡتُمۡ فٰعِلِیۡنَ ﴿ؕ۷۲﴾لَعَمۡرُکَ اِنَّہُمۡ لَفِیۡ سَکۡرَتِہِمۡ یَعۡمَہُوۡنَ ﴿۷۳﴾فَاَخَذَتۡہُمُ الصَّیۡحَۃُ مُشۡرِقِیۡنَ ﴿ۙ۷۴﴾فَجَعَلۡنَا عَالِیَہَا سَافِلَہَا وَاَمۡطَرۡنَا عَلَیۡہِمۡ حِجَارَۃً مِّنۡ سِجِّیۡلٍ﴿۷۵﴾

(الحجر: 68-75)

یعنی اور اس شہر کے لوگ خوشیاں مناتے ہوئے اس (یعنی لوط) کے پاس آئے (اس خیال سے کہ اب اسے پکڑنے کا موقعہ مل گیا ہے) (جس پر) اس نے (ان سے) کہا (کہ) یہ لوگ میرے مہمان ہیں۔ تم (انہیں ڈرا کر) مجھے رسوا نہ کرو۔ اور اللہ کا تقویٰ اختیار کرو‘ اور مجھے ذلیل نہ کرو۔ انہوں نے کہا ہم نے تمہیں ہر ایرے غیرے کو اپنے پاس ٹھہرانے سے روکا نہ تھا۔ اس نے کہا (کہ) اگر تم نے (میرے خلاف) کچھ کرنا (ہی) ہو تو یہ میری بیٹیاں (تم میں موجود ہی) ہیں (جوکافی ضمانت ہیں)۔ (اے ہمارے نبی!) تیری زندگی کی قسم (کہ) یہ (تیرے مخالفین بھی) یقیناً (انہی کی طرح) اپنی بدمستی میں بہک رہے ہیں۔ اس پر اس (موعود) عذاب نے انہیں (یعنی لوط کی قوم کو) دن چڑھتے (ہی) پکڑ لیا۔ جس پر ہم نے اس بستی کی اوپر والی سطح کو اس کی نچلی سطح کر دیا اور ان پر سنگریزوں سے بنے ہوئے پتھروں کی بارش برسائی۔

حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ اس آیت میں بیان ہونے عذاب کی حکمت بیان کرتے ہوئے اور سنگریزوں کی بارش کی وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
لوط کی قوم نے چونکہ اعلیٰ اخلاق چھوڑ کر ادنیٰ اخلاق اختیار کئے تھے۔ اس لئے خدا تعالیٰ نے بھی ان کے شہر کے اوپر کے حصہ کو نیچے کر دیا اور کہا کہ جاؤ پھر نیچے ہی رہو۔ بعض لوگ کہتے ہیں پتھر کیونکر گرے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ شدید زلزلہ سے بعض دفعہ زمین کا ٹکڑا اوپر اٹھ کر پھر نیچے گرتا ہے۔ ایسا ہی اس وقت ہوا۔ زمین جو پتھریلی تھی۔ اوپر اٹھی اور پھر دھنس گئی اور اس طرح وہ پتھروں کے نیچے آ گئے۔ یہ بھی مراد ہو سکتی ہے کہ ان کے گھروں کی دیواریں ان پر آ پڑیں۔ معلوم ہوتا ہے وہ لوگ پتھروں سے مکان بنایا کرتے تھے۔ سِجِّیْل کہتے بھی ہیں اس پتھر کو جو گارہ سے ملا ہوا ہو۔ پس یہ ایسی دیواروں پر خوب چسپاں ہوتا ہے جن میں پتھر گارہ سے لگائے گئے ہوں۔

(تفسیر کبیر جلد چہارم صفحہ 99)

ایک اور جگہ پتھروں کی بارش کی وضاحت کرتے ہوئے حضورؓ فرماتے ہیں:
یہ بارش دراصل پتھروں کی تھی جو ایک خطرناک زلزلہ کے نتیجہ میں ہوئی۔ یعنی زمین کا تختہ الٹ گیا اور مٹی سینکڑوں فٹ اوپر جا کر پھر نیچے گری اور اس طرح گویا مٹی اور پتھروں کی ان پر بارش ہوئی۔

(تفسیر کبیر جلد ہفتم صفحہ 408)

پھر سورۃ الشعراء میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

کَذَّبَتۡ قَوۡمُ لُوۡطِ ۣالۡمُرۡسَلِیۡنَ ﴿۱۶۱﴾ۚۖاِذۡ قَالَ لَہُمۡ اَخُوۡہُمۡ لُوۡطٌ اَلَا تَتَّقُوۡنَ ﴿۱۶۲﴾ۚاِنِّیۡ لَکُمۡ رَسُوۡلٌ اَمِیۡنٌ ﴿۱۶۳﴾ۙفَاتَّقُوا اللّٰہَ وَاَطِیۡعُوۡنِ ﴿۱۶۴﴾ۚوَمَاۤ اَسۡـَٔلُکُمۡ عَلَیۡہِ مِنۡ اَجۡرٍ ۚ اِنۡ اَجۡرِیَ اِلَّا عَلٰی رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ ﴿۱۶۵﴾ؕاَتَاۡتُوۡنَ الذُّکۡرَانَ مِنَ الۡعٰلَمِیۡنَ ﴿۱۶۶﴾ۙوَتَذَرُوۡنَ مَا خَلَقَ لَکُمۡ رَبُّکُمۡ مِّنۡ اَزۡوَاجِکُمۡؕ بَلۡ اَنۡتُمۡ قَوۡمٌ عٰدُوۡنَ ﴿۱۶۷﴾قَالُوۡا لَئِنۡ لَّمۡ تَنۡتَہِ یٰلُوۡطُ لَتَکُوۡنَنَّ مِنَ الۡمُخۡرَجِیۡنَ ﴿۱۶۸﴾قَالَ اِنِّیۡ لِعَمَلِکُمۡ مِّنَ الۡقَالِیۡنَ ﴿۱۶۹﴾ؕرَبِّ نَجِّنِیۡ وَاَہۡلِیۡ مِمَّا یَعۡمَلُوۡنَ ﴿۱۷۰﴾فَنَجَّیۡنٰہُ وَاَہۡلَہٗۤ اَجۡمَعِیۡنَ ﴿۱۷۱﴾ۙاِلَّا عَجُوۡزًا فِی الۡغٰبِرِیۡنَ ﴿۱۷۲﴾ۚثُمَّ دَمَّرۡنَا الۡاٰخَرِیۡنَ ﴿۱۷۳﴾ۚوَاَمۡطَرۡنَا عَلَیۡہِمۡ مَّطَرًا ۚ فَسَآءَ مَطَرُ الۡمُنۡذَرِیۡنَ ﴿۱۷۴﴾

(الشعراء: 161-174)

یعنی لوط کی قوم نے بھی رسولوں کا انکار کیا۔ جبکہ ان کے بھائی لوط نے کہا کہ کیا تم تقویٰ اختیار نہیں کرتے۔ میں تمہاری طرف ایک امانت دار پیغامبر بنا کر بھیجا گیا ہوں۔ پس اللہ کا تقویٰ اختیار کرو اور میری اطاعت کرو۔ اور میں اس (کام) کے بدلہ میں تم سے کوئی اجرت نہیں مانگتا۔ میرا اجر تو صرف رب العالمین کے ذمہ ہے۔ کیا تمام مخلوقات میں سے تم نے نروں کو اپنے لئے چنا ہے۔ اور تم ان کو چھوڑتے ہو جن کو تمہارے رب نے تمہاری بیویوں کی حیثیت سے پیدا کیا ہے (صرف یہی نہیں کہ تم ایسا فعل کرتے ہو) بلکہ (حقیقت یہ ہے کہ) تم (انسانی فطرت کے) تقاضوں کو ہر طرح توڑنے والی قوم ہو۔ انہوں نے کہا، اے لوط! اگر تو باز نہ آیا تو تو ملک بدر کئے جانے والوں میں شامل ہو جائے گا۔ (لوط نے) کہا (بہرحال) میں تمہارے عمل کو نفرت سے دیکھتا ہوں۔ اے میرے رب! مجھے اور میرے اہل کو ان کے اعمال سے نجات دے۔ پس ہم نے اس کو اور اس کے اہل کو سب ہی کو نجات دی۔ سوائے ایک بڑھیا کے جو پیچھے رہنے والوں میں شامل ہو گئی۔ پھر (لوط کو نجات دینے کے بعد) سب دوسروں کو ہم نے ہلاک کر دیا۔ اور ہم نے ان پر (پتھروں کی) بارش برسائی۔ اور جن کو (خدا کی طرف سے) ہوشیار کر دیا جاتا ہے (لیکن پھر بھی باز نہیں آتے) ان پر برسائی جانے والی بارش بہت بری ہوتی ہے۔

علاوہ ازیں سورۃ الاعراف، سورۃ التوبہ، سورۃ ہود، سورۃ النمل، سورۃ العنکبوت، سورۃ ق اور سورۃ القمر میں بھی اس قوم کے گناہوں اور ان پر نازل ہونے والے خدائی عذاب کا ذکر آیا ہے۔

پس ان تمام قرآنی آیات کے مطالعہ سے ثابت ہوتا ہے کہ اس قوم کو ان کے گناہوں کی پاداش میں زلزلہ اور مٹی وپتھروں کی طوفانی بارش کے ذریعہ ہلاک کیا گیا۔ آگ سے نہیں جلایا گیا تھا۔

سوال: ایک دوست نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت اقدس میں لکھا کہ جسم کے جس حصہ پر ٹیٹو بنوائے گئے ہوں، اس حصہ پر پانی جلد تک نہیں پہنچ سکتا اس لئے ٹیٹو بنوانے والے شخص کے وضوء اور غسل جنابت کی تکمیل کے بارہ راہنمائی کی درخواست ہے۔ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے مکتوب مؤرخہ 16 مئی 2021ء میں اس بارہ میں درج ذیل اصولی ہدایات فرمائیں:

جواب: پہلی بات یہ ہے کہ ٹیٹو بنانا اور بنوانا تو ویسے ہی جائز نہیں ہے۔ احادیث میں بھی اس کی ممانعت آئی ہےکہ اللہ تعالیٰ نے حسن کے حصول کی خاطر جسموں کو گودنے والیوں اور گدھوانے والیوں پر لعنت کی ہے جو خدا کی تخلیق میں تبدیلی پیدا کرتی ہیں۔

(صحیح بخاری کتاب اللباس)

آنحضورﷺ کی بعثت کے وقت دنیا میں اور خاص طور پر جزیرۂ عرب میں قسم قسم کے شرک کا زہر ہر طرف پھیلا ہوا تھا اور مختلف قسم کی بے راہ رویوں نے انسانیت کو اپنے پنجہ میں جکڑا ہوا تھا اور عورتیں اور مرد مختلف قسم کی مشرکانہ رسومات اور معاشرتی برائیوں میں مبتلا تھے۔ جس میں مشرکانہ طور پر برکت کے حصول کیلئے جسم، چہرہ اور بازو وغیرہ پر کسی دیوی، بت یا جانور کی شکلیں گندھوائی جاتی تھیں۔ یا معاشرتی بے راہ روی اور فحاشی کو فروغ دینے کی خاطر حسن کے حصول کیلئے ایسا کیا جاتا تھا۔

جائز حدود میں رہتے ہوئے انسان کا اپنی خوبصورتی کیلئے کوئی جائز طریق اختیار کرنا منع نہیں۔ لیکن جس حسن کے حصول پر حضورﷺ نے لعنت کا انذار فرمایا ہے، اس کا یقیناً کچھ اور مطلب ہے۔ اس لئے ان چیزوں کی ممانعت میں بظاہر یہ حکمت نظر آتی ہے کہ ان کے نتیجہ میں اگر شرک جو سب سے بڑا گناہ ہے اس کی طرف میلان پیدا ہونے کا اندیشہ ہو یا ان امور کو اس لئے اپنایا جائے کہ اپنی مخالف جنس کا ناجائز طور پر اپنی طرف میلان پیدا کیا جائے تو یہ سب افعال ناجائز اور قابل مواخذہ قرار پائیں گے۔

جہاں تک ٹیٹو بنوانے کا تعلق ہے تو مرد ہو یا عورت اس کے پیچھے صرف یہی ایک مقصد ہوتا ہے کہ اس کی نمائش ہو اور اپنی مخالف جنس کا ناجائز طور پر اپنی طرف میلان پیدا کیا جائے۔ اسی لئے لوگ عموماً ٹیٹو جسم کے ایسے حصوں پر بنواتے ہیں جنہیں وہ عام لوگوں میں کھلا رکھ کر اس کی نمائش کر سکیں۔ لیکن اگر کوئی ٹیٹو جسم کے ستر والے حصہ پر بنواتا ہے تو اوّل تو اس کے بنواتے وقت وہ بے پردگی جیسی بے حیائی کا ارتکاب کرتا ہے جو خلاف تعلیم اسلام ہے۔ نیز اس کے پیچھے بھی یہی سوچ ہوتی ہے کہ تا بُرائی اور افعال بد کے ارتکاب کے وقت اپنی مخالف جنس کے سامنے ان پوشیدہ اعضاء پر بنے ٹیٹو کی نمائش کی جا سکے۔ یہ تمام طریق ہی اسلامی تعلیمات کے منافی ہونے کی وجہ سے ناجائز ہیں۔

علاوہ ازیں ٹیٹو کے کئی ظاہری اور میڈیکل نقصانات بھی ہیں۔ چنانچہ جسم کے جن حصوں پر ٹیٹو بنوایا جاتا ہے، اس جگہ جلد کے نیچے پسینہ لانے والے گلینڈ بُری طرح متاثر ہوتے ہیں اور ٹیٹو بنوانے کے بعد جسم کے ان حصوں پر پسینہ آنا کم ہو جاتا ہے، جو طبی لحاظ سے نقصان دہ ہے۔ اسی طرح بعض اوقات ٹیٹو چونکہ مستقل طور پر جسم کا حصہ بن جاتا ہے، اس لئے جسم کے بڑھنے یا سکٹرنے کے ساتھ ٹیٹو کی شکل میں بھی تبدیلی آ جاتی ہے، جس سے ٹیٹوبظاہر خوبصورت لگنے کی بجائے بد صورت لگنے لگتا ہے اور کئی لوگ پھر اسے وبال جان سمجھنے لگتے ہیں لیکن اس سے پیچھا نہیں چھڑا سکتے۔ لہٰذا ان وجوہ کی بناء پر بھی ٹیٹو بنوانا ایک لغو کام ہے۔

پس ایک مومن مرد اور عورت کیلئے اپنے جسم پر ٹیٹو بنوانا جائز نہیں۔ البتہ اگر کسی شخص نے احمدی ہونے سے پہلے اپنے جسم پر ٹیٹو بنوایا ہے اور اب اللہ تعالیٰ نے اسے اسلام کی سچی راہ دکھاتے ہوئے احمدیت قبول کرنے کی توفیق بخشی ہے تو اس کا یہ فعل إِلَّا مَا قَدْ سَلَفَ (یعنی سوائے اس کے جو پہلے گزر چکا) کے زمرہ میں آئے گا۔ نیز پہلے سے بنے ہوئے ٹیٹو سے اس کے وضوء اور غسل جنابت کی تکمیل میں کوئی فرق نہیں پڑتا۔ جس طرح خواتین کے نیل پالش لگانے سے ان کے وضوء پر کوئی فرق نہیں پڑتا اور نیل پالش لگے ہونے کے باوجود ان کا وضوء ہو جاتا ہے اسی طرح اس شخص کا بھی ٹیٹو کے ساتھ وضوء اور غسل جنابت ہو جائے گا۔

(مرتبہ:۔ ظہیر احمد خان۔ انچارج شعبہ ریکارڈ دفتر پی ایس لندن)

پچھلا پڑھیں

اداریے (حنیف محمود کے قلم سے) جلد اول

اگلا پڑھیں

سیّدنا حضرت امیر المؤمنین کا دورہ امریکہ 2022ء (قسط 4)