• 25 اپریل, 2024

مستقبل کو دین اور دنیا کی دولتوں سے بھرنے والی کجیاں

بزم ناصرات
مستقبل کو دین اور دنیا کی دولتوں سے بھرنے والی کجیاں

دنیا میں بہت سے لوگ آتے ہیں اور اپنی زندگیاں گزار کر چلے جاتے ہیں۔ مگر کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جن کو ان کے بہتر مستقبل کی خوشخبری ان کے حال میں ہی دے دی جاتی ہے۔ جی ہاں ! میں ناصرات کی ان بچیوں کا ذکر کر رہی ہو ں جنہوں نے آج سے تقریباً 38 سال قبل نئے مراکز کی تحریک میں اپنی جمع شدہ رقم جو کہ کجیوں میں جمع کی گئی تھی خوشی خوشی دے دی تھی۔

یہ محض خدا کا فضل اور اسلام واحمدیت کی پیاری تعلیم کی برکت ہے کہ احمدی بچوں کو بچپن سے ہی مالی قربانی اور انفاق فی سبیل اللہ کی اہمیت و برکات کے بارے میں بتایا جاتا ہے۔ جماعتی جلسے ہوں یا ذیلی تنظیموں کے اجلاس ان امور کی طرف بخوبی توجہ دلائی جاتی ہے اور گھروں میں بڑے، بزرگوں کے قابل تقلید نمونے بھی موجود ہوتے ہیں۔

خدا کے فضل سے ہمارا بچپن بھی ایسے ہی پاک اور روحانی ماحول میں گزرا جب ہم اپنے جیب خر چ کے پیسے، عیدی اور کلاس میں پاس ہونے پر ملی انعام کی رقم اکثر سنبھال لیا کرتے تھے اور اپنے چندے وغیرہ انہیں پیسوں سے دیا کرتے تھے۔

یہ آج سے تقریباً 38 برس پہلے کی بات ہے جب ہم ناصرات میں تھے۔ ہماری اور ہماری سہیلیوں کی عمریں تقریباً 9 سے 11-12 اور زیادہ سے زیادہ 14-15 سال تک کی ہوں گی۔

یہ ناصرات کی ان بچیوں کا ذکر ہے جنہوں نے اپنی جمع شدہ رقم جو کہ کجیوں میں جمع کی ہوئی تھی خوشی خوشی نئے مراکز کی تحریک میں دے دی تھی۔ آخر یہ جذبہ کیوں نہ ان کے اندر پیدا ہوتا انہوں نے اپنی ماوٴں کو مالی تحریکات میں خوشی خوشی اپنے زیور قربان کرتے دیکھا تھا پھر ان کی سیکرٹری ناصرات مکرمہ مبارکہ شاہین صاحبہ حال مقیم جرمنی (صدر لجنہ مجلس گروس اُم شٹڈ ریجن ہیسن سؤڈ) نے انہیں اس رنگ میں اس پیاری تحریک میں حصہ لینے کی طرف توجہ دلائی تھی کہ سب خوشی خوشی اس تحریک میں چندہ دینے کیلئے تیار ہو گئی تھیں۔

مجھے یاد ہے جب میں نے اپنی کجی توڑی تو میری کجی میں سے جمع شدہ رقم صرف 34 روپے نکلے تھے اسی طر ح میری بہن امتہ الہادی شیریں اور ہماری سہیلیوں عطیة القیوم ناصرہ، شاہدہ رحمٰن زبدہ اور فہمیدہ فردوس کی کجیوں سے بھی تقريباً اتنی ہی ملتی جلتی جمع شدہ رقم نکلی تھی۔ ہم سے چھوٹی بھی کچھ بچیاں تھیں جنہوں نے اس تحریک میں چندہ دینے کیلئے خوشی خوشی اپنی کجیاں توڑی تھیں۔ ان بچیوں میں امتہ الواسع شمائلہ، امتہ الہادی غزالہ، قیصرہ عدن، ناصرہ پروین، امتہ النور شبانہ وغیرہ تھیں۔ ان کے علاوہ اور بھی بہت سی بچیاں تھیں جنہوں نے اس تحریک میں حصہ لیا تھا۔ گو کہ ان کے نام یہاں درج نہیں لیکن مجھے یقین ہے کہ خلیفہ وقت کی دعاؤں سے ضرور ان کا مستقبل روشن ہوگا۔

جی بالکل! چند کوڑیاں جو ہم بچیوں نے نئے مراکز کی تحریک میں دی تھیں سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کو اس قدر پسند آئیں کہ آپ نے ان کے بدلہ میں ہمیں ہمارے دین اور دنیا ہر دو لحاظ سے روشن مستقبل کی نوید سنا دی اور یہ اس وقت کی بات ہے جب ہم اپنی زندگیوں کے نئے موڑ میں قدم رکھ رہی تھیں اور اس وقت خلیفہٴ وقت کے پیارے الفاظ ہمارے لئے بہت اعزاز اور ہمیشہ کیلئے بہت سکون و اطمینان کا احساس دلانے والے تھے جو پیارے حضور نے ہمارے لئے فرمائے تھے۔ حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ کے پیارے الفاظ ہمیں ہمیشہ یاد رہتے ہیں اور ہم سب گواہ ہیں اس بات کی کہ ہمارے پیارے خدا نے ہمیں اپنے فضلوں سے بہت نوازا ہے اور آج یہ بات ہم اپنے بچوں کو بتاتے ہوئے بے حد خوشی اورفخر محسوس کرتی ہیں۔

یہ اس وقت کی بات ہے جب 1991ء میں حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ ہندوستان تشریف لائے اور صد سالہ جلسہ سالانہ قادیان کے موقع پر مستورات سے خطاب کرتے ہوئے آپؒ نے فرمایا۔
’’خدا تعالیٰ کے فضل کے ساتھ ہندوستان کی لجنات میں سے سب کے متعلق تو میں نہیں کہہ سکتا۔ لیکن قادیان کی لجنہ کے متعلق کہہ سکتا ہوں کہ مالی قربانی میں یہ بے مثل نمونے دکھانے والی ہے۔ قادیان کی جماعت ایک بہت غریب جماعت ہے۔ لیکن میں نے ہمیشہ دیکھا ہے کہ جب بھی کوئی تحریک کی جائے یہاں کی خواتین اور بچیاں ایسے ولولے اور جوش کے ساتھ اس میں حصہ لیتی ہیں کہ بعض دفعہ میرا دل چاہتا ہے کہ ان کو روک دوں کہ بس کرو۔ تم میں اتنی استطاعت نہیں ہے اور واقعتاً مجھے خوشی کے ساتھ ان کا فکر بھی لاحق ہو جاتا ہے۔ لیکن پھر میں سوچتا ہوں کہ جس کی خاطر انہوں نے قربانیاں کی ہیں وہ جانے۔ وہ جانتا ہے کہ کس طرح ان کو بڑھ چڑھ کر عطا کرنا ہے۔ وہی اللہ اپنے فضل کے ساتھ ان کے مستقبل کو دین اور دنیا کی دولتوں سے بھر دے گا۔ ایک موقع پر جب میں نے مراکز کیلئے تحریک کی تو احمدی بچیوں نے جو چھوٹی چھوٹی کجیاں بنا رکھی تھیں۔ عجیب نظارہ تھا کہ گھر گھر میں وہ کجیاں ٹوٹنے لگیں۔ اور دیواروں سے مار مار کے کجیاں توڑ دیں۔ چند پیسے، چند ٹکے جو انہوں نے اپنے لئے بچائے تھے وہ دین کی خاطر پیش کر دئے۔ ہمارا رب بھی کتنا محسن ہے، کتنا عظیم الشان ہے !بعض دفعہ بغیر محبت اور ولولے کے کروڑوں بھی اس کے قدموں میں ڈالے جائیں تو وہ رد کردیتا ہے، ٹھوکر بھی نہیں مارتا ان کی کوئی حیثیت نہیں مگر ایک مخلص ایک غریب پیارو محبت کے ساتھ اپنی جمع شدہ پونجی چند کوڑیاں بھی پیش کر ے تو اسے بڑھ کر پیار اور محبت سے قبول کرتا ہے۔ جیسے آپ اپنے محبت کرنے والے اور محبوبوں کے تحفوں کو لیتی اور چومتی ہیں۔ خدا کے بھی چومنے کے کچھ رنگ ہوا کرتے ہیں۔ اور میں جانتا ہوں اور یقین رکھتا ہوں کہ ان معنوں میں خدا نے ان چند کوڑیوں کو ضرور چوما ہوگا‘‘

(جلسہ سالانہ مستورات قادیان خطاب فرمودہ 27دسمبر 1991ء)

پیاری ناصرات ! ہم جس مذہب اور عقیدے سے تعلق رکھتی ہیں وہ سب سے افضل نبی کا لایا ہوا سب سے اکمل مذہبِ اسلام ہے۔ اور اس کی تعلیمات ایسی پیاری ہیں کہ ان کو اپنا کر ہم اپنی دین و دنیا دونوں سنوار سکتی ہیں اور سب سے بڑھ کر خلافت جیسی عظیم نعمت ہمیں میسر ہے اور خدا تعالیٰ کے فضل سے جدید ٹیکنالوجی کے ذریعہ ہم ہر وقت اپنے پیارے خلیفہ کی صحبت کی برکات سے فیضیاب ہو سکتی ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم خلیفہٴ وقت کی مطیع اور فرمابردار بنیں، اپنے عہدوں کو نبھاتے ہوئے، اپنے اچھے نمونے قائم کرتے ہوئے اسلام و احمدیت کو ساری دنیا میں پھیلانے کی سعی کرنے والی اچھی ناصرات بن کر خلیفہٴ وقت کی دعاؤں کی وارث بننے والی ہوں آمین۔ اللہ تعالیٰ ہمارے پیارے آقا کو صحت و سلامتی والی لمبی زندگی عطا فرمائے اور ہم خلافت کی برکات سے فیضیاب ہوتے چلے جائیں۔ آمین ثم آمین۔

(امة الشافی رومی۔ جنرل سیکرٹری لجنہ اماءاللہ بھارت)

پچھلا پڑھیں

اداریے (حنیف محمود کے قلم سے) جلد اول

اگلا پڑھیں

سیّدنا حضرت امیر المؤمنین کا دورہ امریکہ 2022ء (قسط 4)