• 2 مئی, 2024

فقہی کارنر

سودی رقم کا اشاعت اسلام کے لئے اضطراراً خرچ

ایک صاحب کا ایک خط حضرت (اقدس مسیح موعود علیہ السلام) کی خدمت میں پہنچا کہ جب بینکوں کے سود کے متعلق حضور نے اجازت دی ہے کہ موجودہ زمانہ اور اسلام کے حالات کو مد نظر رکھ کر اضطرار کا اعتبار کیا جائے سو اضطرار چونکہ وسعت پذیر ہے اس لئے ذاتی، قومی، ملکی تجارتی وغیرہ اضطرارات بھی پیدا ہو کر سود کا لین دین جاری ہو سکتا ہے یا نہیں؟

فرمایا:
اس طرح سے لوگ حرامخوری کا دروازہ کھولنا چاہتے ہیں کہ جو جی چاہئے کرتے پھریں۔ ہم نے یہ نہیں کہا کہ بینک کا سود بسبب اضطرار کے کسی انسان کو لینا اور کھانا جائز ہے۔ بلکہ اشاعت اسلام میں اور دینی ضروریات میں اس کا خرچ جائز ہونا بتلایا گیا ہے۔ وہ بھی اس وقت تک کہ امداد دین کے واسطے روپیہ مل نہیں سکتا اور دین غریب ہو رہا ہے کیونکہ کوئی شے خدا کے واسطے تو حرام نہیں۔ باقی رہی اپنی ذاتی اور ملکی اور قومی اور تجارتی ضروریات۔ سو اُن کے واسطے اور ایسی باتوں کے واسطے سود با لکل حرام ہے وہ جواز جو ہم نے بتلایا ہے وہ اس قسم کا ہے کہ مثلاً کسی جاندار کو آگ میں جلانا شرعاً منع ہے۔ لیکن ایک مسلمان کے واسطے جائز ہے کہ اس زمانہ میں اگر کہیں جنگ پیش آ وے تو توپ بندوق کا استعمال کرے کیونکہ دشمن بھی اس کا استعمال کر رہا ہے۔

(بدر 6 فروری 1908ء صفحہ7)

(مرسلہ:داؤد احمد عابد۔ استاد جامعہ احمدیہ برطانیہ)

پچھلا پڑھیں

شہر ZION کی کنجی ملنے پرجذبات

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 21 اکتوبر 2022