• 24 اپریل, 2024

حلال و حرام جانورقرآن و حدیث کی روشنی میں

اللہ تعالیٰ نے اپنی آخری شریعت رسول اللہ ﷺ پر اتاری اور اس شریعت میں تمام بنی نوع انسان کی بھلائی کے لیے وہ تمام احکامات رکھ دیے ہیں جس سے نسل انسانی کی روحانی،جسمانی،معاشرتی،اخلاقی،ذہنی ترقی اپنے عروج پر پہنچ سکتی ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں کچھ چیزیں حرام قرار دی ہیں جو بنی آدم کی روحانی اور جسمانی ترقی میں روک بن سکتی ہیں یا وہ چیزیں انسانی اخلاقیات پر برا اثر پیدا کرسکتی ہیں۔ اس مضمون میں خاکسار ان جانوروں کا ذکر کرے گا جو شریعت نے حرام قرار دیے ہیں یا رسول اللہ ﷺ نے حرام قرار دیے ہیں۔ اور ان اصولوں کا ذکر کرے گا جس کے معیار پر دوسرے دنیا کے جانوروں کے حلال یا حرام ہونے کا فیصلہ کیا جاسکتا ہے۔

جب قرآن کریم پر نظر دوڑائیں تو ہمیں بعض آیات واضح طورپراس کا پتہ دیتی ہیں جیسے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ

حُرِّمَتۡ عَلَیۡکُمُ الۡمَیۡتَۃُ وَ الدَّمُ وَ لَحۡمُ الۡخِنۡزِیۡرِ وَ مَاۤ اُہِلَّ لِغَیۡرِ اللّٰہِ بِہٖ وَ الۡمُنۡخَنِقَۃُ وَ الۡمَوۡقُوۡذَۃُ وَ الۡمُتَرَدِّیَۃُ وَ النَّطِیۡحَۃُ وَ مَاۤ اَکَلَ السَّبُعُ اِلَّا مَا ذَکَّیۡتُمۡ ۟ وَ مَا ذُبِحَ عَلَی النُّصُبِ وَ اَنۡ تَسۡتَقۡسِمُوۡا بِالۡاَزۡلَامِ ؕ ذٰلِکُمۡ فِسۡقٌ ؕ اَلۡیَوۡمَ یَئِسَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا مِنۡ دِیۡنِکُمۡ فَلَا تَخۡشَوۡہُمۡ وَ اخۡشَوۡنِ ؕ اَلۡیَوۡمَ اَکۡمَلۡتُ لَکُمۡ دِیۡنَکُمۡ وَ اَتۡمَمۡتُ عَلَیۡکُمۡ نِعۡمَتِیۡ وَ رَضِیۡتُ لَکُمُ الۡاِسۡلَامَ دِیۡنًا ؕ فَمَنِ اضۡطُرَّ فِیۡ مَخۡمَصَۃٍ غَیۡرَ مُتَجَانِفٍ لِّاِثۡمٍ ۙ فَاِنَّ اللّٰہَ غَفُوۡرٌ رَّحِیۡمٌ

(سورۃمائدہ:4)

تم پر مردار حرام کر دیا گیا ہے اور خون اور سور کا گوشت اور جو اللہ کے سوا کسی اور کے نام پر ذبح کیا گیا ہو اور دم گھٹ کر مرنے والا اور چوٹ لگ کر مرنے والا اورگر کر مرنے والا اور سینگ لگنے سے مرنے والا اور وہ بھی جسے درندوں نے کھایا ہو، سوائے اس کے کہ جسے تم (اس کےمرنے سے پہلے) ذبح کر لو اور وہ (بھی حرام ہے) جو معبودان باطلہ کی قربان گاہوں پر ذبح کیا جائے اور یہ بات بھی کہ تم تیروں کے ذریعہ آپس میں حصے بانٹویہ سب فسق ہے۔

یَسۡـَٔلُوۡنَکَ مَاذَاۤ اُحِلَّ لَہُمۡ ؕ قُلۡ اُحِلَّ لَکُمُ الطَّیِّبٰتُ ۙ وَ مَا عَلَّمۡتُمۡ مِّنَ الۡجَوَارِحِ مُکَلِّبِیۡنَ تُعَلِّمُوۡنَہُنَّ مِمَّا عَلَّمَکُمُ اللّٰہُ ۫ فَکُلُوۡا مِمَّاۤ اَمۡسَکۡنَ عَلَیۡکُمۡ وَ اذۡکُرُوا اسۡمَ اللّٰہِ عَلَیۡہِ ۪ وَ اتَّقُوا اللّٰہَ ؕ اِنَّ اللّٰہَ سَرِیۡعُ الۡحِسَابِ

(سورہ مائدہ 5)

وہ تجھ سے پوچھتے ہیں کہ ان کے لئے کیا حلال کیا گیا ہے۔تو کہہ دے کہ تمہارے لئے تمام پاکیزہ چیزیں حلال کی گئی ہیں اور شکاری جانوروں میں سے بعض کو سدھاتے ہوئے جو تم تعلیم دیتے ہو تو (یاد رکھو کہ) تم انہیں اس میں سے سکھاتے ہو جو اللہ نے تمہیں سکھایا ہے۔ پس تم اس (شکار) میں سے کھاؤ جو وہ تمہارے لئے روک رکھیں اور اس پر اللہ کا نام پڑھ لیا کرو اور اللہ کا تقویٰ اختیار کرو یقیناً اللہ حساب (لینے) میں بہت تیز ہے۔

حضرت خلیفۃ المسیح الاول ؓ فرماتے ہیں کہ
’’حرمت کے چار قاعدے ہیں۔ ایک وہ حرام ہے جو انسان کی جان کو ہلاک کردے مثلا مردار۔ دوم وہ جو اخلاق میں شہوت و غضب کو بڑھائے مثلاً سؤ ر۔ سوم وہ جو طبعی قوتوں کو برباد کرے مثلاً لہو جس کو زہر تشنج، استرخاء پیدا کرتی ہے۔ جو قومیں مردار، خون سؤر، غیر اللہ کے نام کا استعمال کرتی ہیں۔ ان میں الہٰیات کے سمجھنے کی قوت نہیں رہتی۔ چہارم جو غیر اللہ سے تقر ب اور حاجت روائی کے لئے کیا جاوے اور یہ شرک ہے۔‘‘

(حقائق الفرقان جلد2 صفحہ 180)

اس کی مزید تفصیل بیان کرتے ہوئے حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
’’اس میں ایک ایک مرکزی لفظ چنا ہے اور اس کے تابع اس جنس کی تفصیل بیان نہیں فرمائی۔ یہ ہے خلاصہ عنوان لگا دیئے گئے ہیں ایک عنوان ہے مردہ کا۔ اس عنون کے تابع ہر قسم کا جانور جس کا گوشت طبعی موت یاعائد کردہ موت کے نتیجہ میں کھانے کے لئے استعمال ہونے لگ جائے وہ گوشت نہیں کھانا۔چوٹ لگ کے مرا ہو،اس کو طبعی موت نہیں کہتے مگر حادثے کے نتیجہ میں موت واقع ہوگئی ہو، ہے موت ہی۔ دم گھونٹ کے مارا گیا ہو۔ طبعی موت نہیں ہے لیکن دم بند ہونے کی وجہ سے جو موت ہے، ہے موت ہی۔ تو ہر ایسا گوشت جس کو بالارادہ انسان کے تصرف کے لیے خون بہا کر ذبح نہ کیا گیا ہو۔ وہ میت کہلائے گا۔ یہ ایک عنوان ہے میتہ کا۔

دوسرا عنوان ہے خنزیر۔خنزیر کے عنوان کے تابع ہر قسم کے وہ جانور جوگوشت خور ہیں وہ بھی آجاتے ہیں۔کیونکہ خنزیر ایک ایسا سبزی خور جانور ہے جو گوشت خور بھی ہے۔صرف سبزی خور نہیں ہے۔ میرے نزدیک خنزیر کے عنوان کے نیچے تمام درندے بھی آجاتے ہیں۔اور درندوں کی جو حرمت ہے وہ خنزیر سے ہے۔

تیسرا ہے جو غیر اللہ کے لیے ذبح کیا جائے۔ اس میں اوثان وغیرہ جو دوسرے طریق تھے جن کی خاطر مارے جاتے ہیں یا نظریں چڑھائی جاتی ہیں پیروں فقیروں کو۔۔۔تمام قسم کی حرمتیں جو شرک سے تعلق رکھتی ہیں ایک عنوان کے تابع بیان فرما دیں۔

خون ہر جانور کا حرام ہے اس لیے خون کو الگ بیان فرمایا ہے۔‘‘

(اردو ترجمہ القرآن کلاس نمبر 29سورہ بقرہ زیر آیت 174)

حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ
’’خنزیر جو حرام کیا گیا ہے۔ خدا نے ابتدا سے اس کے نام میں ہی حرمت کی طرف اشارہ کیا ہے کیونکہ خنزیر کا لفظ خنز اور ار سے مرکب ہے جس کے یہ معنی ہیں کہ میں اس کو بہت فاسد اور خراب دیکھتا ہوں۔خنز کےمعنی بہت فاسد اور ار کے معنی دیکھتا ہوں ۔۔۔ عجیب اتفاق یہ ہے کہ ہندی میں اس جانور کو سؤر کہتے ہیں۔ یہ لفظ بھی سوء اور ار سے مرکب ہے جس کے معنی یہ ہیں کہ میں اس کو بہت برا دیکھتا ہوں ۔۔۔ اس بات کا کس کو علم نہیں کہ یہ جانور اول درجہ کا نجاست خور اور نیز بے غیرت اور دیوث ہے۔ اب اس کے حرام ہونے کی وجہ ظاہر ہے کہ قانون قدرت یہی چاہتا ہے کہ ایسے پلید اور بد جانور کے گوشت کا اثر بھی بدن اور روح پر بھی پلید ہی ہو۔ جیساکہ یونانی طبیبوں نے اسلام سے پہلے ہی یہ رائے ظاہر کی ہے کہ اس جانور کا گوشت بالخاصیت حیا کی قوت کو کم کرتا ہے اور دیوثی کو بڑھاتا ہے اور مردار کا کھانا بھی اسی لئے اس شریعت میں منع ہے کہ مردار بھی کھانے والے کو اپنے رنگ میں لاتا ہے اور نیز ظاہری صحت کیلئے بھی مضر ہے اور جن جانوروں کا خون اندر ہی رہتا ہے جیسے گلا گھونٹا ہوا یا لاٹھی سے مارا ہوا۔ یہ تمام جانور درحقیقت مردار کے حکم میں ہی ہیں۔ کیا مردہ کا خون اندر رہنے سے اپنی حالت پر رہ سکتا ہے؟ نہیں بلکہ وہ بوجہ مرطوب ہونے کے بہت جلد گندہ ہوگا اور اپنی عفونت سے تمام گوشت کو خراب کرے گا اور نیز خون کے کیڑے جو حال کی تحقیقات سے بھی ثابت ہوئے ہیں مرکر ایک زہر ناک عفونت بدن میں پھیلا دیں گے۔‘‘

(تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام جلد 4صفحہ 5)

ان بنیادی قرآنی احکامات کے بعد ہمیں احادیث میں بھی حرام یا ممنوع جانوروں کے اصول ملتے ہیں چنانچہ ذیل میں وہ احادیث پیش خدمت ہیں جن میں رسول اللہ ﷺ نے بعض دیگر جانوروں کو بھی کھانے سے منع کیا ہے۔

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ ’’کل ذی ناب من السباع فاکلہ حرام‘‘

(صحیح مسلم کتاب الصید و الذبائح باب تحریم اکل کل ذی ناب من السباع وکل ذی مخلب من الطیر)

ہر کچلی والے درندے جانوروں کا کھانا حرام ہے

حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ ’’نھی رسول اللہ ﷺ عن کل ذی ناب من السباع وعن کل ذی مخلب من الطیر‘‘

(صحیح مسلم کتاب الصید و الذبائح باب تحریم اکل کل ذی ناب من السباع وکل ذی مخلب من الطیر)

یعنی رسول اللہ ﷺ نے ہر کچلی والے درندے اور ہر پنجے والے پرندے کے کھانے سے منع فرمایا ہے۔ (اس سے مراد شکاری پرندے ہیں)

حضرت جابر بن عبداللہؓ سے روایت ہے کہ ’’ان رسول اللہ ﷺ نھی یوم خیبر عن لحوم الحمر الاھلیۃ واذن فی لحوم الخیل‘‘

(صحیح مسلم کتاب الصید والذبائح باب فی اکل لحوم الخیل)

رسول اللہ ﷺ نے خیبر کے دن گھریلو گدھوں کے گوشت سے منع فرمایا اور گھوڑوں کے گوشت کی اجازت دی۔

ایک اور حدیث میں ہے کہ ان اللہ ورسولہ ینھیانکم عنھا فانھا رجس من عمل الشیطان

(صحیح مسلم کتاب الصید والذبائح باب تحریم اکل لحم الحمر الانسیۃ)

یقینا اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ تمہیں اس سے منع فرماتے ہیں کیونکہ یہ ناپاک شیطانی عمل ہے۔

حضرت جابر بن عبداللہ ؓ کی ابو داؤد میں حدیث آئی ہے کہ ذبحنا یوم خیبر الخیل والبغال والحمیر فنھانا رسول اللہ ﷺ عن البغال والحمیر ولم ینھانا عن الخیل

(ابو داؤد کتاب الاطئمۃ باب فی اکل لحوم الخیل)

ہم نے خیبر کے دن گھوڑے، خچر اور گدھے ذبح کئے تو رسول اللہ ﷺ نے ہمیں خچر اور گدھوں سے منع فرما دیا اور گھوڑے سے ہمیں نہیں روکا۔

حضرت ابن عمر ؓسے روایت ہے کہ سئل رجل رسول اللّٰہ ﷺ عن اکل الضب فقال لا اکلہ ولا احرمہ

(صحیح مسلم کتاب الصید والذبائح باب اباحۃ الضب)

حضرت نبی کریم ﷺ سے سو سمار (گوہ) کے بارہ میں پوچھا گیا۔ آپﷺ نے فرمایا نہ میں اسے کھاتا ہوں اور نہ ہی اسے حرام ٹھہراتا ہوں۔

صحیح مسلم کی ہی ایک اور حدیث میں زیادہ تفصیل بھی پائی جاتی ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے سامنے جب سوسمار پیش کی گئی تو آپؐ نے فرمایا کہ یہ ہم لوگوں کے علاقہ میں نہیں ہوتی اس لئے مجھے لگتا ہے کہ یہ میرے مزاج کے مطابق نہیں۔ چنانچہ اسی موقع پر حضرت خالد بن ولید نے رسول اللہ ﷺ کے سامنے اسے کھایا اور رسول اللہ ﷺ اسے دیکھ رہے تھے۔

عن عبداللّٰہ بن ابی اوفی قال غزونا مع رسول اللّٰہ ﷺ سبع غزوات نأکل الجراد

(صحیح مسلم کتاب الصید والذبائح باب اباحۃ الجراد)

حضرت عبد اللہ بن اوفی ؓ بیان کرتے ہیں کہ ہم نے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ سات غزوات میں حصہ لیا چنانچہ ہم ٹڈیاں کھاتے تھے۔

صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں ایک حدیث سے پتہ چلتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے پاس خرگوش کا گوشت لایا گیا تو رسول اللہ ﷺ نے اسے قبول کیا اور اسے کھایا۔

حضرت سفینہ ؓکہتے ہیں کہ ’’اکلت مع رسول اللّٰہ ﷺ لحم حباری‘‘

(ابو داؤد کتاب الاطئمۃ باب فی اکل لحم الحباری)

حضرت سفینہ ؓ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ سرخاب کا گوشت کھایا۔

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’ان رسول اللّٰہ ﷺ قال احلت لنا میتتان الحوت والجراد‘‘

(سنن ابن ماجہ حدیث نمبر 3218کتاب الصید باب صید الحیتان والجراد)

یعنی رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ ہمارے لیے دو مردار مچھلی اور ٹڈی حلال ہیں۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ھوالطھور ماء ہ الحل میتتہ‘‘

(سنن ابن ماجہ کتاب الطھارۃ و سننھا باب الوضوء بماء البحر)

اس (سمندر) کا پانی بذات خود پاک ہے اور اس کا مردار حلال ہے۔

عن جابر بن عبداللّٰہ قال قال رسول اللّٰہ ﷺ ما القی البحر او جزر عنہ فکلوہ ومامات فیہ فطفا فلا تاکلوہ

(سنن ابی داؤد کتاب الاطعمہ باب فی اکل الطافی من السمک)

حضرت جابر بن عبداللہؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہےکہ جس جانور کو سمندر نے کنارے پر ڈال دیا ہو یا پانی کم ہوجانے سے وہ مرجائے تو اسے کھاؤ اور جو سمندر میں مر کر اوپر آجائے اسے مت کھاؤ۔

حضرت مصلح موعود ؓ فرماتے ہیں کہ:
’’میں بچپن میں ایک دفعہ ایک طوطا شکار کر کے لایا۔ حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام نے اسے دیکھ کر کہا محمود طوطے کا گوشت حرام تو نہیں۔ مگر اللہ تعالیٰ نے ہر جانور کھانے کے لئے ہی پیدا نہیں کیا۔ بعض خوبصورت جانور دیکھنے کے لئے ہیں کہ انہیں دیکھ کر آنکھیں راحت پائیں۔ بعض جانوروں کو عمدہ آواز دی ہے کہ ان کی آواز سُن کر کان لذت حاصل کریں۔پس اللہ تعالیٰ نے انسان کی ہر حس کے لئے نعمتیں پیدا کی ہیں وہ سب کی سب چھین کر زبان ہی کو نہ دے دینی چاہئیں۔ دیکھو یہ طوطا کیسا خوبصورت جانور ہے۔درخت پر بیٹھا ہوا دیکھنے والوں کو کیسا بھلا معلوم ہوتا ہوگا۔‘‘

(تفسیر کبیر جلد4 صفحہ263)

فرمایا: ’’اللہ تعالےٰ نے جسقدر چیزوں کو حرام قرار دیا ہے اس کی وجہ ان کے جسمانی یا اخلاقی یا روحانی مضرات ہیں اور صرف ایسی ہی اشیاء کاکھانا جائز قرار دیا ہے جو انسان کی جسمانی اخلاقی اور روحانی ترقی کا موجب ہوں‘‘

(تفسیر کبیر جلد6 صفحہ180)

ان تمام چیزوں کو مد نظر رکھتے ہوئے مندرجہ ذیل باتیں ہمارے سامنے آتی ہیں :

قرآن کریم نے صریحاً جو چیزیں حرام کی ہیں وہ چار ہیں۔

(۱) مردار
(۲) خون
(۳) سؤر (حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ؓ کے فتویٰ کے مطابق اس ضمن میں تمام گوشت کھانے والے درندے بھی آجاتے ہیں)
(۴) جس پر غیر اللہ کا نام لیا گیا ہو

قرآن کریم نےمردار کی مزید تفصیل اس طرح بیان فرمائی:

(۵) چوٹ لگ کر مرنے والا
(۶) دم گھٹ کر مرنے والا
(۷) گر کر مرنے والا
(۸) سینگ لگ کر مرنے والا
(۹) جسے درندہ نے کھایا ہو
(۱۰) جسے معبودان باطلہ کی قربان گاہوں پر ذبح کیا گیا ہو

اس کے علاوہ احادیث میں بھی بعض جانوروں کی حرمت ملتی ہے :

(۱)ہر کچلی والے درندے
(۲)خچر
(۳) پنجےسےشکارکرنےوالےپرندے
(۴) گھریلو گدھے
(۵) سمندر کا مردار اس صورت میں حرام ہے اگر وہ مر کر سطح پر آگیا ہو۔ لیکن اگر پانی کی کمی کی وجہ سے مرا ہو تو حلال ہے ۔
(۶) بلی کو کھانے سے بھی منع کیا گیا ہے۔
(7) رسول اللہ ﷺ نے ہر ‘‘جلالہ’’ جانور یعنی گندگی کھانے والے جانور کو کھانے سے بھی منع کیا ہے۔ جیسے اگر کوئی حلال جانور باہر گندی چیزیں کھاکر گزارہ کرتا ہے جہاں چارہ نہیں تو اس کو کھانا منع ہے۔ مثلاً مرغی اگر باہر پھرتی رہتی ہے اور اس کے لیے باقاعدہ کھانا نہیں ڈالا جاتا اور یقین سے نہیں کہا جاسکتا کہ وہ باہر پاکیزہ چیزیں کھاتی ہے تو بعض فقہا نے لکھا ہے کہ بہتر ہے کہ ایسے جانور کو چنددن گھر میں چارہ وغیرہ ڈالا جائے تاکہ اس کے اندر سے گندگی ختم ہو جائے اور انسانی جسم پر اس کے گوشت کا اچھا اثر پڑے۔
(8) حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے فتوے سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ بعض جانور یا پرندے جو خوبصورتی میں اضافہ کرتے ہیں انہیں بھی نہیں مارنا چاہیئے کیونکہ وہ ماحول کی خوبصورتی میں اضافہ کرتی ہیں۔

حضرت مصلح موعود ؓنے حلال چیزوں کو چار مدارج میں تقسیم کیا ہے۔ اول: طیب۔ دوم: حلال۔ سوم :حرام۔ چہارم:مکروہ۔چنانچہ حضرت مصلح موعود ؓحلال و حرام کی فلاسفی بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’اسلامی شریعت نے صرف حلال چیزوں کے کھانے کا ہی حکم نہیں دیا بلکہ حلال میں سے بھی طیّب اشیاء کے استعمال کرنے کی ہدایت فرمائی ہے اور یہ اسلام کی ایسی امتیازی خصوصیت ہے جس میں کوئی اَور مذہب اُس کا مقابلہ نہیں کرسکتا۔

اِسی طرح اُس نے حلال کے مقابلہ میں صرف حرام کا درجہ ہی نہیں رکھا بلکہ اس سے اتر کر ا س نے بعض چیزوں کو مکروہ بھی قرار دیا ہے۔ اور مومنوں کے لئے اُن کا استعمال ناپسند فرمایا ہے گویا چار مختلف مدارج ہیں جن کو مدنظر رکھنا ضروری ہوتا ہےاولؔ طیّب دومؔ حلال سوؔم حرام چہارؔم مکروہ۔ حلال ترقی کرتے کرتے طیّب تک پہنچ جاتا ہے اور حرام گرتے گرتے مکروہ تک آجاتا ہے۔ غرض اسلام اور دیگر مذاہب میں یہ فرق ہے کہ دوسرے مذاہب صرف حلال حرام تک اپنے آپ کو محدود رکھتے ہیں اور اسلام حلال اور حرام کے علاوہ بعض چیزوں کو طیّب یا مکروہ بھی قرار دیتا ہے۔ اور یہ بھی بتاتا ہے کہ کونسی چیزیں بعض حالات میں حلال ہو جاتی ہیں گو اصل میں حرام ہوں اور کونسی چیزیں بعض حالات میں حرام ہو جاتی ہیں گو اصل میں حلال ہوں اور اس طرح موازنہ اشیاء کو قائم کرتا اور ایک لطیف باب گناہ اور نیکی کے امتیاز کے لئے کھول دیتا ہے مثلاً ہماری شریعت میں لوگوں کو ایذاء دینے سے منع کیا گیا ہے۔ اب اگر حلال چیز سے کسی وقت دوسروں کو ایذاء پہنچ جائے تو اُس وقت اس کا استعمال کرنا بھی حرام ہوجائیگا۔ جیسا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ مَنْ اَکَلَ مِنْ ھٰذِہِ الشَّجَرِ یَعْنِیْ اَلثُوْمَ فَلَا یَأْتِیَنَّ الْمَسَاجِدَ۔ (مسلم جلد اول کتاب المساجد) یعنی جو شخص کچے لہسن کا استعمال کرے اُسے چاہیئےکہ مسجد میں نہ آئے۔ ایک دوسری حدیث میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اِس کی وجہ بھی بیان فرمائی ہے کہ فَاِنَّ الْمَلَائِکَۃَتَاَذّٰی مِمَّا تَاَ ذّٰی مِنْہُ الْاِنْسُ کہ ملائکہ بھی اُن چیزوں سے تکلیف محسوس کرتے ہیں جن سے انسان تکلیف محسوس کرتے ہیں۔ (مسلم جلد اوّل کتاب المساجد) اِس سے معلوم ہوسکتا ہے کہ باوجود اِس کے کہ لہسن کھانا جائز ہے۔ پھر بھی مساجد میں آنے کے لئے رسول کریم صلےاللہ علیہ وسلم نے لہسن اور پیاز وغیرہ کا کھانا ممنوع قرار دے دیا۔ اور ایسے شخص کو نماز باجماعت سے بھی روک دیا۔۔۔۔ غرض یہ اسلام کی ایک بہت بڑی خوبی ہے کہ اُس نے نہ صرف حِلّت و حرمت کے مسائل بیان کئے بلکہ اُس نے یہ بھی بتادیا ہے کہ کھانے کی چیزوں میں سے ادنیٰ درجہ حلال کاہےاور حرام چیزوں میں سے ادنیٰ کراہت کا ہے۔ پس مومنوں کو حلال اور حرام پر ہی نظر نہیں رکھنی چاہیے بلکہ انہیں تقویٰ کی باریک راہیں اختیار کرتے ہوئے حلال میں سے بھی طیّب چیزوں کو اختیار کرنا چاہیئے اور حرام چیزیں تو الگ رہیں مکروہ چیزوں کے پاس پھٹکنے سے بھی احتراز کرنا چاہیئے۔‘‘

(تفسیر کبیر جلد2 صفحہ337تا338)

’’شریعت اسلامیہ میں جن اشیاء کے کھانے سے منع کیا گیاہے وہ دو قسم کی ہیں۔ اوّلؔ حرام دوؔم ممنوع۔ لُغۃً توحرام کا لفظ دونوں قسموںپرحاوی ہے۔ لیکن قرآن کریم نے اِس آیت میں صرف چارچیزوں کو حرام قرار دیا ہے یعنی ۱)مردار، ۲)خون، ۳)سؤر کا گوشت اور وہ تمام چیزیں جنہیں اللہ تعالیٰ کے سوا کسی اور کے نام سے نامزد کر دیاگیا ہو۔ اِن کے سوا بھی شریعت میں بعض اور چیزوں کے استعمال سے روکا گیا ہے۔ لیکن وہ چیزیں اشیاء ممنوعہ کی فہرست میں تو آئیں گی۔ قرآنی اصطلاح کے مطابق حرام نہیں ہونگی۔ جیسے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ نَھیٰ عَنْ کُلِّ ذِیْ نَابٍ مِّنَ السِّبَاعِ وَعَنْ کُلِّ ذِیْ مِخْلَبٍ مِّنَ الطَّیْرِ (مسلم جلد۲ کتاب الصید والذبائح) یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر کچلیوں والے درندے اور پنجوں والے پرندے کو کھانا ممنوع قرار دیا ہے۔ اسی طرح ایک حدیث میں آتا ہے کہ نَھٰی عن لُحُوْمِ الْحُمُرِ الْاِنْسِیَّۃِ، یعنی رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم نے پالتو گدھوں کا گوشت کھانے سے منع فرمایا ہے۔

(مسلم جلد2 کتاب الصید دالذبائح)

یہ احکام اس آیت یا دوسری آیات کے مضمون کے مخالف نہیں ہیں۔ کیونکہ جس طرح اوامر کئی قسم کے ہیں بعض فرض ہیں بعض واجب ہیں اور بعض سنت ہیں۔ اِسی طرح نہی بھی کئی اقسام کی ہے۔ ایک نہی محرّمہ ہے اور ایک نہی مانعہ ہے اور ایک نہی تنزیہی ہے۔ پس حرام چار اشیاء ہیں۔ باقی ممنوع ہیں اور ان سے بھی زیادہ وہ ہیں جن کے متعلق نہی تنزیہی ہےپس حرام چار اشیاء ہیں۔ باقی ممنوع ہیںاوران سےبھی زیادہ وہ ہیں جن کےمتعلق نہی تنزیہی ہے یعنی بہترہےکہ انسان اُن سے بچے۔ حرام اور ممنوع میں وہی نسبت ہے جو فرض اور واجب میں ہے۔ پس جن اشیاء کو قرآن کریم نے حرام کہا ہے ان کی حرمت زیادہ سخت ہے اور جن سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے منع کیا ہے وہ حرمت میں اُن سے نسبتاً کم ہیں۔ اور جیسا کہ مَیں نے بتایا ہے احکام میں اُن کی مثال فرض اور واجب اور سنت کی سی ہے۔ حرام تو بمنزلہ فرض کے ہے اور منع بمنزلہ واجب کے۔ جس طرح فرض اور واجب میں فرق اُن کی سزاؤں کے لحاظ سے کیا جاتا ہے اِسی طرح جن اشیاء کی حرمت قرآن کریم میں آئی ہے مگرانسان اُن کو استعمال کرے گا تو اُس کی سزا زیادہ سخت ہو گئی ۔اور جن سے آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا ہے اُن کے استعمال سے اُس سے کم درجہ کی سزا ملے گی ۔لیکن بہر حال دونوں جرم قابل گرفت اور اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کا موجب ہوں گے‘‘

(تفسیر کبیرجلد2صفحہ339تا340)

طیب کی تعریف

حضرت مصلح موعود ؓطیب کی تعریف بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’……یہ بھی دیکھ لیا کرو کہ وہ طیّب بھی ہے یا نہیں۔ اگر کسی چیز کا کھانا تمہارے مناسب حال نہ ہو خواہ اس لحاظ سے کہ وہ تمہاری صحت کے لئے مضر ہو یا اس لحاظ سے کہ ملکی اور قومی حالات کی وجہ سے تمہیں اس کے کھانے کی عادت نہ ہو یا اس وجہ سے کہ تمہاری طبیعت اُس سے انقباض محسوس کرتی ہو۔ تو تم محض یہ دیکھ کر کہ شریعت نے اسے حلال قرار دیا ہے اُسے مت کھاؤ۔ کیونکہ تمہارے لئے کھانے میں صرف حرام و حلال کا امتیاز مدنظر رکھنا ہی ضروری نہیں بلکہ یہ بھی ضروری ہے کہ تم ایسی چیزوں کا انتخاب کیا کرو جو تمہاری طبیعت اور تمہارے ماحول اور تمہارے معمول کے مطابق ہوں اور جن کا کوئی مضراثر تم پر پڑنے کاامکان نہ ہو‘‘

(تفسیر کبیر جلد2 صفحہ331)

طیب کی تشریح میں مزید فرمایا:
’’غرض طیب کیلئے جہاں صحت کے لحاظ سے اچھا ہونا شرط ہے وہاں اس کے کھانے میں یہ بھی شرط ہے کہ اس چیز کے کھانے سے انسان کے دوسرے حواس یا دوسرے بنی نوع انسان یا دوسری مخلوق کا حق نہ مارا جائے۔ بلکہ دوسروں کے جذ بات کو مدنظر رکھنا بھی ضروری ہے۔‘‘

(تفسیر کبیر جلد4 صفحہ263)

حضرت مصلح موعود ؓفرماتے ہیں :
’’قُلْ اُحِلَّ لَکُمُ الطَّیِّبٰتُکہ باقی اشیاء میں سے جو طیبات ہیں وہ حلال ہیں اور جو طیبات نہیں وہ حلال نہیں ہیں۔…جو طیب ہیں صرف انکا کھانا جائز ہے باقی کا کھانا جائز نہیں۔ لیکن ان کانام حرام نہیں رکھ سکتے۔رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اسی قسم کا مضمون بیان فرمایا ہے۔ ایک حدیث میں آتا ہے کہ اِنَّ الْحَلَالَ بَیِّنٌ وَ الْحَرَامَ بَیِّنٌ وَبَیْنَھُمَا اُمُوْرٌ مُشْتَبِھَاتٌ لَا یَعْلَمُھَا کَثِیْرٌ مِّنَ النَّاسِ

(بخاری کتاب البیوع باب الحلال بیّن والحرام بیّن)

یعنی حلال بھی بیان ہوچکے ہیں اور حرام بھی۔پھر ان دونوں کے درمیان مشتبہ امور ہوتے ہیں۔ جن کو اکثر لوگ نہیں جانتے۔ پس ان کے بارہ میں قیاس اور علم طب اور تجربہ وغیرہ سے کام لیکر فیصلہ کیا جائیگا۔

……جو نئی نئی اشیاء دنیا میں نکلتی رہتی ہیں ان کے متعلق یہی حکم ہوگا کہ ہم ان کا قیاس حرام اور حلال پر کریں۔ اگر حلال سے ان کی مشابہت زیادہ ہے تو انہیں استعمال کریں۔ اگر حرام سے مشابہت زیادہ ہے تو ان سے اجتناب کریں۔‘‘

(تفسیر کبیر جلد4 صفحہ262)

اسلامی شریعت کے مطابق کھانے میں اول طیب چیزوں کا حکم دیا ہے جو صحت کے لیے اچھی ہو یا اس کا کھانا انسانی فطرت کے خلاف نہ ہو۔ جیسے یہ ممکن ہے کہ ایک جانور ایک قوم میں شوق سے کھایا جاتا ہو لیکن دوسری قوم اس کو کھانے میں کراہت محسوس کرتی ہو۔اس کی بڑی مثال گوہ کی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اس کو نہیں کھایا اور صحابہ کو کھانے دیا۔ اس طرح ایک بڑی مثال پا کستان میں گھوڑے کی بھی ہے کیونکہ ہم اس کو مکروہ قرار دیتے ہیں حالانکہ روس میں یا روس کی آزاد شدہ ریاستوں میں گھوڑے کا گوشت ہی کھایا جاتا ہے۔

پس اسلام نے قرآن کریم میں حرام کا معیار بیان کردیا ہے اس کے علاوہ احادیث میں بھی حرمت والے جانوروں کا پتہ چل جاتا ہے۔ اب جو بھی دنیا میں کوئی جانور ہو اس کو اس معیار پر پرکھ کر حلت وحرمت کا فیصلہ کیا جاسکتا ہے۔ اس کے علاوہ کسی علاقہ کی پسند ناپسند،قوموں کی پسند نا پسند کا بھی اسلام نے خیال رکھا ہے۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں :
’’شریعت کی بنا نرمی پر ہے سختی پر نہیں ہے اصل بات یہ ہے کہ وَمَآاُھِلَّ بِہٖ لِغَیْرِ اللّٰہِ سے یہ مُراد ہے کہ جوان مندروں اور تھانوں پر ذبح کیا جاوے یا غیر اللہ کے نام پر ذبح کیا جاوے اس کا کھانا تو جائز نہیں ہے لیکن جو جانور بیع و شر ا میں آجاتے ہیں اس کی حلّت ہی سمجھی جاتی ہے۔زیادہ تفتیش کی کیا ضرورت ہے…اس طرح پر اگر تشدّد ہوتو سب حرام ہوجاویں۔اسلام نے مالا یطاق تکلیف نہیں رکھی ہے بلکہ شریعت کی بنا نرمی پر ہے۔‘‘

(الحکم جلد7 نمبر29 مؤرخہ 10اگست 1903ء صفحہ20 بحوالہ تفسیرحضرت مسیح موعودؑ جلد2 سورۃالبقرہ زیر آیت 174 صفحہ301 ایڈیشن2015ء)

٭…٭…٭

(مرسلہ: مبارک احمد منیر مربی سلسلہ برکینافاسو)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 20 نومبر 2020

اگلا پڑھیں

والدین سے حسن سلوک