• 6 مئی, 2024

ڈاکٹر ڈوئي امريکہ کا عبرتناک انجام اور ’’فتح عظيم‘‘ تک کا سفر (قسط 1)

ڈاکٹر ڈوئي امريکہ کا عبرتناک انجام اور ‘‘فتح عظيم’’ تک کا سفر
الہامات حضرت مسيح موعودؑ بابت ڈوئي کي روشني ميں

’’ہے کوئی جو خدائے وہاب کی طرف سے آنے والی اس فتح عظیم کو دیکھے‘‘ (حضرت مسیح موعودؑ)
قسط 1

امسال اس عاجز کو بھي برکات خلافت کےطفيل ذاتي طور پر امريکہ کا سفر کرنے کي توفيق ملي اور حضرت خليفة المسيح الخامس ايدہ اللہ تعاليٰ بنصرہ العزيز کي شفقت ومنظوري سے ڈاکٹر ڈوئي کے شہر زائن ميں آپ کي تشريف آوري پر مسجد فتح عظيم کي تاريخي افتتاحي تقريب ميں بھي شرکت کي سعادت پائي۔ مجھے مکرم صاحبزادہ مرزا مغفور احمد صاحب امير جماعتہائے احمديہ امريکہ کا بھي دلي شکريہ ادا کرنا ہے۔جن کي خصوصي دعوت پر مسجد کي تاريخي تقريب کےعلاوہ بيت الاکرام ڈيلس امريکہ کے افتتاح ميں بھي شموليت کي توفيق ملي۔ افتتاح مسجد فتح عظيم کاغير معمولي واقعہ جماعت کي تاريخ ميں ہميشہ ايک سنگ ميل کے طور پر ياد رکھا جائيگا کيونکہ يہ حضرت مسيح موعودؑ کي ڈاکٹرڈوئي کے بارہ ميں عظيم الشان پيشگوئي کي تکميل سے تعلق رکھتا ہے جو خلافت خامسہ کے بابرکت دور ميں پوري ہوني مقدر تھي اور جو صاحب عقل اور اہل بصيرت کے ليے ازدياد ايمان کا بہت بڑا نشان ہے۔

يوں تو كُلَّ يَوْمٍ هُوَ فِي شَأْنٍ (الرحمٰن: 30) کے مطابق ہر روز ہي اللہ تعاليٰ کي ايک نرالي شان دنيا ميں جلوہ گر ہورہي ہوتي ہے۔مگردنيادار ظاہربين اس سے فائدہ نہيں اٹھاتے۔

اب شقّ قمر يعني چاند کے دو ٹکڑے ہو جانے کا نشان رسول اللہؐ کي صداقت کا کتنا عظيم الشان نشان تھا۔مگر اس زمانہ کے فرعون ابوجہل اور اس کے ساتھيوں نے اعراض کرتے ہوئےکہہ ديا کہ يہ تو جادو کا ايک سلسلہ ہے۔ (القمر: 3)

يہي حال اس زمانہ ميں ہواجب وقت کا امام مسيح ومہدي نشانوں کے جلو ميں چودہويں صدي ميں آيا تو کتنے ہي نشان ظاہر ہوئے۔ دمدارستارہ، شہب ثاقبہ، رمضان ميں چاند سورج گرہن کےروشن نشان (1894ء ميں مشرقي دنيا ميں تو 1895ء ميں مغربي دنيا ميں) کے علاوہ قحط، طاعون اور غير معمولي زلازل کے انذاري نشان بھي دنيا نے ديکھے مگر قبول کرنيوالے صاحب بصيرت کم ہي نکلے۔

رسول اللہﷺ کي صداقت کا ايک اور عظيم نشان دشمن اسلام ابوجہل اور اس کي قوم کا آپ سے مباہلہ بھي تھا جس نے خود اپنے حق ميں بددعاکرتے ہوئے کہا کہ ’’اے اللہ! اگر يہ شخص (محمدؐ) تيري طرف سے ہے تو ہم پر آسمان سے پتھروں کي بارش برسا يا ہم پردردناک عذاب لے آ۔‘‘ (الانفال: 33) پھر جلد ہي ميدان بدر ميں سنگريزوں کي بارش کے عذاب سے اپنے چوبيس سرداروں سميت ہلاک ہوکر اسلام کي صداقت پر مہر ثبت کرگيا۔

ايک ايسا ہي نشان رسول اللہؐ کے غلام مسيح و مہدي کے زمانہ کےليے بھي مقدر تھا جس کا اشارہ رسول اللہﷺ نے کسرصليب اور قتل خنزيرکي پيشگوئي ميں بھي فرماديا تھا۔

(تتمہ حقيقة الوحي، روحاني خزائن جلد2 صفحہ513)

حضرت مسيح موعودؑ کے الہامات اور فرمودات کي روشني ميں اسي عظيم نشان کي خلافت خامسہ کے بابرکت دور ميں ہونيوالي تکميل کا ذکر يہاں مقصود ہے۔

اسلام کي فتح عظيم کا يہ نشان امريکہ کے شہر شکاگو سے 40 ميل کے فاصلہ پر زائن شہرکے باني، صليبي مذہب کے علمبردار معاندِ اسلام ڈاکٹر ڈوئي سےمقابلہ دعا کے بعد اس کي عبرتناک موت پر 9؍مارچ 1907ء کو اسلام کے فتح نصيب جرنيل حضرت مرزا غلام احمد قاديانيؑ مسيح و مہدي کو عطا ہوا تھا۔ جب ايک طرف عيسائيت کے ايک علمبردار کي شکست سے صليب پاش پاش ہوئي تو دوسري طرف قتل خنزير کي رسول اللہﷺ کي پيشگوئي پوري ہوئي کہ لفظ خنزير ميں يہي اشارہ تھا کہ اس ناپاک شخص کو اچھي باتيں بري لگتي تھيں اور شرک کي نجاست اور جھوٹي باتيں پسند تھيں۔

(ملخص ازضميمہ حقيقة الوحي، الاستفتاء اردو ترجمہ صفحہ163)

يہ کيساتاريخي دن تھا جب ايک سو پندرہ برس بعد 30؍ستمبر 2022ء کو شہر زائن (صيہون) ميں حضرت خليفة المسيح الخامس ايدہ اللہ تعاليٰ مسجد فتح عظيم کا افتتاح فرمارہے تھے۔ اس عالمي نشان کو حضرت مسيح موعود عليہ السلام نے ’’موجب فتح عظيم‘‘ قرار ديا تھا، اسي مناسبت سےجماعت احمديہ امريکہ کي طرف سےتعمير کي جانے والي اس مسجد کا نام بھي حضرت خليفة المسيح الخامس ايدہ اللہ تعاليٰ نے ’’مسجد فتح عظيم‘‘ منظور فرمايا۔

اس بارہ ميں محترم صاحبزادہ مرزا مغفوراحمد صاحب امير امريکہ نے مجھ سے بيان کيا کہ جب مجلس عاملہ امريکہ نے حضور انور کي طرف سے موصولہ مسجد کےتين ناموں ميں سے اس نام ’’فتح عظيم‘‘ کے حق ميں بالاتفاق رائے دي تو حضرت خليفة المسيح الخامس ايدہ اللہ تعاليٰ نے امير صاحب موصوف کوملاقات پر فرمايا کہ يہ مشکل نام ’’فتح عظيم‘‘ جو آپ لوگوں نے پسند کيا ہے وہي رکھ ليں اوريوں يہ ايک تاريخ ساز نام بن گيا۔ کيونکہ ايک صدي قبل ہندوستان سے ہزاروں ميل دور جب امريکہ کے اس گوشہ ميں ظاہر ہونے والے ايسےعظيم نشان کي عظمت و اہميت کا اندازا مکاني و زماني بُعد اور فاصلوں کے باعث اہل مشرق کو کماحقہ نہيں ہوسکتا تھا اس وقت حضرت باني جماعت احمديہ نے اس نشان کو ايشيا، امريکہ، يورپ اور ہندوستان سب کے ليے ايک کھلاکھلا نشان قرار ديا۔

(تتمہ حقيقة الوحي، روحاني خزائن جلد22 صفحہ511)

روشن نشانِ عظيم کي تکميل
اور خليفة المسيح کا زائن ميں ورود مسعود

ڈاکٹر ڈوئي کے عبرتناک انجام کے115 برس بعد اس نشان کي تکميل مسجد فتح عظيم کے افتتاح کي صورت ميں خلافت خامسہ کے بابرکت دور ميں مقدر تھي جس کےليے حضرت خليفة المسيح الخامس ايدہ اللہ تعاليٰ نے اسلام آباد برطانيہ سے ہزاروں ميل کا طويل سفر طے کرکے 26؍ستمبر کو شکاگو تشريف لائے۔مگر امريکہ کے اڑھائي ملين آبادي کے اس تيسرےبڑے پُررونق شہر شکاگو کے کسي ہوٹل يا جماعت شکاگو کے گيسٹ ہاؤس ميں قيام کي بجائے 40 ميل دور زائن کے25 ہزار آبادي کے قصبہ کے مربي ہاؤس ميں رہائش کو ترجيح دي تاکہ دعاؤں کے روحاني مقابلہ کي تکميل کے اس موقع پر جب ڈاکٹر ڈوئي کے شہر کو احمديت کي آغوش ميں لانے کےليے وہاں ايک مسجد تعمير ہوچکي ہے آپ نےبنفس نفيس وہاں قيام فرما کراپني دعائيں انتہا تک پہنچائيں۔

چنانچہ زائن ميں ايک ہفتہ قيام کے دوران يہ مقام ايک قلعۂ دعا بنارہا۔ حضورانور باوجود گلے ميں سوزش کے سبب ناسازئ طبع کے بلاناغہ مسجد فتح عظيم ميں تشريف لاکر پنجگانہ نمازوں کي امامت فرماتے رہے اورآپ کي اقتداء ميں سينکڑوں دعائيں کرنے والوں کي دعاؤں کا ايک شورزائن کي بستي ميں برپارہا جو يقيناً عرش الٰہي تک شرف قبوليت پاتي رہي ہونگي۔يوں اللہ تعاليٰ نےڈاکٹر ڈوئي سےروحاني مقابلہ دعاکے بعدايک دفعہ پھر 2؍فروري 1903ء کے الہام حضرت مسيح موعودؑ سُمِعَ الدُّعَآءُ (تيري دعا سني گئي) کے پورا ہونے کے سامان فرمادئيے۔

منارة المسيح کي طرز پر مينار فتح عظيم

زائن تشريف آوري سے اگلے روز حضور نے مسجد فتح عظيم کي تختي کي نقاب کشائي فرمائي اور اس تاريخي مسجد فتح عظيم کے عالي شان مينار کي بنياد رکھي۔شہر کي انتظاميہ کي طرف سے مسجد کے ساتھ مينارة المسيح کي طرز پر70فٹ اونچا منارہ تعمير کرنے کي بھي منظوري ہوئي ہے۔حضرت مسيح موعودؑ کے اس نشان عظيم کو مختلف رنگوں ميں پورا ہوتے ديکھ کرآپؑ کے يہ مبارک اشعار بے ساختہ زبان پر آتے ہيں:؎

گڑھے ميں تو نے سب دشمن اتارے
ہمارے کردئيے اونچے منارے
مقابل پر مرے يہ لوگ ہارے
کہاں مرتے تھے پر تو نے ہي مارے
شريروں پر پڑے ان کے شرارے
نہ ان سے رک سکے مقصد ہمارے
انہيں ماتم ہمارے گھر ميں شادي
فسبحان الذي الاعادي

ہمارے پيارے امام حضرت مرزا مسرور احمد صاحب نے زائن ميں اپنے خطبہ جمعہ 30؍ ستمبر ميں مسجد فتح عظيم کا افتتاح کرتے ہوئےحضرت بانئ جماعت احمديہ کےاس عالمي نشان کي تکميل کے حوالہ سے فرمايا کہ:
’’حضرت مسيح موعود عليہ الصلوٰة والسلام… نے اللہ تعاليٰ سے اطلاع پا کر ڈوئي کي ہلاکت کي پيش گوئي فرمائي تھی… کہ يہ نشان جس ميں فتح عظيم ہو گي عنقريب ظاہر ہو گا۔ (ماخوذ از حقيقة الوحي، روحاني خزائن جلد22 صفحہ511 حاشيہ) اور دنيا نے ديکھا کہ پندرہ بيس دن کے اندر ہي اللہ تعاليٰ نے اسے ہلاک کر ديا اور بڑي ذلت سے ہلاک کر ديا… آج اس کا اگلا قدم ہے جو اس شہر ميں ہم مسجد کا افتتاح کر رہے ہيں۔ آپؑ کے الہام کے ايک حصہ کو ہم نے تقريباً ايک سو پندرہ سال پہلے پورا ہوتے ديکھا اور اس کا اگلا قدم ہم آج پورا ہوتے ديکھ رہے ہيں۔‘‘

(خطبہ جمعہ بيان فرمودہ 30؍ستمبر 2022ء)

يہ بات اگر چہ مزيد کسي تائيدي ثبوت کي محتاج نہيں ليکن اللہ تعاليٰ بعض دفعہ اپنے بندوں کي تائيدوتسلي اور تسکين قلب کےليے بعض اشارے فرما ديتا ہے۔

اس عاجزکو بھي 30؍ستمبر 2022ء کو افتتاح مسجد فتح عظيم کے تاريخي موقع پرسينکڑوں سعادت مندوں کے ساتھ حضور کي اقتداء اور معيت ميں خطبہ جمعہ سے پہلے اور اس دوران خاص دعاؤں کي توفيق ملي۔ فالحمدللّٰہ

اس سے اگلے روز شام معزز مہمانان کو اس افتتاحي تقريب کے عشائيہ پر مدعوکياگيا تھا۔ يکم اکتوبر کي صبح خواب ميں ديکھا کہ ہمارے پيارے امام حضرت مرزا مسرور احمد صاحب خليفة المسيح الخامس ايدہ اللہ تعاليٰ نے دو عمامے يعني دوہري پگڑي پہني ہوئي ہے۔ آپ کي سفيد پگڑي کے اوپر ايک اور پگڑي ہے۔جس کا ايک پلّو گردن کے پچھلي طرف سے آپ کي سفيد پگڑي ميں پيوست ہورہا ہے۔اوپرکي پيوند شدہ پراني پگڑي کا سفيد رنگ وقت گزرنے سےکريم کلر سا ہوچکا ہے۔ ميں خواب ميں ہي خوشگوار حيرت سے کہتا ہوں کہ يہ پراني پگڑي حضرت مسيح موعود عليہ السلام کي پگڑي ہےاور ہمارے حضورنے دو پگڑياں پہني ہوئي ہيں۔

يہ خواب اسي روز زائن ميں حضورانور کي خدمت ميں تحريراً پيش کردي تھي۔جوکسي تعبير کي محتاج نہيں خصوصاً مسجد فتح عظيم کي ہفتہ کے روز ہونيوالي تقريب کے موقع پريہ نظارہ دکھاياجانانہ صرف معني خيز ہے بلکہ اس ميں بھي ڈاکٹر ڈوئي کےنشان کي تکميل بصورت مسجد فتح عظيم کا بھي اشارہ ہے۔ واللّٰہ اعلم

علامہ ابن سيرين کي تعبيرالرؤياکے مطابق خواب ميں ايک پگڑي کا دوسري پگڑي سے جُڑناقوت و قدرت اور غلبہ و تسلط ميں اضافہ سے عبارت ہے۔

(تفسيرالاحلام جزء1 صفحہ249 مطبوعہ شركة مكتبة ومطبعة مصطفىٰ البابي الحلبي1940ء)

اس لحاظ سےحضرت مسيح موعودؑ کي پگڑي کا ہمارے موجودہ امام کي پگڑي ميں جڑاؤ تو بہت ہي بابرکت معني رکھتا ہے۔ ہمارے معاشرے ميں بھي پگ عزت کي علامت سمجھي جاتي ہے اور ڈاکٹر ڈوئي کي ہلاکت سے دو ماہ قبل جنوري 1907ء ميں حضرت مسيح موعودؑ کو ايک الہام يہ ہوا کہ ’’عنقريب ميں تيري عجيب عزت ظاہر کروں گا…‘‘

نيزاس کے معاً بعد جنوري 1907ء ميں ہي حضورؑ نے اپني ايک رؤيا تحرير کرتے ہوئے فرمايا کہ ’’شريف احمد کو خواب ميں ديکھا کہ اس نے پگڑي باندھي ہوئي ہے اور دوآدمي پاس کھڑے ہيں۔ ايک نے شريف احمد کي طرف اشارہ کرکے کہا کہ وہ بادشاہ آيا۔‘‘

(تذکرہ صفحہ584)

پس خلافت احمديہ کايہ پانچواں نگينہ بھي حضرت بانئ جماعت احمديہ کي انگشتري سے مکمل پيوست ہوکر آپ کي غيرمعمولي برکات حاصل کرنيوالاہے۔ جس کي ظاہري علامت کے طور پر اللہ تعاليٰ نے وہ دو انگوٹھياں بھي ہمارے پيارے امام کو نصيب فرمائي ہيں يعني حضرت مسيح موعودؑ کي ’’اليس اللّٰہ بکاف عبدہ‘‘ والي انگوٹھي اور دوسري ’’موليٰ بس‘‘ والي انگشتري۔

يہ مرتبہ بلند ملا جس کو مل گيا

حسن اتفاق کہ ملاحظۂ نمائش زائن امريکہ کے دوران ايک موقع پر حضور انور نے بعض تبرکات حضرت مسيح موعودؑ ديکھ کر اپني انہي دونوں انگوٹھيوں کي طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمايا کہ ’’ميرے ہاتھ ميں بھي حضرت مسيح موعودؑ کے دو تبرکات ہيں‘‘۔ حضورانور نے اپنے ہاتھ ميں پہني ہوئي دونوں انگوٹھيوں ’’اليس اللّٰہ بکاف عبدہ‘‘ اور ’’موليٰ بس‘‘ کي طرف اشارہ کيا۔ تب نمائش کے مدار المہام مکرم انور محمود صاحب نے بے اختيار ديوانہ وار ايک عالم وارفتگي ميں ان انگوٹھيوں کو چُوم ليا۔ ذٰلِکَ فَضۡلُ اللّٰہِ يُؤۡتِيۡہِ مَنۡ يَّشَآءُ

جہاں تک ڈاکٹر ڈوئي کے 115برس سے جاري عبرتناک انجام کاتعلق ہے وہ احمديت کي ايسي فتح عظيم ہے جسے حضرت مسيح موعودؑ کے الہامات ميں ’’روشن نشان‘‘ بھي قرار ديا گيا ہے۔

(حقيقة الوحي، روحاني خزائن جلد22 صفحہ702)

الٰہي تقديرکے مطابق اس عظيم نشان کي تکميل خلافت خامسہ کے بابرکت دور ميں ہوني تھي جس طرح رسول اللہﷺ کي قيصر و کسريٰ کي فتوحات اوران کے خزانے ملنے کي پيشگوئي مسلمانوں کو آپ کے خليفۂ برحق حضرت عمرؓ کے زمانہ ميں پوري ہوئي۔

1902ء ميں امريکہ ميں ڈاکٹر ڈوئي کے بطور ايليا ثاني اور علمبردار عيسائيت کو پھيلانے اور اسلام کو مٹانے کے بلند و بانگ دعا وي سامنے آئے تو دعا کے نتيجہ ميں اللہ تعاليٰ سے علم پاکر حضرت بانئ جماعت احمديہ نے اسے مباہلہ يعني دعا ميں مقابلہ کا چيلنج ديا اور فرمايا کہ وہ دعوت مباہلہ قبول کرے يا نہ کرے بہرحال جھوٹا سچے کي زندگي ميں ہلاک ہوگا۔

(تتمہ حقيقة الوحي، روحاني خزائن جلد22 صفحہ509)

ڈاکٹر ڈوئي نے اپنے پرچہ ليوزآف ہيلنگ 19؍دسمبر 1902ء ميں لکھا کہ ’’ميرا کام يہ ہے کہ ميں مشرق اور مغرب اور شمال اور جنوب سے لوگوں کو جمع کروں اور مسيحيوں کو اس شہر اور دوسرے شہروں ميں آباد کروں يہاں تک کہ وہ دن آجائے کہ مذہب محمدي دنيا سے مٹايا جائے۔‘‘

(تتمہ حقيقة الوحي، روحاني خزائن جلد22 صفحہ509)

ڈاکٹر ڈوئي کي آواز ميں تعلّي کي ايک شہادت

خاکسار کو ايلانوئے بيچ ہوٹل ميں قيام زائن کے دوران مکرم ڈاکٹر فہيم يونس قریشی صاحب امريکہ نے آرکائيو سے حاصل شدہ ڈاکٹر ڈوئي کي وہ آواز بھي سنائي جس ميں ڈوئي نے تکبرو تعلّي سے دنيا کے ساٹھ ممالک ميں کرسچن کيتھولک چرچ کے پھيل جانے کا ذکر کياہے۔

جيسا کہ حضرت بانئ جماعت احمديہ بھي فرماتے ہيں:
’’ڈوئي نامي شخص امريکہ کے متمول عيسائيوں اور متکبر پادريوں ميں سے ايک تھا اور اس کے ساتھ قريباً ايک لاکھ مريد تھے…وہ ابن مريم کي الوہيت کے اقرار کے ساتھ ساتھ اپني رسالت اور نبوت کا مدعي بھي تھا…وہ روز بروز شہرت،مال اور ماننے والوں کي تعداد ميں بڑھ رہا تھا اور وہ گداگروں کي طرح ہونے کے بعد بادشاہوں جيسي زندگي بسر کرنے لگا…اور اس نے زمين ميں فرعون کي طرح سرکشي کي اور موت کو بھول گيا…اس کے پاس ڈھيروں ڈھير دولت لائي جاتي يہاں تک کہ يہ کہا جانے لگا کہ وہ بادشاہ ہے جو بادشاہوں کي طرح شان و شوکت سے زندگي بسر کرتا ہے اور جب اس کي دولت اپني انتہاء کو پہنچ گئي تو وہ اپنے نفس امارہ کا مطيع ہوگيا اور اس نے اسے پاک نہ کيا اور اس نے شيطان کے بہکانے سے نبوت اور رسالت کا دعويٰ کر ديا…

اور ميں نے اس مفتري (ڈوئي) سے کہا کہ اگر تو ميري اس دعوت مباہلہ کے بعد بھي مباہلہ نہيں کرے گا اور اس کے ساتھ يہ بھي کہ جس نبوت کا تو نے اللہ پر افترا کرتے ہوئے دعويٰ کيا ہے اس سے توبہ نہيں کرے گا تو يہ مت سمجھنا کہ اس حيلہ سے تو بچ جائے گا بلکہ اللہ انتہائي ذلت کے ساتھ شديد عذاب سے تجھے ہلاک کرے گا اور تجھے رسوا کرے گا اور تجھے افترا کي سزا کا مزا چکھائے گا…

يہ مباہلے کا معاملہ کوئي ڈھکا چھپا اور مخفي امر نہ تھا بلکہ زمين کے مشرق، مغرب اور دنيا کے تمام اکناف ميں شرقاً غرباً اور شمالاً جنوباً اس کي اشاعت کي گئي…

ميري دعوت مباہلہ سے قبل يہ شخص بڑي دولت کا مالک تھا۔ميں اس کے خلاف يہ دعا کرتا تھا کہ اللہ اسے ذلت،خواري اور حسرت کے ساتھ ہلاک کرے…

جب اللہ نے اپني تقدير نازل فرمائي تاکہ وہ اس کي تصديق کرے جو ميں نے اس کي زندگي کے انجام کي نسبت کہا تھا تو اس کے عيش اور مسرتوں کا زمانہ پلٹ گيا اور اللہ نے اسے رنج و الم کا درد دکھايا… تمام تر ذلت اور رسوائي کے بعد اسے سر سے پاؤں تک فالج ہوگيا…پھر اسے جنون لاحق ہوگيا۔جس کے نتيجہ ميں اس کي گفتگو ہذيان اور حرکات و سکنات ميں بے چيني غالب آگئي اور يہ اس کي انتہائي رسوائي تھي۔ پھر طرح طرح کي حسرتوں کے ساتھ اسے موت نے آن ليا۔‘‘

(ضميمہ حقيقة الوحي، الاستفتاء اردو ترجمہ صفحہ149-170)

الغرض يہ روحاني مقابلۂ دعا پانچ سال تک دنيا کے اخبارات کي زينت بن کرشہرت پاتا رہا يہاں تک کہ اللہ تعاليٰ نے 1907ء ميں ڈاکٹر ڈوئي کے عبرتناک انجام سے اس نشان کو دنيا ميں روشن کرديا۔

اس موقع پرحضرت بانئ جماعت احمديہ نے ڈوئي کے بارہ ميں خدائي وعدہ پورا ہونے پرمسرّت کا اظہار کرتے ہوئے اہل انصاف کو اس نشان پر غور کرنے کي طرف توجہ دلاتے ہوئے فرمايا:
’’پھر جب ہمارے رب کا وعدہ آگيا تو اچانک ڈوئي مرگيا اور باطل بھاگ گيا اور حق غالب آيا… اور اللہ کي قسم!اگر مجھے سونے يا موتيوں يا ياقوت کا پہاڑ بھي دياجاتا تو مجھے ہرگزخوش نہ کرتا جيسا اس مفسد اور کذاب کي موت کي خبر نے خوش کيا۔ کيا کوئي ايسا منصف ہے جو خدائے وھّاب کي طرف سے آنيوالي اس فتح عظيم کو ديکھے اور اس پر غور کرے۔‘‘

(ضميمہ حقيقة الوحي، الاستفتاء اردو ترجمہ صفحہ171)

حضرت مسيح موعودؑ نے اس نشان کے گواہ کے طور پر اس زمانہ ميں دنيا کے مختلف 32 انگريزي اخبارات کے نام مع حوالہ درج کرتے ہوئے تحرير فرمايا ہے کہ ’’يہ اخبار صرف وہ ہيں جو ہم تک پہنچے ہيں اس کثرت سے معلوم ہوتا ہے کہ سينکڑوں اخباروں ميں يہ ذکر ہوا ہوگا۔‘‘

(تتمہ حقيقة الوحي، روحاني خزائن جلد22 صفحہ506-508)

حضرت مسيح موعودؑ کي اس بات کي صداقت آج خلافت خامسہ کے بابرکت عہد ميں يوں ظاہر ہوئي کہ اب تک 160 ايسے اخبارات دستياب ہو چکے ہيں جو نمائش زائن کي زينت ہيں اور ايسي عمدگي اور خوبصورتي سے دور حاضر کي تکنيکي سہوليات کےباوصف نمائش ميں کمپيوٹر پر ميسر ہيں کہ جس ملک کے نام پر انگلي رکھي جائے وہاں کے اخبارات آپ کے سامنے آ جاتے ہيں۔

يہ ان نشان عالي شان کي تکميل کا وہ شاندار پہلو ہے جسے الٰہي تقدير ميں خلافت خامسہ سے وابستہ کرديا گيا کہ حضرت مسيح موعود عليہ السلام کے قلم سے نکلي ہوئي يہ بات آپ کے دور ميں پوري ہوکر اس نشان صداقت کي عظمت بڑھارہي ہے۔

ڈاکٹر ڈوئي کا غرور و تکبر اپنے عروج کے زمانہ ميں کسي فرعون سے کم نہ تھا جيساکہ حضرت مسيح موعودؑ نے فرمايا کہ اس نے زمين ميں فرعون کي طرح سرکشي کي۔

(ضميمہ حقيقة الوحي، الاستفتاء روحاني خزائن جلد22 صفحہ686)

وہ محمديؐ مسيح حضرت باني جماعت احمديہ کو اپنے مقابل پر مکھي يا مچھر سے بھي حقير جانتے ہوئے اپنے پاؤں کے نيچے کچل دينے کا دعويٰ کرتا تھا مگر اس کا اپنا انجام کيسا عبرتناک ہوا۔ حضرت خليفة المسيح الخامس ايدہ اللہ تعاليٰ بنصرہ العزيز نے مسجد فتح عظيم زائن کے ہال ميں لگي نمائش ملاحظہ فرماتے ہوئے ڈاکٹر ڈوئي کے عبرتناک انجام کے بارہ ميں شواہداور اخباري تراشے وغيرہ ديکھ کر فرمايا کہ موسيٰ کے زمانہ ميں فرعون تھا جس کي مميMummy کو محفوظ کيا گيا، آج ڈوئي کے ان نوادرات کو جمع کرکے آپ نےاس نشان کو بھي محفوظ کرديا ہے۔

(سيدنا حضرت امير الموٴمنين حضرت خليفة المسيح الخامس ايدہ اللہ تعاليٰ
کادورہٴ امريکہ 2022ء۔ رپورٹ مکرم عبدالماجد طاہر صاحب قسط دوم
ماخوذ از الفضل آن لائن)

ڈاکٹر ڈوئي کے بارہ ميں حضرت مسيح موعودؑ کے الہامات (1902ء تا1907ء) کا بغور مطالعہ کرتے ہوئےجب يہ بات کھل کرسامنے آئي کہ خلافت خامسہ کے بابرکت دورميں اس نشان کي تکميل کے موقع پروہ الہام آپؑ کے برحق جانشين کے دور ميں ايک بارپھر الٰہي شان کے جلوے دکھارہے ہيں توخوشي کي انتہا نہ رہي خصوصاً جب وہ الہامات اور پيشگوئياں اپني آنکھوں کے سامنے پوري ہوتي ديکھيں جن کا ذکر يہاں بطور تحديث نعمت ضروري ہے۔

عزت واکرام

ڈاکٹر ڈوئي کے بارہ ميں الہامات کے ضمن ميں ايک الہام 18جنوري 1905ء کويہ ہوا: ’’سنعليک۔ساکرمک اکراما عجبا‘‘ (ضميمہ حقيقة الوحي، روحاني خزائن جلد22 صفحہ702) يعني ہم تجھے جلد ہي غالب کريں گے۔ عنقريب ميں تجھے بزرگي دوں گا جس سے لوگ تعجب کريں گے۔

(تذکرہ صفحہ 441)

يہ الہام بے شک ڈاکٹر ڈوئي کي ہلاکت پر بڑي شان سے 115برس قبل 1907ءميں پورا ہوا۔ دوبارہ اب 2022ء ميں اس نشان کي تکميل کے موقع پر حضور کے حاليہ دورہ ميں بھي امريکہ ميں شکاگو ائير پورٹ پر حضور کے شاندار استقبال والوداع کے وقت غيرمعمولي اکرام و عزت کي صورت ميں اس الہام کي جلوہ گري ہوئي۔

جس کي تفصيلات حضور کے دورہٴ امريکہ کي شائع ہونيوالي رپورٹس مرتبہ مکرم عبدالماجد طاہر صاحب کي قسط اول ميں شائع ہوچکي ہيں کہ کس طرح متعلقہ ائيرلائن کے مينيجر اور ائيرپورٹ کے مينيجر اور لوکل پوليس چيف اور وي آئي پي استقبال کے انچارج نے جہاز کے دروازے پر حضور کا استقبال کيا اور ايک خاص پروٹوکول کے ساتھ حضور کو اپنے ساتھ خصوصي لاؤنج ميں لائے۔

اور يہ تو صرف اس بابرکت تاريخي سفر کے محض روز اول کا ذکر ہے دراصل اس سارے سفر افتتاح فتح عظيم ميں ہي حضور انور کے ليے غير معمولي عزت و اکرام کے سامان ہوتے رہے۔

زائن سے واپسي کے وقت الوداعي نظاروں کے جذباتي مناظر بھي اپني مثال آپ تھے۔ ميں نے بہت قريب سے ديکھا کہ محبّان خلافت کيا مرد، کيا عورتيں اورکيا بچے ديوانہ وار اپنے آقا کو دعاؤں سے رخصت کرنے امڈ آئے تھے۔ بوقت دعاان کي آنکھوں سے آنسورواں تھے تو بوقت رخصت ’’اني معک يامسرور‘‘ کے پرجوش نعرے زائن ميں گونج رہے تھے۔

اس موقع پر جماعت احمديہ امريکہ نے) زائن (شکاگو سے ڈيلس تک سفر کےليے American Airlines کے ايک چارٹرڈ جہاز ERJ175 کا انتظام کيا تھا۔ جسے شکاگوائيرپورٹ کے لاؤنج کے سامنے چند قدم پر پارک کيا گيا تھا۔حضور انور کي آمد سے قبل سفر کرنے والے تمام احباب کا سامان جہاز ميں لوڈ کيا جاچکا تھا۔ کيا خوش قسمت تھے حضور کي معيت ميں اس جہاز ميں سفر کرنے والے وہ 69 احباب جن ميں حضرت خليفة المسيح الخامس ايدہ اللہ، حضرت بيگم صاحبہ مدظلہاالعالي اور قافلہ کے ممبران کے علاوہ امير جماعت احمديہ امريکہ صاحبزادہ مرزا مغفور احمد صاحب مع بيگم صاحبہ اور ارکان قافلہ ميں امير صاحب امريکہ کے نائب امراء اور عاملہ کے ممبران، صدر مجلس خدام الاحمديہ امريکہ، مختلف جماعتوں کے صدران، مربيان، نيشنل عاملہ کے مختلف سيکرٹريان اور ديگر جماعتي عہديداران بھي شامل تھے۔

امريکن ائيرلائن کے Eric Adduchio بطور کوآرڈي نيٹر اس سفر ميں شامل تھے۔

ان خوش نصيب مسافروں کوجو بورڈنگ پاس مہيا کيا گيا اس پر Khilafat Flight 2022 لکھا ہوا تھا۔ فلائٹ کا نمبر KF-2022ء تھا۔بورڈنگ کارڈ کے ايک طرف يہ الفاظ درج تھے:

Ahmadiya Muslim Community USA (100) 1920 – 2020 Centennial Khilafat Flight in the company of Hazrat Mirza Masroor Ahmad Khalifatul Masih 5 (aba).

يعني جماعت احمديہ امريکہ کے 1920ء تا 2020ء کے سوسال پورے ہونے پر حضرت خليفة المسيح الخامس ايدہ اللہ تعاليٰ کي معيت ميں خلافت فلائٹ۔

جہاز پر سوار ہونے سے قبل، سفر کرنے والے تمام احباب جہاز کے سامنے کھڑے تھے۔حضورانور ايدہ اللہ تعاليٰ کي تشريف آوري پرتمام احباب کو اپنے پيارے آقا کے ساتھ گروپ فوٹو کي سعادت نصيب ہوئي۔

(دورہٴ امريکہ 2022ء قسط7 رپورٹ:مکرم عبدالماجد طاہر صاحب
ماخوذ از الفضل آن لائن)

اورپھريہ پرواز شکاگو سے ڈيلس کےليے روانہ ہوئي جہاں ايک اور شاندار استقبال خليفة المسيح کا منتظر تھا۔

مگر اس تمام تر اکرام کے باوجود اس عاجز نے حضورانورکوآپ کےطبعي تواضع و انکسار کے باعث ہميشہ ان تکلفات سے بے رغبت ہي ديکھا ہے کيونکہ آپ اپنے آقاؑ کے اس مسلک پر قائم ہيں:؎

مجھ کو کيا ملکوں سے ميرا ملک ہے سب سے جدا
مجھ کو کيا تاجوں سے ميرا تاج ہے رضوان يار

مگراس ميں کيا شک ہے کہ رضائے باري کا تاج جس کے سر پر رکھا جاتا ہے دنيا بھي اس کے قدموں کے نيچے آجاتي ہے۔

کسي نے کيا خوب کہا ہے:؎

خاکسار ان جہاں را بحقارت منگر
توچہ داني کہ درين گرد سوارے باشد

کہ دنيا کے کسي خاک آلود انسان کو حقارت کي نظر سے نہ ديکھو تمہيں کيا معلوم کہ اس گرد ميں چھپا کوئي شہسوار موجود ہو۔

عاجز نے بچشم خود ديکھا کہ مسجد فتح عظيم کي شاندار تقريب افتتاح يکم اکتوبر 2022ء کوبانئ زائن ڈاکٹر ڈوئي کے شہر ميں برپا ہوئي (جو اسلام اور مسلمانوں کو مٹانے کے درپے تھا) آج اسي شہر زائن کا ميئر ازراہ عزّت واکرام اسلام کے بطل جليل حضرت مسيح موعود کے خليفۂ خامس کي خدمت ميں اسي شہر کي کليد پيش کررہاتھا۔حضور نے بھي ان کا نہايت خوبصورت شکريہ اداکرتے ہوئے فرمايا کہ ’’اب يہ چابي محفوظ ہاتھوں ميں ہے‘‘

کيايہي واقعہ اس بات کا منہ بولتا ثبوت نہيں کہ اس روز کاسر صليب حضرت مسيح موعودؑ کے پانچويں خليفہ کے ذريعہ علمبردار صليب کے تابوت ميں آخري علامتي کيل بھي ٹھونک ديا گيا اور يوں رسول کريمﷺ کي کسر صليب کي پيشگوئي ايک رنگ ميں پھر پوري ہوئي جس کے بارہ ميں حضرت مسيح موعودؑ نے فرمايا تھا کہ ڈوئي کي عبرتناک انجام سے کسرصليب کا ايک بڑا حصہ بھي پورا ہوا۔

(ملخص ازتتمہ حقيقة الوحي، روحاني خزائن جلد22 صفحہ513)

ايسا ہي ايک اور الہام حضرت مسيح موعودؑ کو ڈاکٹر ڈوئي کي نسبت يہ ہوا تھا کہ ’’ميں وہ نشان ديکھ رہا ہوں جوعيسائيوں کے کليسيا کي قوت کو توڑ دے گا۔‘‘

(ضميمہ حقيقة الوحي، الاستفتاء اردو ترجمہ صفحہ174)

بےشک 115برس قبل بھي حضرت مسيح موعود عليہ السلام کے زمانہ ميں کسر صليب کا يہ نشان ڈاکٹر ڈوئي سے دعا کے روحاني مقابلہ سے ظاہر ہوا تھا مگريکم اکتوبر2022ء کو مسجد فتح عظيم کي تقريب افتتاح ميں خود عيسائي زعماء نے آکر اسلام کي فتح کابزبان حال اقرار کرتے ہوئے شہر کي چابي آپ کے حوالے کردي جوبلاشبہ اس فتح عظيم کا ايک حصہ ہے۔جس کي يہ مزيددلچسپ تفصيل بھي سامنے آئي کہ ميئر شہر نے کليد شہر اس محترم ومعزز مہمان کي خدمت ميں پيش کرنے سے قبل اپنے ديگرساتھي عيسائي ممبران کي متفقہ رائے سے يہ فيصلہ کياتھا اورايساکيوں نہ ہوتا آخر ’’فتح عظيم‘‘ کا يہ واقعہ بمقابلہ عيسائيت اسلام کي حقانيت کا نشان بننے والا تھا۔

پھرميئر شہر نے حضور انور کي خدمت ميں ايک استقباليہ ايڈريس بھي اپنے اور اہل شہر کي طرف سے پيش کيا جس ميں جماعت کي خدمات کا اعتراف اور شکريہ ادا کرتے ہوئے برملا اقرار کيا کہ اس جماعت نے اپنے خليفہ کي بابرکت قيادت ميں امن انصاف عالمي انساني حقوق اور انسانيت کي خدمت کے پيغام کے ساتھ تمام مذاہب کے لوگوں تک رسائي حاصل کي ہے۔ فالحمدللّٰہ

تقريب افتتاح فتح عظيم کے موقع پر حضرت مسيح موعود عليہ السلام کے اس عظيم الشان خليفہ کے اعزاز و اکرام کے جو سامان اللہ تعاليٰ نے حسب وعدہ فرمائے ان ميں ان قابل قدر مہمانوں کے وہ خطاب قابل ذکر ہيں جن کے بغير يہ مضمون تشنہ رہے گا،جن ميں واقعہ ڈوئي کے نشان کو جماعت کي صداقت کا شاہکار قرار ديا گيا۔

ممبر آف ايلانوئس جنرل اسمبلي نے مسجد فتح عظيم کو احمديوں کي دعاؤں کي فتح کي اس علامت پرمبارکباد ديتے ہوئے کہا:
’’يہ واقعي اس شہر کےليے ايک خاص دن ہے۔زائن کي بنياد پچھلي صدي کے آغاز ميں اليگزينڈر ڈوئي نے رکھي تھي۔۔۔جس کے دروازے اس کے ماننے والوں کے علاوہ باقي ہر ايک کےليے بند تھے۔۔۔آج زائن شہر مختلف مذاہب سے تعلق رکھنے والے پچيس ہزار لوگوں کا گھر ہے۔يہ مسجد متعصبين کے بارہ ميں مومنوں کي دعاؤں کي فتح کي علامت ہے۔ميں احمديہ مسلم کميونٹي کو اس شاندار کاميابي پر مبارکباد پيش کرتي ہوں۔‘‘

(دورہ امريکہ 2022ء قسط 6 رپورٹ مکرم عبدالماجد طاہر صاحب
ماخوذ از الفضل آن لائن)

اس تاريخي موقع پر آنريبل راجہ کرشن مورتي نے خليفة المسيح کے قرار واقعي عزت و اکرام کا اظہار يوں کيا:
’’ميں عزت مآب خليفہ اور ان کي کاميابيوں کے بارے ميں گھنٹوں بول سکتا ہوں اور ميں آپ کي يہاں آمد سے بہت متاثر ہوا ہوں اور آج کا دن تاريخ ميں ياد رکھا جائيگا۔‘‘

(دورہ امريکہ 2022ء قسط 6۔ رپورٹ مکرم عبدالماجد طاہر صاحب
ماخوذ از الفضل آن لائن)

ڈاکٹر کترينہ (Katrina Lantos Swett) چيئرمين Lantos فاؤنڈيشن فارہيومن رائٹس ايند جسٹس نے حضرت بانئ جماعت احمديہ اور آپ کے خليفہ کو مباہلہ کي ايک عظيم الشان فتح پر خراج تحسين پيش کرتے ہوئے کہا:
’’يقيناً يہ مسجد جس کا افتتاح ہونے جارہا ہے جس کا نام فتح عظيم مسجد رکھا گيا ہے اس کا مطلب ہي ايک عظيم الشان فتح ہے جوکہ اس مباہلہ ميں جماعت احمديہ اور حضرت بانئ جماعت احمديہ کے حصہ ميں آئي۔‘‘

انہوں نے حضرت يوسفؑ کے بھائيوں کے واقعہ کي مثال ديتے ہوئے کہا کہ
’’اب جب ميں يہ خوبصورت مسجد ديکھتي ہوں جو اس مباہلہ والي جگہ زائن ميں تعمير کي گئي ہے تو مجھے وہي يوسفؑ والا واقعہ ياد آجاتا ہے کہ ڈاکٹر جان اليگزينڈر ڈوئي نے بُرا چاہا تھا ليکن خدا نے بھلا کرديا اور عظيم الشان فتح جماعت احمديہ کے حصہ ميں آئي۔‘‘

(دورہ امريکہ 2022ء قسط 6۔رپورٹ مکرم عبدالماجد طاہر صاحب
ماخوذ از الفضل آن لائن)

آرہي ہے اب تو خوشبو ميرے يوسف کي مجھے
گو کہو ديوانہ ميں کرتا ہوں اس کا انتظار

مگر ان تمام خطابات کے آخر ميں ہمارے پيارے امام کا تاريخي خطاب ان سب تقريروں پر بھاري تھا۔ بلکہ اس سے ايک روزقبل نہايت پُرمغرز جامع خطبہ جمعہ بھي خلافت احمديہ کے اعزاز و اکرام کا منہ بولتا ثبوت تھا۔

مسجد فتح عظيم کے تقريب افتتاح کے موقع پر حضور نے ايک سو اکسٹھ معززين و اکابرين کے اجتماع ميں جملہ شاملين کا شکريہ ادا کيا اور کي تعمير کا مقصد اور پس منظر بيان کيا۔آپ نے احمدي مسلمانوں اور ديگر مسلمانوں ميں بھي فرق بيان کرتے ہوئے فرمايا:
’’قرآن کريم اور رسول کريم ﷺ کي۔۔۔ ايک عظيم الشان پيشگوئي ہے۔ يہ مقدر تھا کہ کئي صدياں گزر جانے کے بعد مسلمان اسلامي تعليمات سے دور ہٹ جائيں گے اور آخر کار مسلمانوں کي اکثريت اسلامي تعليمات کو چھوڑ دے گي اور صرف نام کے ہي مسلمان رہ جائيں گے۔ ساتھ ہي اللہ تعاليٰ اور رسول کريم ﷺ نے يہ بھي خوشخبري دي کہ اس روحاني زوال کے دور ميں اللہ تعاليٰ اسلام کي اصل تعليمات کو از سر نو زندہ کرنے کے ليے ايک موعود مصلح کو بھيجے گا جس کو مسيح محمدي کا خطاب ديا جائےگا۔ وہ مسيح دنيا کو بتائےگا کہ اسلامي تعليمات تو امن، محبت اور ہم آہنگي کي تعليمات ہيں۔ وہ مسيح لوگوں کو تلقين کرے گا کہ ايک دوسرے کے ساتھ مل کر پر امن طور پر زندگي گزاريں اور ايک دوسرے کے ساتھ مذ ہبي اختلافات سے بالا ہو کر باہمي پيار اور محبت کے تعلقات قائم کر يں۔ چنانچہ احمدي مسلمان ہونے کے ناطے ہمارا پختہ يقين ہے کہ اس جماعت کے باني حضرت مرزا غلام احمد قادياني عليہ السلام وہي موعود مسيح اور مہدي ہيں جن کے متعلق قرآن کريم اور رسول کريمﷺ نے پيشگوئي فرمائي تھي…

حضرت باني سلسلہ احمديہ نے ساري زندگي اپنے پيروکاروں کو پيار، ہمدردي اور احسان پر مشتمل اسلامي تعليم پر عمل پيرا رہتے ہوئے تبليغ اسلام کرنے اسلام کا پيغام پہنچانے اور لوگوں کے دل و دماغ جيتنے کي تلقين فرمائي…

ہمارا واحد مقصد اور تمنا يہي ہے کہ پيار کے ذريعہ بني نوع انسان کے دلوں کو جيتا جائے اور ان کو خدا تعالي کے قريب کيا جائے تاکہ وہ اس کے حقيقي بندے بن سکيں اور ايک دوسرے کے حقوق ادا کر سکيں۔۔۔

دنياوي و سياسي طاقتوں سے مکمل بے رغبتي ہي جماعت احمد يہ مسلمہ کا شروع سے طرہ امتياز رہا ہے اور آئندہ بھي رہے گا۔ ہم تو صرف اسلام کي محبت اور امن کي تعليمات پھيلانا چاہتے ہيں جو کہ ہم گزشتہ ايک سو تيس سے زائد برس سے کر رہے ہيں اور اللہ تعاليٰ کے فضل سے ہر سال دنيا بھر سے ہزار ہالوگ ہماري جماعت ميں شامل ہوتے ہيں۔ ہمارا کسي مذہب يا قوم يا شخص سے کوئي بغض و عناد يا لڑائي نہيں ہے۔ بلکہ جو لوگ اللہ تعاليٰ کے مقابل کھڑے ہوتے ہيں اور اس کے مذہب کو تباہ کرنا چاہتے ہيں، ان کے ليے بھي ہمارا رد عمل يہ نہيں ہو تا کہ ان کے خلاف ہتھيار اٹھاليے جائيں يا ان پر کسي قسم کا جبر کيا جائے۔ بلکہ اس کے بر عکس ہمارا رد عمل صرف يہي ہو گا کہ ہم کامل عاجزي کے ساتھ خداتعالي کے حضور جھکيں گے۔ ہمارا واحد ہتھيار تو دعا ہي ہے اور ہميں يقين ہے کہ خدا تعاليٰ ہماري دعاؤں کو سنتا ہے۔ يقيناً ہماري جماعت کي ايک سو تينتيس سالہ تاريخ اس حقيقت پر گواہ ہے۔‘‘

حضورانور نے آزادئ مذہب و ضمير کے بارہ ميں اسلامي تعليم کا ذکر کرتے ہوئے اسلام کي دفاعي جنگوں کا ذکر کيا۔ جن کا مقصد مسلمانوں کے خلاف جنگ کرنيوالوں کو روکنا اور تمام مذاہب کي عبادتگاہوں کي حفاظت کرنا ہے۔حضور نے فرمايا کہ:
’’ميري نظر ميں تمام مذاہب کا تحفظ اور حقيقي مذہبي آزادي کا قيام دراصل دنيا ميں امن قائم کرنے کي بنياد ہے۔ اس حوالہ سے ميں امريکي حکومت کے اس اقدام کو سراہتا ہوں کہ سٹيٹ ڈيپارٹمنٹ کے تحت آفس آف انٹر نيشنل ريليجس فريڈم قائم کيا گيا ہے۔ جو کہ اب عالمي سطح پر مذہبي آزادي کو فروغ دينے کے ليے ہر سال انٹر نيشنل کا نفر نس کا اہتمام کر تا ہے۔‘‘

مسجد فتح عظيم زائن کا ذکرکرتے ہوئے آپ نے فرمايا کہ:
’’زائن شہر کي بنياد ايک Evangelist عيسائي، مسٹر اليگزينڈر ڈوئي نے رکھي، جس نے خدا کي طرف سے مامور ہونے کا دعوي کيا تھا۔۔۔مسٹر ڈوئي اسلام کي سخت مخالفت اور مسلمانوں سے نفرت کا اظہار کر تا تھا۔۔۔جب حضرت مسيح موعود عليہ السلام کو مسٹر ڈوئي کي اسلام اور باني اسلام ﷺ کے خلاف ہرزہ سرائي کا علم ہوا تو آپ عليہ السلام نے باہمي احترام ملحوظ رکھتے ہوئے اسے دليل سے قائل کرنے کي کوشش کي کہ وہ تحمل کا مظاہرہ کرے اور مسلمانوں کے جذبات کا خيال کرے۔ اس کے بر خلاف مسٹر ڈوئي اسلام کے مقابل کھڑ ا ہو گيا اور کھل کر اسلام کے نابود کرنے کي خواہش کي۔ مثلاً لکھتا ہے کہ ميں خدا سے دعا کر تاہوں کہ وہ دن جلد آوے کہ اسلام دنيا سے نابود ہو جاوے۔ اے خدا تو ايساہي کر۔ اے خدا اسلام کو ہلاک کر دے۔

پھر اپني تحريرات ميں مسٹر ڈوئي نے بڑے فخريہ انداز ميں اس کو عيسائيت اور اسلام کے مابين عظيم جنگ قرار ديا۔ اس نے لکھا کہ اگر مسلمان عيسائيت قبول نہ کريں تو وہ ہلاکت و تباہي ميں مبتلا ہوں گے…

چنانچہ آپ عليہ السلام نے فرمايا کہ مسلمانوں کي ہلاکت و تباہي کي دعا کرنے کي بجائے مسٹر ڈوئي يہ دعا کرے کہ ہم دونوں ميں سے جو جھوٹا ہے وہ دوسرے کي زندگي ميں مر جائے۔ يہ دراصل ايک ہمدردانہ فعل اور حالات کو بہتر کرنے کا ذريعہ تھا۔ بجائے اس کے کہ تمام مسلمانوں اور عيسائيوں کو ايک دوسرے کے مقابل کھڑا کر ديا جائے، حضرت اقدس مسيح موعود عليہ السلام نے اس بات پر زور ديا کہ آپ اور مسٹر ڈوئي دعا کا سہارا ليں اور معاملہ اللہ تعاليٰ کے ہاتھ ميں چھوڑ ديں…

يہ سچائي جاننے کا ايک مناسب اور پرامن ذريعہ تھا۔ اگر يہ کہا جائے کہ يہ عداوت اور اشتعال انگيزي کے مقابلہ پر صبر کا کامل نمونہ تھا تو اس ميں کوئي مبالغہ نہ ہو گا…

اور تمام دنياوي بے سرو ساماني کے باوجود جلد ہي نتائج آپ عليہ السلام کے حق ميں پلٹ گئے۔ پے در پے ايسے واقعات ہوئے کہ ڈوئي کي حمايت جاتي رہي اور اس کي دولت، جسماني اور ذہني صلاحيتيں ختم ہو گئيں۔ بالآخر وہ اپنے انجام کو پہنچا جس کو يو ايس ميڈيا نے ’’افسوسناک انجام‘‘ قرار ديا۔ يقينا ًاس وقت کا يوايس ميڈ يا خراج تحسين کے لائق ہے جس نے ايمانداري سے اس کي رپورٹنگ کي۔۔۔‘‘

حضور انور نے فرمايا:
’’ہم مسجد فتح عظيم کا حقيقي مذہبي آزادي کے نشان کے طور پر افتتاح کر رہے ہيں۔ اس کے دروازے اس سنہري پيغام کے ساتھ کھولے جارہے ہيں کہ تمام افراد اور کميونيٹيز کے مذہبي حقوق اور پر امن عقائد کا ہميشہ خيال رکھا جائے گا اور ان کا تحفظ کيا جائے گا۔‘‘

(افتتاحي خطاب حضور انور موٴرخہ 2؍اکتوبر 2022ء
ماخوذ از رپورٹ دورہٴ امريکہ قسط 6 الفضل آن لائن)

حضورانور کے اس خطاب کو نہايت عزت اور احترام بگوش وہوش سن کربرملا طور اس کي تعريف کي گئي جيسا کہ اس موقع پر تاثرات بيان کرتے ہوئے اپنوں اور غيروں نے اظہار کيا اور جس کا آگے بھي ذکرہوگا۔

(باقی کل ان شاءاللہ)

(علامہ ايچ۔ ايم۔ طارق)

پچھلا پڑھیں

جامعہ احمدیہ تنزانیہ کا اسپورٹس ڈے

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 21 نومبر 2022