• 19 مئی, 2024

جلسہ سالانہ ربوہ کی یاد میں

نئے اک موڑ پہ لوگو!! ہمیں تقدیر لاتی ہے
افق پر اک افق ہم کو یہیں قسمت دکھاتی ہے
میں تشبیہات دیتا ہوں ادب سے اور قرینے سے
یہ ربوہ ہے مرے پیارے!! اسے نسبت مدینے سے
مہاجر ہم ہوئے یارو!! کہ ہجرت رنگ لاتی ہے
افق پر اک افق ہم کو یہیں قسمت دکھاتی ہے
وه جلسے کے سہانے دن وه عرفاں کی حسیں راتیں
وه مہمانوں کی آمد تھی، وه کتنی تھیں ثمیں راتیں
دسمبر کی ہوا آ کے وه لمحے دوہراتی ہے
افق پر اک افق ہم کو یہیں قسمت دکھاتی ہے
وہ جو انجان ہوتے تھے، کہاں انجان ہوتے تھے
یہاں بچھتی پرالی تھی، یہاں مہمان ہوتے تھے
وہ دن پھر لوٹ آئیں گے، تمنا مسکراتی ہے
افق پر اک افق ہم کو یہیں قسمت دکھاتی ہے
پھر اخلاص و محبت میں وه دنیا کا چلے آنا
پھر آقا سے ملاقاتیں پھر آنے کا ثمر پانا
محبت تھی، محبت ہے، یہ اک آواز آتی ہے
افق پر اک افق ہم کو یہیں قسمت دکھاتی ہے
وه ہم سے پھر مخاطب ہیں، وہی پر کیف عالم ہے
دسمبر کے مہینے کا دھندلکا کتنا ظالم ہے
کبھی صورت دکھائی دے، کبھی رک رک سی جاتی ہے
افق پر اک افق ہم کو یہیں قسمت دکھاتی ہے
خدا کی حمد کے دل نے ترانے خوب گائے ہیں
کہ اس نے دور درشن سے ہمیں آقا دکھائے ہیں
بھلائے دل نہیں بھولے کہ اتنی یاد آتی ہے
افق پر اک افق ہم کو یہیں قسمت دکھاتی ہے
اسی کے فضل سے جشن بہاراں ہم منائیں گے
گلی کوچوں محلوں کو چراغاں سے سجائیں گے
مگر ان کے گھروں میں تو دیا ہے اور نہ باتی ہے
افق پر اک افق ہم کو یہیں آ کر دکھاتی ہے
ہمیں جو آگہی حاصل، انہیں اٹکل پہ چاره ہے
نشاں دے کر ہمیں سارے، انہیں بے موت مارا ہے
یقیں محکم ہمیں حاصل، وہاں سب بے ثباتی ہے
افق پر اک افق ہم کو یہیں قسمت دکھاتی ہے
دلوں میں موجزن دیکھو!! سونامی ہی سونامی ہیں
ترے در پر رؤسا بھی طلبگار غلامی ہیں
یہیں پہ نبض چلتی ہے، یہیں پہ سانس آتی ہے
افق پر اک افق ہم کو یہیں قسمت دکھاتی ہے
ستارے ٹمٹماتے ہیں، وه جب جب یاد آتا ہے
دلوں کے پار، اے جاناں!! جونہی وه مسکراتا ہے
کوئی قوس قزح جیسے اچانک جھلملاتی ہے
افق پر اک افق ہم کو یہیں قسمت دکھاتی ہے
خدواندا!! انہیں اپنی اماں میں تو سدا رکھنا!!!
فرشتوں سے حفاظت کا تو اس پہ دائره رکھنا!!!
اسے تو خود ہنساتا ہے جسے دنیا رلاتی ہے
افق پر اک افق ہم کو یہیں قسمت دکھاتی ہے

(اطہر حفیظ فراز)

پچھلا پڑھیں

جلسہ ہائے سالانہ ٹرینیڈاڈوٹوباگو

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 21 دسمبر 2021