• 3 مئی, 2024

قوتِ ارادی اور قوتِ عملی ہی دو بنیادی چیزیں ہیں جو عملی اصلاح پر اثر انداز ہوتی ہیں

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:
جیسا کہ مَیں نے کہا کہ اب تو ناچ کے نام پر بیہودگی کی کوئی حدنہیں رہی۔ ننگے لباسوں میں ٹی وی پر ناچ کئے جاتے ہیں۔ یہ کیوں پھیلا؟ صرف اس لئے کہ برائی پھیلانے والے باوجود دنیا کے شور مچانے کے کہ یہ برائی ہے، برائی پھیلانے پر استقلال سے قائم رہے اور دنیا کی باتوں کی کوئی پرواہ نہیں کی۔ آخر ایک وقت میں یہ کامیاب ہو گئے۔ اب تو پاکستان جو مسلمان ملک ہے اُس کے ٹی وی پر بھی تفریح کے نام پر، آزادی کے نام پر بیہودگیاں نظر آتی ہیں، ننگ نظر آتا ہے۔ گویا برائی اپنے استقلال کی وجہ سے دنیا کے ذہنوں پر حاوی ہو گئی ہے۔ پس اس کے مقابلے پر آنے کے لئے بہت بڑی منصوبہ بندی اور قربانی کی ضرورت ہے۔ اگر یہ نہ ہوئی تو پھر ہم اپنے مقصد میں کامیاب نہیں ہو سکتے۔

پس بہت سوچنے اور غور کرنے اور محنت کرنے کی ضرورت ہے۔ اُن چیزوں کو اپنانے کی ضرورت ہے جن کو اپنا کر ہم یہ روکیں دُور کر سکتے ہیں۔ جن کو استعمال میں لا کر ہمارے اندر یہ روکیں دور کرنے کی طاقت پیدا ہو سکتی ہے جس کی وجہ سے ہم برائیوں کا مقابلہ کر سکتے ہیں۔ اس کے حصول کے لئے حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بڑے عمدہ رنگ میں وضاحت فرمائی ہے کہ اگر عملی اصلاح کے لئے یہ باتیں انسان میں پیدا ہو جائیں تو تبھی کامیابی مل سکتی ہے اور یہ تین چیزیں ہیں۔ نمبر ایک قوتِ ارادی۔ نمبر دو صحیح اور پورا علم اور نمبر تین قوتِ عملی۔ لیکن اصل بنیادی قوتیں دو ہیں۔ قوتِ ارادی اور قوتِ عملی۔ جو چیز ان دونوں کے درمیان میں رکھی گئی ہے یعنی صحیح اور پورا علم ہونا، یہ دونوں بنیادی قوتوں پر اثر ڈالتی ہے۔ علم کا صحیح ہونا قوتِ عملی پر بھی اثر ڈالتا ہے اور قوتِ ارادی پر بھی اثر ڈالتا ہے۔

(ماخوذ از خطبات محمود جلد17 صفحہ440 خطبہ فرمودہ 10؍جولائی 1936ء)

بہرحال پہلے یہ بات ذہن میں رکھنی چاہئے کہ قوتِ ارادی اور قوتِ عملی ہی دو بنیادی چیزیں ہیں جو عملی اصلاح پر اثر انداز ہوتی ہیں۔ اس کے لئے ہمیں قوتِ ارادی کو زیادہ مضبوط کرنے کی ضرورت ہے اور قوتِ عملی کے نقص کو دُور کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمارا ارادہ اگر کسی برائی کو روکنے کا مضبوط ہو تو تبھی وہ برائیاں رک سکتی ہیں اور ارادے کی مضبوطی اُس وقت کام آئے گی جب عمل کرنے کی جو قوت ہے، ہمارے اندر جو طاقت ہے، اُس کی جو کمزوری ہے اُس کو دُور کریں، اُس کے نقص کو دُور کریں۔ اس کے بغیر اصلاح نہیں ہو سکتی۔

اس پہلو سے جب ہم جائزہ لیتے ہیں کہ ہماری قوتِ ارادی کیسی ہے تو ہمیں نظر آتا ہے کہ جہاں تک ارادے کا تعلق ہے اس میں بہت کم نقص ہے کیونکہ ارادے کے طور پر جماعت کے تمام یا اکثر افراد ہی تقریباً یہ چاہتے ہیں کہ ان میں تقویٰ اور طہارت پیدا ہو۔ وہ اسلامی احکام کی اشاعت کر سکیں۔ اللہ تعالیٰ کی محبت اور اُس کا قرب حاصل کر سکیں۔ حضرت مصلح موعودنے اس کی وضاحت یوں فرمائی ہے کہ یہ باتیں ثابت کرتی ہیں کہ ہماری قوتِ ارادی تو مضبوط ہے اور طاقتور ہے پھر بھی نتائج صحیح نہیں نکلتے تو پھر یقینا دو باتوں میں سے ایک بات ہے۔ یا تو یہ کہ عمل کے لئے حقیقی قوتِ ارادی جو چاہئے، اتنی ہمارے اندر نہیں ہے لیکن عقیدے کی اصلاح کے لئے جتنی قوتِ ارادی کی ضرورت تھی وہ ہم میں موجود تھی۔ اس لئے عقیدے کی تو اصلاح ہو گئی لیکن عملی اصلاح کے لئے چونکہ قوتِ ارادی کی ضرورت تھی، وہ ہم میں موجودنہیں تھی، اس لئے ہم اعمال کی اصلاح میں کامیاب نہیں ہو سکے اور پھر یہ بھی ماننا پڑے گا کہ ہماری عبودیت میں بھی کچھ نقص ہے۔ خدا تعالیٰ کی یہ بندگی جس کا ہم دعویٰ کرتے ہیں اُس میں بھی کچھ نقص ہے اور اس وجہ سے قوتِ عملی مفلوج ہو گئی ہے اور قوتِ ارادی کے اثر کو قبول نہیں کر رہی۔ یعنی ہماری عمل کی قوت مفلوج ہو گئی ہے اور قوتِ ارادی کا اثر قبول نہیں کر رہی۔ یا ان باتوں کو قبول کرنے کے لئے جن معاونوں کی یا جن مددگاروں کی ضرورت ہے اُن میں کمزوری ہے۔ اس صورت میں ہم جب تک قوتِ متاثرہ یا عملی قوت کا یا اثر لے کر کسی کام کو کرنے والی قوت کا علاج نہ کر لیں کوئی فائدہ نہیں ہو سکتا۔ مثلاً ایک طالبعلم ہے، وہ اپنا سبق یاد کرتا ہے مگر یادنہیں رکھ سکتا۔ اُس کا جب تک ذہن درست نہیں کر لیا جاتا اُس وقت تک اُسے خواہ کتنا سبق دیا جائے، کتنی ہی بار اُسے یاد کروایا جائے یا یاد کرانے کی کوشش کی جائے، وہ اُسے یادنہیں رکھ سکے گا۔

(ماخوذ از خطبات محمود جلد17 صفحہ435-436 خطبہ فرمودہ 10؍جولائی 1936ء)

اس کے ذہن کو درست کرنے کے لئے وجوہات معلوم کرنی ہوں گی تا کہ صحیح رہنمائی ہو سکے یا پھر سبق یاد کروانے کا طریق بدلنا ہو گا۔

(خطبہ جمعہ 10؍جنوری 2014ء بحوالہ الاسلام ویب سائٹ)

پچھلا پڑھیں

آئیوری کوسٹ میں ماہ ربیع الاول کے حوالہ سے

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 21 دسمبر 2022