• 25 اپریل, 2024

خدا کی قسم اُس نے ابوبکر، عمر اور عثمان ذوالنورین کو اسلام کے دروازے اور خدائی فوج کے ہر اول دستے بنا دیا ہے

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:
پھر حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بارے میں آپ فرماتے ہیں کہ: ’’حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا درجہ جانتے ہو کہ صحابہ میں کس قدر بڑا ہے؟ یہاں تک کہ بعض اوقات اُن کی رائے کے موافق قرآنِ شریف نازل ہو جایا کرتا تھا اور اُن کے حق میں یہ حدیث ہے کہ شیطان عمر کے سایہ سے بھاگتا ہے۔ دوسری یہ حدیث ہے کہ اگر میرے بعد کوئی نبی ہوتا تو عمرؓ ہوتا۔ تیسری یہ حدیث ہے کہ پہلی اُمّتوں میں محدّث ہوتے رہے ہیں اگر اس امّت میں کوئی محدّث ہے تو وہ عمرؓ ہے‘‘

(ازالہ اوہام، روحانی خزائن جلد3 صفحہ219)

پھر حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ:
’’عمر رضی اللہ عنہ کو بھی الہام ہوتا تھا۔ انہوں نے اپنے تئیں کچھ چیز نہ سمجھا‘‘ (الہام ہوتا تھاکہ مَیں کچھ بن گیا ہوں تو پھر بھی اپنے آپ کو کچھ نہیں سمجھا) ’’اور امامتِ حقّہ جو آسمان کے خدا نے زمین پر قائم کی تھی، اُس کا شریک بننا نہ چاہا۔‘‘ (یعنی کہ جو مقام آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو مل گیا تھا، یہ نہیں کہ الہام ہو گیا تو اُن کا شریک بننے لگ گئے) ’’بلکہ ادنیٰ چاکر اور غلام اپنے تئیں قرار دیا۔ اس لئے خدا کے فضل نے اُن کو نائبِ امامت حقّہ بنا دیا‘‘
(یعنی خلافت کی خلعت سے نوازا۔)

(ضرورۃ الامام، روحانی خزائن جلد13 صفحہ473-474)

پھر ’حجۃ اللہ‘ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام بیان فرماتے ہیں۔ عربی کا ترجمہ یہ ہے کہ: ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمسایہ میں دو ایسے آدمی دفن کئے گئے ہیں جو نیک تھے، پاک تھے، مقرب تھے، طیّب تھے اور خدا نے اُن کو زندگی میں اور ان کی وفات کے بعد اپنے رسول کے رفقاء ٹھہرایا‘‘۔ (یعنی وفات کے بعد بھی ساتھ ہی، قریب ہی دفن ہوئے) ’’پس رفاقت یہی رفاقت ہے جو اخیر تک نبھی اور اس کی نظیر کم پاؤ گے۔ پس اُن کو مبارک ہو جو اُنہوں نے آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) کے ساتھ زندگی بسر کی اور آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) کے شہر میں اور آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) کی جگہ خلیفے مقرر کئے گئے اور آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) کے کنارِ روضہ میں دفن کئے گئے اور آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) کے مزار کے بہشت سے نزدیک کئے گئے اور قیامت کو آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) کے ساتھ اُٹھائے جائیں گے‘‘

(حجۃ اللہ، روحانی خزائن جلد12 صفحہ183)

پھر ’’سرّ الخلافۃ‘‘ کا ایک حوالہ ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں اس کا ترجمہ یہ ہے کہ: ’’میرے ربّ نے مجھ پر ظاہر کیا ہے کہ حضرت ابوبکر صدیقؓ، حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ، حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نیک اور ایمان والے تھے اور اُن لوگوں میں سے تھے جن کو اللہ تعالیٰ نے چن لیا اور اپنی عنایات کے لئے مخصوص کر لیا۔ … خدا کی قسم اُس نے ابوبکر، عمر اور عثمان ذوالنورین کو اسلام کے دروازے اور خدائی فوج کے ہراول دستے بنا دیا ہے‘‘

(سرالخلافۃ، روحانی خزائن جلد8 صفحہ326-327)

پھر حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں: ’’آپ بڑے متقی اور پاک صاف تھے اور اُن لوگوں میں سے تھے جو خدائے رحمان کے سب سے پیارے اور اچھے خاندان والے تھے اور زمانے کے سرداروں میں سے تھے۔ غالب خدا کے شیر اور مہربان خدا کے نوجوان تھے۔ بہت سخی اور صاف دل تھے۔ آپ وہ منفرد بہادر تھے جو میدانِ حرب میں اپنی جگہ سے نہیں ہٹتے تھے خواہ آپ کے مقابل دشمنوں کی ایک فوج ہی کیوں نہ ہوتی۔ آپ نے کسمپرسی کی زندگی بسر کی اور پرہیزگاری میں اعلیٰ مقام حاصل کیا۔ آپ مال و دولت عطا کرنے والے، ہمّ و غم دور کرنے والے اور یتیموں، مسکینوں اور پڑوسیوں کی دیکھ بھال کرنے والے پہلے شخص تھے اور مختلف معرکوں میں آپ سے بہادری کے کارنامے ظاہر ہوتے تھے‘‘۔ (یہ نہیں کہ صرف یہی پہلے شخص تھے مطلب یہ کہ اُن کا بہت اچھا بڑا مقام تھا) ’’مختلف معرکوں میں آپ سے بہادری کے کارنامے ظاہر ہوتے تھے اور آپ تلوار اور نیزہ کی جنگ میں عجائب باتوں کے مظہر تھے اور اس کے ساتھ ہی آپ شیریں بیان اور فصیح اللسان تھے‘‘۔ (یعنی تقریر میں ایسی فصاحت و بلاغت تھی کہ جس کی کوئی مثال عام آدمیوں میں نہیں)۔ ’’اور آپ کا کلام دلوں کی تہ تک اتر جاتا تھا۔ آپ اپنے کلام کے ذریعہ سے ذہنوں کے زنگ دور کرتے اور اُسے دلیل کے نور سے منور کر دیتے تھے۔ آپ ہر قسم کے اسلوب سے واقف تھے اور جو کوئی کسی معاملے میں صاحب فضیلت ہوتا تھا وہ بھی آپ کی طرف مغلوب کی طرح معذرت کرتا ہوا آتا تھا۔ آپ ہر خوبی اور فصاحت و بلاغت کے طریقوں میں کامل تھے اور جس نے آپ کے کمال کا انکار کیا تو وہ گویا بے حیائی کے رستے پر چل پڑا۔ آپ مجبور کی ہمدردی پر ترغیب دلاتے تھے اور ہر قناعت کرنے والے اور پیچھے پڑ کر مانگنے والے کو کھانا کھلانے کا حکم دیتے تھے۔ (یعنی قناعت کرنے والے کا خیال بھی رکھتے تھے، جو نہیں بھی مانگنے والا اور جو مانگنے والا ہے چاہے وہ ضدی مانگنے والا ہی ہو اُس کا خیال بھی رکھتے تھے۔) آپ اللہ تعالیٰ کے مقرب بندوں میں سے تھے۔ اسی طرح آپ کاسئہ فرقان سے دودھ پینے میں سبقت لے جانے والوں میں سے تھے۔ آپ کو قرآنِ کریم کے دقیق نکات کی معرفت کا عجیب فہم حاصل ہوا تھا‘‘ (جو قرآنِ کریم ہے، اُس کا جو علم ہے وہ علم کا ایک روحانی دودھ ہے، اُس میں آپ بہت بڑا فہم و ادراک رکھنے والے تھے)۔

(سرالخلافۃ، روحانی خزائن جلد8 صفحہ358-359)

(خطبہ جمعہ 23؍نومبر 2012ء بحوالہ الاسلام ویب سائٹ)

پچھلا پڑھیں

خلاصہ خطبہ جمعۃ المبارک فرمودہ مؤرخہ 21؍جنوری 2022ء

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 22 جنوری 2022