• 18 مئی, 2024

درخت اپنے پھل سے پہچانا جاتا ہے (قسط نمبر 2)

درخت اپنے پھل سے پہچانا جاتا ہے
قسط نمبر 2

خاکسار کا ایک اداریہ بعنوان ’’درخت اپنے پھل سے پہچانا جاتا ہے‘‘ روزنامہ الفضل آن لائن، لندن کی اشاعت 17جنوری 2021ء میں شائع ہوا تھا۔ اس اہم موضوع کا زیادہ تر محور اسلام اور اس کی حسین تعلیمات تھیں اوراس نفس مضمون سے یہ ثابت کرنا مقصود تھا کہ دنیا کے تمام مذاہب اور ادیان میں ’’دین اسلام‘‘ ہی ایک ایسا مذہب ہے جو اپنی متوازن اور ہر شعبہ زندگی میں مستعمل مکمل تعلیمات کی وجہ سے دوسرے ادیان سےاعلیٰ اور ممتاز ہے۔ اور اپنی اکمل و اتم شریعت کی وجہ سے پر امن مذہب کہلاتا ہے۔ باوجود دنیا بھر میں نام نہادملاؤں اور ان کے پیچھے اندھی تقلید کرنے والے مسلمانوں کی طرف سےاسلامی عقائد کے برخلاف نفرت، جھوٹ، توڑپھوڑ، جلاؤ گھیراؤ، شہروں کو زبردستی بند کرنے اور دہشت گردی کے واقعات آئے روز ہوتے رہتے ہیں۔ لیکن دنیا ئے عالم ان تکلیف دہ اور افسوسناک واقعات کے باوجود ’’دین اسلام‘‘ پر انگلی نہیں اٹھاتی وہ یہ کہنے پر مجبور ہو جاتے ہیں کہ اسلام امن اور شانتی کا مذہب ہے اور اس کےبانی حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم خود بھی امن کے علمبردار تھےاور اسی امن کو قائم کرنے کی نصیحت بھی کرنے والے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے اس نبی محترم ؐ کی بابرکت شخصیت کو اسی لیے تخلیق فرمایا تھا کہ اپنے اور غیر آپ کے نمونے کو اپنائیں اور ان کی تقلید کرتے ہوئے پُر امن ماحول قائم کریں۔ رحمۃ اللعالمین ؐ نے وحشیوں کو انسان اور انسانوں کو باخدا اور پھر خدا نما بنادیا، یہ اس لئے ممکن ہوا کہ آپ خلق عظیم کے پیکر اور اخلاق حسنہ کے اعلیٰ ترین معیار پر قائم تھے کیونکہ پھل اپنے درخت سے پہچانا جاتا ہے۔

آج اس اداریہ میں اسلام کی حقیقی تعلیم کو ماننے والے ایسے فدایان کا ذکر ہو گا۔ جنہوں نے مامور زمانہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اقتداء میں اسلام کے عَلم کو بلند رکھا اور ’’صحابہ سے ملا جب مجھ کو پایا‘‘ کا لقب حاصل کرنے والے بن گئے۔ اوروہ آج بھی اپنے خوشبودار اور میٹھے پھلوں سے پہچانے جاتے ہیں۔

درخت اپنے پھل سے پہچانا جاتا ہے۔ یہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے الفاظ ہیں جو لوقا انجیل باب 6، آیت 44 میں درج ہیں۔ اور یہ حقیقت سب کو معلوم ہے کہ اللہ کی وسیع و عریض زمین پر ہزاروں اقسام کےد رخت، پودے، فصلیں اور جڑی بوٹیاں اگتی نظر آتی ہیں۔ ان پر جو بھی پتے، پھول اور پھل لگتے ہیں۔ ان سے ان درختوں اور پودوں کی پہچان ہوتی ہے۔ ویسے توعلم نباتات سے آشنائی رکھنے والوں کو پودے کی ساخت، شکل و صورت اور اس کے پتوں سے اندازہ ہو جاتا ہے کہ یہ کون سا پودا ہے، اس کی کیا کیا خصوصیات ہیں اور یہ کتنی عمر کا ہے۔ مگر ہم اپنے گھروں میں اکثر یہ دیکھتے ہیں کہ پودا لا کر کوئی لگایا۔ مگر وہ نکلا کوئی اور۔ جب اس نے پھل دیا تو تب جاکر اس کے نام کا اندازہ ہوا۔ کسی شاعر نے اس مضمون کو یوں بیان کیا ہے۔

؎ کسان کو اِک نظر دیکھو خدارا
جو بوتا ہے اس کو کاٹتا ہے

؎ نہیں لگتے کبھی کیکر کو انگور
نہ حنظل میں کبھی خرما لگا ہے

روحانی دنیا میں بھی ایک مومن کو پھلدار درخت قرار دیا گیا ہے اور مذہب و دین کو باغ کہا جاتا ہے۔ ایک مومن اس جستجو میں رہتا ہے کہ میرے عمل عین اسلامی تعلیم کے مطابق ہوں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق کسی نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا سے پوچھا تو آپ ؓ نے فرمایا

کَانَ خُلُقُہٗ الْقُرْآن

(مسلم کتاب الصلوۃ)

کہ آپؐ کے اخلاق، آپؐ کا کردار، آپؐ کا اٹھنا بیٹھنا عین قرآنی تعلیم کے مطابق تھا۔ یعنی اگر قرآن کریم کی عملی تصویر کسی نے دیکھنی ہو تو آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات پاک کو دیکھ لے۔ آپؐ کے شمائل و کردار کو پڑھ لے۔

حضرت مسیح موعود ؑ فرماتے ہیں کہ:
’’اچھے درخت کو کئی طرح پہچان لیتے ہیں ۔ پتوں سے بھی شناخت کر لیتے ہیں ۔ میں نے ایک بار الائچی کا درخت انبالہ میں دیکھا اور ایک پتا اس کا لے کر سونگھا تو اس میں الائچی کی خوشبو موجود تھی اگرچہ ابھی اس کے تین درجہ باقی تھےمگر خوشبو موجود تھی‘‘

(ملفوظات جلدسوم صفحہ240 ایڈیشن 2016ء)

اس سلسلہ میں خاکسار سلسلہ تحریر کو قسط اوّل کے ان الفاظ سے شروع کرتا ہے۔

’’کلمہ طیبہ سے ایک مراد وہ مومن بھی لئے جاتے ہیں جو حضرت محمد مصطفیٰؐ پر کامل ایمان لائے اور آج دنیا بھر میں پھیلے ہوئے احمدیت کے جال کے ذریعے کلمہ حق پڑھ کر اسلام میں داخل ہوتے ہیں اور صحابہؓ کا روپ دھارتے ہیں۔ ان کی زبانیں پاک اور ان کے اعمال ایسے ہیں جو اللہ تعالیٰ کو پسند آتے اور درجہ مقبولیت پاتے ہیں۔ یہ لوگ آج اس قرآنی آیت وَ مَنۡ اَحۡسَنُ قَوۡلًا مِّمَّنۡ دَعَاۤ اِلَی اللّٰہِ وَ عَمِلَ صَالِحًا کے حقیقی مصداق نظر آتے ہیں۔

یہی وہ خوش نصیب لوگ ہیں جن کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اے میرے درخت وجود کی سر سبز شاخو! کے الفاظ سے پکارا ہے۔ یہاں یہ امر ذہن میں رہے کہ اس جگہ آپؑ نے ٹہنی کا لفظ استعمال نہیں فرمایا۔ شاخ کا لفظ استعمال فرمایا جو زندہ رہتی ہے اور اصل یعنی جڑسے جُڑی رہ کر خوراک لیتی، سر سبز رہتی اور پھل دیتی ہے اسی لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا۔

اَصۡلُہَا ثَابِتٌ وَّ فَرۡعُہَا فِی السَّمَآءِ ﴿ۙ۲۵﴾ تُؤۡتِیۡۤ اُکُلَہَا کُلَّ حِیۡنٍۭ بِاِذۡنِ رَبِّہَا ؕ

حضرت مصلح موعودؓ اس آیت کی تفسیر کے تحت ’’حاشیہ‘‘ میں تحریر فرماتے ہیں۔
’’اس آیت میں یہ بتایا گیا ہے کہ اسلام کا جو شجر طیبہ ہے اس میں ہمیشہ خدا رسیدہ لوگ پیدا ہوتے رہیں گے۔‘‘

آئیں! اس پیمانہ سے جماعت احمدیہ کے افراد کو ماپتے ہیں۔ تو دشمن، معاند، ملکوں کے سربراہ اس امر کا اعتراف کرتے دکھائی دیتے ہیں کہ احمدی پر امن قوم ہے۔ یہ لوگ ہم سے بہت بہتر ہیں۔ آج کل تو سوشل میڈیا پر مولوی بھی اس بات کے معترف نظر آتے ہیں کہ احمدی نمازوں میں، عبادات میں اور معاشی و دنیاوی زندگی میں ہم سے بہتر ہیں بلکہ بسا اوقات یہ بھی سننے کو ملتا ہے کہ وہ ہم سے بہتر مسلمان ہیں۔ پاکستان جہاں احمدیوں کی دنیا بھر سے زیادہ مخالفت ہے وہاں یہ آواز یں سننے کو ملتی ہیں کہ احمدی رشوت نہیں لیتے، احمدی جھوٹ نہیں بولتے، احمدی ملکی اموال میں خرد برد نہیں کرتے، احمدی دفاتر میں بھی نماز یں پڑھتے ہیں، وقت پر آتے ہیں، بااخلاق ہیں۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ جب 1974ء کی قومی اسمبلی میں تشریف لے گئے تو آپ کے ٹھیٹھ اسلامی لباس اور انداز گفتگو کو دیکھ کر اکثر سیاستدان کہہ اٹھے تھے کہ یہ شخص غیر مسلم نہیں ہو سکتا۔ سرکاری دفاتر میں احمدیوں کی ایک اچھی Reputation ہے۔

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق مخالفین یہ اکثر کہا کرتے تھے کہ آپؐ جھوٹ نہیں بولتے۔ آپؐ ہیں تو سچے مگر آپؐ کی تعلیم پر دل نہیں ٹھہرتا۔ اسی طرح آج احمدیوں کے متعلق یہ کہا جاتا ہے۔ آدمی تو بہت اچھا ہے، پر ہے قادیانی (احمدی)۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے اسی اچھے انداز کی وجہ سے یہی پہچان ہر احمدی کی ہے دنیا بھر میں خواہ وہ افریقن ہو، خواہ وہ ایشین ہو، خواہ وہ عرب ہو، خواہ وہ یورپین یا مغربی دنیا کے کسی ملک سے احمدی ہوا ہو، نیز خواہ وہ آسٹریلین، جاپانی یا کسی قوم سے تعلق رکھتا ہو وہ جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے توسط سے سرکار دو عالم حضرت محمد مصطفےٰ صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنا روحانی تعلق جوڑ لیتا ہے تو اس کے اندر نمایاں تبدیلیاں نمودار ہونے لگتی ہیں۔ اس کے چہرے کے نقوش سے اندازہ ہونے لگتا ہے کہ یہ احمدی ہے۔

ہم کچھ لوگ 2003ء میں ایک دن جرمنی کے ایک پہاڑی سلسلہ میں سیروسیاحت کے لئے گئے ہوئے تھے۔ وہاں ایک پگڈنڈی سے ایک مرد عورت کا جوڑا نمودار ہوا۔ میرے کزن نے انہیں دیکھ کر کہا کہ یہ احمدی لگتے ہیں۔ اتنے میں اس جوڑے نے چلتے چلتے قریب پہنچ کر ہمیں اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ کہا۔ گویا انہوں نے بھی ہمارے اسٹائل سے اندازہ لگا لیا کہ ہم احمدی ہیں۔ اور وہ جوڑا سری لنکن تھا۔ ان کے چلےجانے کے بعد میں نے اپنے کزن سے پوچھا کہ آپ کو اتنی دور سے ان کے احمدی ہونے کا اندازہ کیسے ہوا۔ کزن نے جواباً کہا کہ ان کے لباس اور چلنے کے انداز سے، میں نے ان کے احمدی ہونے کا خیال کیا تھا۔

پاکستان میں جب ایک مولوی گھرانے کے چشم و چراغ نوجوان نے بیعت کر لی تو کچھ عرصہ بعد احمدی ہونے کا اعلان کرنے پر اس کے سسرال والے اپنی بچی کواپنے ساتھ واپس لے گئے۔ اس بچی نے اپنے والدین سے شکوہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ کیوں مجھے واپس لائے ہیں۔ میرے خاوند نے گو اب بیعت کا اعلان کیا ہے۔ لیکن مجھے لگتا ہے کہ وہ قریبا ً تین سال قبل احمدی ہو چکا تھا۔ کیونکہ گزشتہ تین سالوں سے اس کے اندر نمایاں تبدیلیاں نظر آ رہی تھیں۔ وہ اب مجھ پر سختی نہیں کرتا۔ میرے پر ہاتھ نہیں اٹھاتا۔ فجر کی نماز گھر میں باجماعت کروانے کے بعد قرآن کریم کا درس دیتا ہے جس سے میری اور میرے بچوں کی اچھی تربیت ہو رہی ہے۔

الغرض دنیا بھر میں پھیلے احمدی پرندوں کی بولیاں مختلف ہیں، چہرے اور حلیے مختلف ہیں۔ کالے، سفید اورگندمی رنگت کے ہیں۔ مگر ایک ایسے درخت پر بسیرا کر رہے ہیں جن کےپھل سے فائدہ اٹھا کر ان کے مزاج ایک جیسے ہو چکے ہیں۔ ان کی اقدار یکساں نظر آتی ہیں۔ ان کے اعمال سانجھے نظر آتے ہیں۔ کیونکہ کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ
اچھا انسان وہ ہے جس کو ثابت نہ کرنا پڑے کہ میں ایسا ہوں بلکہ اس کا کردار اس کےا چھے ہونے کی گواہی دے۔ بالکل اسی طرح یہ بھی کہا گیا ہے کہ انسان ہمیشہ اپنے دوست سے پہچانا جاتا ہے اور بہترین انسان اپنے عمل سے پہچانا جاتا ہے۔ ، جس طرح درخت اپنے پھل سے پہچانا جاتا ہے۔

مکرمہ امتہ الباری ناصر آف امریکہ نے اس مضمون کو اپنے منظوم کلام میں یوں ڈھالا ہے۔

؎ ہم شاخیں درخت وجود کی ہیں، سر پر ہے خلافت کا سایہ
افسوس ہے اُن کی حالت پر جو تپتی دھوپ میں جلتے ہیں

؎ ہم بندھ گئے ایسے رشتے میں جو سب رشتوں سے پیارا ہے
دنیا میں جہاں بھی احمدی ہیں سب اپنے اپنے لگتے ہیں

اللہ تعالیٰ ہمیں ہمیشہ خلافت کے گھنے اور ٹھنڈے سایہ میں زندگی بسر کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

(ابوسعید)

پچھلا پڑھیں

خلاصہ خطبہ جمعۃ المبارک فرمودہ مؤرخہ 21؍جنوری 2022ء

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 22 جنوری 2022