• 10 مئی, 2024

اسلام ہی ہر معاملے کے حقیقی راستے دکھا سکتا ہے

آج اسلام ہی ہر معاملے کے حقیقی راستے دکھا سکتا ہے لیکن اس کے عملی نمونے دکھائے بغیر ہم دنیا کو قائل نہیں کر سکتے۔ ناجائز حق لینے کا تو سوال ہی نہیں اگر ہم جائز حق بھی چھوڑنے کے لئے تیار ہو جائیں اس لئے کہ امن قائم کرنا ہے تو امن قائم ہو گا۔ ہم جائز حق بھی چھوڑ دیں تو کوئی فرق نہیں پڑتا۔ اور جب یہ ہو گا تو کیونکہ ایک معاشرے میں دونوں طرف سے حقوق ادا کرنے کی کوشش ہو رہی ہو گی تو دوسرا فریق بھی اگر مومن ہے تو وہ بھی ناجائز حق نہیں لے گا۔ یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ کسی دوسرے کا ناجائز حق لے۔ لیکن افسوس ہے کہ بعض دفعہ قضاء میں ایسے معاملات آتے ہیں کہ ہماری جماعت میں بھی بھائی بھائی کا حق دبا رہا ہوتا ہے یا دوسرے عزیزوں کے حق دبا رہے ہوتے ہیں۔ اگر ہم اس طرف توجہ کریں تو ہمارے قضاء کے بھی بہت سے مسائل حل ہو سکتے ہیں۔ لڑائی جھگڑے ختم کرنے کے لئے اسلام کیا سوچ ہمیں دیتا ہے اور صحابہ کے کیا نمونے ہمارے سامنے ہیں۔ روایتوں میں آتا ہے کہ ایک دفعہ امام حسنؓ اور امام حسینؓ کے درمیان کسی بات پر تکرار ہو گئی۔ بھائیوں بھائیوں میں بعض دفعہ ناراضگی کی کوئی بات ہو جاتی ہے، بحث ہو جاتی ہے۔ حضرت امام حسن کی طبیعت بہت سلجھی ہوئی اور نرم تھی لیکن حضرت امام حسین کی طبیعت میں جوش پایا جاتا تھا۔ ان میں جو جھگڑا ہوا اس میں حضرت امام حسین کی طرف سے زیادہ سختی کی گئی لیکن حضرت امام حسن نے صبر سے کام لیا۔ اس جھگڑے کے وقت بعض اور صحابہ بھی موجود تھے۔ جب جھگڑا ختم ہو گیا تو دوسرے دن ایک شخص نے دیکھا کہ حضرت امام حسن جلدی جلدی کسی طرف جا رہے ہیں۔ اس نے ان سے پوچھا کہ آپ کہاں جا رہے ہیں؟ حضرت حسن کہنے لگے کہ مَیں حُسین سے معافی مانگنے چلا ہوں۔ وہ شخص کہنے لگا کہ آپ معافی مانگنے جا رہے ہیں۔ مَیں تو خود اس جھگڑے کے وقت موجود تھا اور میں جانتا ہوں کہ حسین نے آپ کے متعلق سختی سے کام لیا۔ پس یہ ان کا کام ہے کہ وہ آپ سے معافی مانگیں، نہ یہ کہ آپ ان سے معافی مانگنے چلے جا رہے ہیں۔ حضرت حسن نے کہا یہ ٹھیک ہے۔ مَیں اس لئے تو ان سے معافی مانگنے جا رہا ہوں کہ انہوں نے مجھ پر سختی کی تھی کیونکہ ایک صحابی نے مجھے سنایا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دفعہ فرمایا کہ جب دو شخص آپس میں لڑ پڑیں تو ان میں سے جو پہلے صلح کرتا ہے وہ جنت میں دوسرے سے پانچ سو سال پہلے داخل ہو گا۔ تو میرے دل میں یہ سن کر یہ خیال پیدا ہوا کہ کل میں نے حُسین سے برا بھلا سنا اور انہوں نے مجھ پر سختی کی۔ اب اگر حسین معافی مانگنے کے لئے میرے پاس پہلے پہنچ گئے اور انہوں نے صلح کر لی تو میں تو دونوں جہان سے گیا کہ یہاں بھی مجھ پر سختی ہو گئی اور اگلے جہان میں بھی مَیں پیچھے رہا۔ چنانچہ مَیں نے یہی فیصلہ کیا ہے کہ مجھ پر جو سختی ہو گئی وہ تو ہو گئی اب مَیں اُن سے پہلے معافی مانگ لوں گا تا کہ اس کے بدلے میں مجھے جنت تو پانچ سو سال پہلے مل جائے۔

(ماخوذ از الفضل 23مئی 1944ء صفحہ 4 کالم 2-3 جلد 32 نمبر 119)

پس یہ وہ سوچ ہے جسے ہمیں اپنے پر لاگو کرنا چاہئے۔

حضرت مصلح موعود ایک جگہ فرماتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے میں نے ایک لطیفہ سنا ہوا ہے جو شاید مقامات حریری یا کسی اور کتاب کا قصہ ہے۔ آپ فرمایا کرتے تھے کہ کوئی مہمان کسی جگہ نہانے کے لئے گیا۔ حمام کے مالک نے مختلف غلاموں کو خدمت کے لئے مقرر کیا ہوا تھا۔ بعض ملکوں میں حمام ہوتے ہیں جہاں خادم ہوتے ہیں جو مہمانوں کو مالش کرتے ہیں، نہلاتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ اتفاق ایسا ہوا کہ اس وقت مالک موجودنہ تھا۔ جب وہ نہانے کے لئے حمام میں داخل ہوا تو تمام غلام اسے آ کر چمٹ گئے اور چونکہ سر کو آسانی سے ملا جا سکتا ہے اس لئے یکدم سب سر پر آ گرے۔ ایک کہے کہ میرا سر ہے۔ دوسرا کہے یہ میرا سر ہے۔ جس پر آپس میں لڑائی شروع ہو گئی اور ایک نے دوسرے کے چاقو مار دیا جس سے وہ زخمی ہو گیا۔ شور ہونے پر پولیس بھی آ گئی اور معاملہ عدالت تک پہنچا۔ عدالت کے سامنے بھی ایک غلام یہ کہہ رہا تھا کہ یہ میرا سر ہے۔ دوسرا کہے کہ یہ میرا سر تھا۔ عدالت نے نہانے والے سے پوچھا تو وہ کہنے لگا حضور! یہ تو بے سر تھے۔ بیوقوف تھے۔ ان کی باتوں پر تو مجھے تعجب نہیں۔ تعجب یہ ہے کہ آپ نے بھی یہ سوال کر دیا۔ حالانکہ سر نہ اِس کا ہے نہ اُس کا ہے۔ سر تو میرا تھا۔

تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام یہ مثال اس لئے دیا کرتے تھے کہ دنیا کے جھگڑے بیہودہ ہوتے ہیں۔ میرا کیا اور تیرا کیا۔ غلام کا تو کچھ بھی نہیں ہوتا۔ وہ تو جب اپنے آپ کو کہتا ہے کہ میں عبداللہ ہوں تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اب اس کا کچھ بھی نہیں۔ ایک حقیقی مسلمان کے بارے میں بتایا جا رہا ہے اور یہ واقعہ اس تناظر میں بیان ہو رہا ہے کہ اللہ کا جو بندہ ہوتا ہے وہ میرا یا تیرے کا سوال نہیں کرتا۔ وہ تو اللہ کا بندہ ہوتا ہے جب وہ یہ کہتا ہے کہ میں عبداللہ ہوں۔ اب اس کا کچھ بھی نہیں ہوتا۔ سب کچھ خدا تعالیٰ کا ہے۔ حقیقی مومن جب بنتا ہے تو پھر کہتا ہے کہ ہر چیز اللہ تعالیٰ کی ہے۔ اس کے بعد میرے تیرے کا سوال ہی کہاں باقی رہ سکتا ہے۔

(خطبہ جمعہ فرمودہ 12؍ فروری 2016ء)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 21 فروری 2022

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ