• 17 مئی, 2024

واقفین نو بچوں میں یہ اہم باتیں ہونی چاہئیں

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں۔
پس ماں باپ کو، اُن ماں باپ کو جو اپنے بچوں کو وقفِ نَو میں بھیجتے ہیں، یہ جائزے لینے ہوں گے کہ وہ اس تحفے کو جماعت کو دینے میں اپنا حق کس حد تک ادا کر رہے ہیں؟ کس حد تک اس تحفے کو سجانے کی کوشش کر رہے ہیں؟ کس حد تک خوبصورت بنا کر جماعت کو پیش کرنے کی طرف توجہ دے رہے ہیں؟ وہ اپنے فرائض کس حد تک پورے کر رہے ہیں؟ ان ملکوں میں رہتے ہوئے، جہاں ہر طرح کی آزادی ہے خاص طور پر بہت توجہ اور نگرانی کی ضرورت ہے۔

اسی طرح ایشیا اور افریقہ کے غریب ملکوں میں بھی بچے کو وقف کر کے بے پرواہ نہ ہو جائیں بلکہ ماں اور باپ دونوں کا فرض ہے کہ خاص کوشش کریں۔ واقفینِ نَو بچوں کو بھی مَیں کہتا ہوں جو بارہ تیرہ سال کی عمر کو پہنچ چکے ہیں کہ وہ اپنے بارے میں سوچنا شروع کر دیں، اپنی اہمیت پر غور کریں۔ صرف اس بات پر خوش نہ ہو جائیں کہ آپ وقفِ نَو ہیں۔ اہمیت کا پتہ تب لگے گا جب اپنے مقصد کا پتہ لگے گاکہ کیا آپ نے حاصل کرنا ہے۔ اُس کی طرف توجہ پیدا ہو گی۔ اور پندرہ سال کی عمر والے لڑکوں اور لڑکیوں کو تو اپنی اہمیت اور اپنی ذمہ داریوں کا بہت زیادہ احساس ہو جانا چاہئے۔ ان آیات میں صرف ماں باپ یا نظامِ جماعت کی خواہش یا ایک گروہ یا چند لوگوں کی خواہش اور ذمہ داری کا بیان نہیں ہوا بلکہ بچوں کو بھی توجہ دلائی گئی ہے۔

پہلی بات جو ہر وقفِ نَو بچے میں پیدا ہونی چاہئے، وہ اس توجہ کی روشنی میں یہ بیان کر رہا ہوں۔ اور وہ ان آیات میں آئی ہے کہ اُس کی ماں نے اُس کی پیدائش سے پہلے ایک بہت بڑے مقصد کے لئے اُسے پیش کرنے کی خواہش دل میں پیدا کی۔ پھر اس خواہش کے پورا ہونے کی بڑی عاجزی سے دعا بھی کی۔ پس بچے کو اپنے ماں باپ کی، کیونکہ اس خواہش اور دعا میں بعد میں باپ بھی شامل ہو جاتا ہے، اُن کی خواہش اور دعا کا احترام کرتے ہوئے اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کی نذر ہونے کا حق دار بنانے کی کوشش کرنی چاہئے۔ اور یہ تبھی ہو سکتا ہے جب اپنے دل و دماغ کو اپنے قول و فعل کو اللہ تعالیٰ کی رضا کے مطابق بنانے کی طرف توجہ ہو۔

دوسری بات یہ کہ ماں باپ کا آپ پر یہ بڑا احسان ہے اور یہ احسان کرنے کی وجہ سے اُن کے لئے یہ دعا ہو کہ اللہ تعالیٰ اُن پر رحم فرمائے۔ آپ کی تربیت کے لئے اُن کی طرف سے اُٹھنے والے ہر قدم کی آپ کے دل میں اہمیت ہو۔ اور یہ احساس ہو کہ میرے ماں باپ اپنے عہد کوپورا کرنے کے لئے جو کوشش کر رہے ہیں مَیں نے بھی اُس کا حصہ بننا ہے، اُن کی تربیت کو خوشدلی سے قبول کرنا ہے۔ اور اپنے ماں باپ کے عہد پر کبھی آنچ نہیں آنے دینی۔ دین کو دنیا پر مقدم رکھنے کے عہد کا سب سے زیادہ حق ایک واقفِ نَو کا ہے۔ اور واقفِ نَوکو یہ احساس ہونا چاہئے کہ یہ عہد سب سے پہلے اور سب سے بڑھ کر مَیں نے پورا کرنا ہے۔

تیسرے یہ کہ خدا تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے ہر قربانی کے لئے صبر اور استقامت دکھانے کا عہد کرنا ہے۔ جیسے بھی کڑے حالات ہوں، سخت حالات ہوں، میں نے اپنے وقف کے عہد کو ہر صورت میں نبھانا ہے، کوئی دنیاوی لالچ کبھی میرے عہدِ وقف میں لغزش پیدا کرنے والا نہیں ہو سکتا۔ اب تو اللہ تعالیٰ کا جماعت پر بہت فضل اور احسان ہے۔ خلافتِ ثانیہ کے دور میں تو بعض موقعوں پر، بعض سالوں میں قادیان میں ایسے حالات بھی آئے، اتنی مالی تنگی تھی کہ جماعتی کارکنان کو کئی کئی مہینے اُن کا جو بنیادی گزارہ الاؤنس مقرر تھا، وہ بھی پورا نہیں دیا جا سکتا تھا۔ اسی طرح شروع میں ہجرت کے بعد ربوہ میں بھی ایسے حالات رہے ہیں لیکن ان سب حالات کے باوجود کبھی اُس زمانے کے واقفینِ زندگی نے شکوہ زبان پر لاتے ہوئے اپنے کام کا حرج نہیں ہونے دیا۔ بلکہ یہ تو دُور کی باتیں ہیں۔ ستّر اور اسّی کی دہائی میں افریقہ کے بعض ممالک میں بھی ایسے حالات رہے جو مشکل سے وہاں گزارہ ہوتا تھا۔ جو الاؤنس جماعت کی طرف سے ملتا تھا، وہ زیادہ سے زیادہ پندرہ بیس دن میں ختم ہوجاتا تھا۔ مقامی واقفین تو جتنا الاؤنس اُن کو ملتا تھا اس میں شاید دن میں ایک وقت کھانا کھا سکتے ہوں۔ لیکن انہوں نے اپنے عہدِ وقف کو ہمیشہ نبھایا اور تبلیغ کے کام میں کبھی حرج نہیں آنے دیا۔

چوتھی بات یہ کہ اپنے آپ کو اُن لوگوں میں شامل کرنے کے احساس کو ابھارنا اور اس کے لئے کوشش کرنا جو نیکیوں کے پھیلانے والے اور برائیوں سے روکنے والے ہیں۔ اپنے اخلاق کے اعلیٰ نمونے قائم کرنا، جب ایسے اخلاق کے اعلیٰ نمونے قائم ہوں گے، نیکیاں سرزد ہو رہی ہوں گی، برائیوں سے اپنے آپ کو بچا رہے ہوں گے تو ایسے نمونے کی طرف لوگوں کی توجہ خود بخود پیدا ہوتی ہے۔ لوگوں کی آپ پر نظر پڑے گی تو پھر مزید اس کا موقع بھی ملے گا۔ پس یہ احساس اپنے اندر پیدا کرنا بہت ضروری ہے اور کوشش بھی ساتھ ہو۔

پانچویں بات یہ کہ نیکیوں اور برائیوں کی پہچان کے لئے قرآن اور حدیث کا فہم و ادراک حاصل کرنا۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی کتب اور ارشادات کوپڑھنا۔ اپنے دینی علم کو بڑھانے کے لئے ہر وقت کوشش کرنا۔ بیشک ایک بچہ جو جامعہ احمدیہ میں تعلیم حاصل کرتا ہے وہاں اُسے دینی علم کی تعلیم دی جاتی ہے۔ لیکن وہاں سے پاس کرنے کے بعد یہ نہیں سمجھنا چاہئے کہ اب میرے علم کی انتہا ہو گئی۔ بلکہ علم کو ہمیشہ بڑھاتے رہنے کی کوشش کرنی چاہئے، ایک دفعہ کا جو تفقّہ فی الدین ہے اُس وقت فائدہ رساں رہتا ہے جب تک اُس میں ساتھ ساتھ تازہ علم شامل ہوتا رہے۔ تازہ پانی اُس میں ملتا رہے۔ اسی طرح جو جامعہ میں نہیں پڑھ رہے، اُن کو بھی مسلسل پڑھنے کی طرف توجہ ہونی چاہئے۔ یہ نہیں کہ جو واقفینِ نَودنیاوی تعلیم حاصل کر رہے ہوں اُن کو دینی تعلیم کی ضرورت نہیں ہے۔ جتنا لٹریچر میسر ہے، اُن کو پڑھنے کی طرف توجہ دینی چاہئے۔ قرآنِ کریم کا ترجمہ اور تفسیر پڑھنے کی طرف توجہ ہونی چاہئے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی جو جو کتب اُن کی زبانوں میں ہیں اُن کو پڑھنے کی طرف توجہ ہونی چاہئے۔

(خطبہ جمعہ 18؍جنوری 2013ء بحوالہ الاسلام ویب سائٹ)

پچھلا پڑھیں

خلفاء کا مقام

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 22 فروری 2022