• 11 مئی, 2025

کتاب تعلیم کی تیاری (قسط 33)

کتاب تعلیم کی تیاری
قسط 33

اس عنوان کے تحت درج ذیل تین عناوین پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات اکٹھے کئے جا رہے ہیں۔

  1. اللہ تعالیٰ کے حضور ہمارے کیا فرائض ہیں؟
  2. نفس کے ہم پر کیا حقوق ہیں؟
  3. بنی نوع کے ہم پر کیا کیا حقوق ہیں؟

اللہ کے حضور ہمارے فرائض

اصل بات یہ ہے کہ خدا کی معیت کے سوا کچھ نہیں ہو سکتا۔ خدا ہی کی معیت ہو تو تبدیلی ہوتی ہے اور پھر اس کی خواہشیں اور اور جگہ لگ جاتی ہیں اور خدا کی نافرمانی اسے ایسی معلوم ہوتی ہے جیسے موت۔ بالکل ایک معصوم بچہ کی طرح ہو جاتا ہے۔ اس لئے جہاں تک ہو سکے کوشش کرے کہ دقیق در دقیق پرہیزگار ہو جاوے۔ جب نماز میں کوئی خطرہ پیش آوے۔ اس وقت سلسلہ دعا کا شروع کر دے یہ مشکلات اس وقت تک ہیں کہ جب تک نمونہ قدرتِ الٰہی کا نہیں دیکھتا۔ کبھی دہریہ ہو جاتا ہے کبھی کچھ۔ بار بار ٹھوکریں کھاتا ہے۔ جب تک خدا کی معرفت نہ ہو گناہ نہیں چھوٹ سکتا۔ دیکھو جو لوگ جاہل ہیں۔ ڈاکہ مارتے ہیں۔ چوریاں کرتے ہیں۔ لیکن جن کو علم ہے کہ اس سے ذلت ہوگی۔ خواری ہوگی وہ ایسے کام کرتے شرماتے ہیں کیونکہ ان کی عظمت میں فرق آتا ہے۔ اس لئے ڈاکہ والوں کا یہ بھی علاج ہے کہ ان کی تعظیم کی جاوے اور ان کو بڑا آدمی بنا دیا جاوے۔ تاکہ پھر ان کو ڈاکہ مارتے شرم آوے۔

(ملفوظات جلد 4 صفحہ 35-36، سن اشاعت 2016ء مطبوعہ لندن)

توبہ کے معنی ہی یہ ہیں کہ گناہ کو ترک کرنا اور خدا کی طرف رجوع کرنا۔ بدی چھوڑ کر نیکی کی طرف آگے قدم بڑھانا۔ توبہ ایک موت کو چاہتی ہے جس کے بعد انسان زندہ کیا جاتا ہے اور پھر نہیں مرتا۔ توبہ کے بعد انسان ایسا بن جاوے کہ گویا نئی زندگی پا کر دنیا میں آیا ہے نہ اس کی وہ چال ہو نہ اس کی وہ زبان نہ ہاتھ نہ پاؤں، سارے کا سارا نیا وجود ہو جو کسی دوسرے کے ماتحت کام کرتا ہوا نظر آجاوے۔ دیکھنے والے جان لیں کہ یہ وہ نہیں یہ تو کوئی اَور ہے۔

خلاصہ کلام یہ کہ یقین جانو کہ توبہ میں بڑے بڑے ثمرات ہیں۔ یہ برکات کا سرچشمہ ہے۔ درحقیقت اولیاء اور صلحاء بھی لوگ ہوتے ہیں جو توبہ کرتے اور پھر اس پر مضبوط ہو جاتے ہیں۔ وہ گناہ سے دور اور خدا کے قریب ہوتے جاتے ہیں۔ کامل توبہ کرنے والا شخص ہی ولی، قطب اور غوث کہلا سکتا ہے۔ اسی حالت سے وہ خدا کا محبوب بنتا ہے اس کے بعد بلائیں اور مصائب جو انسان کے واسطے مقدر ہوتی ہیں ٹل جاتی ہیں۔

(ملفوظات جلد 4 صفحہ 288-289، سن اشاعت 2016ء مطبوعہ لندن)

توبہ کے درخت بولو تا تم اس کے پھل کھاؤ۔ توبہ کا درخت بھی بالکل ایک باغ کے درخت کی ما نند ہے جو جو حفاظتیں اور خدمات اس باغ کے لیے جسمانی طورسے ہیں وہی اس توبہ کے درخت کے واسطے روحانی طور پر ہیں پس اگر توبہ کے درخت کا پھل کھانا چاہو تو اس کے متعلق قوانین اور شرائط کو پورا کرو ورنہ بےفائدہ ہوگا۔

یہ خیال نہ کرو کہ توبہ کرنا مرنا ہوتا ہے۔ خدا قلیل شے سے خوش نہیں ہوتا اور نہ وہ دھوکا کھاتا ہے۔ دیکھو اگر تم بھوک کو دورکرنے کے لیے ایک لقمہ کھانے کا کھاؤ یا پیاس کے دور کرنے کے لیے ایک قطرہ پانی کا پیو تو ہرگز تمہاری مقصدبراری نہ ہوگی۔ ایک مرض کے دفع کرنے کے واسطے ایک طبیب جو نسخہ تجویز کرتا ہے جب تک اس کے مطابق پورا پورا عمل نہ کیا جاوے تب تک اس کے فائدہ کی امید امر موہوم ہے اور پھر طبیب پر بھی الزام۔ غلطی اپنی ہی ہے اسی طرح توبہ کے واسطے مقدار ہے اور اس کے بھی پرہیز ہیں۔ بدپرہیز بیمار صحت یاب نہیں ہو سکتا۔

(ملفوظات جلد 4 صفحہ 296-297، سن اشاعت 2016ء مطبوعہ لندن)

نفس کے ہم پر حقوق

اﷲ تعالیٰ نے مومنون کو اس میں دو قسم کی عورتوں سے مثال دی ہے۔ اوّل فرعون کی بیوی سے اور ایک مریم سے۔ پہلی مثال میں یہ بتایا ہے کہ ایک مومن اس قسم کے ہوتے ہیں جو ابھی اپنے جذبات نفس کے پنجہ میں گرفتار ہوتے ہیں اور ان کی بڑی آرزو اور کوشش یہ ہوتی ہے کہ خدا ان کو اس سے نجات دے۔ یہ مومن فرعون کی بیوی کی طرح ہوتے ہیں کہ وہ بھی فرعون سے نجات چاہتی تھی مگر مجبور تھی۔ لیکن جو مومن اپنے تئیں تقویٰ اور طہارت کے بڑے درجہ تک پہنچاتے ہیں اور احصانِ فرج کرتے ہیں پھر خدا تعالیٰ ان میں عیسیٰ کی روح نفخ کر دیتا ہے۔ نیکی کے یہ دو مرتبے ہیں جو مومن حاصل کر سکتا ہے مگر دوسرا وہ بہت بڑھ کر ہے کہ اس میں نفخ روح ہو کر وہ عیسیٰ بن جاتا ہے یہ آیت صاف اشارہ کرتی ہے کہ اس امت میں کوئی شخص مریم صفت ہوگا کہ اس میں نفخ روح ہو کر عیسیٰ بنا دیا جاوے گا۔ اب کوئی عورت تو ایسی ہے نہیں اور نہ کسی عورت کے متعلق پیشگوئی ہے۔ اس لئے صاف ظاہر ہے کہ اس سے یہی مراد ہے کہ اس امت میں ایک ایسا انسان ہوگا جو پہلے اپنے تقویٰ و طہارت اور احصان و عفت کے لحاظ سے صفت مریمیت سے موصوف ہوگا اور پھر اس میں نفخ روح ہو کر صفات عیسوی پیدا ہوں گی۔ اب اس کی کیفیت اور لطافت براہین احمدیہ سے معلوم ہوگی کہ پہلے میرا نام مریم رکھا۔ پھر اس میں روح صدق نفخ کرکے مجھے عیسیٰ بنایا۔ مومنوں کی جو یہ دو مثالیں بیان کی گئی ہیں۔ وہ اس آیت سے بھی معلوم ہوتی ہیں۔

(ملفوظات جلد 4 صفحہ 47، سن اشاعت 2016ء مطبوعہ لندن)

امت کی دو ہی قسم ہیں۔ ایک فرعون کی بیوی اور دوسرے مریم بنت عمران اور اسی کی طرف اس آیت میں اشارہ ہے مِنۡہُمۡ ظَالِمٌ لِّنَفۡسِہٖ ۚ وَ مِنۡہُمۡ مُّقۡتَصِدٌ ۚ وَ مِنۡہُمۡ سَابِقٌۢ بِالۡخَیۡرٰتِ (فاطر: 33) ظالم سے مراد وہ لوگ ہیں جو کہ نفس امارہ کے تابع ہیں کہ جس راہ پر نفس نے ڈالا اسی راہ پر چل پڑے اور وہ صُمٌّۢ بُکۡمٌ کی طرح ہوتے ہیں اور ان کی مثال بہائم کی ہے۔ اس لئے کسی مد میں نہیں آ سکتے اور یہ کثرت سے ہوتے ہیں۔ پھر ان کے بعد نفس لوامہ والے جو کہ فرعون کی بیوی ہیں۔ یعنی ان کو نفس ہمیشہ ملامت کرتا رہتا ہے اور وہ چاہتے ہیں کہ امارہ سے ان کو آزادی ملے یہ کم ہوتے ہیں اور پھر ان سے کم نفس مطمئنہ والے یعنی مریم بنت عمران۔ جس زمانے کا وعدہ خدا نے کیا ہوا تھا ضرور تھا کہ اس میں ایک نفس مریم کی طرح ہوتا اور اس زمانے میں خدا نے فیہ میں ضمیر مذکر کی استعمال کی ہے تاکہ اشارہ اس طرف ہو کہ ایک مرد ہوگا جو صفات مریمیت حاصل کر کے عیسیٰ ہوگا۔

(البدر جلد 2 نمبر 3 مورخہ 6 فروری 1903ء صفحہ 20)

دنیا میں جس قدر چیزیں اللہ تعالیٰ نے پیدا کی ہیں وہ انسان کے لیے جسمانی اور روحانی دونوں قسم کی راحتوں کے سامان ہیں۔ میں نے حضرت جنید رحمة اللہ علیہ کے تذکرے میں پڑھا ہے کہ آپ فرمایا کرتے تھے۔ میں نے مراقبہ بلی سے سیکھا ہے۔ اگر انسان نہایت پرغور نگاہ سے دیکھے تو اسے معلوم ہو گا کہ جانور کھلے طور پر خُلق رکھتے ہیں۔ میرے مذہب میں سب چرند و پرند ایک خلق ہیں اور انسان اس کے مجموعہ کا نام ہے یہ نفس جامع ہے اور اسی لیے عالم صغیر کہلاتا ہے کہ کل مخلوق کے کمال انسان میں یکجائی طور پر جمع ہیں اور کل انسانوں کے کمالا ت بہیئت مجموعی ہمارے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم میں جمع ہیں اور اسی لیے آپ کل دنیا کے لیے مبعوث ہوئے اور رحمۃ للعالمین کہلائے۔ اِنَّکَ لَعَلٰی خُلُقٍ عَظِیۡمٍ (القلم: 5) میں بھی اسی مجموعہ کمالات انسانی کی طرف اشارہ ہے اسی صورت میں عظمتِ اخلاق محمدی کی نسبت غور کر سکتا ہے اور یہی وجہ تھی کہ آپ پر نبوت کاملہ کے کمالات ختم ہوئے یہ ایک مسلّم بات ہے کہ کسی چیز کا خاتمہ اس کی علّتِ غائی کے اختتام پر ہوتا ہے۔ جیسے کتاب کے جب کُل مطالب بیان ہوجاتے ہیں تو اس کا خاتمہ ہو جاتا ہے اسی طرح پر رسالت اور نبوت کی علّتِ غائی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ختم ہوئی اور یہی ختمِ نبوت کے معنے ہیں۔ کیونکہ یہ ایک سلسلہ ہے جو چلا آیا ہے اور کامل انسان پر آکر اس کا خاتمہ ہو گیا۔

(ملفوظات جلد 4 صفحہ 147، سن اشاعت 2016ء مطبوعہ لندن)

بنی نوع کے ہم پر حقوق

اب موقع ہے کہ تم خدا کے سامنے اپنے آپ کو درست کر لو اور اس کے فرائض کی بجاآوری میں کمی نہ کرو۔ خلق اللہ سے کبھی بھی خیانت، ظلم، بدخلقی، ترشروئی، ایذادہی سے پیش نہ آؤ۔ کسی کی حق تلفی نہ کرو کیونکہ ان چیزوں کے بدلے میں بھی خدا مؤاخذہ کرے گا۔ جس طرح خدا کے احکام کی نافرمانی، اس کی عظمت، توحید اور جلال کے خلاف کرنے اور اس سے شرک کرنا گناہ ہیں اسی طرح اس کی خلق سے ظلم کرنا۔ اور ان کی حق تلفیاں نہ کرو۔ زبان یا ہاتھ سے دکھ یا کسی قسم کی گالی گلوچ دینا بھی گناہ ہیں پس تم دونوں طرح کے گناہوں سے پاک بنو اور نیکی کو بدی سے خلط ملط نہ کرو۔

(ملفوظات جلد 4 صفحہ 326، سن اشاعت 2016ء مطبوعہ لندن)

تم لوگوں نے جو میرے ہاتھ پر بیعت کی ہے اسی پر بھروسہ نہ کر لینا صرف اتنی ہی بات کافی نہیں۔ زبانی اقرار سے کچھ نہیں بنتا۔ جب تک عملی طور سے اس اقرار کی تصدیق نہ کر کے دکھلائی جاوے۔ یوں زبانی تو بہت سے خوشامدی لوگ بھی اقرار کر لیا کرتے ہیں مگر صادق وہی ہے جو عملی رنگ سے اس اقرار کا ثبوت دیتا ہے۔ خدا کی نظر انسان کے دل پر پڑتی ہے۔ پس اب سے اقرار سچا کر لو اور دل کو اس اقرار میں زبان کے ساتھ شریک کر لو کہ جب تک قبر میں جاویں ہر قسم کے گناہ سے شرک وغیرہ سے بچیں گے۔ غرض حق اللہ اور حق العباد میں کوئی کمی یا سستی نہیں کریں گے۔ اسی طرح سے خدا تم کو ہر طرح کے عذابوں سے بچاوے گا اور تمہاری نصرت ہر میدان میں کرے گا۔ ظلم کو ترک کرو، خیانت، حق تلفی اپنا شیوہ نہ بناؤ اور سب سے بڑا گناہ جو غفلت ہے اس سے اپنے آپ کو بچاؤ۔

(ملفوظات جلد 4 صفحہ 328، سن اشاعت 2016ء مطبوعہ لندن)

میرے اصول کے موافق اگر کوئی مہمان آوے اور سبّ وشتم تک بھی نوبت پہنچ جاوے تو اس کو گوارا کرنا چاہئے کیونکہ وہ مریدوں میں تو داخل نہیں ہے۔ ہمارا کیا حق ہے کہ اس سے وہ ادب اور ارادت چاہیں جو مریدوں سے چاہتے ہیں۔ یہ بھی ہم ان کا احسان سمجھتے ہیں کہ نرمی سے باتیں کریں۔

پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ہے کہ زیارت کرنے والے کا تیرے پر حق ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ اگر مہمان کو ذرا سا بھی رنج ہو تو وہ معصیت میں داخل ہے۔ اس لیے میں چاہتا ہوں کہ آپ ٹھہریں۔ چونکہ کلمہ کا اشتراک ہے جب تک یہ نہ سمجھیں جو کہیں ان کا حق ہے۔

(ملفوظات جلد 4 صفحہ 201-202، سن اشاعت 2016ء مطبوعہ لندن)

(ترتیب و کمپوزڈ: عنبرین نعیم)

پچھلا پڑھیں

خلفاء کا مقام

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 22 فروری 2022