• 6 مئی, 2024

قرآنی انبیاء (قسط 5)

قرآنی انبیاء
سدوم کی تباہی
قسط 5

قوم کہتی تھی کہ تم دشمن کے ساتھ مل کر ہمارے خلاف سازشیں کرتے ہو۔ اس لئے آئندہ کوئی اجنبی شخص تمہارے گھر نہ آئے۔ ورنہ ہم سے برا کوئی نہ ہو گا۔ حضرت لوطؑ کا کہنا تھا کہ میں تمہارا دشمن نہیں بلکہ خیر خواہ ہوں۔ میری بات سنوا اور اپنی بری حرکتوں سے باز آ جاؤ۔ پھر ایک دن بات بڑھ گئی اور فیصلے کا وقت آ گیا۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے بتا دیا کہ کل اس قوم کو تباہ کر دیا جائے گا۔

ایک ایسی قوم کا واقعہ
جن میں ایک بھی عقلمند آدمی نہ تھا

یہ خبر واقعی بہت تکلیف دہ تھی کہ سدوم کے رہنے والوں پر ایک بہت بڑی تباہی آنے والی ہے۔ اس خبر کو سن کر پریشان ہونا ایک طبعی بات تھی۔ گو سدوم کے باشندوں کے متعلق سب جانتے تھے کہ وہ انتہائی بد کردار اور گندے لوگ ہیں لیکن یہ خبر سن کر حضرت ابراہیمؑ اس لئے فکر مند ہو گئے تھے کہ اس بستی میں خدا کے ایک نبی حضرت لوطؑ اور ان کے چند ماننے والے بھی رہتے تھے۔ یہ بستی جس میں حضرت لوطؑ نبی بنا کر بھیجے گئے تھے بحیرہ مردار کے ساحل پر واقع تھی۔ یہاں کے لوگ اپنی بدکرداری اور ظلم میں بہت بڑھ چکے تھے۔ چوری ڈاکہ ان کا عام معمول تھا۔ ان کی مجالس میں ہمیشہ بدی کے تذکرے ہوتے تھے۔ بے حیائی اور بے راہ روی ان کی فطرت میں رچ بس گئی تھی۔ ان حالات میں اللہ تعالیٰ کی رحمت جوش میں آئی اور اس نے اس قوم کی اصلاح کے لئے حضرت لوط ؑ کو نبی بنا کر بھیجا۔

آپ کے والد کا نام ھاران تھا اور آپ حضرت ابراہیمؑ کے زمانے میں ہی سدوم کی طرف نبی بنا کر بھیجے گئے تھے۔ آپ عراق سے اس علاقے میں آئے تھے۔ حضرت لوطؑ اپنی قوم کی خرابیاں دیکھ کر شدید تکلیف محسوس کرتے تھے۔ آپ چاہتے تھے کہ یہ لوگ باز آ جائیں اور نیکی کی راہوں پر گامزن ہو جائیں۔ آپ ان لوگوں سے کہتے کہ اے لوگو! تقویٰ اختیار کرو۔ میں جو تمہیں برائیوں سے روکتا ہوں اس میں میرا ذاتی مقصد کچھ بھی نہیں ہے۔ میں تو صرف تمہاری خیر خواہی چاہتا ہوں۔ آپ انہیں تبلیغ کرتے رہتے اور خدا تعالیٰ کی پکڑ سے ڈراتے رہتے لیکن وہ ماننے کا نام ہی نہ لیتے تھے۔ نصیحت کے جواب میں الٹا وہ حضرت لوطؑ کو تنگ کرتے۔ کہتے یہ دیکھو! بڑا ہم کو نصیحت کرتا ہے۔ بڑا پاکباز بنا پھرتا ہے۔ کہتا ہے کہ ہمارے عمل گندے ہیں۔ اے لوط! اگر تو باز نہ آیا تو ہم تجھے اور تیرے ساتھیوں کو اپنی بستی سے نکال دیں گے۔ یہ بڑی عجیب صورت حال تھی کہ قوم مسلسل انکار کیے جا رہی تھی اور حضرت لوطؑ مسلسل انہیں نیکیوں کی طرف بلا رہے تھے۔ بستی کے لوگ حضرت لوطؑ کی کھل کر مخالفت کر رہے تھے۔ وہ خود بھی آپ کی باتوں پر کان نہ دھرتے تھے اور آپ کو یہ دھمکی بھی دے رکھی تھی کہ باہر سے بھی کوئی مہمان تمہارے پاس نہیں آنا چاہیے کیونکہ عین ممکن ہے کہ تم بیرونی لوگوں کے ساتھ مل کر ہمارے خلاف کوئی منصوبہ بنا لو اس لئے تمہارے گھر میں کوئی مہمان باہر سے نہ آئے۔ یہ ایک نہایت احمقانہ پابندی تھی۔ حضرت لوطؑ خدا تعالیٰ کے نبی تھے۔ وہ دشمنوں کے ایجنٹ تو تھے نہیں کہ قوم کے خلاف دشمنوں سے ساز باز کر لیتے لیکن مخالفت نے قوم کو اندھا کر رکھا تھا۔ اس لئے انہوں نے آپ کو منع کیا ہوا تھا کہ غیر لوگ تمہارے گھر میں نہ آئیں۔

در اصل حضرت لوطؑ بنیادی طور پر عراق کے رہنے والے تھے اور سدوم نامی یہ بستی فلسطین میں بحیرہ مردار کے ساحل پر واقع تھی۔ حضرت لوطؑ عراق سے اپنے چچا کے ساتھ ان علاقوں کی طرف آئے تھے اور پھر اسی علاقے میں آپ کو نبوت کرنے کا حکم مل گیا۔ غیر علاقے کا ہونے کی وجہ سے بستی کے لوگ پہلے ہی شکوک میں مبتلاء تھے آپ کی نبوت کے اعلان نے انہیں اور زیادہ شک میں ڈال دیا۔ وہ آپ کی نگرانی کرتے اور بیرونی لوگوں کو آپ کے پاس آنے سے منع کرتے۔

یہ وہ حالات تھے جن میں آپ تبلیغ کا فريضہ سر انجام دے رہے تھے۔ آپ کا دل چاہتا تھا کہ لوگ توبہ کر کے نیک بن جائیں لیکن قوم کی بد اعمالی اس قدر بڑھ چکی تھی کہ وہ کوئی نصیحت سمجھتے ہی نہ تھے۔

آخر خدا تعالیٰ نے اس ظالم قوم کو سزا دینے کا ارادہ کیا اور حضرت ابراہیمؑ کو بھی اس بات کی خبر دی کہ اب اس قوم پر تباہی آنے والی ہے۔ حضرت ابراہیمؑ چونکہ حضرت لوطؑ سے محبت کرتے تھے اور جانتے تھے کہ آپ سدوم میں تبلیغ کا فرض سر انجام دے رہے ہیں اس لئے اس خبر کو سن کر پریشان ہونا ایک طبعی بات تھی۔ حضرت ابراہیمؑ اسی پریشانی کی بناء پر خدا تعالیٰ کے حضور دعاؤں میں مصروف ہو گئے۔ آپ نے عرض کی کہ اے اللہ سدوم میں لوطؑ اور اس کے ماننے والے نیک لوگ بھی ہیں۔ کیا نیکوں کی موجودگی کے باوجود عذاب آ جائے گا۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اگر وہاں پچاس آدمی بھی نیک اور صالح ہوں تو میں اس بستی کو عذاب سے بچا لوں گا۔ حضرت ابراہیمؑ نے عرض کی اگر چالیس ہوں تو؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایا اگر اتنے بھی ہوں تب بھی بچا لوں گا۔ حضرت ابراہیمؑ اس تعداد کو کم کرتے کرتے دس تک لے آئے خدا تعالیٰ نے فرمایا ٹھیک ہے اگر دس افراد بھی اس بستی میں نیک و پاکباز ہوں تو میں اس بستی کو بچا لوں گا۔ اس کے بعد حضرت ابراہیمؑ سمجھ گئے کہ اس بستی میں دس نیک لوگ بھی موجود نہیں ہیں اور سدوم کی تباہی اب لازم ہے۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیمؑ سے فرمایا اے ابراہیمؑ! ہم اس قوم کے لئے تیرے درد مند دل کی قدر کرتے ہیں لیکن اس دعا کو چھوڑ دے کیونکہ اس قوم کی تباہی کا فیصلہ ہو چکا ہے اور اب اس عذاب کو کوئی بھی ٹال نہیں سکتا۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت لوطؑ کو بھی بتا دیا کہ ان کی قوم کی تباہی کا وقت قریب ہے۔ البتہ ہم تجھے اور تیرے ماننے والوں کو اس عذاب سے بچا لیں گے۔

اب سخت دن آنے والے تھے کیونکہ قوم مسلسل اپنے برے مشغلوں میں مصروف تھی اور بالآخر ایک دن انتہا ہو گئی اور خدا تعالیٰ کا غضب بھڑک اٹھا۔ ہوا یوں کہ اللہ تعالیٰ کے کچھ نیک بندے جنہیں اللہ تعالیٰ نے الہاماً یہ بتلا دیا تھا کہ قوم لوط کی تباہی کا وقت آ چکا ہے۔ حضرت لوطؑ سے ملنے کے لئے اور یہ بات بتانے کے لئے حضرت لوطؑ کے گھر آئے۔ سدوم کے لوگوں نے چونکہ آپ کو منع کر رکھا تھا کہ کوئی شخص جو بستی کا باشندہ نہ ہو تمہارے پاس نہیں آنا چاہیے۔ جب انہیں یہ معلوم ہوا کہ کچھ مہمان حضرت لوطؑ کے پاس آئے ہیں تو وہ بہت خوش ہوئے کہ آج ہمیں لوط (علیہ السلام) کو رسوا کرنے کا موقع مل جائے گا۔ لوط (علیہ السلام) نے چونکہ ہمارے حکم کی خلاف ورزی کی ہے اس لئے آج ہم اسے خوب ذلیل کریں گے اور اس کے ان مہمانوں کے سامنے اس کی بے عزتی کریں گے۔ چنانچہ شور پڑ گیا اور بستی کے لوگ جلوس کی صورت میں حضرت لوطؑ کے گھر آ پہنچے۔ آتے ہی انہوں نے بد زبانی شروع کر دی اور اپنی بد فطری کی بناء پر مہمانوں کو گھر سے نکالنے کا مطالبہ کیا۔ حضرت لوطؑ قوم کے سامنے آئے۔ انہیں بتایا کہ دیکھو! میں تمہیں سچ کہتا ہوں کہ میں تمہارے خلاف کوئی سازش نہیں کر رہا میں اور میرے اہل و عیال تمہارے ساتھ اس بستی میں رہتے ہیں۔ میری بیٹیاں یہاں بیاہی ہوئی ہیں۔ اگر تم یہ کہو کہ کیا ضمانت ہے کہ میں تمہارا دشمن نہیں تو میری بیٹیاں جن کے گھر یہاں ہیں ایک کافی ضمانت ہیں۔ ان کی موجودگی میں کس طرح اس بستی کے خلاف کوئی کام کر سکتا ہوں۔ تم سمجھتے کیوں نہیں ہو؟ کیا تم میں کوئی ایک بھی عقلمند انسان نہیں ہے جو اس بات کو سمجھ سکے۔ لیکن وہ نادان لوگ دشمنی میں اندھے ہو چکے تھے۔ کہنے لگے یہ ضمانت وغیرہ کی بات چھوڑو ہمیں معلوم ہے کہ تمہاری بیٹیاں یہاں بیاہی ہوئی ہیں ہم جو بات کہہ رہے ہیں اس کا جواب دو۔ ہم نے تمہیں منع کیا تھا کہ اجنبی لوگوں کو گھر نہ لایا کرو تم نے ایسا کیوں کیا ہے؟ تم کیوں ہماری بات نہیں سمجھتے؟

حضرت لوطؑ ان کی اس کج بحثی کا کیا جواب دیتے؟ آپ نے فرمایا کہ اگر میرے پاس کوئی طاقت ہوتی تو میں تمہیں بدی سے روکتا۔ بس صرف اللہ تعالیٰ ہی کی پناہ ہے میں اس کی پناہ میں آتا ہوں۔ تم نے مجھے دکھ دینے میں انتہا کر دی میں نے ہمیشہ تمہاری خیر خواہی کی اور تم ہمیشہ میری مخالفت کی کوشش کرتے رہے۔ مجھے تنگ کرتے رہے اور میری عزت اچھالنے کے خواہش مند رہے۔ ٹھیک ہے! آج کے بعد تم جانو اور خدا جانے۔ اب وہی تم سے معاملہ کرے گا۔ یہ کہہ کر آپ دکھی دل کے ساتھ گھر واپس آ گئے۔ مہمان جنہیں پہلے ہی اللہ تعالیٰ قوم سدوم کی ہلاکت کے بارے میں الہاماً بتا چکا تھا انہوں نے حضرت لوطؑ کا غم دیکھ کر کہا آپ فکر نہ کریں اللہ تعالیٰ اس قوم کی تباہی کا فیصلہ کر چکا ہے اور ہم یہی بات آپ کو بتانے آئے تھے۔ آپ کی اور آپ کے ماننے والوں کی اللہ تعالیٰ خود حفاظت کرے گا۔ اب آپ یوں کریں کہ اس بستی سے ہجرت کی تیاری کریں اور رات کے کسی حصے میں یہاں سے نکل جائیں یہ بستی صبح کے وقت تباہ کر دی جائے گی اور اس کا نام و نشان تک مٹا دیا جائے گا۔

حضرت لوطؑ قوم کی بد اعمالیوں سے تنگ آ چکے تھے لیکن پھر بھی قوم کی ہلاکت کی خبر سن کر آپ کا دل غم محسوس کر رہا تھا لیکن اب خدا تعالیٰ کا حکم یہی تھا۔ اس لئے ہجرت لازم تھی سو آپ نے تیاری شروع کر دی اور اپنے تمام ماننے والوں کو جن کی تعداد بہت تھوڑی تھی ہجرت کرنے کا حکم دے دیا۔ حضرت لوطؑ کی بیوی بھی حضرت لوطؑ کے خلاف تھی۔ اسے آپ کی باتوں کی سچائی پر یقین نہ تھا اور وہ قوم کے لوگوں کی حمایت اور آپ کی مخالفت پر کمربستہ رہتی تھی۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے آنے والی سزا کی اس خبر پر بھی اس کا رد عمل تمسخرانہ تھا۔ اس نے اس بات کو سچ تسلیم نہ کیا اور آپ کے ساتھ ہجرت کرنے سے انکار کر دیا۔

بیوی کی وجہ سے آپ خدا تعالیٰ کے حکم سے رو گردانی نہیں کر سکتے تھے۔ اس لئے اسے سدوم میں ہی چھوڑ کر آپ اپنے ماننے والوں کے ساتھ راتوں رات سدوم سے ہجرت کر گئے۔ اب بستی میں کوئی نیک اور پاک شخص موجود نہ تھا۔ قوم عیش و عشرت میں مصروف تھی۔ گناہوں میں ڈوبی ہوئی قوم اس بات سے غافل تھی کہ صبح سویرے ایک تباہ کن عذاب ان پر آنے والا ہے۔ اور بالآخر وہ فیصلہ کن صبح طلوع ہو گئی جس میں عذاب آنے کی خبر دی گئی تھی۔ ادھر صبح طلوع ہوئی اور ادھر ایک شدید زلزلے نے سدوم کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ زلزلہ اتنا شدید تھا کہ یوں معلوم ہوتا تھا جیسے زمین تہہ و بالا کر دی گئی ہو۔ زلزلے کی شدت کی وجہ سے بڑے بڑے پتھر ہوا میں اڑ رہے تھے۔ ایسا لگتا تھا جیسے پتھروں کی بارش ہو رہی ہو اور کچھ ہی دیر میں یہ بستی مٹی کے ڈھیر میں تبدیل ہو چکی تھی۔ اہل سدوم یعنی سدوم کے رہنے والوں کی کہانی ختم ہو چکی تھی۔ وہ اپنی بد کرداری اور ظلم کی داستان پیچھے چھوڑ کر ہمیشہ کے لئے عبرت کا نشان بن چکے تھے۔ تمام بستی کے لوگ ہلاک ہو چکے تھے اور کوئی ان کی لاشوں پر آنسو بہانے والا بھی نہیں تھا۔ یہ انجام تھا ان لوگوں کا جنہوں نے خدا تعالیٰ کے ایک نبی کی تکذیب کی اور اپنی بد اعمالیوں سے باز آنے کی بجائے مسلسل ان میں بڑھتے چلے گئے۔ یہ کوئی کہانی نہیں بلکہ ایک حقیقی داستان ہے۔ ایسا واقعہ جو ہر دور کے لوگوں کو دعوت فکر دیتا ہے۔

(فرید احمد نوید۔ پرنسپل جامعہ احمدیہ انٹرنیشنل گھانا)

پچھلا پڑھیں

خلفاء کا مقام

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 22 فروری 2022