• 19 مئی, 2024

دیا ہے رہنما بڑھ کر خضرؑ سے

حضرت حکیم مولوی نور الدین خلیفة المسیح الاولؓ ایک مقام پر فرماتے ہیں۔
’’اولیا کرام کی کتابوں میں خضر کی ملاقات کا ذکر آتا ہے۔ اب سوال ہوتا ہے کہ خضر کیا چیز ہے؟ بعض کہتے ہیں کہ ایک نبی کا نام ہے اور بعض کہتے ہیں کہ ایک ولی کا نام ہے۔صوفی کہتے ہیں کہ جس کے ذریعہ ہدایت ملی وہ خضر ہے۔ چنانچہ ایک شعر آپ نے بھی سنا ہوگا کہ۔

؎تہیدستان قسمت راچہ سود از رہبر کامل
کہ خضر از آب حیوان تشنہ مے آرد سکندر را

یہاں ہر ہادی کا نام خضر رکھا ہے۔ تفسیر کبیر میں لکھا ہے کہ کہا گیا ہے کہ خضر فرشتہ کا نام ہے جیسے جبرئیل آنحضرت ؐ کے پاس آیا خضر حضرت موسی علیہ السلام کے پاس آیا تھا۔ کتب سابقہ میں معراج نامہ موسی ایک کتاب ہے اس میں فرشتہ کا نام حضر لکھا ہے اور میری تحقیقات میں حضر ہی صحیح ہے اور اسی کو خضر بنا لیا ۔۔۔۔ وہ ایک فرشتہ ہے خواہ وہ فرشتہ ہے خواہ متمثل ہوکر نظر آوے یا کسی آدمی کے ذریعہ تحریک کر دے۔ میری تحقیقات میں ایسی تحریک فرشتہ ہی کا کام ہے۔چونکہ ہر ہادی اور رہبر اسکی تحریک سے کام کرتا ہے اسلئے وہ خضر کہلاتا ہے۔‘‘

(ارشادات نور جلد دوم صفحہ 362۔ 363)

اب پورے کائنات میں ایک ہی وہ وجود ہے جو سب سے بہترین ہادی ورہبر وخضر کہلاتا ہے وہ ہے میرے محبوب آقا حضرت محمد ﷺ۔میری اس بات سے ذیل میں تحریر اقتباسات سے تقویت حاصل ہوسکتی ہے۔

حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں۔
’’میں سمجھتا ہوں کہ حضرت موسیٰ ؑ کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان اعلیٰ کے دکھانے کے لئے اللہ تعالیٰ نے یہ کشف دکھایا اور اس کشف کا خضر میرا محمدؐ ہی ہے جسکے ساتھ چلنے کی موسیٰ علیہ السلام کو طاقت نہ تھی۔ اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّد وَعَلٰی اٰلِ مُحَمَّد وَبَارِکْ وَسَلِّمْ اِنَّکَ حَمِیْدٌ مَّجِیْدٌ‘‘

(تفسیر کبیر جلد4 سورہ کہف صفحہ 470)

اسی طرح حضرت حکیم مولوی نور الدین خلیفة المسیح الاولؓ فرماتے ہیں۔
’’کوئی آدمی نہیں ہے جو یہ کہہ دے کہ مجھے احکام الہی میں اتباع رسالت پناہی کی ضرورت نہیں۔ کوئی صوفی، کوئی مست قلندر، بالغ مرد، بالغ عورت کوئی ہو۔ اس سے مستثنی نہیں ہوسکتے۔ اب کوئی وہ خضر نہیں ہو سکتا جو لن تستطیع معی صبراً بول اٹھے۔ یہ وہ موسی ہے جس سے کوئی الگ نہیں ہوسکتا کوئی آدمی مقرب نہیں ہوسکتا جب تک محمد رسول اللہ ﷺ کی سچی اتباع نہ کرے۔‘‘

(حقائق الفرقان جلد 4صفحہ 495)

اسی طرح حضرت مرزا طاہرا حمد خلیفة المسیح الرابع ؒ فرماتے ہیں۔
’’آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک تمثیل میں اُس بزرگ کی صورت میں دکھایا گیا ہے جسے عوام الناس حضرت خضر کہتے ہیں اور بتایا گیا کہ جو حکمتیں اس کو عطا کی جائیں گی وہ موسیٰ علیہ السلام کی پہنچ سے بالا ہیں اور ان کی کُنہ تک پہنچنے کے لئے جس صبر کی ضرورت ہے وہ موسیٰ علیہ السلام کو عطا نہیں ہوا تھا۔ اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو حضرت موسیٰؑ پر یہ فضیلت عطا ہوئی کہ آپ اللہ تعالیٰ کی حکمتوں کے ہمراز بنائے گئے۔‘‘

(قرآن کریم اردو ترجمہ مع سورتوں کا تعارف از حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ، صفحہ484)

؎دیا ہے رہنما بڑھ کر خضر ؑ سے
خدا بھی ہم پہ کیسا مہربان ہے

پس خدا کا یہ فضل واحسان ہے کہ ہمیں ایسا رہنما دیا ہے جس کے بارے میں خود اللہ تبارک تعالی نے کہا کہ اے محمدؐ! اگر تجھے نہ پیدا کرتا تو میں یہ کائنات کو نہ پیدا کرتا۔ آپؐ اس دنیا میں آئے اور اپنے قوت قدسی واخلاق فاضلہ سے وحشی صفت انسانوں کو با اخلاق وخدانما انسان بنا دیا۔ یہ قانون قدرت ہے کہ جہاں ترقی ہوتی ہے وہاں تنزل کا امکان بھی رہتا ہےاور جب کوئی دنیا میں آتا ہے تو اسے اس فانی دنیا سے جانا بھی ہوتا ہے۔ہر نبی دنیا میں آئے اور اپنا کام ختم کر کے رخصت ہوئے کیونکہ وہ ایک علاقے اور محدود زمانے تک کے لئے دنیا میں آ ئے تھے لیکن اس رہنما نے تو پوری دنیا کو راستہ دکھانا تھا اور تاقیامت اسکا فیض جاری رہنا تھا۔ ایک طرف دین اسلام کی کامیابی کی خوش خبری ان الفاظ میں اللہ تعالی نے دی کہ اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَاَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِیْ وَرَضِیْتُ لَکُمُ الْاِسْلَامَ دِیْنًا (المائدہ: 4) تو دوسری طرف آنحضرتﷺ کو یہ تنبیہ بھی فرمائی کہ یاتی علی الناس زمان لا یبقی من الاسلام الا اسمہ

(مشکوۃ کتاب العلم)

حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کو چونکہ خدا تعالی کی طرف سے امت واحدہ کے عبرتناک مستقبل کا علم دیا گیا تھا کہ بیرونی دشمن نہیں بلکہ امت کے اندرونی دشمن یعنی علماء امت کی وحدت کو پارہ پارہ کر دیں گے۔ اس لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی روح آستانہ الہی پر پڑی رہی جب تک کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے اس بشارت کا انکشاف نہ ہوگیا۔ بحوالہ ابو داود کتاب الملاحم روایت ہے۔

’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالی اس امت کے لئے ہر صدی کے سر پر ایسے لوگ کھڑے کرتا رہے گا جو اس امت کے دین کی تجدید کرتے رہیں گے۔‘‘

ہم میں سے ہر ایک مسلمان گواہ ہے کہ اللہ نے حضرت محمد مصطفی ﷺ سے جو وعدہ کیا تھا وہ پورے آب وتاب کے ساتھ پورا کیا۔ اس بہترین رہنما کے لئے اللہ تعالی نے وہ سامان پیدا کئے کہ تا قیامت اس خضر کی تعلیمات واسوہ زندہ رہا زندہ ہے اور زندہ رہیگا۔ ان شاء اللّٰہ

جیساکہ حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں۔
’’ہم یقینی اور قطعی طور پر ہر ایک طالب حق کو ثبوت دے سکتے ہیں کہ ہمارے سید و مولا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے سے ہر ایک صدی میں ایسے باخدا لوگ پیدا ہوتے رہے ہیں جن کے ذریعے سے اللہ تعالی غیر قوموں کو نشان دکھلا کر ان کو ہدایت دیتا رہا ہے جیسا کہ سید عبدالقادر جیلانی ؒاور ابوالحسن خرقانیؒ اور بایزید بسطامیؒ اور جنید بغدادیؒ اور محی الدین ابن عربیؒ اور ذو النون مصریؒ، معین الدین چشتی اجمیریؒ اور قطب الدین بختیار کاکیؒ اور فریدالدین پاک پٹنی اور نظام الدین دہلوی شاہ ولی اللہ دہلوی اور شیخ احمد سرہندی رضی اللہ عنہم و رضواعنہ اسلام میں گزرے ہیں اور ان لوگوں کا ہزارہا تک عدد پہنچا ہے۔۔۔۔ میں سچ سچ کہتا ہوں کہ میں نہایت صحیح تحقیقات سے دریافت کیا ہے کہ جہاں تک بنی آدم کے سلسلہ کا پتہ لگتا ہے سب پر غور کرنے سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ جس قدر اسلام میں اسلام کی تائید میں اور آنحضرتﷺ کی سچائی کی گواہی میں آسمانی نشان بذریعہ اس امت کے اوعلیاء کے ظاہر ہوئے اور ہورہے ہیں انکی نظیر دوسرے مذاہب میں ہر گز نہیں۔‘‘

(کتاب البریہ، روحانی خزائن جلد 13 صفحہ91-92)

اسی طرح آنحضرت ﷺ کی پیشگوئی کہ لَوْکَانَ الدِّیْنُ عِنْدَ الثُّرَیَّا لَذَھَبَ بِہِ رُجُلٌ مِّنْ فَارِس (مسلم) کے عین مطابق اس پر آشوب زمانے میں حضرت مرزا غلام احمد قادیانی ؑ نے اللہ تعلی کی حکم سے اپنے آپ کو چودویں صدی کا مجدد کے طور پر اعلان کرتے ہوئے فرمایا کہ۔
’’مجھے اُس خدائے کریم و عزیز کی قسم ہے جو جھوٹ کا دشمن اور مفتری کا نیست و نابود کرنے والا ہے کہ میں اُس کی طرف سے ہوں اور اُس کے بھیجنے سے عین وقت پر آیا ہوں اور اُس کے حکم سے کھڑا ہواہوں اور وہ میرے ہر قدم میں میرے ساتھ ہے اور وہ مجھے ضائع نہیں کرے گا اور نہ میری جماعت کو تباہی میں ڈالے گا جب تک وہ اپنا تمام کام پورا نہ کر لے جس کا اُس نے ارادہ فرمایا ہے۔ اس نے مجھے چودھویں صدی کے سر پر تکمیل نور کے لئے مامور فرمایا‘‘

(اربعین حصہ دوم، روحانی خزائن جلد17 صفحہ348)

آپ ؑ اس زمانہ میں دنیا میں آئے جب دشمنان اسلام چوطرفہ اسلام پر حملے کر رہے تھے۔ آپ نے آنحضرت ﷺ جو پورے دنیا کے لئے بہترین خضر تھے کی نمائندگی کی اور دین اسلام کو ایک عظیم الشان مقام پر پہنچایا جسکی اپنے تو اپنے غیروں نے بھی تعریف کی۔ اخبار اکیل امرتسر کے ایڈیٹر آپ ؑ کے وفات پر لکھتا ہے۔

’’غرض مرزا صاحب کی یہ خدمت آنے والی نسلوں کو گر انبار احسان رکھے گی کہ انہوں نے قلمی جہاد کرنے والوں کی پہلی صف میں شامل ہو کر اسلام کی طرف سے فرض مدافعت ادا کیا اور ایسا لٹریچر یادگار چھوڑا جو اس وقت تک کہ مسلمانوں کی رگوں میں زندہ خون رہے اور حمایت اسلام کا جذبہ ان کے شعار قومی کا عنوان نظر آئے۔ قائم رہے گا۔‘‘

(بحوالہ بدر 18 جون 1908ء صفحہ2-3،تاریخ احمدیت جلد دوم صفحہ561)

؎ہر طرف فکر کو دوڑا کے تھکایا ہم نے
کوئی دیں دین محمدؐ سانہ پایا ہم نے
کوئی مذہب نہیں ایسا کہ نشاں دکھلائے
یہ ثمر باغ محمدؐ سے ہی کھایا ہم نے

اللہ تعالی نے اس عظیم خضر یعنی ہمارے پیارے آقا ﷺ کی تعلیمات کو اس غلام صادق کے بعد بھی جاری رکھنا تھا جیسا کہ ایک حدیث میں آپﷺ فرماتے ہیں۔
’’تم میں نبوت قائم رہے گی جب تک اللہ چا ہے گا۔ پھر وہ اس کو اٹھا لے گا۔ پر خلافة على منهاج النبوۃ قائم ہوگی پھر اللہ تعالی جب چا ہے گا اس نعمت کو بھی اٹھالے گا۔ پھر اس کی تقدیر کے مطابق ایذا رساں بادشاہت قائم ہوگی۔ جب یہ دورختم ہو گا تو اس کی دوسری تقدیر کے مطابق اس سے بھی بڑھ کر جا بر با دشاہت قائم ہو گی یہاں تک کہ اللہ تعالی کا رحم جوش میں آئے گا اور اس ظلم وستم کے دور کو ختم کر دے گا۔ اس کے بعد پھر خلافة على منهاج النبوۃ قائم ہوگی اس کے بعد آپ خاموش ہوگئے۔’’

(مسند احمد بن حنبل ؒ حدیث 17680 مجمع الذوائد کتاب المناقب باب الولید جلد 9صفحہ413)

چنانچہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنی وفات سے قبل اپنی جماعت کو قدرت ثانی کے ظہور کی خوشخبری عطا فرمائی کہ جس کا سلسلہ قیامت تک منقطع نہیں ہوگا اور یہ قدرت ثا نیہ ہمیشہ ہما رے سا تھ ر ہے گی۔ ان شاء اللّٰہ

آپؑ فرماتے ہیں۔
’’سوضر ور ہے کہ تم پر میری جدائی کا دن آ وے تا بعد اس کے وہ دن آ وے جو دائمی و عد ہ کا دن ہے۔ میں خدا کی طرف سے ایک قدرت کے رنگ میں ظا ہر ہوا اور میں خدا کی ایک مجسم قدرت ہوں اور میرے بعد بعض اور وجود ہونگے جو دوسری قدرت کا مظہر ہو نگے۔‘‘

(الوصیت، روحانی خزائن جلد20 صفحہ306)

آپ ؑ کے بعد اللہ تعالیٰ نے اس خضر کی تعلیمات کو جاری رکھنے کے لئے خلفاء احمدیت کا سلسلہ جاری رکھا۔ تمام خلفاء کرام نے اسلام کی بہبودی کے لئے وہ رہنمائی فرمائی جو اکناف عالم میں ایک مثال بنی۔ ہم احمدی مسلمان خوش قسمت ہیں کہ اس خضر کی قائم کردہ رہنما اصولوں کو خلافت خامسہ کے ذریعہ اپنے زندگی کا حصہ بنا رہے ہیں۔ ہمارے پیارے امام حضرت مرزا مسرور احمد خلیفة المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزایک مقام پر فرماتے ہیں۔
’’دین میں اور روحانیت میں کوئی خود بخود اعلیٰ معیاروں کو حاصل کرنے کے راستے تلاش نہیں کر سکتا۔ جب تک خداتعالیٰ کی طرف سے اس کا کوئی چنیدہ بندہ وہ راستے نہ دکھائے۔ اور اس زمانے میں جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا وہ چنیدہ بندہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ہیں۔ بہرحال جیسا کہ مَیں نے کہا اللہ تعالیٰ کے قرب کے اعلیٰ معیار صرف کچھ عبادت کرکے حاصل نہیں ہو جاتے اور نہ ہی نیکیوں کی انتہا کچھ نیکیاں حاصل کرنے سے ہو جاتی ہے بلکہ یہ ایک مسلسل عمل ہے اور مسلسل سفر ہے جس پر چلتے ہوئے جب مومن اپنے خیال میں منزل کے قریب پہنچتا ہے تو اسے اور منزلیں نظر آنی شروع ہو جاتی ہیں۔‘‘

(خطبہ جمعہ 29؍اپریل 2005ء)

نیز آپ ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:
’’پس ہم خوش قسمت ہیں کہ ہم نے امامِ وقت کی بیعت کی اور ان جاہلوں میں شامل نہیں ہوئے جو امامِ وقت کے انکاری ہیں۔ لیکن اگر ہمارے عمل اس قبول کرنے کے بعد بھی جہالت والے رہے تو اپنے آپ کو عملاً اس بیعت سے باہر نکالنے والی بات ہو گی اور اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولؐ کی اطاعت سے بھی باہر نکل رہے ہوں گے۔

پس بیعت کے بعد اپنی سوچوں کو درست سمت میں رکھنا اور کامل اطاعت کے نمونے دکھانا انتہائی ضروری ہے۔ زمانے کے امام نے اپنی بیعت میں آنے والوں کے معیار کے بارے میں کیا فرمایا ہے۔ ایک موقعے پر آپؑ نے فرمایا کہ: ’’ہماری جماعت میں وہی داخل ہوتا ہے جو ہماری تعلیم کو اپنا دستور العمل قرار دیتا ہے اور اپنی ہمت اور کوشش کے موافق اس پر عمل کرتا ہے۔ لیکن جو محض نام رکھا کر تعلیم کے موافق عمل نہیں کرتا۔ وہ یاد رکھے کہ خدا تعالیٰ نے اس جماعت کو ایک خاصفحہ جماعت بنانے کا ارادہ کیا ہے اور کوئی آدمی جو دراصل جماعت میں نہیں ہے۔ محض نام لکھانے سے جماعت میں نہیں رہ سکتا۔‘‘ یعنی عملی حالت اگر اس تعلیم کے مطابق نہیں تو صرف نام لکھوا کر جماعت میں شامل ہونے والی بات ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام فرماتے ہیں کہ اصل میں میری نظر میں تو وہ جماعت میں نہیں ہے۔ آپ فرماتے ہیں ’’…… اس لئے جہاں تک ہو سکے اپنے اعمال کو اس تعلیم کے ماتحت کرو جو دی جاتی ہے۔‘‘

(ملفوظات جلد 4 صفحہ 439)

(خطبہ جمعہ 24؍ مئی 2019ء)

پس ان اعلی منازل ومعیار کو حاصل کرنے کے لئے موجودہ دور میں اس خضر کے نمایندہ وخلیفہ وقت کی ہر بات وہدایت کو ماننا ضروری ہے تبھی جاکر ہم اسلام کی بہترین تعلیمات سے اپنے آپ کو مزین کر سکتے ہیں۔اللہ تعلی ہمیں اسکی توفیق عطاء فرمائے۔ آمین

؎دیا ہے رہنما بڑھ کر خضر ؑ سے
خدا بھی ہم پہ کیسا مہربان ہے

(حلیم خان شاہدؔ۔مربی سلسلہ کٹک،اڈیشہ،انڈیا)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 21 فروری 2022

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ