• 19 مئی, 2024

جناب انیق ناجی کی خدمت میں چند گزارشات

چند روز قبل جناب انیق ناجی نے بڑے درد دل کے ساتھ جماعت احمدیہ پاکستان کے نام ایک ویڈیو پیغام بھیجا ہے جس میں انہوں نے فرمایا کہ پاکستان میں احمدیوں پر جو شدید ظلم ہو رہا ہے وہ آئندہ بیس یا پچاس سالوں میں ختم ہوتا نظر نہیں آ رہا۔ چند افراد جو احمدیوں کے حق میں آواز اٹھاتے ہیں اس کا قوم پر کوئی اثر ہونے والا نہیں۔ قوم مردہ ضمیر ہے جس سے کسی قسم کی خیر کی توقع رکھنا حماقت ہے۔ اس لئے احمدیوں کو Out of the box جاکر کوئی حل نکالنا ہو گا۔ انہوں نے یہ تجویز دی ہے کہ احمدیہ لیڈرشپ سے پاکستان کی جماعت یہ کہے کہ آئندہ 50 یا 100 سالوں کے لئے قوم کا مطالبہ مان لیا جائے اور احمدی یہ برملا اعلان کر دیں کہ ہم مسلمان نہیں ہیں۔اس طرح قوم کے ظلموں سے وہ بچ سکتے ہیں اور جنت یا دوزخ میں جانے کا اس سے کوئی تعلق نہیں کہ قوم کیا سمجھتی ہے؟۔ دل سے بےشک اپنے آپ کو مسلمان سمجھیں جیسے بھلے شاہ نے کہا تھا کہ ’’بھلے شاہ !تینوں کافر کافر آخدے تو آہو آہو آکھ‘‘ اس طرح اوپر اوپر سے تم کہہ دو کہ ٹھیک ہے ہم مسلمان نہیں ہیں۔ اس سے مظالم سے چھٹکارہ مل سکے گا۔

انیق ناجی صاحب کی سادگی

ناجی صاحب پر حسن ظن رکھتے ہوئے ہم انکا شکریہ ادا کرتے ہیں کہ انہوں نے، ہم جو پاکستان میں رہنے والے احمدی ہیں، ہم پر ہونے والے ظلموں کا درد اپنے سینے میں محسوس کرتے ہیں اور حسب موقعہ وہ ہمارے حق میں آواز بھی اٹھاتے رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ انکو اسکی بہترین جزاء عطا فرمائے۔ آمین

لیکن ناجی صاحب نے اپنی سادگی میں یا مذہبی نالج کم ہونے کی وجہ سے اپنی اس تجویز پر غور نہیں کیا اگر بالفرض، نعوذ باللہ من ذالک، بفرض محال ہم پاکستان کے احمدی آج یہ اعلان بھی کر دیں کہ ہم مسلمان نہیں تو بھی یہ مسئلہ جوں کا توں رہے گا کوئی فرق نہیں پڑے گا کیونکہ صرف اس اعلان سے بے ضمیر مخالف ملاں کی تسلی نہیں ہو گی بلکہ اسکے بعد انکی تسلی کے لئے ہمیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے بھیجے ہوئے وقت کے امام، مسیح الزماں حضرت امام مہدی علیہ الصلوۃ والسلام جن کی صدیوں بلکہ ہزاروں سال سے دنیا منتظر تھی، جن پر ہمارے ماں باپ، ہماری نسلیں، ہماری جان، مال، عزت و آبرو سب کچھ قربان، انکو سخت غلیظ گالیاں دینی پڑیں گی۔ تب بھی انکی مخالفت ختم نہیں ہو گی پھر ہمیں تمام اسلامی شعار مثلا السلام علیکم، الحمد للّٰہ، ماشاء اللّٰہ، سبحان اللّٰہ وغیرہ سے بکلی اجتناب کرنا پڑے گا کیونکہ اگر کسی احمدی نے اپنی گفتگو میں غلطی سے بھی ماشاء اللہ کہہ دیا تو ملاں یہ فتوی دے گا کہ یہ زندیق ہے،واجب القتل ہے کیونکہ اندر سے یہ اپنے آپ کو مسلمان ہی سمجھتا ہے۔ اسی لئے ان شاء اللہ کہہ رہا ہے۔ کوئی احمدی نماز نہیں پڑھ سکے گا۔ کوئی احمدی قرآن نہیں پڑھ سکے گا۔ کوئی احمدی اپنے آقا و مولی حضرت محمد مصطفی ﷺ پر درود و سلام نہیں بھیج سکے گا۔ کوئی احمدی کسی قسم کا کوئی بھی اسلامی شعار نہیں اپنا سکے گا۔ اینٹی قادیانی آرڈینیس کے جو الفاظ ہیں کہ کوئی احمدی قادیانی اپنے آپ کو اشارۃ یا کنایۃ بھی مسلمان ظاہر نہیں کر سکتا یہ ساری دفعات تو قائم رہیں گیں۔تلوار تو پھر بھی ہماری گردنوں پر لٹکتی رہے گی پس آپ کی تجویز پر عمل کرنے سے ایک رتی کا بھی فائدہ ہوتا نظر نہیں آتا بلکہ الٹا نقصان ہو گا کیونکہ ملاں کی جاسوسی اور زیادہ بڑھ جائے گی۔وہ ایک احمدی کے ایمان سے واقف ہیں وہ ہر وقت اس تاک میں ہو گا کہ کوئی احمدی کوئی اسلامی شعار، کوئی اسلامی عمل نہ بجا لا ئے۔ نہ ہم نماز پڑھ سکیں گے، نہ عید، نہ حج، نہ قربانی، نہ ہی تسبیح و تحمید نہ خدا کو اللہ کے نام سے یاد کر سکیں گے، نہ ہی اپنے بچوں کے اسلامی نام رکھ سکیں گے۔

آپ کی سوچ کے مطابق تو بس ایک ہی صورت باقی رہ جاتی ہے کہ ہم بھی حضرت امام مہدی علیہ السلام اور مسیح دوران کو نعوذ باللہ دن رات گالیاں دیں۔ ہم بھی تمام اسلامی اخلاق کے برعکس چوریاں کریں، ڈاکے ڈالیں، دوسروں کی ماؤں بہنوں کی عزتوں سے کھیلیں، معصوم بچیوں اور بچوں کا ریپ کریں اور نہایت سفاکی سے قتل کر کے انہیں گند کے ڈھیر پر پھینک دیں، لڑکیوں کو اغوا کریں اور انکو اپنے ہوس کا نشانہ بنائیں، اغوا برائے تاوان کریں، غنڈا گردی کے مسلح وننگ بنائیں، بھتہ خوری کریں، غریبوں کے پلاٹوں، جائدادوں پر ناجائز قبضےاورنشے کا کاروبار کریں، کرپشن، جھوٹ، دھوکہ، بددیانتی، عہد شکنی، ملاوٹ، ذخیرہ اندوزی، گالم گلوچ، ماؤں بہنوں کی گالیاں سر عام دیں، بدزبانی اورقتل و غارت کا بازار گرم کریں، جلسے جلوس نکالیں اورسرکاری اور عوام کی املاک کو نقصان پہنچائیں، گزرگاہوں پر دھرنے اور دوسروں کے حقوق تلف کرنے جیسے مکروہ کام کریں تب شائد آپ کا ملاں ہمیں گلے لگا کر پھولوں کے ہار پہنائے، اس سے کم پر وہ ہرگز راضی نہیں ہو گا۔ کیا آپ نے یو ٹیوب پر ان مولویوں کی ویڈیوز نہیں دیکھیں جو قوم کو ایک احمدی کی پہچان کروا رہے ہیں کہ جب انکی دکان پر ایک ایسا شخص یا عورت آئے جو حیادار ہو، جھکی ہوئی نظریں ہوں وہ تہذیب سے بات کرے اسکے گفتار میں نرمی اور لب و لہجہ میں شرافت ہو تو یقین کر لو کہ وہ احمدی ہے۔

ناجی صاحب! آپ بھی یقین کر لیں کہ جب تک ہم بھی شرافت، صداقت، امانت اوردیانت کا لباس اتار کر پاکستان کے مسلمانوں کے حمام میں انہی کی طرح ننگے نہ ہو جائیں یہ ملاں ہم سے راضی نہیں ہو سکتا۔ اب آپ خود ہی بتائیں کہ کیا ہم ایسے بن جائیں؟

بقول غالب۔

اس سادگی پہ کون نہ مر جائے اے خدا

چند افراد کی آواز پر امید نہ لگائیں

انیق ناجی صاحب نے بڑے درد سے فرمایا ہے کہ میرے والد نذیر ناجی صاحب، مبشر لقمان، عاصمہ جہانگیر اور اب انکی بیٹی یا میرے جیسے چند لوگ آپ کے حق میں آواز اٹھا لیتے ہیں اس پر احمدی انحصار مت کریں کیونکہ اس سے قوم کی مجموعی ذہنیت پر کوئی اثر نہ پڑے گا اس لئے احمدیوں کو Out of the box جا کر کوئی حل ڈھونڈنا ہو گا۔

محترم ناجی صاحب! ہم پاکستان کے احمدی اس بات کا برملا اظہار کرتے ہیں کہ خدا کی قسم کسی ایک سچے احمدی کا یہ واہمہ بھی نہیں ہے کہ آپ جیسے جرنلسٹ، دانشوروں، کالم نویسوں کے آواز اٹھانے سے ہمارا مسئلہ حل ہو جائے گا۔ ہاں اگر ہمارا کوئی بیان آ جاتا ہے کہ ہم پر یہ ظلم ہو رہے ہیں تو وہ صرف اللہ کے حکم کے مطابق ہے کہ ظلم کے خلاف آواز اٹھاؤ اور ظاہری تدبیر بھی اختیار کرو ورنہ یاد رکھیں نہ ہی کسی سیاسی جماعت یا فوجی شخصیت پر ہماری نظر ہے نہ ہی ہم کسی کو اس قابل سمجھتے ہیں کہ وہ ہمارے بارے کچھ کر سکے گا۔ ہماری نظریں صرف اور صرف اللہ تعالیٰ پر ہیں جو ہمارا حقیقی مولی اور مدد گار ہے اسی پر ہمارا توکل ہے اور ہم سب اس کامل یقین سے پُر ہیں کہ ان شاء اللہ پاکستان میں انقلاب بھی اسی کے ہاتھوں آئے گا۔ ہم سے اس نے جو وعدے کئے ہیں وہ ہر روز ہم اپنی آنکھوں سے پورے ہوتے دیکھتے ہیں۔ہماری ذات کے بارے میں، ہماری جماعت کے بارے میں اور مخالف قوم کے بارے میں جو جو اللہ تعالیٰ نے خبریں دے رکھی ہیں انکا حرف حرف اور لفظ لفظ پورا ہو رہا ہے۔ اس لئے ہم کوئی پاگل تو نہیں کہ اپنی آنکھوں کے سامنے نازل ہوتے ہوئے اللہ تعالیٰ کے روشن نشانات اور چمکتے معجزات سے آنکھیں بند کر کے اس سے رخ موڑ لیں۔ یہ بے وفائی ہم سے ہرگز نہیں ہو سکتی۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے مسیح الزماں اور مہدی موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو جو پیشگوئیاں عطا فرمائیں ان میں ہرگز یہ ذکر نہیں کہ یہ انقلاب روٹین میں برپا ہو گا بلکہ تمام پیشگوئیوں میں بَغْتَۃً کے الفاظ ہیں یعنی اچانک اللہ تعالیٰ کی مدد آئے گی اور اس ملک کی کایا پلٹ جائے گی۔ یہ کوئی ایک پیشگوئی نہیں حضرت مرزا صاحب کو اللہ تعالیٰ نےسینکڑوں پیش خبریاں بتائیں جو بڑی آب و تاب سے آج تک پوری ہو رہی ہیں اور آئندہ تا قیامت پوری ہوتی رہیں گی کوئی دنیا کی طاقت ان کی سد راہ نہیں ہو سکتی اس لئے ہمارے دل، ایمان اور یقین سے پُر ہیں ہمارے نفس سکون اور راحت میں ہیں اور ہم اپنے رب کی رضا پر راضی ہیں۔

مزید جنازوں اور نقصان سے بچ جائیں

انیق ناجی صاحب بڑے ہمدردانہ انداز میں نصیحت کرتے ہیں کہ کوئی ایسی راہ نکالیں کہ مزید جنازوں اور نقصان سے بچ جائیں۔

محترم ناجی صاحب! آپ نے شائد مذہبی تاریخ کا بغور مطالعہ نہیں کیا۔آپ نے تاریخ انبیاء کا مطالعہ نہیں کیا۔کیا کبھی بھی مذہبی جماعتوں نے قربانیاں دیئے بغیر ترقی کی ہے ؟ کیا مذہبی جماعتوں کے غلبے کی راہیں قربانیوں کے علاوہ بھی کوئی تھیں ؟ تمام انبیاء نے مومنین کو قربانیوں کی طرف ہی بلایا۔ کیا آپ کو حضرت عیسی علیہ السلام پر ایمان لانے والے حواریوں کا قصہ یاد نہیں رہا؟ جن کو اتنی ماریں پڑتی تھیں کہ جب سفاک قوم نے انکے لئے زمین تنگ کر دی تو وہ زیر زمین غاروں میں چھپ گئے مگر اپنے ایمانوں کا سودا نہ کیا۔ اگر آپ قرآن کریم کوغور سے پڑھتے تو سورہ کہف انہی کے واقعات پر مشتمل ہے۔ اوراحادیث میں یہ پیشگوئی تھی کہ امام مہدی کے ماننے والوں پر بھی اصحاب کہف کا زمانہ آئے گا۔ ناجی صاحب! اگر آپ اُس زمانہ میں ہوتے تو کیا یہی تجویز حواریوں کو بھی دیتے کہ کیا فرق پڑتا ہے ان یہودیوں کے سامنے جا کر ایک بار اقرار کر لو کہ ہم مسیحی نہیں ہیں۔ ایک بار حضرت عیسی علیہ السلام کا انکار کر دو تو ان ظلموں سے بچ جاؤ گے۔ پھر کیا آپ سرور دوعالم رحمۃ للعالمین ہمارے آقا و مولی فداہ ابی و امی ﷺ کا زمانہ بھی بھول گئے؟۔ کیا آپ کو مکہ کی وہ سنگلاخ گلیاں بھی یاد نہیں رہیں؟۔ جہاں سیدنا بلال کو چلچلاتی دھوپ میں گھسیٹا جاتا صرف اس جرم میں کہ انہوں نے قوم کے مجموعی عقیدہ کو چھوڑ کر یعنی 313 بتوں کو چھوڑ کر ایک خدا کے معبود ہونے کا اقرار کیا تھا۔ جب انکو مارا جاتا، انکے سینے پر گرم پتھر رکھے جاتے تو وہ لا الہ الا اللّٰہ کا ہی پاکیزہ ورد کرتے جب انکی زبان میں اتنی سکت بھی نہ رہتی کہ وہ لا الہ الا اللّٰہ کہہ سکیں تو احد احد کہتے۔ جب اتنی طاقت بھی نہ رہتی تو انگلی سے آسمان کی طرف اشارہ کر دیتے کہ اللہ ایک ہے میں تمہارے بتوں کو نہیں مانتا اور بے ہوش ہو جاتے۔ انکی کمر کی کھال ادھیڑ دی گئی مگر انہوں نے اف تک نہ کی۔ یہ تو ایک جانثار کا واقعہ ہے۔ مکہ کے ہر گھر میں ایسے ہی ہولناک مظالم ڈھائے جا رہے تھے کہ انکے ذکر سے بھی آج رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں اور روح کانپ جاتی ہے۔انہوں نے اپنے ایمانوں کی حفاظت کی اور زبان پر اف تک نہ آنے دی۔ اگر آپ وہاں ہوتے تو ان صحابہ کو کیا مشورہ دیتے؟ کیا آپ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ ہم موسی کے حواریوں کی طرح آج اللہ کے خلیفہ اور ہمارے محبوب امام سے کہیں کہ جا تو اور تیرا رب یہ قربانیں دیں ہم یہ قربانیاں نہیں دے سکتے تو ہم سے زیادہ بدبخت اور بدقسمت اور کوئی نہ ہو گا کہ ایمان کی دولت سے لذت یاب اور مالامال ہو کر پھر ہم ان وقتی قربانیوں سے ڈر گئے اور خوف کھا گئے۔ ہرگز نہیں! اللہ کی قسم! اگر ہمارے بدنوں کے ٹکڑے ٹکڑے بھی کر دیئے جائیں۔ انہیں کوؤں اور چیلوں کو کھلا دیا جائے۔ ہمیں راکھ بنا دیا جائے اور پھر اس راکھ کو سمندروں اور پانیوں میں بہا دیا جائے۔تو اللہ کی قسم ہمارے بدن کے ذرے ذرے سے اللہ اور اسکے رسول کی محبت کی آوازیں بلند ہوں گی۔ پس ہمیں مت ڈرائیں۔ اگر ڈرانا ہے تو اس قوم کو اللہ کے غضب سے ڈرائیں کہ اگر اللہ نے انکی رسی چند ایام کے لئے ڈھیلی کر چھوڑی ہے تو اسکا یہ ہرگز مطلب نہیں کہ وہ امن میں ہیں بلکہ ایک دردناک عذاب تیزی سے انکی طرف بڑھ رہا ہے۔ انکو قوم ثمود کا قصہ سنائیں، انکو قوم نوح کی یاد دلائیں، انکو قوم لوط کے واقعات بتائیں کہ کس طرح اللہ کے غضب کی چکی میں پس کر ہمیشہ کے لئے عبرت کا نشان بن گئیں۔ اے کاش کہ یہ قوم عبرت حاصل کرے۔ فَاعْتَبِرُوا يَاأُولِي الْأَبْصَارِ

محترم ناجی صاحب! جنازوں سے ہمیں مت ڈرائیں۔ آپ قرآن کریم کھول کر پڑھیں اللہ تعالیٰ کے بے شمار انعامات ہیں جن میں سے سب سے بڑے چار انعام ہیں۔ سب سے بڑا انعام نبوت کا پھر صدیقیت کا پھر شہادت کا پھر صالحیت کا ہے۔ ہم نماز کی ہر رکعت میں جب صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ کی دعا کر کے انعام یافتہ گروہ میں شامل ہونے کی دعا کر رہے ہوتے ہیں تو دراصل انہی چار مبارک گروہوں میں شامل ہونے کی دعا کر رہے ہوتے ہیں۔ پس اللہ کی خاطر موت کا پیالہ پینا تو طریق صالحین ہے یہ تو بہت بڑا انعام ہے جو قسمت والوں کو ملا کرتا ہے۔ جب حضرت انس بن نضر ؓکو دشمن نے پیچھے سے وار کر کے نیزہ انکی چھاتی کے آر پار اتار دیا اور خون کا فوارہ پھوٹ پڑا تو انہوں نے اپنے دونوں ہاتھوں سے بہتا ہوا خون لیا اور اسکو اچھالتے ہوئے نعرہ لگایا۔ فُزْتُ وَرَبِّ الكَعْبَةِفُزْتُ وَرَبِّ الكَعْبَةِ۔ کعبہ کے رب کی قسم! میں کامیاب ہو گیا، کعبہ کے رب کی قسم! میں بامراد ہو گیا۔

کیا آپ کو بستر مرگ پر پڑے سسکیاں لیتے سیف اللہ خالد بن ولید ؓ کی آہیں یاد نہیں جب روتے روتے انکی ہچکی بندھ گئی تو ایک عیادت کرنے والے نے تعجب سے پوچھا کہ اے اللہ کی تلوار! تُو تو ہر میدان جہاد میں بے خوف و خطر اور بے نیام رہا۔ تُوتو ہر اس گھمبیر مقام پر پہنچا جہاں سر تن سے جدا کئے جا رہے تھے جہاں گردنیں کاٹی جا رہی تھیں اور سینے برمائے جا رہے تھے۔ آج تُو موت سے اتنا خائف کیوں ہے۔ تجھے یہ بزدلی زیب نہیں دیتی۔ تو اس سوال کرنے والے کو خالد نے اپنے بدن سے کپڑا اٹھا کر دیکھایا، اپنا چاک گریبان کھول کر دیکھایا، کہ دیکھو اور یہ دیکھو اور یہ دیکھو! اور اے دیکھنے والے مجھے بتاؤ کیا ایک انچ بھی ایسی جگہ باقی ہے جہاں خالد نے اللہ کی راہ میں زخم نہ کھائے ہوں لیکن وائے حسرت اور وائے حسرت اور وائے حسرت کہ خالد ہر میدان سے غازی بن کر لوٹا اور شہادت کا جام نہ پی سکا اور آج بستر مرگ پر پڑے جان دے رہا ہے۔ پس شہادت تو قسمت والوں کا نصیب ہے ہر کسی کو نہیں ملتی۔

جو ایمان خالد کی روح میں اسکے آقا نے بھر دیا تھا اسی آقا کی غلامی کا ہم بھی دم بھرتے ہیں پھر کیوں ہم خوف کھا جائیں اور ہمارے قدم ڈگمگا جائیں۔ دیکھیں! آج بھی اسی آقا کے عشاق اپنی قربانیوں سے وہی تاریخ رقم کر رہے ہیں جو کہکشائیں بن کر رہتی دنیا تک ہر متلاشی حق کے لئے ہدایت کا سامان کریں گی۔ لاہور میں جب ہماری مسجد پر حملہ کر کے درجنوں معصوم احمدیوں کو شہید کر دیا گیا تو ان میں چھوٹے معصوم بچے بھی تھے، بڑے بھی تھے، بوڑھے بھی تھے مگر کسی کی زبان پر کوئی شکوہ نہ تھا بلکہ درود و سلام تھا۔ جب ایک باپ کی لاش اسکے گھر آئی تواسکی بیوی کے پائے ثبات میں ذرا بھر لغزش نہ آئی بلکہ اسکا ایمان اوج ثریا کو چھونے لگا۔ اگلے ہی جمعہ اس نے اپنے بیٹے کو نہلا دھلا کر صاف ستھرا لباس پہنایا اور کہا کہ دیکھ! جہاں تیرا باپ شہید ہوا تھا وہیں جا کر نماز جمعہ ادا کرنا تاکہ دشمن یہ نہ سمجھے کہ ہم ڈر گئے اور خوف کھا گئے اور اگر تمہیں بھی شہید ہونا پڑا تو سینہ تان کر جام شہادت نوش کرنا۔ یہ ہیں احمدی مائیں اور یہ ہیں انکے بچے۔یہ ہے احمدی دنیا جس سے آپ لوگ محض ناواقف ہیں۔

بھلے شاہ تینوں کافر کافر آخدے تو آہو آہو آکھ

انیق ناجی صاحب نہایت سادگی سے ہمیں بھلے شاہ کا یہ شعر سنا کر کہتے ہیں کہ اپنی قیادت کو سمجھائیں اور قوم کے سامنے اقرار کر لیں کہ ہم مسلمان نہیں۔ اس سے کیا فرق پڑتا ہے۔ اس سے جنت اور دوزخ میں جانے کا کوئی تعلق نہیں۔

جناب انیق ناجی صاحب! جیسے کہ پہلے بتایا جا چکا ہے کہ آپ کی نظروں سے انبیاء اور انکے صحابہ کی تاریخ بالکل اوجھل ہے۔ اگر یہ نصیحت انبیاء اور ان پر ایمان لانے والے جانثاروں سے کی جاتی تو کوئی دنیا میں شہید نہ ہوتا۔نہ آدم کا بیٹا مارا جاتا نہ ہزاروں مومنین کا قتل ہوتا۔ نہ حواریوں کو دردناک طریق سے میناروں سے باندھ کر آگ لگائی جاتی جسے ساری قوم دیکھتی اور قہقہے لگاتی کہ آج ہم نے عیسائیت کو مٹا دیا۔ نہ وہ حواری اسٹیڈیم میں بھوکے خونخوار شیروں اور بھیڑیوں کے آگے پھینکے جاتے جو دیکھتے ہی دیکھتے انہیں چیر پھاڑ کر انکی ہڈیاں تک چبا جاتے اور اسٹیڈیم میں بیٹھے ہزاروں یہودی اور رومی نعرے لگاتے کہ آج ہم نے عیسائیت کو مٹا دیا۔ نہ ہی مکہ کی گلیوں میں معصوم صحابہ پر بے پناہ مظالم ڈھائے جاتے، نہ یاسر ؓ شہید ہوتے، نہ سمیہؓ، نہ حضرت حمزہؓ کا کلیجہ چبایا جاتا، نہ حضرت خبابؓ کا سر تن سے جدا کیا جاتا۔ ہزاروں لاکھوں برگزیدان خدا کو بھیڑ بکریوں کی طرح نہ قتل کیا جاتا۔ ہم توایسے ہی اللہ کے پیاروں کے نقش قدم پر چلنے والے ہیں۔ اور ہم تو خالدؓ بن ولید کی طرح شہادت کی تمنا کرتے ہیں اور یہ یقین رکھتے ہیں کہ یہ بہت بڑا انعام ہے جسکو یہ نصیب ہو جائے اسکو اور کیا چاہئے۔ اور ہم یقین رکھتے ہیں کہ موت برحق ہے اور یہ دنیا عارضی ٹھکانہ ہے۔

ناجی صاحب! آپ ہمیں بابا بھلے شاہ کے قصیدے نہ سنائیں ہم نے انکی بیعت نہیں کی، نہ ہمارے لئے وہ اسوہ ہیں۔ ہم تو اس آقا کا کلمہ پڑھنے والے ہیں کہ جب اسکے چچا حضرت ابو طالب نے کہا کہ اے میرے بھتیجے !اب تو سارا عرب تیرے خلاف اکٹھا ہو گیا ہے۔ مجھے ان سب سے لڑنے کی تاب نہیں۔ مجھے ڈر اور خوف ہے کہ میں تیری حفاظت نہ کر سکوں گا اس لئے انکی بات مان جا۔ اس کے بدلے میں سرداران مکہ یہ پیشکش کرتے ہیں کہ اگر تو مالدار بننا چاہتا ہے تو سارے عرب کی دولت تیرے قدموں پر نچھاور کرنے کو تیار ہیں۔ اگر تو بادشاہ بننا چاہتا ہے تو سارے عرب کا بادشاہ تجھے بنا دیتے ہیں اگر تو کسی حسین لڑکی سے شادی کا خواہشمند ہے تو سارے عرب کی حسین و جمیل لڑکیاں تیرے حضور حاضر کر دیتے ہیں لیکن شرط یہ ہے کہ تبلیغ سے باز آ جا اور ہمارے بتوں کو برا بھلا مت کہہ۔ کیا آپ کو معلوم ہے کہ اس پر ہمارے آقاو مولی ﷺ نے کیا جواب دیا؟۔ آپ نے فرمایا کہ اے چچا! یہ مجھے کیا لالچ دیتے ہیں۔ خدا کی قسم !اگر یہ سورج کو میرے دائیں ہاتھ پر اور چاند کو میرے بائیں ہاتھ پر لا کر رکھ دیں تو بھی اس کام سے باز نہیں آ سکتا جو اللہ نے میرے سپرد کیا ہے یہاں تک کہ میں اسے پورا کر دوں یا اس راہ میں جان دے دوں۔ معلوم ہوتا ہے کہ آپ اپنی حفاظت سے تھک گئے ہیں۔ اگر ایسی بات ہے تو اپنی حفاظت واپس لے لیں۔ میرے لئے میرے اللہ کی حفاظت ہی کافی ہے۔ اسی آقا کی غلامی میں چودہ سو سال بعد اللہ نے ہمیں وہ امام صادق عطا فرمایا جس نے یہ اعلان کیا کہ
’’صادق تو ابتلاؤں کے وقت بھی ثابت قدم رہتے ہیں۔ اور وہ جانتے ہیں کہ آخر خدا ہمارا حامی ہو گا اور یہ عاجز اگرچہ ایسے کامل دوستوں کے وجود سے خدا تعالیٰ کا شکر ادا کرتا ہے لیکن باوجود اس کے یہ بھی ایمان ہے کہ اگرچہ ایک فرد بھی ساتھ نہ رہے اور سب چھوڑ چھاڑ کر اپنی راہ لیں تب بھی مجھے کچھ خوف نہیں کیونکہ میں جانتا ہوں کہ خدا تعالیٰ میرے ساتھ ہے۔ اگر میں پیسا جاؤں اور کچلا جاؤں اور ایک ذرے سے بھی حقیر تر ہو جاؤں اور ہر ایک طرف سے ایذا اور گالی اور لعنت دیکھوں تب بھی میں آخر فتحیاب ہوں گا۔ مجھے کوئی نہیں جانتا مگر وہ جو میرے ساتھ ہے۔ میں ہرگز ضائع نہیں ہو سکتا۔ دشمنوں کی کوششیں عبث ہیں اور حاسدوں کے منصوبے لا حاصل ہیں۔

اے نادانواور اندھو !مجھ سے پہلے کون صادق ضائع ہوا جو میں ضائع ہو جاؤں گا۔ کس سچے وفادار کو خدا نے ذلت کے ساتھ ہلاک کر دیا جو مجھے ہلاک کرے گا۔ یقینا یاد رکھو اور کان کھول کر سنو کہ میری روح ہلاک ہونے والی روح نہیں اور میری سرشت میں ناکامی کا خمیر نہیں مجھے وہ ہمت اور صدق بخشا گیا ہے جس کے آگے پہاڑ ہیچ ہیں۔ میں کسی کی پرواہ نہیں رکھتا۔ میں اکیلا تھا اور اکیلا رہنے پر ناراض نہیں۔ کیا خدا مجھے چھوڑ دے گا؟ کبھی نہیں چھوڑے گا کیا وہ مجھے ضائع کر دے گا؟ کبھی نہیں ضائع کرے گا دشمن ذلیل ہوں گےا ور حاسد شرمندہ اور خدا اپنے بندے کو ہر میدان میں فتحیاب کرے گا۔ میں اس کے ساتھ اور وہ میرے ساتھ ہے کوئی چیز ہمارا پیوند توڑ نہیں سکتی اور مجھے اس کی عزت اور جلال کی قسم ہے کہ مجھے دنیا اور آخرت میں اس سے زیادہ کوئی چیز بھی پیاری نہیں کہ اس کے دین کی عظمت ظاہر ہو، اس کا جلال چمکے اور اس کا بول بالا ہو۔ کسی ابتلا سے اس کے فضل کے ساتھ مجھے خوف نہیں اگرچہ ایک ابتلا نہیں کروڑ ابتلا ہوں۔ ابتلاؤں کے میدان میں اور دکھوں کے جنگل میں مجھے طاقت دی گئی ہے‘‘

(انوار اسلام، روحانی خزائن جلد 9 صفحہ 23)

من نہ آنستم کہ روز جنگ بینی پشت من
آن منم کاندرمیان خاک و خوں بینی سرے

غریب احمدی دہرے ٹیکس دیتا ہے

محترم ناجی صاحب! تعجب ہے کہ آپ کو ہمارے غریب احمدیوں کے چندوں پر بھی اعتراض ہے۔ کیا آپ نہیں جانتے کہ اللہ تعالیٰ نے بار بار انفاق فی سبیل اللہ کا حکم دیا ہے۔ نماز اور انفاق کو اکٹھا بیان کیا ہے کیونکہ حقوق اللہ اور حقوق العباد کو بجا لائے بغیر کوئی مومن نہیں بن سکتا۔ بلکہ آخری زمانے کا جہاں ذکر ہے وہاں مالی قربانی کو قیام صلوۃ سے بھی پہلے رکھا ہے۔ کیا آپ کو زمانہ نبوی یاد نہیں جب نبی کریم ﷺ مالی قربانی یعنی چندوں کی تحریک کیا کرتے تھے تو بعض نادار صحابہ بازار جا کر سارا دن محنت مزدوری کرتے شام کو دو مٹھیاں جو کی لے کر حاضر ہو جاتے اور وہی بارگاہ نبوی میں پیش کر دیتے۔ اس پر کافر ہنسی ٹھٹھا کرتے کہ اب اسلام جو کی ان دو مٹھیوں کی بدولت غالب آئے گا۔ مگر وہ نادان نہیں جانتے تھے کہ ہاں اللہ ایسے ایمان سے سرشار اور اخلاص سے بھرے ہوئے دلوں کی لاج رکھتا ہے انکی خاطر قوموں کی اجتماعی طاقت کو کچل کر رکھ دیتا ہے اور اپنے کمزور اور نہتے لوگوں کو غالب کر کے دکھا دیتا ہے۔پس اگر کسی کو بصیرت کی آنکھ نصیب ہو تووہ دیکھ لے گا کہ انہی غرباء کی قربانیوں کی بدولت اسلام ساری دنیا میں پھیلا۔

جناب ناجی صاحب! آپ تو وہ نادان دوست نکلے جو خیر خواہی کرتے کرتے اگلے کا نقصان کر بیٹھے۔ اگر قرآن کریم پر ایمان لاتے ہیں۔ اگر اللہ کو زندہ اور رازق مانتے ہیں تو قرآن کریم کی وہ بیسیوں آیات کیوں آپ کی نظروں سے نہیں گزریں جن میں اللہ نے فرمایا ہے کہ جو اخلاص اور وفا سے اسکی راہ میں خرچ کرے گا وہ اسے بڑھا چڑھا کر واپس کرے گا۔ سات سے سات سو گنا بڑھا کر بلکہ بقدر اخلاص بے شمار عطا کرے گا۔ جناب انیق ناجی صاحب! ایسے ہزاروں لاکھوں خاندانوں میں سے ایک ہمارا خاندان بھی ہے جس نے انتہائی غربت کے ایام بھی دیکھے۔ ہمیں وہ زمانہ یاد ہے کہ جب ہماری والدہ سادہ خشک روٹی پر گُڑ رکھ کر ہمیں کھانے کو دےد یتی اور خود نمک مرچ پانی میں بھگو کر روٹی کھا لیتیں لیکن ان ایام میں بھی ایک ایک پائی جمع کر کے جو چندہ بنتا تھا اس میں کمی نہ آنے دی اور اسکے علاوہ خوب صدقہ خیرات بھی کرتیں تو اللہ تعالیٰ نے انکی زندگی میں ہی ہمارے دن بدل دیے اور دنیا جہان کی ساری نعمتیں ہمارے دروازے پر لاڈالیں۔ اگر ہمارے آباؤ اجداد خدا کے مقدس مسیح پاک علیہ السلام پر ا یمان نہ لاتے تو ہم بھی آج اپنی برادری کے منکروں کی طرح جانوروں کی دُمیں پکڑے کسی جنگل یا ویرانے میں انہیں چرا رہے ہوتے اور اللہ تعالیٰ کی بے شمار نعمتوں سے بے نصیب رہتے۔ پس یہ چندے جہاں ہمارے ایمان کی حفاظت کرتے ہیں وہاں ہمارے لئے مالی خوشحالی کے بھی سامان کرتے ہیں۔ اگر آپ کو یقین نہ آئے تو خود محض اللہ کی خاطر مالی قربانی کر کے دیکھیں کس طرح آپ کی مشکلات اللہ اپنے فضل سے دور کرتا ہے اور آپ کے لئے خوشحالی کے سامان کرتاہے مگر یہ یاد رکھیں۔ اللہ تعالیٰ صرف پاک کمائی سے کی ہوئی مالی قربانی قبول فرماتا ہے۔

مذہبی لیڈر شپ پر تبصرہ

جناب انیق ناجی صاحب! باقی باتیں تو ہم نے حسن ظن رکھتے ہوئے ایک نادان دوست کے طور پر آپ سے سنیں اور آپ کے مشکور رہے لیکن آخر میں آپ نے ایک ایسی بات کر دی جس کی ہمیں آپ جیسے دانشور سے بالکل توقع نہ تھی۔ آپ نے فرمایا کہ احمدیہ مذہبی لیڈر شپ بھی دوسرے مذاہب اور فرقوں کی طرح نہ صحیح فیصلے کرنے کے قابل ہے نہ ہی زمانے کو سمجھنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ اگر ہم حسن ظن رکھیں تو یہ یقین کرنا پڑتا ہے کہ آپ ہماری قیادت سے محض نا آشنا اور کلی لا علم اورمکمل نا واقف ہیں۔ اے کاش کہ آپ ہمارے امام جسے اللہ نے آج اپنا نمائندہ بنا کر بنی نوع انسان کے لئے اپنا خلیفہ منتخب کیا ہے، سے زندگی میں ایک بار ملاقات کر لیں تو وہ دن آپ کا حسین ترین دن ہو گا۔ آپ کی بند آنکھیں کھل جائیں گی اور آپ کو معلوم ہو گا کہ یہ خلافت اللہ کی کتنی بڑی نعمت ہے جو چودہ سو سال کے تعطل کے بعد ہمیں ملی ہے۔ اس پر ہم جتنا بھی اللہ کا شکر ادا کر سکیں کم ہے۔ یہ وہ وجود ہیں جو ’’شعائر اللہ‘‘ میں شامل ہیں جن کو اللہ اپنے ہاتھ سے کھڑا کرتا ہے اور انکی زبان سے نکلے ہوئے پاک انفاس سے ایک روحانی انقلاب برپا کرتا ہے۔ آج دنیا کا امن صرف اور صرف خلافت احمدیہ سے وابستہ ہے۔ یہ لمبا مضمون ہے جو یہاں بیان نہیں ہو سکتا۔آج آپ کو جماعت احمدیہ میں جو جو خوبیاں نظر آرہی ہیں۔ بلکہ ہمارے اشد مخالف بھی ایک احمدی کے بارے یہی گواہی دیتے ہیں کہ یہ ہے تو بڑا اچھا لیکن بس ایک برائی ہے کہ وہ قادیانی ہے۔ وہ نادان نہیں جانتے کہ احمدیت کی بدولت ہی تو وہ اچھا بنا اور جماعت احمدیہ آج تسبیح کے موتیوں کی طرح خلافت کی مالا میں پروئے ہوئے موتی ہیں۔اسی خلافت کی بدولت آج جماعت 200 سے زائد ملکوں میں پھیل چکی ہے۔ آج دنیا اس خلافت پر رشک کر رہی ہے۔ ہمارے ملک میں کتنے ہی ملاں نے رشک بھری نظر سے خلافت کو دیکھا اور خود خلیفہ بننے کے خواب دیکھنے لگے۔ ساری زندگی خلافت قائم کرنے کی کوشش کرتے کرتے بڑی حسرت سے دنیا سے رخصت ہوئے کیونکہ خلافت قائم کرنا اللہ کا کام ہے نہ کہ لوگوں کا۔حقیقت یہ ہے کہ خلیفہ وقت اور جماعت ایک چیز کے دو نام ہیں۔ اگر جماعت بدن ہے تو خلیفہ اسکی روح ہے۔ پس بدن کیسے روح سے جدا ہو سکتا ہے۔یہ تو ممکن نہیں یہ تو ہمارے بس کی بات نہیں۔ خلیفہ ہمارا دل ہے، ہماری روح ہے، ہماری جان ہے۔ خلیفہ وقت کو جماعت سے اور جماعت کو خلیفہ وقت سے جتنی محبت ہے آپ اس کا خواب میں بھی تصور نہیں کر سکتے۔ ایک مرسیڈیز تو کیا ہماری خواہش تو یہ ہے کہ ہم خلیفہ وقت کے قدم بھی زمین پر نہ پڑنے دیں۔ ہمیں اس خاک سے بھی محبت ہے جس پر ہمارے محبوب امام کے قدم پڑتے ہیں۔ ہم تو اللہ سے یہ دعا کرتے ہیں کہ اسکے غم دور کر خواہ اسکے بدلے ہماری ساری خوشیاں جاتی رہیں۔ لیکن آپ کو کیا علم کہ اسکے غم بھی ہمارے غموں سے ہی ہیں۔جب ہم رات کو آرام سے نرم بستر پر سورہے ہوتے ہیں وہ ہمارے لئے اپنے رب کے حضور تڑپتا اور ہمارے آرام و سکون کے لئے دعائیں مانگتا ہے پھر کیسے ممکن ہے کہ ہم ایک مہربان ماں سے بڑھ کر ہمارا خیال رکھنے والے پیارے وجود سے عشق اور محبت نہ کریں۔

ناجی صاحب! ہمارے لئے تو صحابہ رضوان اللّٰہ اجمعین نمونہ ہیں نہ کہ بھلے شاہ۔ جب حضرت خباب بن ارت ؓ کو کافر حرم سے باہر مقتل کی طرف لے گئے۔ قریب تھا کہ تلوار چلے اور انکے سر کو تن سے جدا کر دے ان آخری لمحات میں ایک بدبخت کافر نے بڑی ہمدردی سے انہیں کہا کہ کیا یہ اچھا نہ تھا کہ آج تو اپنے بیوی بچوں کے پاس خوش وخرم ہوتا اور تیری جگہ آج یہاں (نعوذ باللّٰہ من ذالک) محمد کھڑے ہوتے (ﷺ فداہ ابی و امی) اس عاشق صادق نے تڑپ کر کیا ہی عاشقانہ جواب دیا، فرمایا۔ اے بدبخت! تو کیسی بات کرتا ہے۔ خدا کی قسم! میں تو یہ بھی پسند نہیں کرتا کہ میری جان کے بدلے میرے آقا کو مدینہ کی گلیوں میں چلتے ہوئے پاؤں میں ایک کانٹا بھی چبھے۔ وہ درد اور تکلیف جو ایک معمولی سے کانٹے کو پاؤں میں چبھنے سے کوئی محسوس کرتا ہے میں تو چاہتا ہوں کہ اتنی معمولی تکلیف بھی میرے آقا کو نہ پہنچے اور اسکے بدلے اگر میرا سر تن سے جدا ہوتا ہے تو ہو جائے مجھے اس کی کوئی پرواہ نہیں بلکہ خوشی ہو گی کہ میری جان، میرے آقا کے کسی کام آ سکی۔ پس ہمارے پیشوا اور امام تو یہ صحابہ ہیں جن سے عرش کا خدا راضی ہو گیا رَضِيَ اللّٰهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ۔ اللہ ان صحابہ سے راضی ہو گیا اور وہ پاک صحابہ اپنے رب سے راضی ہو گئے۔ یہی تو جنت ہے اللہ کی رضا ہی جنت ہے جس کو مل جائے اسے فوز عظیم حاصل ہو گئی۔

ہماری فکر اور ہمارا خوف

محترم انیق ناجی صاحب !ہمیں اپنا کوئی خوف نہیں۔ ہمیں اپنی کوئی فکر نہیں اگر فکر ہے تو اس نادان قوم کی فکر ہے اگر خوف ہے تو اس نادان قوم کی ہلاکت کا خوف ہے جو دن رات وقت کے امام کی مخالفت کر کے اللہ کے غضب کو بھڑکا رہی ہے اور نہیں جانتی کہ عنقریب انکا انجام کیا ہونے والا ہے۔ انکے بد انجام سے ہم خائف ہیں اور اللہ سے دعا گو ہیں کہ انکو ہدایت دے کر اپنے غضب سے بچا لے۔ ہم تو اپنے آقا ﷺ کی طرح اس قوم کے لئے بھی یہی دعا کرتے ہیں کہ اللّٰھم اھد قومی فانھم لا یعلمون۔ کہ اے اللہ! میری قوم کو ہدایت دے دے کہ وہ جانتے نہیں۔ پس آپ بھی اگر ہو سکے تو اپنی قوم کو جگائیں اور خود بھی جاگیں اور آنکھیں کھولیں اور وقت کے امام کو پہچانیں اگر ایسا نہ کیا تو پھر اس ہولناک دن کے لئے تیار ہو جائیں جسکی صحف سماوی میں خبر دی گئی تھی اورحضرت بانی جماعت احمدیہ کا یہ انذار ہمیشہ اپنے سامنے رکھیں کہ
’’ہر ایک مخالف کو چاہئے کہ جہانتک ممکن ہو اس سلسلہ کے نابود کرنے کے لئے کوشش کرے اور ناخنوں تک زور لگاوے۔ اور پھر دیکھے کہ انجامکار وہ غالب ہوا یا خدا۔ پہلے اس سے ابوجہل اور ابو لہب اور ان کے رفیقوں نے حق کے نابود کرنے کے لیے کیا کیا زور لگائے تھے مگر اب وہ کہاں ہیں؟ وہ فرعون جو موسیؑ کو ہلاک کرنا چاہتا تھا اب اسکا کچھ پتہ ہے؟ پس یقینا سمجھو کہ صادق ضائع نہیں ہو سکتا۔ وہ فرشتوں کی فوج کے اندر پھرتا ہے۔ بدقسمت وہ جو اس کو شناخت نہ کرے۔‘‘

(ضمیمہ براہین احمدیہ صفحہ 129)

پھر فرمایا۔
’’اے یورپ !تو بھی امن میں نہیں اور اے ایشیا !تو بھی محفوظ نہیں اور اے جزائر! کے رہنے والو کوئی مصنوعی خدا تمہاری مدد نہیں کرے گا۔ میں شہروں کو گرتے دیکھتا ہوں اور آبادیوں کو ویران پاتا ہوں۔ وہ واحد یگانہ ایک مدت تک خاموش رہا اور اس کی آنکھوں کے سامنے مکروہ کام کئے گئے اور وہ چپ رہا۔ مگر اب وہ ہیبت کےساتھ اپنا چہرہ دکھلائے گا۔ جس کے کان سننے کے ہوں سنے کہ وہ وقت دور نہیں۔ میں نے کوشش کی کہ خدا کی امان کے نیچے سب کو جمع کروں۔ پر ضرور تھا کہ تقدیر کے نوشتے پورے ہوتے۔ میں سچ سچ کہتا ہوں کہ اس ملک کی نوبت بھی قریب آتی جاتی ہے، نوح کا زمانہ تمہاری آنکھوں کے سامنے آ جائے گا اور لوط کی زمین کاواقعہ تم بچشم خود دیکھ لو گے۔ مگر خدا غضب میں دھیما ہے۔ توبہ کرو تا تم پر رحم کیا جائے۔ جو خدا کو چھوڑتا ہے وہ ایک کیڑا ہے نہ کہ آدمی اور جو اس سے نہیں ڈرتا وہ مردہ ہے نہ کہ زندہ‘‘

(حقیقۃ الوحی صفحہ 257)

اے اللہ! ہماری قوم کو سمجھ عطا فرما اور مہدی دوراں کو قبول کر نے کی توفیق دے تا وہ امن میں آ سکیں۔ آمین

(در عجم)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 21 فروری 2022

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ