• 5 مئی, 2025

14واں نیشنل تبلیغ سیمینارمجلس خدام الاحمدیہ جرمنی

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں:۔ ’’ہمارے اِختیار میں ہو تو ہم فقیروں کی طرح گھر بہ گھر پھر کر خدا تعالیٰ کے سچے دین کی اِشاعت کریں اَور اِس ہلاک کرنے والے شرک اَور کُفر سے جو دُنیا میں پھیلا ہوا ہے، لوگوں کو بچالیں۔ اگر خداتعالیٰ ہمیں انگریزی زبان سِکھا دے تو ہم خود پھر کر اَور دَورہ کر کے تبلیغ کریں اَور اِسی تبلیغ میں اَپنی زندگی ختم کردیں خواہ مارے ہی جائیں۔‘‘

(ملفوظات جلد3 صفحہ290-291)

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے اس الہی مشن کی تکمیل کے لئے افراد جماعت بکثرت دعوت الی اللہ کے میدان میں اپنی خدمات پیش کر رہے ہیں اور اگر اس قسم کی مجنونانہ کوششیں جوانی میں ہوں تو اس کا رنگ ہی نرالا ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے جرمنی کے تمام خدام کی صحیح نہج پر تعلیم وتربیت اور انہیں دعوت الی اللہ کے میدان میں فعال کرنے کے لئے گزشتہ 13سال سے سہہ روزہ سالانہ نیشنل تبلیغ سیمینار کا اہتمام کیا جاتا ہے جس میں خدام کو قرآن کریم، احادیث نبویہؐ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے علم کلام اور خلفائے احمدیت کے ارشادات کی روشنی میں تبلیغ کی اہمیت اور اس کی ضرورت کے متعلق بتایا جاتا ہے۔ایک داعی الی اللہ میں کون سی خوبیاں ہوتی ہیں جو اسے دوسروں سے ممتاز کرتی ہیں اسی طرح جدید ذرائع ابلاغ کو کس طرح اشاعت اسلام کے لئے استعمال کیا جاسکتا ہے نیز اسلام پر اٹھنے والے اعتراضات اور سوشل میڈیا پر اسلام مخالف پروپیگنڈا کے اثرات کو کن عوامل کے ذریعہ زائل کیا جاسکتا ہے اور کن خطوط پر چلتے ہوئے یورپ میں خدمت اسلام کی جاسکتی ہے۔اس سیمینار میں حتی الامکان کوشش ہوتی ہے کہ اس میں شامل ہونے والا ہر خادم صحیح معنوں میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا سپاہی بنتے ہوئے تبلیغ کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنائے اور اشاعت اسلام میں نہ صرف اپنا حصہ ڈالے بلکہ اپنی اپنی مجالس میں دیگر خدام کو بھی اس کے لئے تیارکرتا رہے۔ امسال یہ سیمینار اللہ تعالیٰ کے خاص فضل اور پیارے آقا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی دعاؤں سے مؤرخہ 24 تا 26 دسمبر 2021ء کو منعقد کرنے کی توفیق ملی۔ کورونا کی موجودہ صورتحال، حکومتی پابندیوں اور احتیاطی تدابیر کے پیش نظر تمام خدام کو ایک جگہ اکٹھا کرنا ممکن نہ تھا لہذا صدر صاحب مجلس خدام الاحمدیہ جرمنی کی ہدایت پر اس سیمینار میں قریبی علاقوں میں رہائش پذیر خدام کی مخصوص تعداد کو جامعہ احمدیہ میں اور باقی خدام کو آن لائن شامل کیا گیا۔ الحمدللہ یہ سیمینار کامیاب رہا۔ اس کی نظامت کے فرائض مہتمم صاحب تبلیغ مکرم شہزاد احمد صاحب نے ادا کئے۔

ذیل میں ان تین دنوں میں پیش کئے جانے والے لیکچرز اور مربیان کرام کی نصائح قدرے اختصار کے ساتھ افادۂ عام کے لئے پیش کی جاتی ہیں۔

افتتاحی تقریب

تبلیغ سیمینار کا افتتاحی اجلاس موٴرخہ 24دسمبر بروز جمعۃ المبارک حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے خطبہ جمعہ کے بعد مکرم صداقت احمد صاحب مشنری انچارج جماعت احمدیہ جرمنی کی صدارت میں شروع ہوا۔

مکرم صداقت صاحب مربی سلسلہ نے اپنے خطاب میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت وسوانح کے حوالے سے آپؐ کے اندر موجزن تبلیغِ اسلام کا جوش و جذبہ بیان کیا کہ کس طرح آپؐ نے ابتدائی زمانے میں خدا کا پیغام پہنچایا اور کن کن تکالیف اور پریشانیوں کا آپؐ نے سامنا کیا۔ آپ بَلِّغْ مَااُنْزِلَ الَیْکَ کی عملی تصویر تھے۔ لوگ آپ کی بات سننے کو تیار نہ ہوتے تھے لیکن آپ کبھی مایوس نہیں ہوئے بلکہ دعا کے ساتھ ساتھ تبلیغ کے مختلف مواقع تلاش کرتے رہے۔

امام صاحب نے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے فرما رکھا ہے کہ دین اسلام ہی غالب دین ہے جس کا احیاء پیشگوئیوں کے مطابق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے دور میں ہونا تھا پس اب یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم ان پیشگوئیوں کی تکمیل کے لئے کس قدر ہمت دکھاتے ہوئے دین کے لئے وقت نکالتے ہیں۔

اللہ تعالیٰ کاخاص تصرف ہے کہ وہ ہمیں اس پُر امن ملک میں لایا ہے لہذا ہم سب کا فرض بنتا ہے کہ جرمنی میں اسلام احمدیت کی ترقی وکامیابی اور خلفائے احمدیت کی پیشگوئیوں کی تکمیل کے لئے انتہائی محنت سے کام کریں کہیں ایسا نہ ہو کہ ہماری کوتاہی اور سستی کہ وجہ سے ان پیشگوئیوں کے پورا ہونے میں تاخیر ہوجائے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس اہم فریضہ کو کماحقہ سرانجام دینے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

نماز مغرب کے بعد آج کے پہلے لیکچر میں مکرم طارق احمد ظفر صاحب مربی سلسلہ و استاد جامعہ احمدیہ جرمنی نے جرمن زبان میں حضرت لوط علیہ السلام کی قوم کا قصہ بیان کیا اور اُس قوم کی بد اعمالیوں، روحانی بیماریوں اور اپنے نبی کی نافرمانی کرنے کی وجہ سے اُن کےبد انجام اور عبرت ناک عذاب الہی کا ذکر کیا۔

نماز عشاء سے قبل محترم مولانا ڈاکٹر عبدالغفار صاحب مبلغ سلسلہ جرمنی نے خدام سے ’’اپنا قبلہ درست رکھیں۔میں سیدھا راستہ کیسے تلاش کروں‘‘؟ کے عنوان سے خطاب فرمایا۔ محترم ڈاکٹر صاحب نے سورۂ عنکبوت کی آیت تلاوت کی آپ نے کہا کہ اس آیت میں اللہ تعالیٰ کہتا ہے کہ نماز قائم کرو یقیناً نماز بے حیائیوں سے بچاتی ہے اور اللہ کا ذکر ہی بڑا ذکر ہے۔ نیز آپ نے موضوع کے متعلق وضاحت کی کہ یہاں قبلہ درست رکھیں سے مراد قیام نماز ہے لہذا اسی پر آج قرآن و حدیث اور حضرت مسیح موعودؑ کی تحریرات کی روشنی میں آپ سے گفتگو ہوگی۔

ڈاکٹر صاحب کو اللہ تعالیٰ نے علم کلام، فصاحت وبلاغت اور خوش گلو سے نواز رکھا ہے موصوف جب خطاب فرماتے ہیں تو سامعین ہمہ تن گوش رہتے ہیں اور سننے والے چاہتے ہیں کہ ڈاکٹر صاحب کلام کرتے ہی جائیں اللہ تعالیٰ نے انہیں ایسا ملکہ عطا فرمایا ہے کہ انتہائی سادہ پیرائے میں نپی تلی گفتگو فرماتے ہیں جو سیدھی دل میں اتر جاتی ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے اپنے خطاب کے بعد خدام کے سوالات کے جواب بھی دیئے۔

خصوصی نشست

تبلیغ سیمینار کے پہلے دن کی آخری نشست مکرم ومحترم مولانا عطاء المجیب راشد صاحب امام مسجد فضل لندن کے ساتھ آن لائن منعقد ہوئی۔ موصوف نے تعلق باللہ کے موضوع پر خدام کو لیکچر دیا۔ اس نشست میں تقریباً 50 خدام نے جامعہ احمدیہ سے اور 650 خدام نے آن لائن شرکت کی۔ امام صاحب کی نصائح کا خلاصہ پیش کیاجاتا ہے۔

امام صاحب نے فرمایا:۔ کہ دُنیا میں مختلف اشیاء اور نعماء کے حصول کے واسطےلوگ دعائیں کرتے ہیں، کوئی حصولِ اولاد کے لئے دعا کرتا ہے، تو کوئی کسی اور بات کے لئے۔ لیکن سب سے بڑی نیکی اس شخص کے حصہ اور نصیب میں آتی ہے جو یہ دعا کرے کہ اللہ مجھے اپنے قرب سے نوازے۔ خدا کا قرب خود سے نہیں مل جاتا اس کے لیے انسان کو محنت، کوشش اور سب سے بڑھ کر دعا کرنا پڑتی ہے اور یہی لازمی چیز ہے جس سے انسان قرب الہی پاسکتا ہے۔ محترم امام صاحب نے قرآن حدیث کی روشنی میں قربِ الٰہی کے حصول کے لئے درج ذیل نکات بیان فرماتے ہوئے نصائح فرمائیں۔

  1. قرآن کریم کے ذریعہ قرب الہی کاحصول:۔
  2. قربِ الٰہی کے حصول کے لئےدعا کی جائے:۔
  3. قربِ الٰہی کا بنیادی ذریعہ۔ پنجگانہ نماز، نماز تہجد اور نوافل
  4. شرائط بیعت قربِ الٰہی کا ایک ذریعہ ہے۔
  5. قربِ الٰہی کی ایک راہ۔ مخلوق خدا سے حسنِ سلوک ہے۔

سوال و جواب

سوال:۔ ایک خادم نے پوچھا کہ جب ایک دفعہ اللہ تعالیٰ کی عبادت کی لذت محسوس کر لی ہو لیکن پھر نماز گِر جائے اور ذوق دور ہو جائے تو کس طریق سے ذوق کو لمبا کیا جا سکتا ہے۔ اور نماز کو گِرنے سے کیسے روکا جا سکتا ہے؟

جواب:۔امام صاحب نے جواباً فرمایا کہ اگر جسم میں کمزوری ہو جائے تو کیا کرتے ہیں؟ انسان علاج کی کوشش کرتا ہے۔ بالکل اسی طرح اُس شخص کو چاہیے کہ دعا کرے کہ خدایا میں نے تیرے در پر آکر عبادت کا مزہ چکھا ہے اور اب میں کمزور ہو رہا ہوں، مجھے اُس لذت سے ایک بار پھر آشنا فرما۔ اللہ اُس پر نظر ِ رحمت کرے گا کہ یہ انسان دوبارہ میرے پاس آیا ہے، کہیں اور نہیں گیا۔ اللہ تعالیٰ خود فرماتا ہے مُجھ سے مانگتے چلے جاؤ، میرے دروازے کھلے ہیں، میرے خزانے کھلے ہیں۔ نہایت عاجزی اور انکساری کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے سامنے جھکنا چاہیے۔

آخر پر صدر صاحب مجلس خدام الاحمدیہ نے جرمنی بھر کے خدام کی طرف سے امام صاحب کا شکریہ ادا کیا۔اس نشست کے لیے ایک گھنٹہ مقرر کیا گیا تھا لیکن خدام کی دلچسپی اور سوالات کو دیکھتے ہوئے محترم امام صاحب نےازراہ شفقت چالیس منٹ زائد عطافرمائے فجزاھم اللّٰہ۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہم سب حقیقی عبداللہ بنیں اورمسلسل اور انتھک مجاہدہ کرتے ہوئے اللہ کا قرب حاصل کرنے والے ہوں۔ آمین۔

سیمینار کا دوسرا دن

موٴرخہ 25دسمبر 2022 دن کا آغاز تہجد نماز فجر اور درس قرآن سے ہوا۔ آج کا پہلا لیکچر مکرم محمد لقمان مجموکہ صاحب نیشنل سیکریٹری اشاعت جرمنی نے ’’کربلا کا المناک واقعہ اور امت مسلمہ پر اس کے اثرات‘‘ کے عنوان سے دیا۔

مکرم مجوکہ صاحب نے اس سیمینار اور خدام کی آگاہی کے لئے خصوصی طور پر گہری تحقیق وتدقیق کے بعد یہ لیکچر تیار کیا تھا جس میں انہوں نے اس واقعہ کا پس منظر، اصل حقائق اور اہل بیت کی درد ناک شہادتوں کا ذکر کیا نیز اس واقعے کے بعد اسلام میں پیدا ہونے والے اختلافات اور اسلام کے زوال کا تذکرہ کیا نیز بتایا کہ اس واقعہ کے اثرات آج تک قائم ہیں۔

آج کا دوسرا لیکچر مکرم مولانا مبارک احمد تنویر صاحب استاد جامعہ احمدیہ و نیشنل سیکریٹری رشتہ ناطہ جرمنی نے اسلام میں نجات کے فلسفہ کے متعلق دیا۔ موصوف نے مثالوں کے ساتھ انتہائی سادہ پیرائے میں مذاہب کے مدارج اور اسلام کو آخری اور مکمل مذہب ثابت کرتے ہوئے اسلام میں نجات کا فلسفہ بیان کیا۔

آج کا تیسرا لیکچر برادرم حافظ فرید احمد خالد صاحب نیشنل سیکریٹری تبلیغ کا تھا۔آپ نے انفرادی تبلیغ کی اہمیت اور وسائل وذرائع کے متعلق لیکچر دیا۔

مکرم حافظ صاحب نے سکرین پر خدام کو جرمنی کا نقشہ دیکھاتے ہوئے بتایا کہ جرمنی کی کل آبادی تقریباً 84 ملین ہے ان تک جماعت کا پیغام کس طرح پہنچ رہا ہے۔ یعنی وہ کام جو آپ لوگ یا جماعتیں کرتی ہیں ان میں تبلیغی میٹنگز ہیں، تبلیغی سٹالز ہیں، لیف لیٹنگ ہے، پوسٹر ایڈورٹائزنگ، اسلام نمائش وغیرہ شامل ہیں اس وقت خاکسار آپ کے سامنے انفرادی تبلیغ کے ذرائع و وسائل کے متعلق کچھ عرض کرنا چاہتا ہے کہ نیشنل شعبہ تبلیغ افراد جماعت کی سہولت کے لئے کون کون سے ذرائع مہیا کر رہا ہے جن کو استعمال کرتے ہوئے بھرپور انداز میں تبلیغ کی جاسکتی ہے اور جن کی ہر فرد جماعت کو کسی نہ کسی رنگ میں ضرورت پیش آتی ہے۔

انہوں نے بتایا کہ موجودہ دور کے تقاضوں کے عین مطابق احباب جماعت کی سہولت کے لئےآن لائن تبلیغ پلیٹ فارم بنایا گیا ہے۔مربیان کرام کی زیرنگرانی 24گھنٹے فری تبلیغ ہاٹ لائن سروس کام کررہی ہے۔ ویٹس ایپ سروس موجود ہے جس پر آپ پیغام یا سوال کرسکتے ہیں۔ ہفتہ وار آن لائن تبلیغی مجلس سوال وجواب منعقد ہوتی ہے اسی طرح اب چند ہفتوں سے یوٹیوب پر ہفتہ وار Ask an Imam کی طرز پر لائیو پروگرام جاری ہے جس کے ذریعہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہمارے احمدی نوجوان اپنے علم کو بڑھا رہے ہیں نیز میڈیا پر ہونے والے نت نئے سوالات کے جوابات 24 گھنٹے کے اندر اندر دیئے جانے کے لئے مربیان کی زیرنگرانی پینل کام کر رہا ہے۔ اسی طرح اللہ کے فضل سے احباب جماعت کی سہولت کے لئے اپنے زیرتبلیغ دوستوں کے ساتھ انہی کی زبانوں میں مربیان سلسلہ کے ساتھ آن لائن انفرادی میٹنگ بُک کرنے کی سروس جاری ہے نیز شعبہ تبلیغ احباب جماعت کے لئے 50سے زائد زبانوں میں لٹریچر مہیا کر رہا ہے۔

نماز ظہر وعصر سے قبل مجلس سوال وجواب منعقد ہوئی جس میں مندرجہ ذیل مربیان سلسلہ نے خدام کے سوالات کے مفصل جوابات دیئے۔ مکرم صداقت احمد صاحب مبلغ انچارج جرمنی، مکرم افتخار احمد صاحب، مکرم فرہاد غفار صاحب، مکرم شعیب عمر صاحب اور مکرم عدیل خالد صاحب۔

دوسرے سیشن کا پہلا لیکچر مکرم طارق ہبش صاحب واقف زندگی واستاد جامعہ احمدیہ نے ’’انا، لالچ، طاقت اور دہریت سے پیدا ہونے والے اخلاقی انحطاط‘‘ کے متعلق اسلامی تعلیمات کی روشنی میں جرمن زبان میں دیا۔

آج کا پانچوں لیکچر مکرم ومحترم شمشاد احمد قمر صاحب مربی سلسلہ و پرنسپل جامعہ احمدیہ نے ’’لاہوری احمدیہ تحریک کا ظہور‘‘ کے عنوان سے دیا آپ نے خدام کو اس تحریک کے بانی، محرکات، اُن کے نظریات، بنیادی اختلافات اور اُن سے پیدا ہونے والے نقصانات کے متعلق تفصیل سے بتایا نیز جماعت احمدیہ مبائعین سے خدا تعالیٰ کی فعلی تائیدات کا ذکر کیا۔

چھٹا لیکچر مکرم شعیب احمد عمر صاحب مربی سلسلہ واستاد جامعہ احمدیہ نے ’’اسلام میں حس مزاح اور آنحضرتﷺ کا تبسم‘‘ کے عنوان سے دیا جس میں موصوف نے آنحضرتﷺ کے اپنے صحابہ کے ساتھ تفنن طبع، لطائف اور مذاق کے مختلف حسین و دلربا واقعات بیان کیے جن سے اندازہ ہوتا ہے کہ آنحضرت ﷺ اپنے صحابہ کی کس قدر دلجوئی فرماتے تھے۔

امسال سیمینار میں دلچسپی اور خدام کا علم بڑھانے کے لئے جرمنی کے بعض فارغ التحصیل مربیان جو یورپ کے مختلف ممالک میں خدمات دینیہ بجا لارہے ہیں کہ ساتھ بیک وقت آن لائن ملاقات کی گئی جس میں مربیان نے ’’میں تیری تبلیغ کو زمین کے کناروں تک پہنچاؤں گا‘‘ کے عنوان سے اپنے اپنے ملکوں میں تبلیغی سرگرمیوں میدان عمل میں پیش آنی والی مشکلات کے بارے حضرت امیر المؤمنین کی راہنمائی اور اُن کی قبولیت دعا کے ایمان افروز واقعات اور اللہ تعالیٰ کے اپنی پیاری جماعت کے ساتھ تائیدو نصرت، فضلوں اور انعامات کے متعلق بتایا۔

خصوصی نشست

آج کے دن کی آخری اور خصوصی نشست مکرم ومحترم شریف عودہ صاحب امیر جماعت احمدیہ کبابیر کے ساتھ منعقد ہوئی موصوف نے خلافت احمدیہ کے حوالے سے اپنے ایمان افروز واقعات کا تذکرہ کیا کہ کس طرح اللہ تعالیٰ اپنے خلیفہ کی دعاؤں کو سنتا ہے اور غیرممکن کو ممکن میں بدل دیتا ہے۔

آپ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے حوالے سے بیان کیا کہ اللہ تعالیٰ اپنے پیاروں کے متعلق بڑی غیرت رکھتا ہے جو خدا تعالیٰ کے بندے ہوتے ہیں خدا تعالیٰ اُن کو سر سے لیکر پاؤں تک برکت سے بھر دیتا ہے جس چیز کو وہ ہاتھ لگاتے ہیں وہ بابرکت ہوجاتی ہے جس جگہ ان کے قدم پڑتے ہیں وہ جگہ بابرکت ہوجاتی ہے وہ مجسم برکت ہوجاتے ہیں اُن کے کپڑوں میں برکت رکھ دی جاتی ہےاور یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کی کامل فرمانبرداری اور اطاعت سے ہی ممکن ہوتا ہے۔

آپ نے خلافت احمدیہ سے اپنے تعلق، قبولیت دعا اور معجزانہ شفا کے متعدد ایمان افروز واقعات بیان کئے ایک واقعہ قدرے اختصار کے ساتھ پیش کیا جاتا ہے۔ آپ فرماتے ہیں کہ میرے بیٹے کو 12 سال کی عمر میں ہارٹ کی تکلیف ہوئی ڈاکٹروں نے چیک کرنے کے بعد کہا کہ اس کے دل کی ایک شریان تو ہے ہی نہیں اور دوسری بھی بہت کمزور ہے اس کا بچنا مشکل ہے۔ اس پریشانی کے عالم میں مَیں نے اپنی اہلیہ سے ذکر کیا کہ اگر حضور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی انگوٹھی اس کے سینے پر لگادیں تو شاید یہ شفا پاجائے کیونکہ اللہ تعالیٰ اپنے پیاروں کے استعمال کی ہوئی چیزوں میں برکت وشفارکھ دیتا ہے۔ ملاقات کے لئے حضورؒ کی خدمت میں حاضر ہوئے لیکن اپنی اس خواہش کو بیان کرنے کی ہمت نہ ہوئی اور ملاقات کا وقت ختم ہو گیا۔ جب ہم حضور کے کمرے سے باہر نکلنے والے تھے تو حضورؒ نے پکارا کہ بشیر الدین کو میرے پاس لاؤ اور بغیر ہمارے کہے حضور نےاُسے اپنے سینے کے ساتھ لگایا، اپنی انگوٹھی اُس کے دل پر لگائی (جیسا کہ ہماری خواہش تھی جس کا ہم حضور ؒسے اظہار بھی نہ کرسکے تھے) اور دعا کی اس کے بعد حضور نے اس کی قمیض کے بٹن کھولے اور اُس کے سینے پر ہاتھ پھیراا ور پھر لمبی دعا کی اس کے بعد جب ماہرین ڈاکٹرز نے دوبارہ چیک اپ کیا تو کہا کہ اب تو بیماری کا نام ونشان بھی نہیں ہے تو دیکھیں اللہ تعالیٰ اپنے پیاروں کے ہاتھوں میں بھی شفا رکھ دیتا ہے۔

سوال و جواب

سوال:۔ حضرت مسیح موعود ؑ کا عربی کلام پڑھتے وقت عرب احباب کے کیا تاثرات ہوتے ہیں وہ اس کلام کو کس نظر سے دیکھتے ہیں۔

جواب:۔ نبی کے کلام میں روحانیت ہوتی ہے عام آدمی اور نبی کی تحریرمیں یہی فرق ہوتا ہےحضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں میرا کلام ہزاروں تلواروں سے بھی زیادہ تیز اور اثر رکھنے والا کلام ہے جو لوگوں کے دلوں پر وار کرتا ہے۔ عودہ صاحب نے بتایا کہ ایک دفعہ میں فلسطین کی ایک یونیورسٹی میں گیا جہاں میری ایک پروفیسر سے بات ہوئی جو کافی سخت طبیعت کے مالک تھے۔ جب مجھے ان کی طبیعت کا علم ہوا تو میں نے اپنی گفتگو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کےعربی قصائد تک محدود رکھی اس کلام کو سنتے ہی اُس کا لہجہ نرم ہوگیا وہی شخص جو سخت موٴقف رکھتا تھا اس کلام کی برکت سے وہ لندن جلسے میں بھی حاضر ہوا۔

سیمینار کا تیسرا دن

موٴرخہ 26دسمبر 2022 دن کا آغاز تہجد، نماز فجر اور درس قرآن سے ہوا۔ آج کا پہلا لیکچر مکرم عدیل احمد خالد صاحب مربی سلسلہ شعبہ تبلیغ و صدر سوشل میڈیا کمیٹی نے ’’موجودہ دور میں انٹرنیٹ پر نفرت انگیز تقاریر، اسلام فوبیا اور احمدیت مخالف پروپیگنڈا کے متعلق تفصیل سے بتایا نیز حضورِانور کی ہدایات کی روشنی میں سوشل میڈیا کے استعمال کے متعلق ہدایات دیں۔

آج کا دوسرا لیکچر مکرم حفیظ اللہ بھروانہ صاحب مربی سلسلہ و استاد جامعہ احمدیہ نے ’’عربی زبان ام الالسنہ‘‘ کے عنوان سے دیا موصوف نے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اور بزرگان احمدیت کی تحقیق اور ارشادات کی روشنی میں بتایا کہ عربی ہی تمام زبانوں کی ماں ہے اور اسی سے تمام زبانیں نکلی ہیں۔

اس لیکچر کے معاً بعد اجتماعی طور پر حضورِانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا لائیو اختتامی خطاب پر موقع جلسہ سالانہ قادیان سنا گیا۔

حضور انور کے خطاب کے بعد مکرم ومحترم نیشنل امیر صاحب جماعت احمدیہ جرمنی کے ساتھ خصوصی نشست کا اہتمام کیا گیا جس میں آپ نے خدام سے دوستانہ ماحول میں گفتگو فرمائی۔ نماز مغرب کے بعد مربیان کے ساتھ مجلس سوال وجواب کا اہتمام کیا گیا۔

آج کا آخری لیکچر مکرم احسن سعید صاحب مربی سلسلہ و استاد جامعہ احمدیہ نے بعنوان ’’محمدی بیگم‘‘ پیش کیا جس میں انہوں نے محمدی بیگم کے متعلق حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی پیش گوئی اور اُس پر اٹھنے والے اعتراضات کے جوابات اور اس پیشگوئی کے پورا ہونے کی وضاحت بیان کی۔

اختتامی تقریب

مکرم ومحترم آصف محمود باسط صاحب ڈائریکٹر پروگرامنگ MTA انٹرنیشنل نے تبلیغ سیمینار کے اختتامی اجلاس کی صدارت فرمائی۔ نماز عشاء کے بعد اس تقریب کا باقاعدہ آغاز تلاوت قرآن کریم سے ہوا جس کی سعادت مکرم ثمربٹ صاحب کے حصہ آئی۔ مکرم صدر صاحب مجلس خدام الاحمدیہ نے عہد دہرایااس کے بعدمکرم صدر سیمینار نے خدام سے مخاطب ہوتے ہوئے فرمایا کہ میں کوئی مقرر نہیں بہرحال چند گزارشات ہیں جو آپ کی خدمت میں آج کے موضوع کے حساب سے پیش کرتا ہوں اور وہ ہے ’’مخالف پروپیگنڈا جماعت کے لئے زحمت ہے یا رحمت ہے‘‘۔ سچی جماعتوں کو پہنچنے والی تکالیف یا امتحانات کو ہم زحمت تو بہرحال نہیں کہہ سکتے البتہ چیلنج بہت بڑا ہے اب دیکھنا یہ ہے کہ ہم نے اس سے نبردآزما کیسے ہونا ہے۔ آپ نےتاریخ انبیاء کے اوراق کی ورق گردانی کرتے ہوئے فرمایا کہ کون سا ایسا نبی گزار ہے جس کی جماعت یا تعلیمات کے متعلق پروپیگنڈا نہیں ہوایا اُن کی ذات پر ظاہری حملے نہ کئے گئے ہوں بلکہ اس مخالفت میں عوام کے ساتھ ساتھ قبیلوں کے سردار اور حکومت بھی ملوث ہوتی تھی۔

آپ نے مسیح موعودؑ کے زمانے کے متعلق آنحضرتﷺ کی پیش خبریوں اور ایجادات کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ:۔
آجکل انٹرنیٹ بہت بڑی ایجاد ہے بہت ساری سہولتیں میسر آگئی ہیں کوئی تحقیق کرنا ہو کچھ بھی تلاش کرنا ہو، کچھ دیکھنا ہو تو ایک کلک کے ذریعہ یہ سب کچھ ممکن ہے۔

لیکن اس کے ساتھ چیلنج میں بھی اضافہ ہوگیا کیونکہ انہی ایجادات اور ذرائع کو مخالفین استعمال کرتے ہوئے جماعت احمدیہ کی مخالفت میں پیش پیش ہیں جب اُن میں سے کوئی سوشل میڈیا پر جماعت کی مخالفت کرتا ہے تو تمام مخالفین جن کی تعداد ہمارے مقابلے میں بہت زیادہ ہے اُن کے سنگل کلک کرنے سے وہ پیغام ضرب کھاتا چلا جاتا ہے جس کی تعداد پلک جھپکتے کروڑوں اور اربوں تک پہنچ جاتی ہے۔

کیا ان چیزوں کو دیکھنے کے بعد ہم پریشان ہوکر بیٹھ جائیں یا ان کی باتوں کو تسلیم کر لیں؟ کیا ان ذرائع سے ہم اپنی بات کو بہتر رنگ میں اور بہتر انداز میں مخالفین تک پہنچا سکتے ہیں جبکہ ہماری تعداد تو محدود ہے۔ ذہن میں اٹھنے والے ان سوالات کے لئے سب سے پہلے تو ایمان کی مضبوطی بہت ضروری ہے اور یہ سوچنا چاہئے کہ ہم ایمان کس پر اور کیوں لائے ہیں۔ ہم دعویٰ تو کرتے کہ مسیح آگیا ہے کیا ہم نے خود بھی سمجھا ہے کہ ہم کس بات پر ایمان لیکر آئے ہیں وہ کون سا انقلاب ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام لیکر آئے ہیں؟۔ تو وہ انقلاب وہ کتابیں ہیں جو آپ نے شدید بیماری کی حالات میں لکھیں۔ حضور فرماتے ہیں کہ میں ضعف سے اس قدر نڈھال ہو جاتا ہوں کہ مجھے غنودگی آجاتی ہے پھر اٹھتا ہوں اور پھر وہی لکھنے کا کام شروع کر دیتا ہوں۔کئی بیماریاں آپ کے ساتھ لگی ہوئی تھیں اس کے باوجود جو کام آپ کے سپرداللہ تعالیٰ نے کیا تھااُسے تادم آخر پورا کیا بلکہ وفات سے ایک شام قبل آپ نے پیغام صلح کتاب مکمل کی۔

مکرم آصف باسط صاحب نے خدام سے پوچھا کہ کیا ہم نےحضرت اقدس مسیح موعود کی کتب کا مطالعہ کر لیا ہے؟ آپ نے فرمایا کہ ان کتب کا مطالعہ بہت ضروری ہے۔نوجوان کہتے ہیں کہ زبان مشکل ہے سمجھ نہیں آتی کیا یہ بہانے قابل قبول ہیں؟ فیزکس، کیمسٹری، بیالوجی یا ریاضی وغیرہ مضامین کی اگر سمجھ نہ آرہی ہو تو ہم ٹیوشن لیتے ہیں گاڑی چلانا بھی تو سیکھ لیتے ہیں کیونکہ اس میں ہمارا اپنا شوق اور ضرورت شامل ہوتی ہے۔ بہرحال حصول علم کے لئے کوئی شارٹ کٹ نہیں اس کے لئے مسلسل مطالعہ ضروری ہے۔

جب تک تبلیغ میں مجبوری اور ضرورت پیش نہیں آتی اور جب تک یہ چیز ہماری نیند نہیں اڑاتیں اُس وقت تک ہم اپنے مخالفین سے مقابلہ اور تبلیغ احمدیت نہیں کرسکتے۔ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو دعوی کئے 132سال سے بھی زیادہ ہو چلے ہیں اور جس رفتار سے ہم آپ کا پیغام دنیا میں پھیلا رہے ہیں کیا ہم اس سے مطمئن ہوکر بیٹھ جائیں؟

سو اس پروپیگنڈا کو کم کرنے کے لئے دعاؤں کے علاوہ سب سے پہلا کام مطالعہ کتب حضرت مسیح موعود ہے۔ اس معاشرے میں زیادہ تر لوگ تو ہماری باتیں سننے کو تیار ہی نہیں اُن کو نبیوں اور فرشتوں سے کوئی سروکار نہیں ایسے میں دعا کریں کہ اے اللہ میں مغلوب ہوں میری مدد فرما اور ہمارے دلوں کو ٹیڑھا نہ کر۔

آپ نے سوشل میڈیا پر کس طرح جواب دیا جائے۔ کے متعلق بتایا کہ پہلے بات کو سنیں فوراً طیش میں نہ آجائیں بلکہ یہ سمجھنے کی کوشش کریں کہ سوال کیا ہے وہ پوچھنا کیا چاہتا ہے اُس کی الجھن کیا ہے فوری طور پراگر جواب ذہن میں نہیں تو وقت لیں اپنے مربی صاحب صدر صاحب یا مہتمم تبلیغ سے رابطہ کریں پھر تسلی سے جواب دیں اس میں کوئی ہرج نہیں۔

آخر پر آصف محمود باسط صاحب نے حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے لئے دعا کی درخواست کی۔ اس کے بعد مکرم صدر صاحب مجلس خدام الاحمدیہ نے معزز مہمان کا شکریہ ادا کیا اور ان سے درخواست کی کہ دعا کے ساتھ اس سیمینار کا اختتام فرمائیں۔ اور دعا پر اس سیمینار کا اختتام ہوا۔

(رپورٹ صفوان احمد ملک۔ نمائندہ روزنامہ الفضل جرمنی)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 21 فروری 2022

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ