• 30 اپریل, 2024

دُنیا کا کنارہ جزیرہ تاوئیونی (فجی)

میں تیری تبلیغ کو زمین کے کناروں تک پہنچاؤں گا
اور دُنیا کا کنارہ جزیرہ تاوئیونی (فجی)

یہ الہام تو الحمدللّٰہ ہم سب بچپن سے سنتے چلے آ رہے ہیں۔ آج خاکسار اسکے پورے ہونے کے متعدد پہلؤوں میں سے ایک تاریخی اور حسابی طور سے بھی پورا ہونے کی داستان بیان کرنا چاہتا ہے۔

مختصر تعارف۔ فجی بحر لکاہل کےگہرے نیلے رنگ کے سمندروں میں گھرا ہوا ایک ملک ہے جو کالے پانی کا تصور پیش کرتا ہےاور یہ براعظم آسٹریلیا میں آتا ہے۔ فجی 330 جزائر پر مشتمل ہے جن میں سے صرف 110 جزائر آباد ہیں،جبکہ باقی سب ویران پڑے ہیں ان آباد جزائر کی کُل آبادی بھی 9 لاکھ ہے۔یہ ملک تقریباً ایک صدی تک ملک برطانیہ کے تحت رہنے کے بعد بالآخر 10 اکتوبر 1970 میں آزاد ہوا۔ فجی کا سب سے بڑا جزیرہ ویتی لیوو ہے جہاں اسکا دار الخلافہ صووا شہر ہے جہاں ہماری جماعت کا ہیڈ کوارٹر اور سب سے پہلی مسجد فضل بھی واقع ہے اور دوسرا مشہور شہر ناندی ہے جس میں انٹر نیشنل ائیر پورٹ بھی ہے اور اسکے بعد دوسرا جزیرہ ونوا لیوو ہے اور پھر یہ تیسرا بڑا جزیرہ تاوئیونی جس کی کل آبادی صرف 19 ہزار ہے اور اسکی لمبائی 42 کلومیٹر اور چوڑائی 14 کلومیٹر ہے یوں اسکا کل رقبہ 434 کلو میٹر بتایا جاتا ہے،اس میں 11 بڑے بڑے فیجئین گاؤں ہیں اور ملک کی سب سے بڑی چیف فیملی جنکو (راتو) کہتے ہیں اور شروع سے آج تک پارلیمنٹ میں اعلیٰ عہدوں پر مقرر لوگ بھی اسی جزیرے سے تعلق رکھتے ہیں۔ جزیرہ تاوئیونی قدرتی آبشاروں، ناریل، اناناس اور صندل کے درختوں سے بھرا ہوا ہمیشہ سرسبز اور تروتازہ دکھائی دیتا ہے اسی لئے اسکو (گارڈن آئی لینڈ) بھی کہتے ہیں۔ لیکن اسکی خاص اور اہمیت والی بات اسکی سب سے اونچی آبشار (بوما) ہے جو تین آبشاروں پر مشتمل ہے اور دنیا بھر سے سیاح اسکو 2 گھنٹے کی مسافت کے بعد اُوپر جا کر دیکھتے ہیں اور پھر واپس نیچے آکر اسکے ٹھنڈے پانی سے نہا کر اپنی تھکاوٹ دور کرتے ہیں۔اسی طرح اس جزیرے کا ایک خاص سُرخ رنگ کا خوبصورت پھول ہے جو سب سے بڑی آبشار کے پاس پایا جاتا ہے اسکو (تانگی مودیا) کہتے ہیں جو پوری دنیا میں صرف اسی جگہ پایا جاتا ہے اور بتایا جاتا ہے کہ کئی کوششوں کے باوجود اسکی افزائش اور پرورش کسی دوسری جگہ نہیں ہو سکی۔ اورپھر جزیرہ تاوئیونی کی سب سے بڑی اور تاریخی اعتبار سے اہمیت کی وجہ اسکی زمین سے 180 ڈگری خط استوا یعنی (ڈیٹ لائن) کے نشان کاگزرنا ہے۔اور یوں یہ دنیا کا کنارہ کہلاتا ہے اور دنیا میں سب سے پہلا سورج یہاں دیکھا جاتا ہے بلکہ یہ کہنا بھی بے جا نہ ہوگا کہ بفضل تعالیٰ دنیا میں دن کے آغاز کی توفیق سب سے پہلےآذان فجر کے ساتھ توحید کی آواز اللّٰہ اکبر کو بلند کرتے ہوئے ہمیں اس جزیرے سے مل رہی ہے۔ الحمدللّٰہ علیٰ ذٰلک۔ ان شاء اللّٰہ آئندہ موقع ملا تو جزائر فجی اور احمدیت کی حسین تاریخ کو بھی آپکی خدمت میں پیش کرنے کی کوشش کروں گا۔

اب میں اصل مضمون کی طرف آتا ہوں کہ دنیاوی اعتبار سے اس جزیرے کی تاریخ کے علاوہ ہمارے لئے اسکی اہمیت کی وجہ اللہ تعالیٰ کی اس عظیم اور بڑی پیشگوئی کے پورا ہونے کی گواہی ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے عالم تنہائی میں اپنے پیارے امام سیدنا حضرت مسیح موعود ؑ کو قادیان کی گمنام بستی میں یہ الہام کرتے ہوئے تسلی اور ترقی کی نوید سنائی تھی کہ (میں تیری تبلیغ کو زمین کے کناروں تک پہنچاؤں گا)۔

اک قطرہ اسکے فضل نے دریا بنا دیا
میں خاک تھا اسی نے ثریا بنا دیا
میں تھا غریب و بے کس و گمنام و بے ہنر
کوئی نہ جانتا تھا کہ ہے قادیاں کدھر

خاکسار نے جب اس مضمون کو لکھنے کا ارادہ کیا تو امام الزمان سیدنا حضرت مسیح موعود ؑ کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے اس الہام کو اس سر زمین پر پورا ہوتے ہوئے دیکھنے کے ساتھ ساتھ اور بھی کئی وعدے اور پیشگوئیاں پوری ہوتی ہوئی یاد آنے لگیں۔1924 میں مرزا مظفر بیگ کو مسلمانوں کی طرف سے ایک مناظرے کیلئے لایا گیا تھا اور یوں انکے ذریعہ یہاں لاہوری جماعت متعارف ہوئی تھی۔ لیکن اللہ تعالیٰ کی منشأ کے مطابق احمدیت یعنی حقیقی اسلام کا پیغام بھی یہاں روزنامہ الفضل کے ذریعہ ہی پھیلا کیونکہ اسی طرح فجی کے ناندی شہر میں چوہدری کاکے خان صاحب کے بڑے بیٹے چوہدری عبدالحکیم صاحب تجارت کی غرض سے تشریف لائے تھے اور انہوں نے اپنا رابطہ مرکز سے رکھا، پہلے اپنا چندہ وغیرہ قادیان بھجواتے رہے اور پھر بعد میں ربوہ جہاں سے انہوں نے اپنے مطالعہ کے لئے الفضل اور دیگر جماعتی رسائل بھی لگوا ئے جسکو پڑھنے کے بعد اسکا ذکر اپنے قریبی دوستوں سے کیا کہ اصل احمدیت کا پیغام یہ ہے چنانچہ اس پر تحقیق کرتے ہوئے وہاں کے ایک اور بزرگ حاجی محمد رمضان صاحب اپنے پوتے کے ساتھ ربوہ گئے اور سیدنا حضرت مصلح موعود ؓ سے ملاقات کی جس پر حضور پُر نور نے اس وقت حضرت مرزا طاہر احمد صاحب کو انکے ساتھ مسائل کو سمجھانے کی غرض سے مقرر فرمایا تھا اور یوں کچھ دنوں کی تحقیق کے بعد یہ دونوں احباب بیعت کر کے حقیقی نور کے ساتھ فجی واپس لوٹے اور یوں باقاعدہ احمدیت کا نفوذ فجی میں1961 میں ہوا اوراسی سال جماعت رجسٹر بھی ہوئی۔اور اسکے ایک سال بعد ہی دنیا کے کنارے پر اس جزیرہ تاوئیونی میں احمدیت کا پیغام پہنچا اور 1962 میں یہاں بھی 3 احباب نے احمدیت قبول کرتے ہوئے دنیا کے کنارے سے اس عظیم الشان پیشگوئی کے پورا ہونے پر مہر تصدیق ثبت کر دی کہ واقعی خُدا نے اپنے وعدہ کو پورا کرتے ہوئے مسیح الزماں کی تبلیغ کو زمین کے کناروں تک پہنچا دیاہے۔ الحمدللّٰہ علی ذلک۔

جس کام کو کہے کرونگا میں ضرور ٹلتی نہیں وہ بات خُدائی یہی تو ہے

یہاں میں اللہ تعالیٰ کے ایک اور وعدے کو پورا ہوتا ہوا بھی دیکھتا ہوں کہ کس طرح اللہ تعالیٰ نے 1955 میں دشمنانِ احمدیت کے ناپاک ارادوں کو نا کام کرتے ہوئے سیدنا حضرت مصلح موعود ؓ کو خطرناک جان لیوا حملے کے با وجود 10 سال تک زندہ رکھا اور آپکی عمر اور صحت میں بے پناہ برکت دی اور مقبول خدمت کی توفیق پاتے رہے اور یوں ڈنکے کی چوٹ پر ایک بار پھر باغیان خلافت پر ثابت کر دیا کہ یہی وہ پسر ِ موعودؓ ہے جسکی خبر دیتے ہوئے عالم الغیب خُدا نے اپنے امام کو پیشگوئی مصلح مووعود ؓ میں 52 نشانیوں کی تکمیل پر جو الہام فرمایا تھا اس کے آخری الفاظ یہ ہیں کہ (میں تجھے ایک رحمت کا نشان دیتا ہوں۔۔۔ اور اسیروں کی رستگاری کا موجب ہوگا اور زمین کے کناروں تک شہرت پائے گا اور قومیں اس سے برکت پائیں گیں۔تب اپنے نفسی نقطہ آسمان کی طرف اُٹھایا جائے گا)۔ وَکَانَ اَمرًا مَقْضِیًا۔

(مجموعہ اشتہارات جلد اول صفحہ100-102)

اس عظیم پیشگوئی کےاس اہم حصےکا پورا ہونا بہت ضروری تھا کیونکہ فجی دنیا کا کنارہ ہے اور یہاں سیدنا حضرت مصلح موعود ؓ کے دور میں احمدیت کا قیام ہوا، اور پھر باقاعدہ آپکے دور خلافت میں ہی مشن کا قائم ہونا اور پہلے مبلغ سلسلہ مکرم ومحترم مولانا عبد الواحد فاضل صاحب کا یہاں تقرر ہوا اور 2 مساجد کے قیام کے ساتھ مرکز سلسلہ سے باقاعدہ مضبوط تعلق بھی قائم ہوگیا۔کہ وہ دُنیا کے کنارے تک شہرت پا ئیگا، واقعی الحمدللّٰہ بڑی شان سے پوری ہوئی۔ بلکہ 1965 میں جس وقت حضرت مصلح موعود ؓ کی وفات کی خبر آئی تو اُس وقت حضرت چوہدری ظفراللہ خان صاحب اپنے نجی دورہ پر فجی میں ہی موجود تھے اور آپ نے اس دورہ کے دوران فجی کی تیسری مسجد کا سنگ بنیاد بھی رکھا جسکا نام حضرت مصلح موعود ؓ کے نام پر مسجد محمود رکھا گیا۔

تیسرا اور ذوقی نقطہ بھی جو اس پیشگوئی کا پورا ہونا یہاں نظر آتا ہے کہ آخری زمانے میں ابن مریم کے نزول کی خبر بھی دی گئی تھی اور جب سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ؒ 1983 میں اپنی خلافت پر متمکن ہونے کے بعد عالمی دورے پر فجی بھی تشریف لائے تو آپ نے بھی خاص طور پر جزیرہ تاوئیونی کا دورہ اپنے وفد کے ساتھ ڈیٹ لائن کے نشان تک کیا تا دنیا کے کنارے تک تبلیغ کے پیغام کو پہنچانے کا ظاہری نشان بھی پورا ہو، اس تاریخی دورہ میں حضور انور کے ساتھ حضور کی فیملی اورمقامی ممبران کے علاوہ جماعت احمدیہ کے مشہور بزرگ مکرم ومحترم چوہدری حمید اللہ صاحب مرحوم اور چوہدری انور حسین صاحب مرحوم بھی شامل تھے۔ چنانچہ دورہ کے دوران حضور انور نے اس جزیرہ میں ایک انڈین سکول میں استقبالیہ تقریب سے خطاب بھی فرمایا تھا اور کچھ سوال جواب بھی ہوئے تھے۔یہ سکول بھی شہر کے وسط میں ہے اور اسکے چند قدم کے فاصلے پر ہی پھر یہاں جماعت احمدیہ کو 2001 کے آخر میں باقاعدہ ایک پختہ مسجد کی تعمیر کی توفیق ملی اور اس مبارک موقع پر خاکسار کو بھی اس وقت کے امیر ومشنری انچارج فجی مکرم و محترم مولانا نعیم احمد محمود چیمہ صاحب کے ساتھ اس دنیا کے کنارے پر تعمیر ہونے والی تاریخی مسجد کی سنگ بنیاد میں ایک اینٹ رکھنے کی توفیق ملی، الحمدللّٰہ علی ذلک، اور پھر 2 اپریل 2002 میں اس شاندار اور تاریخی مسجد کے افتتاح کے لئے مکرم ومحترم نواب منصور احمد خان صاحب جو اس وقت وکیل التبشیر ربوہ پاکستان تھے بطور نمائندہ حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ؒ  تشریف لائے اور انکے ساتھ آسٹریلیا کے امیر ومشنری انچارج مکرم ومحترم محمود احمد بنگالی صاحب مرحوم بھی تشریف لائے ہوئے تھے۔پھر یہاں ایک اور دلچسپ بات جو تاریخ کا حصہ بنی ہے کہ جب 1983 میں حضرت خلیفۃ المسیح الرابع  ؒیہاں پہنچے تو نشان کو دیکھتے ہوئے فرمایا کہ میرے علم اور اندازے کے مطابق اس نشان کا تعین ٹھیک نہیں لگ رہا کیونکہ یہ بالکل سمندر کے کنارے نصب ہے اور اسکے سائن بورڈ کی سمت بھی ٹھیک نہیں ہے۔حضور کی اس تحقیق اور فرمان پر تمام ممبران وفد اور خاص طور پر حکومتی عملہ جس میں پولیس افسران کے ساتھ ساتھ علاقے کا ڈویژنل آفیسر بھی موجود تھا خاموش رہے بلکہ حیران ہو گئے کہ آپ یہ بات اپنے مشاہدے کے ساتھ ساتھ کتنے اعتماد کے ساتھ کہہ رہے ہیں اور یہ بات خاکسار کو اس ہندو دوست نے بتائی ہے کہ جو اس وقت وہاں موجود تھا،کہ آپ کے خلیفہ نے گاڑی سے اُترتے ہی چند منٹ بعد فوٹو بنواتے ہوئے یہ بات کہی ( کہ یہ نشاں یہاں درست جگہ پر نہیں ہے اور نہ ہی یہ سائن بورڈ صحیح سمت کی نشاندہی کر رہا ہے )اور اس پر سب خاموش رہے۔ چنانچہ آنے والے دنوں نے یہ بات ثابت کر دی کہ حضور کی تحقیق اور فرمان بالکل درست تھا۔ کیونکہ جب 2000 میں نئی صدی کے آغاز پر یہاں کی حکومت نے دنیا بھر کے سیاحوں کی آمد پر فجی کو سجانے سنوارنے کے اقدامات کئے تو وہاں اپنی تاریخ کو مکمل اور درست کرتے ہوئے دوبارہ اس ڈیٹ لائن کے نشان پر بھی تحقیق ہوئی اور واقعی اس نشان کو غلط بتایا گیا اور اس نشان سے 1 کلومیٹر کے فاصلے پر بائیں طرف پہاڑ پر اسکو نصب کیا اور اسکی سمت بھی درست کی گئی کہ یہ صحیح جگہ ہے جہاں سے ڈیٹ لائن گزر رہی ہے اور کس رُخ سے گزر رہی ہے۔ ان دونوں تاریخی نشانات کی تصاویر بغرض معلومات اور گواہی پیش خدمت ہیں۔ اس مقام پر نصب سائن بورڈ کے ڈیزائن مختلف وقتوں میں مختلف رنگ اور شکلوں کے تبدیل کر کے لگائے جاتے ہیں جسکا اندازہ آپکو گوگل پر ریسرچ کرنے سے بھی ہو جائے گا۔

جہاں سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الرابع نے 1983 میں پُرانے ڈیٹ لائن کے نشان پر وزٹ کیا اور دعا کی تھی، پھر ماشاء اللّٰہ 2006 میں سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے بھی اپنی فیملی اور وفد کے ساتھ نئی جگہ پر اور نئے ڈیٹ لائین کے نشان پر 21 ویں صدی میں وزٹ کیا اور اس بات کا ثبوت دیتے ہوئے کہ ہاں خُدا کے اس وعدے پر ایک صدی گزر رہی ہے اور دعا بھی کی، اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ۔ یہ ڈیٹ لائن کا نشان ہمارے اس جزیرے پر احمدیہ مسجد بیت الجامع سے صرف 4-5 کلو میٹر کے فاصلے پر نصب ہے۔

2000 صدی کے آغاز پر جہاں امام مہدی اور اسکے خلیفہ نے انکے حسابی اندازوں اور علامات کو درست کروایا تو وہاں انکے مذہبی عقیدے کو بھی غلط ثابت کرتے ہوئے جھٹکا دیا۔ کیونکہ اس وقت یکم جنوری 2000 کو جہاں سیاحوں کی نئی صدی کے پہلے چڑھتے ہوئے سورج کو دیکھنے کی تمنا تھی کہ اس وقت تاوئیونی جزیرے میں تمام ہوٹلز اور ریزوٹس سب بھرے ہوئے تھے اور سیاحوں کی آمد اس حد تک تھی کہ لوگوں نے سمندر کے کنارے خیمے لگا کر نئی صدی کے پہلے سورج کو کیمروں میں محفوظ کرنے کی کوشش کی۔ تو وہاں کئی مذہبی جنون رکھنے والوں کو اس عیسیٰ ابن مریم کا بھی انتظار تھا کہ جس نے شائد اس صدی کے آغاز میں نازل ہونا تھا چنانچہ فجی میں بھی کئی نئے چرچ تعمیر ہوئے کہ شائد آنے والا مسیح ہماری چرچ میں نازل ہو لیکن اس وقت بھی متعدد پیشگوئیوں کی طرح ہم نے سیدنا حضرت مسیح موعود ؑ کی یہ بات بھی پوری ہوتی ہوئی دیکھی۔

سر کو پیٹو آسماں سے اب کوئی آتا نہیں۔۔۔

اسی طرح تاوئیونی جزیرے کے سامنے ایک اور چھوٹا سے جزیرہ رامبی بھی ہے جس میں دوسرے ملک کیریباس سے لوگ آکرآباد ہوئے ہیں جنکی زبان اور رنگ و نسل بھی فیجئین سے مُختلف ہے اسکی آبادی بھی 6 ہزار سے کچھ زائد ہے اس جزیرے پر مکمل انکا کنٹرول اور عیسائی مذہب کا راج ہے۔ لیکن الحمدُللہ وہاں بھی 1994 میں ہمیں احمدیت کا پیغام پہنچانے کی توفیق ملی اور وہاں بھی عیسائی چرچز کے علاوہ صرف ہماری جماعت احمدیہ کی ہی سمندر کنارے ایک پختہ مسجد ہے جسکی پہلی مرتبہ سنگ بنیاد 2003 میں اُس وقت کے امیر و مشنری انچارج مکرم نعیم احمد محمود چیمہ صاحب کے ساتھ خاکسار کو یہاں بھی اینٹ رکھنے کی توفیق ملی۔اور آج بھی ہر ماہ خاکسار کو اس اس جزیرے پر تعلیم و تربیت کے ساتھ ساتھ تبلیغی سفر کے لئے اس گہرے سمندر کی خطرناک لہروں کو چیرتے ہوئے آؤٹ بوٹ کے ذریعہ دورہ کرنے کی توفیق مل رہی ہے۔ رَبَّنَا تَقَبَّلۡ مِنَّا اِنَّکَ اَنۡتَ السَّمِیۡعُ الۡعَلِیۡمُ۔ آمین

احباب جماعت سے خصوصی دعا کی درخواست ہے کہ اللہ ان تمام مخلصین احمدیت کو ثبات قدم کے ساتھ مزید ایمان و اخلاص میں بڑھائے اور انکی نسلوں کو بھی اسلام احمدیت اور نظام خلافت کا مطیع اور فرمانبردار بنائے رکھے اور عاجز کو بھی مقبول خدمت دین کی توفیق دیتا چلا جائے اور میری اولاد در اولاد کو بھی قیامت تک ان برکات کا وارث بنا تا چلا جائے اور انجام بخیر فرمائے۔ آمین ثم آمین۔

(طارق رشید۔ مبلغ سلسلہ فجی)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 21 مارچ 2022

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ