• 30 اپریل, 2024

اسکنڈے نیوین ممالک میں الہام کا پورا ہونا

میں تیری تبلیغ کو زمین کے کناروں تک پہنچاؤں گا
اسکنڈے نیوین ممالک میں الہام کا پورا ہونا

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ:
’’خدا تعالیٰ چاہتا ہے کہ ان تمام روحوں کو جو زمین کی متفرق آبادیوں میں آباد ہیں، کیا یورپ اور کیا ایشیا، اُن سب کو جو نیک فطرت رکھتے ہیں۔ توحید کی طرف کھینچے اور اپنے بندوں کو دین واحد پر جمع کرے۔ یہی خدا تعالیٰ کا مقصد ہے جس کیلئے مَیں دنیا میں بھیجا گیا۔ سو تم اِس مقصد کی پیروی کرو مگر نرمی اور اخلا ق اور دعاؤں پر زور دینے سے۔‘‘

(الوصیت، روحانی خزائن جلد20 صفحہ307-306)

اللہ تعالیٰ کی طرف سے مقرر کیا جانے والا ہر نبی مختلف حالات اور خطّہِ ارضی میں اپنے پروردگار کا پیغام پہنچانے کی سعی میں اپنی زندگی گزارتا ہے۔ ہمارے سامنے بہت سے انبیاء کے حالات ہیں۔ ہر نبی کی مشکل الگ تھی۔ کسی بھی فرستادے کی مدد کے لئے اللہ تعالیٰ جو وسیلے اور ذرائع استعمال کرتا ہے ان میں انبیاء کرام ؑکے اخلاقِ حسنہ، نیک اور مخلص صحابہؓ کا ساتھ اور فرشتوں کےذریعے غیبی مدد سب سے زیادہ مددگار ثابت ہوتے ہیں۔ چودھویں صدی جس میں حضرت مسیح ِ موعودؑ کی آمد مبارک ہوئی اس میں پہلے انبیاء کے زمانوں کی نسبت حالات بہت مختلف ہو چکے تھے۔ سائنس، ٹیکنالوجی اور طریقِ معاشرت میں بہت ترقی ہو چکی تھی۔ سب سے بڑی تبدیلی اور فرق جو اس زمانہ کے موعود امام ؑ (آنحضرت ﷺکے غلامِ صادق) کے سامنے تھا وہ ذرائع آمدو رفت کی آسان سے آسان اور تیز سے تیز ایجاد اور چھاپہ خانے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے مسیح الزماںؑ جس کا انتظار کئی برسوں سے ہو رہا تھا کو چھاپہ خانوں کے زمانہ میں لانا تھا تو اس کی حکیمانہ تدبیر نے ان کو قلم کا فن عطا کر کے بھیجا۔ لہذا اس زمانہ کے فرستادے کا سب سے بڑا تبلیغی ہتھیارقلم تھا، (قلم ہے اور قلم رہے گا ان شاء اللہ) جس کی مدد سے حضرت امام الزماں ؑ نے خود بھی جہاد کیا، دنیا کے بہت سے دور دراز کے ممالک تک اپنا لکھا ہوا لٹریچر بھیجا اور اپنی جماعت کو بھی اس ہتھیار کے استعمال کی نصیحت کی۔

اللہ تعالیٰ نےحضرت مسیح ِ موعودؑ کو بہت ابتداءمیں ایک الہام کے ذریعے خوش خبری دی تھی کہ

’’میں تیری تبلیغ کو زمین کے کناروں تک پہنچاؤں گا‘‘ (1891)

حضرت مسیح موعودؑ کے بیٹے کا وعدہ

1908ء میں جب حضرت مسیح ِ موعودعلیہ السلام اپنے حصے کا کام ختم کر کے مشیتِ ایزدی سے اپنے خالق کے حضور حاضر ہو گئے توتدفین سے قبل آپ کے موعود بیٹے مرزا بشیرالدین محمودؓ نے آپ علیہ السلام کے جسدِ اطہر کے سرہانے کھڑے ہو کر خدا کو حاضر و ناظر جان کراپنے والدسے عہد کیا کہ:
’’اگر سارے لوگ بھی آپ (یعنی مسیح موعود علیہ السلام) کو چھوڑ دیں گے اور میں اکیلا رہ جاؤں گا تو میں اکیلا ہی ساری دنیا کا مقابلہ کروں گا اور کسی مخالفت اور دشمنی کی پرواہ نہیں کروں گا‘‘۔ اللہ تعالیٰ نے بھی آپ کے اس جذبے کی لاج رکھی اور 1932ء میں آپ کو عالمِ رویا میں دکھایا گیا کہ۔
’’ناروے، سویڈن، فن لینڈ اور ہنگری کے لوگ احمدیت کا انتظار کر رہے ہیں۔‘‘

(مجاہد ہنگری (کتاب) صفحہ31 ازحاجی احمد، تاریخ ِ احمدیت جلد18 صفحہ477، روزنامہ الفضل ربوہ 3؍جولائی 1956صفحہ1-8)

اللہ تعالیٰ نے ہر کام کا وقت رکھا ہوتا ہے۔ 1932ء کی خواب کو 1956ء میں تعبیر ملی۔واقعہ کچھ یوں ہے کہ جب آپ رضی اللہ عنہ کو ان پر ہونے والے قاتلانہ حملہ کے زخم کی تکلیف کے علاج کے لئے برطانیہ جانا پڑا تو اس قیام کے دوران اللہ تعالیٰٰ کا عجیب تصرف ہوا کہ ایک، سترہ، اٹھارہ برس کا سویڈش لڑکا Gunnar Eriksen نامی، حضور ؓسے ملاقات کو آیا اور جاتے ہوئے آپ ؓ سے سویڈن میں مشن کھولنے کی درخواست بھی کر گیا۔ حضرت مصلح ِ موعود ؓ کو تو اللہ تعالیٰ پہلے ہی اسکینڈے نیویا کے متعلق بتا چکا تھا

اُس نوجوان لڑکے کی درخواست نے حضور ؓ کے ارادے میں مزید عجلت پیدا کر دی۔ حضورؓ نے اس سویڈش کی درخواست کی منظوری 1955ء میں 22 تا 24 جون کو ہونے والی مبلغین لندن کانفرنس میں فرمائی۔حضور ؓ نے پاکستان پہنچتے ہی ایک مربی سلسلہ مکرم سید کمال یوسف صاحب کو سویڈن بھیجنے کاحکم دے دیا۔ گویا آپ کے دل کی وہ آواز، جو آپ ؓ کے دل سے اپنے والد بزرگوار کی وفات پر نکلی تھی جسے آپ کی شعائراللہ ہمشیرہ حضرت سیّدہ نواب مبارکہ بیگم صاحبہ نے آپ کی طرف سے شعر میں یوں ڈھالا تھا کہ

میں کرونگا عمر بھر تکمیل تیرے کام کی
میں تری تبلیغ پھیلا دوں گا بر روئے زمیں

(درِّ عدن ازحضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہ)

تب عالمگیر جماعت احمدیہ نے دیکھا کہ آپ کے اس وعدے اور ار ادے کو تکمیل تک پہنچانے کی جد وجہد کا ایک حصہ اسکینڈے نیویا کے علاقوں میں مشن کھولنے اور یہاں اسلام کا پیغام دینے کا بھی ہے۔ الحمد اللہ
حضرت مصلح موعود ؓنے ایک جلسہ سالانہ پر جماعت کی مجموعی بیرونی ممالک کی مساعی بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ ’’اسکینڈے نیویا، روس سے ملتا ہوا ایک یورپین علاقہ ہے، اس علاقے کی ایک حکومت فن لینڈ کہلاتی ہے۔ چونکہ یہ علاقہ ترکوں سے بہت قریب ہے اس لئے یہاں لاکھوں ترک سینکٹروں برس سے بس رہے ہیں، انہوں نے ابھی تک احمدیت قبول نہیں کی۔ مگر ہمارے مبلغ کو بلا کر انہوں نے تقریریں کروائیں۔ دوسری حکومت اس علاقے کی سویڈن کہلاتی ہے پہلے ہمارا ارادہ تھا کہ سویڈن میں بیت الذکر بنائیں لیکن اب ایک جرمن نو مسلمہ نے لکھا ہے کہ میں نے ناروے کے دارا لحکومت اوسلو میں ایک جگہ تجویز کی ہے۔ میں نے سید کمال یوسف صاحب کو ہدایت کی ہے کہ وہ اس جگہ کو دیکھ کر رپورٹ کریں۔ اگر انہوں نے بھی اسکے حق میں رپورٹ کی تو مغربی افریقہ کی جماعتوں کو تحریک کی جائے گی کیونکہ ہمارے ملک کے ایکسچینج کی حالت بہت خراب ہے‘‘۔

(تاریخِ احمدیت جلد20 صفحہ189-200)

جناب سیّد کمال یوسف صاحب کی زبانی پہلا سفرِ سویڈن

مکرم سیّد کمال یوسف صاحب نے خاکسار کی درخواست پر مصلح موعودؓ کا ان کو سویڈن کے لئے بھیجنے کی کہانی یوں سنائی۔

’’حضورؓ نے پاکستان پہنچتے ہی میرے بارے میں پوچھا۔ انہیں بتایا گیا کہ جامعہ کا آخری سال ہے۔ حضورؓ نے فرمایا کہ کہ اسے فوراً اسکینڈے نیویا کے لئے روانہ کرو! اس زمانہ میں پاسپورٹ بنانا ایک بڑا مسئلہ ہوتا تھا چھ ماہ بنانے میں لگ گئے حضرت مصلح ِ موعودؓ نے پوچھا تو ان سے عرض کردی کہ پاسپورٹ تو بن گیا ہے لیکن ٹکٹ کے لئے رقم نہیں ہے۔ حضور ؓ نے فرمایا بحری جہاز پر بھیج دو۔ الغرض خاکسار حضرت مصلح موعودؓ کی دعاؤں کے صدقے مختلف مراحل سے گزرتا ہوا ہیمبرگ پہنچ گیا۔ ہیمبرگ میں اللہ کے فضل سے جماعت کا مشن قائم تھا، جس کے انچارج چوہدری عبداللطیف صاحب تھے، اُس وقت چوہدری صاحب باقی مغربی ممالک کے مشنریز کے بھی انچارج تھے۔ انہوں نے ہی میرا سویڈن پہنچنے کا انتظام کرنا تھا۔ حضرت مصلح ِ موعودؓ کا حکم تھا کہ چوہدری عبداللطیف صاحب بھی مربی سویڈن کے ہمراہ سویڈن تک جائیں۔ میری خوش قسمتی کہ ہیگ میں حضرت چوہدری سر ظفراللہ خان صاحب ؓموجود تھے انہوں نے پہلے ہی اپنی گاڑی میں فن لینڈ جانے کا پروگرام بنا رکھا تھا۔ انہوں نے چوہدری صاحب اور خاکسار کو بھی ہمسفر بننے کی خواہش کی۔ لہذا ہم حضرت سرظفراللہ خان صاحبؓ کی گاڑی میں سویڈن پہنچے‘‘

الغرض! سویڈن کے دارلخلافہ گوٹن برگ پہنچ کر دونوں مربیان نے سب سے پہلے رہائش ڈھونڈنے کی طرف توجہ کی رہائش ڈھونڈنے کے ساتھ ساتھ ملک کی مختلف سوسائیٹز اور متعلقہ اداروں سے رابطہ کیا، ایک پریس کانفرنس بھی کی گئی یہ تمام رابطے اس لئے کرنا ضروری تھے تاکہ شہر کی فضا میں یہ خبر پھیل جائے کہ اس ملک میں اسلام کے مبلغ پہنچ گئے ہیں۔ تاکہ جس کو دین ِ اسلام کے بارہ میں تجسس ہو وہ آئے اور مبلغ سے مل کر معلومات حاصل کرے۔ جناب چوہدری عبدا لطیف صاحب گوٹن برگ میں ایک ہفتہ قیام کے بعدنئے مربی سلسلہ، جناب سّید کمال یوسف صاحب کو سویڈن میں چھوڑ کر خود جرمنی واپس آگئے۔

الغرض جرمنی کا مشن چونکہ ان تمام مغربی ممالک کا ہیڈکوارٹر تھا لہٰذا حضرت مصلح موعودؓ کی ہدایت کے مطابق چوہدری عبداللطیف صاحب کی سویڈن میں 1961ء تک نگرانی تو رہی مگر تمام ذمے داری لوکل مربی سلسلہ کی تھی۔ اللہ تعالیٰ نے مشن سویڈن کو پہلا پھل 1956.08.07ء میں ایک سویڈش Gunner Eriksen کی صورت میں دیا یہ وہی نوجوان تھے۔ جنہوں نے حضرت مصلح موعود ؓ کو سویڈن میں مشن کھولنے کی تحریک کی تھی۔ ان کا اسلامی نام ’’سیف الاسلام محمود‘‘ رکھا گیا۔ یہ نوجوان نو مبائع، جماعت کے لئے بہت مفید ثابت ہوئے۔ سویڈن کے اعزازی مبلغ بنا دئیے گئے اور بہت جلد ان کی ادارت میں ایک رسالہ بھی نکلنا شروع ہو گیا جو تینوں ممالک کی زبانوں میں جاری ہوا۔اس سے پہلے سیّد کمال یوسف صاحب ڈنمارک اور فن لینڈ کے دورے بھی کرتے رہے، فن لینڈ میں ترک قوم کے مسلمانوں میں تقاریر بھی کیں۔ ڈنمارک میں ڈینش زبان میں لٹریچر بھی پہنچایا جاتا رہا اور لیکچر بھی دئے جاتے رہے۔ ڈنمارک کا مشن 1959ء میں کھولا گیا اور اسے دوسال جرمنی کی نگرانی میں رکھ کر 1961ء میں بالکل آزاد حیثیت دے دی گئی۔

1958ء میں جناب کمال یوسف صاحب نے حضرت مصلح ِ موعودؓ کی اجازت سے ناروے میں بھی باقاعدہ مشن کا آغاز کردیا۔

یوں 1961ء میں صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب حضرت مصلح ِ موعودؓ کی ہدایت پر کوپن ہیگن تشریف لائے کوپن ہیگن کا مشن مکرم کمال یوسف صاحب کے حوالے کیا اور انہیں اضافی کام تینوں ممالک کے انچارج ہونے کا بھی دے دیا۔ یوں ہمارے پیارے امام حضرت مصلح موعود ؓ کی امامت، ان کی اولوا لعزمی اور اللہ کے فضل سے سویڈن، ناروے اور ڈنمارک تینوں ممالک کے الگ الگ مشن کھُل گئے۔

(تاریخ ِ احمدیت، جلد17 صفحہ491-497 تک سے لی گئی معلومات)

خلافتِ ثانیہ کے دور میں اسکینڈے نیویا میں اسلام کی اشاعت کا مختصر خاکہ

حضرت مصلح موعود ؓ کو اللہ تعالیٰ نے اسکینڈے نیویا کے ممالک میں وحدانیت کا پرچار کرنےاور اسلام کی تبلیغ کے لئے بنیادی ڈھانچے کھڑے کرنے کا جتنا وقت دیا وہ 1956ء سے 1965ء تک کا بنتا ہے۔ تاریخ ِ احمدیت جلد18 صفحہ نمبر89 میں لکھا ہے کہ
’’اللہ کے فضل سے دو مبلغین، جو مرکز سے تشریف لائے تھے، جناب سّید کمال یوسف صاحب اور سیّد مسعود احمد صاحب

ان کی شبانہ روز محنت سے اسلام بہت تیزی سے پھیلنے لگا۔ قرآن پاک کے تراجم، اور اشاعت کا کام بہت بڑھ گیا تھا۔ مشن کو اتنی وسعت ہوئی تینوں ممالک میں سے ایک ایک مخلص نو مبائع کو اعزازی مبلغ کی ذمےداری سونپی گئی۔ جن میں عبدالسلام صاحب ڈنمارک میں، الحاج سیف السلام محمود ایرکسن سویڈن میں اور مکرم نور احمد بولستاد ناروے, کے نو مبائعین شامل تھے، ’’گوٹن برگ، مالمو، اسٹاک ہالم، ڈنمارک اور اوسلو کے علاوہ دوسرے شہروں میں بھی بیعتیں ہوئیں

لہٰذا ان سب خدمت گاران نے مل کر حضرت مسیح موعودؑ کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ملنے والی الہامی خبر کہ ’’میں تیری تبلیغ کو زمین کے کناروں تک پہنچاؤں گا‘‘ کی ایک واضع جھلک دنیا کو دکھا دی۔ اسکے ساتھ ہی اللہ تعالیٰ کی طرف سے ملنے والی وہ پیشگوئی جو ’’پیشگوئی مصلح ِ موعود‘‘ کے نام سے یاد کی جاتی ہے۔ اور جس میں حضرت مصلح موعودؓ کے متعلق اللہ تعالیٰ کے وہ الفاظ ’’کہ وہ زمین کے کناروں تک شہرت پائے گا‘‘ بھی پورے کر دئیے۔ الحمد للّٰہ۔

دورِ ثالثہ میں اسکینڈے نیویا میں اسلام کی ترقی

1965ء حضرت خلیفة المسیح الثانی ؓ اپنے حصے کے کام کرکے اپنے رب کی خدمت میں حاضر ہوگئے اور حضرت مرزا ناصر احمد صاحب ؒنے جماعت کی باگ ڈور سنبھالی۔ ان کے دور ِ خلافت میں اللہ تعالیٰ نے مزید ترقیاں عطا فرمائیں۔ اسکینڈے نیویا میں مساجد کی تعمیر اور اسلام کی اشاعت وتبلیغ کا جو خواب ان کے والد بزرگوار نے دیکھا تھا۔ اس کو آگے بڑھانے کا وقت آچکا تھا۔

(تاریخ ِ احمدیت جلد نمبر17 صفحات479-489 لیے گئے حقائق)

1967ء سے 1969ء تک اسکینڈے نیویا کے ممالک میں احمدیت اور اسلام کی ترقی کا وقت تھا، آئیس لینڈ، فن لینڈ کے یوگوسلاویین لوگوں نے خود رابطے کر کر کے مربیان سے معلومات لیں اور احمدیت قبول کی، 1970ء میں مرکز سے ایک اور مربی سلسلہ جناب منیرالدین احمد صاحب تشریف لائے۔ ان کے حصے میں سویڈن کا مشن آیا۔ انہی دنوں سویڈن میں خدا کا گھر بنانے کے لئے زمین کی تلاش کا کام شروع ہوا، اسکے لئے زمین ڈھونڈنا تھی۔ لہٰذا یہ کام مکرم سیّد کمال یوسف صاحب کو سونپا گیا تھا۔ مناسب جگہ پر مناسب قیمت میں زمین ڈھونڈنا آسان نہیں تھا بہرحال اللہ نے مدد کی زمین لیز پر لینے اور سنگِ بنیاد رکھنے کاکام انہوں نے 1975ء تک مکمل کر لیا اللہ کے فضل اور مدد سے باقی کا کام سویڈن کے نئے نامزد مربی سلسلہ منیرالدین احمد صاحب نے سنبھالا اور 1976ء میں مسجد (مسجد ناصر) کا افتتاح بھی کر لیا۔ الحمد للّٰہ۔

اسکینڈے نیویا میں اسلام کی پہلی مسجد

اسکینڈے نیویا میں اسلام کی پہلی مسجد نصرت جہاں کی بنیاد ڈنمارک میں جولائی 1966ء کو صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب نے رکھی۔ چونکہ یہ اسکینڈے نیویا میں اسلام کا پہلا باقاعدہ مشن اور خدا کا گھر بنا یا جا رہا تھا، اسلئے ڈینش میڈیا نے اسے خوب مشتہر کیا۔ ایک روز پہلے ہی ریڈیو پر اس کے متعلق خبریں دی جانے لگیں۔ اخبارات نے بھی اسکا بہت چرچا کیا۔ افتتاح کے مبارک دن بہت سے ممالک کے سفیر اور مندوبین بھی شامل تھے۔ یہ جمعة المبارک کا دن تھا۔ نو مبائع سیف الاسلام صاحب جو اعزازی مبلغ بھی تھے نے اذان دی اور حضرت ظفراللہ خان صاحب ؓ نے اُس روز جمعہ کا خطبہ دیا اور نماز ِ جمعہ پڑھائی۔ حضرت ظفراللہ خانصاحب ؓ کے جمعہ پڑھانے کی خبر اور ان کی موجودگی کو میڈیا نے بہت اہمیت دی۔ اللہ کے فضل سے مسجد مکمل ہونے کے بعد اس کا افتتاح 1967ء میں حضرت خلیفة المسیح الثالث ؓ نے کیا۔ اس مسجد کی ایک بہت اہم اور تاریخی بات یہ ہے کہ چونکہ مسجد نصرت جہاں کے لئے زمین 1964ء میں ہی خریدی جاچکی تھی، لہٰذا حضرت مریم صدیقہ صاحبہ ؓ اہلیہ (حضرت مصلح موعودؓ) جو کہ صدر لجنہ مرکزیہ بھی تھیں نے حضرت مصلح ِ موعودؓ کے پچاس سالہ دور ِ خلافت کے شکرانے کے طور پر لجنہ کو ایک مسجد بنانے کی تحریک کی، اور اسکے لئے ’’نصرت جہاں مسجد‘‘ کوپن ہیگن تجویز کی گئی۔ یوں اسکینڈے نیویا کی پہلی مسجد لجنہ اماءِ اللہ کی قربانیوں سے تعمیر ہوئی۔ الحمد للّٰہ

ڈنمارک کی ایک اخبار lollandstidene نے 25جولائی اگست 1967ء کے پرچے میں لکھا کہ!
’’آج مسلمانوں کا مذہب، یعنی دین ِ اسلام ڈنمارک میں پھیلایا جارہا ہے۔ کوپن ہیگن میں پہلی مسجد تعمیر ہو گئی ہے۔ اس کا افتتاح بھی عمل میں آچکا ہے‘‘ اس کے آٹھ برس بعد نومبر 1975ء کو سویڈن کے شہر گوٹن برگ میں مسجد ناصر کا سنگ ِ بنیاد رکھا گیا۔ تکمیل کے بعد اس کا افتتاح 1976ء کو کیا گیا۔ اس وقت وہاں کے مبلغ انچارج مکرم منیرالدین احمد صاحب تھے۔

یوگوسلاویین لوگوں میں احمدیت کی مقبولیت

اکتوبر 1975ء میں حضرت خلیفة المسیح الثالث ؒ گوٹن برگ دورہ پر آئے یہاں یوگوسلاوین لوگوں کے ساتھ ایک مجلس تھی۔ اس مجلس کا حال پڑھئے۔ سترہ اکتوبر 1975ء کی الفضل ربوہ میں۔ حضرت خلیفة المسیح الثالثؒ کے دورہ گوٹن برگ کےدوران یوگو سلاویین احباب کے ساتھ ملاقات کےمتعلق الفضل کے اخباری نمائندے جناب مسعود احمد دہلوی صاحب کا بیان تحریر ہے کہ
’’اس تمام عرصہ میں یوگوسلاویین دوستوں پر ایک ایسا کیف کا عالم طاری رہا کہ یوں محسوس ہوتا تھا کہ وہ اس عالم میں نہیں۔ اور ان کی جانب سے ذوق وشوق کا اظہار خدائی تصرف کے تحت ہو رہا ہے‘‘ اس مجلس کے بعد ایک مخلص احمدی برادرم شعیب موسیٰ صاحب نے اپنی اہلیہ سے فارم بھرنے کو کہا جو کہ پہلے ہی یہ نیک کام کرنا چاہتی تھیں، اس کے بعد مزید چودہ احباب نے فارم بھرے اور بیعت کے سلسلہ میں داخل ہو گئے،جن میں چھ مرد اور آٹھ خواتین تھیں۔ الحمد للہ

اسکینڈے نیویا میں شامل انتہائی شمالی علاقے ناروے کا محل ِّ وقوع

اگر اسکینڈے نیویا یورپ کےشمال مشرق میں واقعہ ہے تو اس میں شامل سر زمین ِ ناروے انتہائی شمال میں واقعہ ہے۔

ناروے جو زمین کا کنارہ بھی کہلاتا ہے۔ روس، ڈنمارک اور سویڈن ناروے کے ہمسائیہ ممالک کہلاتے ہیں، سویڈن کی سرحد تقریباً 1600 کلو میٹر تک ملتی ہے جبکہ ناروے اور ڈنمارک کے درمیان خشکی کا کوئی رستہ نہیں سمندری راستہ اختیار کرنا پڑتا ہے۔ اگر خشکی کے رستے جانا ہے تو پھربراستہ سویڈن جایا جاتا ہے۔ روس کے ساتھ ناروے کی ہمسائیگی، 198 کلومیٹر تک چلتی ہے۔ ایک اور ملک فن لینڈ بھی ناروے کا سرحدی ہمسائیہ ہے۔ انتہائی شمال میں ہونے کی وجہ سے اسے ’’زمین کا کنارا‘‘ کہتے ہیں۔ گلیشئر، جھیلوں، آبشاروں، چشموں، برفانی پہاڑوں، اور گرمیوں میں بڑے سے بڑے اور سردیوں میں چھوٹے سے چھوٹے دنوں والے اس ملک میں احمدیت کے آغاز کا حال اوپر گزر چکا ہے، یہ ہم جان چکے ہیں کہ اس ملک میں احمدیت حضرت مصلح ِ موعود ؓ کی تدبیر سے براستہ ڈنمارک اور سویڈن پہنچی تھی۔

1978ء میں حضرت خلیفة المسیح الثالثؒ لندن میں کسرِ صلیب کانفرنس کے لئے تشریف لائے تو کانفرنس کے کامیاب انعقاد کے بعد 24جولائی کو روانہ ہو کر 25 جولائی کو اوسلو میں رونق افروز ہوئے اور 26 جولائی کو ایک پریس کانفرنس سے خطاب فرمایا۔

اس خطاب کے متعلق اخبار کی خبر

روزنامہ Arbeider bladet میں 31 جولائی 1978ء میں بعنوان ’’اسلامی خلیفہ نے ناروے کو عیسائیت سے لاتعلق کر چھوڑا‘‘ کے تحت اخبار میں لکھا ہے کہ
’’اسلام تمام بنی نوع انسان کی ہدایت اور راہنمائی کے لئے آیا ہے۔ (یعنی اس کے مخاطب ہر قوم اور ہر فرد ہے) اسلام میں روئے زمین کا ہر انسان جب چاہے داخل ہو سکتا ہے۔ جہاں تک قبول ِ اسلام کا تعلق ہے اس میں دیر کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ جس کسی کو بھی جب بھی قبول ِ حق کی سعادت ملے۔ اس کے لئے غنیمت ہے‘‘ یہ خلاصہ ہے مسلمان فرقہ احمدیہ کے خلیفہ حضرت مرزا ناصر احمدؒ کی اس گفتگو کا جو انہوں نے گذشتہ بدھ (24جولائی 1978) کو اوسلو میں اخباری نمائندوں سے ایک ملاقات کے دوران فرمائی۔خلیفۃ المسیح اس خالص مذہبی جماعت کے روحانی سربراہِ اعلیٰ ہیں اخبار نے مزید لکھا کہ ’’دنیا بھر میں اس جماعت کے افراد کی تعداد ایک کروڑ کے لگ بھگ ہے۔ جن میں ناروے میں رہنے والے 130باشندے بھی شامل ہیں۔‘‘ گو کہ ان لوگوں کو وحدانیت کا سبق پڑھانا مشکل کام تھا، کہنے کو یہاں عیسائی مذہب کا راج تھا، مگر چونکہ عیسائیت بھی ان پر ایک طرح سے نافذ ہی کی گئی تھی لہذا کوئی مذہب ان کے دلوں میں جذب نہیں ہوا تھا۔ اور خصوصاً وہ علاقہ جس میں دارالحکومت اوسلو ہے وہاں تو مذہب کا کوئی عمل دخل نہیں ہے۔ لیکن لوگ انتہائی شریف اور بھلے مانس ہیں۔ ہاں جنوبی علاقے کرسچیان سند (Kristiansand) میں عیسائیت کا بہت زور اور احترام ہے، اور عیسائیت کو پھیلانے اور مذہب کی پابندی کرنے والے ایک کثیر تعداد میں موجود ہیں۔

ناروے میں مسجد نور کی تعمیر

ہم ایک سے زیادہ مرتبہ پہلے بھی مکرم نور بولستاد صاحب کا نام لے چکے ہیں۔ ناروے میں احمدیت کے تفصیلی بیان سے پہلے ضروری ہے کہ جناب مکرم نور احمد بولستادکا کچھ ذکر ہو جائے۔ اوپر بیان ہوچکا ہے کہ سویڈن کا مشن 1956ء میں وجود میں آیا۔سویڈن کےمربی سلسلہ، مکرم سیّدکمال یوسف صاحب، تمام اسکینڈے نیویا کے ممالک کو سنبھال رہے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے ان پر کرم کیا اور ایک برس بعد ہی ایک سفید پرندہ پکڑ کر جماعت کی جھولی میں ڈال دیا۔ یہ مکرم نور احمد بولستاد تھے۔ مکرم نور صاحب نارویجین باشندے ہیں جنہوں نے 1957ء میں بیعت کی۔ نور صاحب کی بیگم اور بچوں کی بھی بیعت ہوئی اللہ تعالیٰ نے یہ مدد مربی سلسلہ کوہی نہیں عطا کی بلکہ ان کی بیعت سے اللہ تعالیٰ نے جماعت احمدیہ ناروے پر بہت بڑا فضل کیا۔ مکرم نور بولستاد صاحب ناروےجماعت کا ستون ہیں۔ ان کی علمی بصیرت اورمفکرانہ سوچ اور استدلالی خطابت نے اب تک سینکڑوں جماعتی، اور غیر جماعتی فورم پر توحید اور اسلام کا بھر پور دفاع کیا ہے۔ آپ کا وجود ہماری جماعت کے لئے ایک قیمتی اثاثہ ہے۔

1956ء کے جلسہ سالانہ پر حضرت مصلح ِ موعودؓ نے ناروے کی مسجد کے لئے جگہ لینے کا ذکر کیا تھا۔ جس میں یہ اشارہ تھا کہ شائد پہلےناروے میں مسجد بنے گی۔ لیکن اللہ تعالیٰ کو یہی منظور تھا کہ پہلے سویڈن کی مسجد بنے۔ ناروے میں مشن تو قائم ہو چکا تھا۔ اور مکرم مولانا کمال یوسف صاحب نے کام بھی شروع کر دیا تھا۔ ناروے کی جماعت کے افراد کی تعداد دوسرے متعلقہ ممالک سے زیادہ تھی۔مگر مسجد کی تعمیر میں ابھی روک تھی 1980ء میں حضرت خلیفة المسیح الثالث ؒکے ارشاد پر ناروے کے لئے مسجد کی جگہ ڈھونڈنے کی سعادت مکرم مولوی منیرالدین احمد صاحب کے حصے میں آ ئی، بہت کو شش کی گئی کہ شہر میں جگہ مل جائے مگر بات نہ بنی، ملک بلجیم کے سفارت خانے کی عمارت بک رہی تھی۔ مولوی صاحب کو معلوم ہوا انہوں نے کو شش کر کے اس کی تفصیل لی اور حضور کو رپورٹ کردی۔ جلد ہی منظوری آ گئی۔ یہ تین منزلہ عمارت ہے جس میں دو مربیان کے لئے رہائش کی بھی گنجائش تھی۔ عمارت کا سودا ہو گیا۔ اور 1980ء میں اوسلو مسجد جس کا نام ’’مسجد نور‘‘ رکھا گیا کا افتتاح کرنے حضرت خلیفةالمسیح الثالثؓ پاکستان سے تشریف لائے۔

ناروے کی پہلی مسجد (نور) کے افتتاح کی
کچھ قابل ذکر یادیں

گو کہ اس وقت تک ناروے میں احمدی حضرات کی آبادی ہمسائیہ ممالک کی احمدی آبادی سے زیادہ تھی، مگر یہاں مسجد بنانے کا وقت، اللہ تعالیٰ کے نزدیک یہی تھا۔ یکم اگست 1980ء میں بروز جمعہ حضرت خلیفة المسیح الثالث ؒ نے مسجد کا افتتاح نمازِ جمعہ پڑھا کر کیا۔ یہ مسجد ناروے کی پہلی، اسکینڈے نیویا کی تیسری اور برِّ اعظم یورپ کی آٹھویں مسجد بنتی ہے۔ (اس مسجد کی ایک اور خاص بات یہ ہے کہ نئی صدی کی مساجد کی تعمیر کے تعلق میں گوٹن برگ کی مسجد (مسجد ناصر) جو 1976ء میں مسجد نور سے پہلے بنائی گئی تھی پہلی مسجد تھی اور دوسرا طیب وشیریں ثمر مسجد نور تھی)

’’مسجد نور‘‘ کی ایک اور خاص بات حضرت خلیفة المسیح الثالث ؒ کا اس کا نام حاجی حرمین سیّد نا حضرت مولونا نور الدینؓ کے نام پر ’’مسجد نور‘‘ رکھنا تھا یہ نام ناروے کے ساتھ مناسبت کے اعتبار سے اور بھی بہت سی حکمتیں اپنے اندر لئے ہوئے ہے۔ لفظ ’’نور‘‘ جو عربی لفظ ہے خود ناروے کے نام کا پہلا حصہ ہے۔ نور سے ناروے کی ایک اور مناسبت یہ بھی ہے کہ حضرت مصلح ِ موعودؓ نے اسلام قبول کرنے والے سب سے پہلے باشندے مسٹر بولستاد کا اسلامی نام ’’نور احمد‘‘ رکھا تھا۔ اس مبارک موقع پر یورپ سے احمدی احباب کے علاوہ، اسکینڈے نیویا کے نو مسلم احباب اور اخباری نمائندے بھی شامل تھے۔ اس کے علاوہ متعدد یورپی ممالک اور دوسرے ممالک جن میں آسٹریا، بنگلہ دیش، ترکی، چین اور فرانس کے قونصل جنرل اور کئی دوسرے ملکوں کے سفارتی نمائندے بھی مدعو تھے۔ جنہوں نے جمعہ کی افتتاحی نماز کا منظر مسجد سے ملحق لائبریری میں بیٹھ کر دیکھا نماز کے بعد حضور ؒ نے سفارتی نمائندوں سے ایک گھنٹہ تک گفتگو فرمائی۔ ان سے مبارک باد وصول کی اور جواباًان کا شکریہ ادا کرتے ہوئے مساجد کی اہمیت اور اسلام کی فضیلت پر بہت احسن پیرائے میں روشنی ڈالی۔

(بشکریہ، دورہ مغرب، صفحہ 220-225)

نارویجین قوم کی کچھ مخصوص عادات ہیں،انہیں وحدانیت اور مذہب سے کوئی خاص سروکار نہیں۔ کہنے کو یہاں عیسائی مذہب کا راج تھا، مگر چونکہ عیسائیت بھی ان پر بزور ِ شمشیر نافذ کی گئی تھی لہٰذا کوئی مذہب ان کے دلوں میں جذب نہیں ہوا تھا۔ لیکن ان لوگوں کی طبیعت میں نرمی، محبت، خلوص، خدمت ِ خلق، صلح جوئی حد سے زیادہ ہے۔ جن لوگوں نے عیسائیت سمجھ کر دل سے قبول کی تھی وہ بائبل کی اخلاقیات پر پوری طرح قائم تھے۔ لیکن ایک کثیر تعداد خدا کی وحدانیت پر یقین نہیں رکھتے۔ لوگوں کو وحدانیت کا سبق پڑھانا مشکل کام تھا۔ لیکن جس کو اللہ تعالیٰ نے ہدایت دینا ہوتی ہے اس کا دل نرم کردیا جاتا ہے۔ مسجد کا قیام اور مربیان کی خلافت کی ہدایات کے مطابق کی گئی محنتیں اورتبلیغی تدابیر اور سب سے بڑھ کر خلفائے احمدیت کی یہاں بار بار آمد نے نارویجین قوم کے علاوہ دوسری اقوام کے لوگوں کے دل بھی اسلام اور احمدیت کی طرف پھیر دئیے۔ کیونکہ مسجد کا قیام ہی کسی بھی گروہ کے لئے اتحاد اور یک جہتی کا حصول بن جاتا ہے۔ اور مسجد سے جڑے افراد مسجد سے منسلک مقاصد کو پورا کرنے کا ذریعہ بنتے ہیں چنانچہ یہاں بھی انہی روائتی سلسلوں کا آغاز ہوا۔ اوسلو میں مقیم احمدی حضرات کو ایک خانہ خدا مل گیا اور باہم اکھٹے ہو کر دین اسلام کو ناروے کی دہریت زدہ فضا میں پھیلانے کے لئے کوششیں شروع کر دیں۔

نور مسجد میں حادثہ

اللہ تعالیٰ نے اپنے کرم سے جماعت ناروے کو مسجد تو دے دی، لیکن خوشیوں کے ساتھ ساتھ آزمائش بھی لگی ہوتی ہے۔ مسجد بننے کے ساڑھے چار سال کے بعد ایک رات مسجد کی سیڑھیوں میں دھماکا ہوا۔ جو کہ ملک کی ایک نیشنل پارٹی کی طرف سے ایک نوجوان لڑکے کے ذریعے چار کلو بارود رکھ کر مسجد تباہ کرنے کی کوشش کی گئی تھی۔ عمارت کو نقصان تو ہوا مگر اللہ تعالیٰ نے مربی سلسلہ مکرم کمال یوسف صاحب کی فیملی کو بچا لیا۔ جماعت اور مسجد میں موجود فیملی کے لئے وقتی صدمہ تو بہت زیادہ تھا لیکن خلیفہ وقت کی دعاؤں اور اللہ کے فضل سے وقت کے ساتھ ساتھ ہر قسم کے نقصان کی تلافی ہوگئی۔

خلافتِ رابعہ کا دور

جب اللہ تعالیٰ نے سلسلہ احمدیہ کے تیسرے مظہر کو اپنے پاس واپس بلا لیا تو، اس الٰہی جماعت کو چلانے کا بیڑا حضرت مرزا طاہر احمد کو سونپا گیا۔خلفائے احمدیت کا یورپ کے لئے یا کسی بھی بیرونی برِّ اعظم کا دورہ انتہائی اہم اور مفید ہوتا ہے۔ اپنی جماعت کی تربیت کے لئے بھی اور دوسری قوموں کو سچے خدا کا پیغام پہنچانے کے حوالے سے بھی۔

1982ء میں حضرت خلیفۃ المسیح الرابع  ؒ اپنے پہلے دورہ اسکینڈے نیویا کے لئے تشریف لے گئے۔ جو کہ جماعت کے افراد کے لئے اور مجموعی طور پر دوسرے لوگوں کے لئے بھی بہت مفید رہا۔ مسجد نور کی لائبریری میں ہی ایک پریس کانفرنس ہوئی، جس میں اخباری نمائندوں نے ہر قسم کے سوالات کئے۔ یورپ میں احمدی نومبائعین کی تعداد کے سلسلے میں ایک سوال کے جواب میں حضور ؒ نے فرمایا کہ ’’ہم اپنی طاقت کا مدار تعداد پر نہیں رکھتے بلکہ ایمان اور اخلاص پر رکھتے ہیں۔ ایسے صاحبِ ایمان، مخلص و وفا شعار اور سراپا ایثار خواہ چند ہی ہوں۔ وہ طاقت کا نہایت موٴثر ذریعہ ہیں‘‘ حضور ؒ نے ناروے کے علاوہ ڈنمارک اور سویڈن کا بھی دورہ کیا اور مختلف اقوام اور مذاہب کے لوگوں سے ملاقات کر کے اسلام اور زندہ خدا کا پیغام پہنچایا۔

1987ء میں جماعت کی حکمتِ عملی سے پاکستان اور افریقی ممالک سے اچھی خاصی تعدادمیں احمدی خاندان ہجرت کر کے ناروے میں پناہ گزین ہوئے، اس کے بعد بھی آہستہ آہستہ تعداد بڑھتی رہی۔ اور تبلیغ کا کام زیادہ تیزی اختیار کرتا رہا۔

نارتھ کیپ (North Cape) میں
حضرت خلیفة المسیح الرابع ؒ کی آمد

یہ ناروے کا انتہائی شمالی خشکی کا علاقہ ہے۔ جس میں چھ ماہ سورج ڈوبا رہتا ہے اور چھ ماہ سورج مسلسل رہتا ہے یعنی ڈوبتا نہیں۔ یہ علاقہ ناروے کے دارلخلافہ اوسلو سے تقریباً (2500) کلو میٹرشمال کی طرف ہے۔ 1993ء میں حضرت خلیفة المسیح الرابع  ؒ ماہ جون میں ایک قافلے کے ساتھ اس تاریخی مقام کی سیرکو تشریف لے گئے۔ مضمون طویل نہ ہوجائے اسلئے اس دورے کی چند ایک خاص خاص باتیں پیش کی جارہی ہیں۔

  • حضورؒ کے ہمراہ ان کے ساتھ سفر کرنے والے خاص جماعتی نمائندے اور حضور کی بیٹیاں اور داماد تھے۔
  • اوسلو سے چند احباب بھی شامل تھے۔
  • اوسلو کے ایک مخلص ممبر مکرم رشید احمد چوہدری نے اس سارے دورے اور سیر کا انتظام کیا تھا۔
  • قافلے نے یہاں جمعہ بھی ادا کیا۔
  • حضور نے اپنے خطبہ جمعہ میں آنحضور ﷺ کی ایک حدیث (جو طوالت کی وجہ سے درج نہیں کی جارہی) کا ذکر فرما کر یہ بات ثابت کی کہ یہی وہ مقام ہے جس کے متعلق احادیث میں آچکا ہے کہ ایسے علاقے بھی ہیں جہاں دن اور رات چھ، چھ ماہ کے ہوتے ہیں
  • اسکے ساتھ حضور ؒ نے اس بات پر بھی روشنی ڈالی کہ Alaska کے علاقے میں جو ایسی ہی خصوصیت رکھتا ہے احمدی جاچکے ہیں اور پانچ نمازیں بھی دن کی روشنی میں پڑھ چکے ہیں۔
  • مگر حدیث ِ مبارکہ کے مطابق ایسے علاقے میں جس میں کہ دن چوبیس گھنٹے کا ہو۔ میرے علم کے مطابق، اس سے پہلے باجماعت جمعہ اور نماز ادا نہیں کی گئی لہٰذا چوبیس گھنٹوں کے دن والے علاقے میں باجماعت نماز اور جمعہ مبارک پہلی مرتبہ کا جمعہ ہے جس میں اُمّتِ مسلمہ کے ہر طبقے کی نمائندگی ہو رہی ہو ۔۔۔ حضور ؒ کا فرمانا تھا کہ اس قافلے میں اس وقت مرد عورتیں اور بچے بھی ہیں۔ گویا سب طبقے کے افراد شامل ہیں۔
  • آخر میں حضور ؒ نے فرمایا کہ ’’پس میں ناروے کی جماعت کو نصیحت کرتا ہوں کہ وہ کوشش کریں کہ مقامی لوگوں کے ساتھ رابطے پیدا کریں‘‘ اس کے علاوہ حضور ؒنے جماعت ناروے سے یہ وعدہ بھی کیا کہ ’’اگر ناروے کی جماعت یہاں کے لوگوں میں احمدیت یعنی حقیقی اسلام کو داخل کر دیں تو میں تمام جماعت عالمگیر کی طرف سے یہ وعدہ کرتا ہوں کہ، اگر آپ کو توفیق نہ ہوئی تو ہم نارتھ کیپ میں ان شاء اللّٰہ دنیا کی سب سے پہلی مسجد بنائیں گے‘‘

(25 جون 1993ء الفضل ربوہ کے خطبہ سے لی گئی معلومات)

خلافتِ خامسہ میں ناروے میں
یورپ کی دوسری بڑی مسجد کی تعمیر

اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت ناروے پھل پھول رہی تھی۔ آبادی بڑھ رہی تھی۔ ’’مسجد نور‘‘ جماعت کی جملہ ضروریات پوری نہیں کر سکتی تھی۔ایک بڑی مسجد کی ضرورت تھی۔ نئی مسجد کے لئے ناروے جماعت کو ایک لمبے پراجیکٹ سے گزرنا پڑا، مختصر یہ کہ حضرت خلیفة المسیح الرابع ؒ کی منظوری سے 1994ء میں اوسلو شہر میں مسجد کی جگہ خریدی گئی۔ جنوری 1999ء میں اسکی بنیاد رکھی گئی مگر بعض ٹکنیکل وجوہات کی وجہ سے مسجد کی تعمیر کا کام رک گیا، دوبارہ غور کیا جانے لگا، قریب تھا کہ مسجد کی خریدی ہوئی جگہ بیچ دی جائے مگر 2005ء میں حضرت خلیفة المسیح الخامس ایدہ اللہ ناروے دورہ پر تشریف لائے۔ حضور انور نے پہلی بار مسجد کی جگہ کا دورہ کیا، اور فیصلہ کیا کہ مسجد یہیں بنائی جائے گی۔ اگلے روز خطبہ جمعہ میں حضور انور نے جماعت ناروے کو احساس دلایا کہ ’’یاد رکھیں یہ آخری موقعہ ہے اگر اس دفعہ بھی اور اجازت ملنے کے بعد بھی آپ اسے تعمیر نہ کر سکے تو پھر زمین بھی ہاتھ سے نکل جائے گی …پس آج ایک ہوکر اس گھر کی تعمیر کریں۔ اس کی تعمیر سے جہاں آپ جماعت کے وقار کو روشن کر رہے ہونگے وہاں اپنے لئے خدا کی رضا حاصل کرتے ہوئے جنت میں گھر بنا رہے ہونگے۔‘‘

(خطبہ جمعہ 23ستمبر 2005)

اللہ تعالیٰ نے حضور اقدس کے فرمان اور خواہش کرنے کے بعد جماعت ناروے کی قربانیوں کو پھل لگایا اور سنگ ِ بنیاد کے تیرہ برس بعد ایک عظیم مسجد تیار ہوگئی۔ جس کا افتتاح حضور انور ایدہ اللہ نے 30 ستمبر کو کیا۔ الحمد للّٰہ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ناروے جماعت نے اکیلے اس مسجد کے اخراجات پورے کئے ہیں۔

ناروے کی جماعت اس وقت تقریباً 1500کے قریب نفوس پر مشتمل تھی۔ مگر دن رات کی محنت اور مالی قربانیوں نے ان کو اس مسجد کی صورت میں بہت بڑا انعام عطا کیا۔ مکرم ذرتشت منیر احمد صاحب جو کہ اس وقت امیر جماعت تھے اور مکرم شاہد احمد کاہلوں صاحب مربی سلسلہ نے بہت محنت سے اس تمام کام کو سنبھالا۔ مکرم شاہد صاحب بحیثیت نائب امیر جماعت اور مربی انچارج اسی مسجد میں رہائش پذیر ہیں۔آج اوسلو کی مسجد ناروے کی خوبصورت عمارتوں میں شمار ہوتی ہے۔ وباء سے پہلے تقریباً ہر ہفتے کوئی نہ کوئی اسکول، یونیورسٹی یا کسی اور ادارے کے طلباء مسجد کا دورہ کرنے آتے رہے ہیں۔(ان شاء اللّٰہ یہ سلسلہ آئندہ بھی جاری رہے گا) مسجد کے دورہ پر آنے والے لوگ متعلقہ مربیان اور عہدیداران سے سوال وجواب کرتے ہیں اور اسلام احمدیت کے متعلق معلومات لے کر جاتے ہیں۔

مسجد مریم کرسچن سنڈ (Kristiansand)

1987ء میں ناروے کی جنوبی علاقے (کرسچن سنڈ) میں کچھ خاندان پاکستان سے آکر آباد ہوئے۔ کچھ ماہ میں یہاں جماعت قائم کر دی گئی۔ گویا یہ دوسری بڑی جماعت تھی۔ ایک ڈیڑھ سال کے عرصہ میں یہاں جماعت کی تعداد چالیس کے قریب ہو گئی۔ یہ علاقہ عیسائیت کا علاقہ جانا جاتا ہے۔ اب تک جماعت میں کچھ لوکل افراد بھی احمدیت قبول کر چکے ہیں۔ نوّے کی دہائی میں یہاں ایک مربی سلسلہ نعمت اللہ صاحب کی تعیناتی ہوئی، کچھ عرصہ بعد انہیں پاکستان بلا لیا گیا۔

2013ء میں لندن سے شاہد کی ڈگری پانے والے مربی سلسلہ، یاسر عتیق فوزی صاحب کو مربی بنا کر بھیجا گیا۔ کچھ عرب احباب بھی وہاں ہجرت کر کے پہنچے ہوئے ہیں، ماشاء اللہ جماعت میں نئی روح پیدا ہوئی ہے۔ 2020ء سے یاسر فوزی صاحب کو وہاں سے تبدیل کر کے اس علاقے سے تقریباً ساڑے تین سوکلو میٹر دور جنوب میں ایک بڑے شہر۔ ستونگر(Satvangar) بھیج دیا گیا ہے۔ اور کرسچیان سنڈ (Kristiansand) میں ایک اور نوجوان مربی سلسلہ مکرم طاہر احمد خان صاحب خدمات انجام دے رہے ہیں۔ اس شہر میں ایک عمارت خرید کر مسجد بنائی جارہی ہے جس کا نام ’’مسجد مریم‘‘ ہے۔ اس کے علاوہ شمال کی طرف ایک بڑے شہر Trondheim میں ایک اور نوجوان مربی سلسلہ مکرم ہارون احمد صاحب بطور مربی سلسلہ اسلام اور احمدیت کے نفاذکے لئے کوشاں ہیں۔ اس وقت میڈیا کا دور ہے۔ اڑھائی برس سے تو COVID 19 نے سب کو گھروں کے اندر بٹھا یا ہوا ہے مگر میڈیا کے ذریعے بھی ماشاء اللہ خوب تبلیغ کا کام ہو رہا ہے۔

خلفائے احمدیہ کی ملک ناروے کے لئے پسندیدگی

اس میں کوئی شک نہیں کہ ناروے کا ملک اپنے اندر غیر معمولی خوبصورتی اور دلکشی رکھتا ہے۔ اس کا موسمِ سرما بھی خوبصورت ہے اور گرما بھی۔ یہ دیکھنے والے کی نظر اور ذوق پرمنحصر ہے کہ موسم کی دو انتہاؤں سے کیسےلطف اندوز ہوتا ہے۔اس ملک کے حسن اور خوبصورتی پر لکھنے کو بہت کچھ ہے مگر مضمون کے طویل ہوجانے کی وجہ سےاس وقت صرف اپنے پیارے خلفاء کی بات کرتے ہیں کہ حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ تو ہم لوگوں کے آنے سے پہلے تین سے چار مرتبہ آ ئے اور اس جنت ارضی کی سیرو تفریح سے لطف اٹھایا، اور تحدیثِ نعمت کے طور پر وطن واپس جاکر احباب جماعت کو بھی اس سر زمین کے قصے سنائے۔ ہم نے بھی پاکستان میں رہتے ہوئے خود اپنے کانوں سے قصّے سنے۔ اور ناروے آکر وہ جگہیں اور ہوٹلز دیکھے جہاں ہمارے پیارے امام نے قیام کیا تھا۔ اور حضرت خلیفۃالمسیح الرابع ؒ اور موجودہ خلیفہ، حضرت مرزا مسرور احمد صاحب تو ہمارے سامنے یہاں بار بار آ ئے ہیں، سیریں کی ہیں، اپنی اپنی فیملی کے ساتھ بھی اور افراد ِ جماعت کے ساتھ بھی۔ انہوں نے بھی اس ملک کو دوسرے ممالک کی نسبت بہت دلکش اور جاذب نظر پایا اور اسکی تعریف کی۔ یہ ملک جو،آبشاروں، جھیلوں، دریاؤں اور چراگاہوں، اونچے اونچے سر سبز پہاڑوں اور جنگلات کی وجہ سے ہی حسین نہیں ہے۔ تھوڑی آبادی، اور وہ بھی صاف ستھری، ہر جگہ صاف، ہر تھوڑی دیر بعد، گاڑی کے سفر میں بار بار آنے والی سرنگیں، جگہ جگہ سیاحت کے معلوماتی نقشہ جات اور ٹھہرنے کے لئے خیموں اور ریسٹورنٹس کا انتظام، گرم اور ٹھنڈا صاف ستھرا پانی اور سب سے بڑی بات امن، اور حفاظت کی ضمانت جو اس ملک کے قوانین مہیا کرتے ہیں موجود ہوتے ہیں یہ سب ایک سیاح کے لئے مزید دلکشی کا سامان بڑھا دیتے ہیں۔ حضرت خلیفة المسیح الرابع  ؒ تو خصوصی طور پر اسکی خوبصورتی کی بہت تعریف کیا کرتے تھے۔

ناروے کی موجودہ جماعت

اللہ کے فضل سے ناروے جماعت تبلیغی طور پر ہمیشہ ہی ایکٹو رہی ہے۔ اس جماعت کے بزرگ مرد اور خواتین جنہوں نے ابتدا میں مربیان اور عہدیداران کے ساتھ مل کر جماعت کھڑی کرنے میں مد دکی، ان میں سے بہت سے ابھی بھی جماعت کے لئے مقدور بھر خدمات انجام دیتے ہیں۔ آج کل جماعت ناروے،کی تعداد 1800/1900 کے لگ بھگ ہے۔ جن میں لجنہ اماء اللہ 550/560 کے قریب ہے۔ اس وقت جماعت ہائے احمدیہ ناروے امیر جماعت جناب مکرم چوہدری ظہور احمد منیر صاحب کی سرپرستی اور مکرم شاہد احمد کاہلوں مربی انچارج و نائب امیر جماعت کی امامت میں اللہ کے فضل سے مستعدہے۔

حاضر مربیان کے علاوہ، اسکینڈے نیویا جماعت کے ابتدائی اور بنیادی خدمت گار جناب مکرم سیّد کمال یوسف صاحب، نوجوانوں کے لئے بہترین استاد، عالم، اور رول ماڈل ہیں۔ ان کے علاوہ مکرم نور احمد بوستاد (اوّلین نارویجین احمدی) بھی نوجوانوں کے لئے تبلیغی میدان کے ماہر ہونے کی حیثیت سے بہترین استاد ثابت ہوتے ہیں۔اس کے علاوہ ناروے میں ابتدا میں پاکستان سے آنے والے احمدی احباب، بزرگان موجود ہیں، جنہوں نے اپنی محنتوں اور مالی وجسمانی قربانیوں سے مربیان کے ساتھ مل کر اس زمین کے ٹکڑے تک اسلام پہنچانے کی بھر پور کوشش کی ہے، اللہ تعالیٰ ان سب کو صحت و سلامتی اور جزائے خیر عطا فرمائے اور جماعت ناروے کے ہر مخلص کارکن کو جزائے خیر عطا فرمائے۔

(نبیلہ رفیق فوزی۔ ناروے)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 21 مارچ 2022

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ