• 5 مئی, 2024

Myanmar میں احمدیت کا پیغام

Myanmar جس کا پرانا نام برماؔ ہے۔ ہندوستان کے مشرق میں واقع ہے۔ اس کی سرحدیں ہندو ستان، بنگلہ دیش، چین، تھائی لینڈ اور لاؤس سے ملتی ہے۔ اس کی جنوبی مغرب میں خلیج بنگلہ اور جنوب میں بحرِ ہند ہے۔ رقبہ 676,577 کلو میٹر یعنی 261,228 مربع میل ہے۔ آبادی (60) ملین بیان کی جاتی ہے۔

بہادرشاہ ظفر ہندوستان کے آخری بادشاہ تھے جنہیں 1858ء میں قید کرکے برماؔ لایا گیا اور برماؔ کے آخری بادشاہ تیپومینؔ برماؔ سے ہندوستان لے جایا گیا۔ بہادر شاہ ظفر صاحب1862ء میں رنگون میں قیدی کی حالت میں فوت ہوگئے۔ جو شعر انہوں نے لکھا وہ اکثر کےلئے یادگار بنی۔

کتنا ہے بد نصیب ظفر دفن کے لئے
دوگز زمین بھی نہ ملی کوئے یار میں

1885ء میں انگریزوں نے برماؔ پر مکمل تسلط حاصل کیا۔

1937ء تک برماؔ ہندوستان کا ایک صوبہ میں تھا۔ بعد میں ہندستان سے علیحدہ کیا گیا۔ اُس وقت 1945ء میں انگریز دوبارہ برماؔ واپس آئے اور جنوری1948ء میں برماؔ آزاد ہوگیا۔ اُس وقت The Union of Burma کے نام سے خود مختار ملک بن گیا۔ اب تقریباً2000ء سال میں ملک کا نام The Union of Myanmar بدل گیا۔ اِس وقت دار الحکومت نیپی ٹو Nay Pyi Taw کہا جاتا ہے۔ بدھ مت سرکاری مذہب بن گیا۔ سر کاری زبان برمیؔ ہے۔ سکہ kyat چیٹ استعمال ہوتا ہے۔ موسم کے لحاظ سے گرمی، سردی، بارش تین تین مہینے باری باری ہوتی ہے۔ کچھ پہاڑی علاقے میں برف پڑی ہے۔ خوش گوار موسم ہونے کی وجہ سے زیادہ تر سبزیاں اور چاول، گندم، گنا، کپاس، دالیس اور دوسری فصلیں کثرت سے ہوتی ہیں۔سونے، چاندی، قیمتی پتھر، پیٹرو لیم پائے جاتے ہیں۔

احمدیت کا آغاز

حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی میں ریو یو آف ریلیجنز کے ذریعہ احمدیت کا پیغام پہنچا۔ ہندوستان کے ابتدائی احمدیوں کی آمدو رفت سے بھی تبلیغ احمدیت برماؔ میں شروع ہوئی۔ رنگونؔ کے ابتدائی احمدیوں میں حضرت عبد القادر کٹی صاحب مالاباری کا نام بہت نمایاں ہے۔ 1903 میں حضرت ابو سعید عرب صاحب رنگون سے قادیان تشریف لائے تو وہ حضرت عبد القادر کٹی صاحب مالاباری کا ذکر کرتے تھے۔ علاوہ ازیں مختلف اوقات میں حضرت مفتی محمد صادقؓ صاحب بھی برماؔ کا دورہ کیا کرتے تھے۔

حضرت مصلح موعودؓ کے ایام خلافت 1925-1926 میں ہندوستان کے دور دراز مقامات پر تبلیغی وفود روانہ کئے گئے۔ ایک وفد کی ڈیو ٹی برماؔ کے رنگون، مانڈلےؔ، میمیو شہروں جانے کےلئے حضرت مولانا عبد الرحیم صاحب نیر امیر وفد مقرر ہوئے۔ مولوی غلام احمدصاحب بدوملہوی اور حافظ عبد الرحمٰن صاحب درویش قادیان وفد میں شامل تھے۔ حضرت مولانا عبد الرحیم صاحب نیر انگریزی زبان میں تقریر کرنے اور افریقہ کے تبلیغی حالات سلائیڈز بھی دکھاتے تھے۔ اُن دنوں رنگون میں چند پنچابی ٹھیکداروں نے مختلف تھیڑ ہال کرایہ پر لئے اور وسیع پیمانے پر پبلسٹی ہوئی اور حضرت مولانا عبد الرحیم صاحب نیر کی تقاریر ہوئیںجس کا اثر پڑھے لکھے طبقہ پر بہت اچھا ہوا۔ علاوہ اختلافی مضامین وفاتِ مسیح، صداقت مسیح موعود، ختم نبوت پر بھی لیکچر ہوا۔ سوال وجواب کا موقعہ دیا گیا۔ اُس کے بعد مانڈلےؔ وفد پہنچے اور وہاں بھی لیکچرکا انتظام کیا۔ حضرت مولانا عبد الرحیم صاحب نیرکی ایک رؤیا بھی برماؔ کے تاریخی یادداشت میں لکھا محفوظ ہے۔ فرمایا کہ ‘‘میں جب برماؔ ملک میں بطور مبلغ کے پہنچا تو دل میں خیال آیا کہ کچھ تبلیغی سروے کروں۔ حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے دل میں احساس پیدا ہوا کہ کام کچھ مشکل نظر آ تا ہے۔ پھر دعا کی طرف متوجہ ہوا اور نہایت تضرع اور الحا کے ساتھ دعا شروع کی خواب دیکھا کہ حضرت گوتم بدھ ہمارے پاس تشریف لائے ہیں۔ اور مجھے مخاطب کرکے فرمایا کہ آپ فکر مند نہ ہوں ہمارے لوگ بھی آپ کے پاس آئیں گے پھر آنکھ کھل گئی۔’’

پیغامِ حق پہنچانے میں برماؔ تاریخ میں یہ بھی ذکر ملتا ہے کہ مکرم عبد القادر کٹی صاحب جو Pioneer مبلغ تھے۔ اُن کے ساتھ مکرم سید محمد لطیف صاحب بھی تھے جنہوں نے مختلف مقامات اور شہروں میں تبلیغ کے ساتھ مناظرے بھی ہوئے اور کئی بار اُن پر حملے کئے گئے اور جن سے اللہ تعالیٰ نے حفاظت فرمائی۔ مکرم موصوف کے نگرانی میں پہلی بار ‘‘اسلامی اصول کی فلاسفی’’ برمی ترجمہ کرکے 1933ء میں شائع ہونے کی توفیق ملی۔ (الحمد للّٰہ)

حضرت مصلح موعودؓ نے1935ء میں پہلی بار مولانا احمد خان صاحب نسیم جو مکرم و محترم نسیم مہدی صاحب (سابق امیر جماعت کینیڈا) کے والد محترم تھے بطور مبلغ برماؔ بھجوائے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کی کوشش میں غیر معمولی برکت ڈالی اور دعوت الی اللہ کے میدان میں بہت کامیابی حاصل کی۔

1939ء میں یمیدنؔ اور بسنؔ شہر میں بڑی بڑی جماعتیں قائم ہوگئیں۔ جنگ عظیم ثانی سے پہلے زیادہ تر ہندوستانی نسل جماعت میں داخل ہوئے جس سے جماعت کی تعداد سینکڑوں پر مشتمل تھی۔ بڑے بڑے شہروں میں جماعت قائم ہو چکی تھیں۔ مولانا احمد خان صاحب نسیم کے بعد مرکز سے مکرم مولانا محمد سلیم صاحب بطور مبلغ انچاچ برماؔ تشریف لائے۔

دوسری جنگ عظیم جب شروع ہوئی تو ہندوستانی احمدی بڑی تعداد میں ہندوستان چلے گئے۔ اُس دوران جو رنگونؔ میں رہنے والے چند احمدی احباب نے کمایوٹؔ نامی علاقہ میں چھوٹی سی مسجد بناکر وہاں نماز باجماعت کا انتظام کیا۔ وہاں ایک مخلص احمدی اے۔ کے۔ ایم پیر محمد صاحب کی اہلیہ محترمہ نے مسجد بنانے کےلئے زمین وقف کی اور کافی عرصہ جمعہ، عیدیں، جلسہ و غیرہ ادا کرتے رہے۔

4 جنوری 1948ء برماؔ کا تاریخی دن ہے۔ اُس دن انگیزوں نے برماؔ ملک کو آزادکیا۔ تقریبا آزادی میں شامل ہونے کےلئے حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحبؓ اُس وقت پاکستان کے وزیر خارجہ تھے۔ بطور نمائندہ برماؔ تشریف لائے۔ اُس وقت مسلمانوں میں خوشی کی لہردوڑ گئی۔ کثیر تعداد میں استقبال بھی کیا۔ احباب جماعت نے بھی خیر مقدم کیا۔

1953ء میں مجاہد تحریک جدید مکرم سید منیر احمد صاحب باہری بطور مبلغ انچارچ برماؔ تشریف لائے۔ برماؔ قیام کے دوران موجودہ رنگونؔ مشن ہاوٴس اورمسجد تعمیر کرنے کےلئے ایک قطعہ زمین خرید نے کی توفیق ملی۔ بعدازں1958ء مکرم چوہدری منیر احمد صاحب عارف بطور مبلغ انچارچ برماؔ میں تقرر ہونے پر مشن ہائوس اور مسجد تعمیر کا کام شروع کیا اور اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے1960ء کام مکمل ہوا جسے آج کل برماؔ کا تبلیغی مرکز اور مسجد استعمال کیا جاتا ہے۔ حضرت مصلح موعود ؓ نے ‘‘ مسجد رنگون’’ تجویز فرمایا اور چند دعائیہ کلمات بھی تحریر فرمایاہے۔ وہ یہ کہ

’’بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم۔ نحمدہ ونصلی علی رسولہ الکریم

اللہ تعالیٰ اس مسجد کو اپنے نام اور ذکر کو بلند کرنے اور جاری رکھنے کا ذریعہ بنائے۔ اور شرک کو اس کے ذریعہ سے مٹا ئے اور اس میں قانتوں اور طائفین اور ذاکرین کی جماعت ہمیشہ دین کی خدمت کے لئے مستعد بیٹھی رہا کرے۔

مکرم چوہدری منیراحمد صاحب عارف مرکزی مبلغ سلسلہ ویزاختم ہوئے پر1960ء واپس پاکستان روانہ ہوگئے۔ بعدازاں فوجی حکومت آنے پر ویزا نہ ملنے کی وجہ سے آج تک بیرونی ملک سے کوئی مشنری یا مبلغ برماؔ نہ آسکا۔ ایک ہفتہ کےلئے Tourist Visa دیتے تھے جس کی وجہ سے کبھی کبھی مرکزی نمائندہ تشریف لاتے تھے۔
1980ء حضرت خلیفۃ المسیح الثالث کی اجازت سے خاکسار محمد سالک اور مکرم اکبر احمد صاحب رنگونؔ سے روانہ ہوئے اور جامعہ احمدیہ ربوہ میں تعلیم حاصل کر کے1985ء میں بطور مرکزی مبلغ خدمت کا موقع ملا۔ بعدازاں ملک کے قوانین کی وجہ سے کسی کو جامعہ میں تعلیم حاصل کرنے کےلئے نہ بھجوایا جاسکا۔ پھربھی کچھ نوجوان وقف کرکے بطور معلم خدمت کر رہے ہیں۔ جنگ عظیم دوم کے بعد سے ملکی حالت خراب ہونے پر پورانے احمدی احباب سے رابطہ نہ ہوسکے۔

جب 1960ء رنگونؔ میں مصلح موعود ؓ کی دعائوں سے مشن ہائوس اور مسجد تعمیر ہوئی اُس وقت سے ازسرنو باقاعدہ نظام کے ساتھ جماعتی کام شروع ہوا اور مرکز سے خط و کتابت کا سلسلہ بھی جاری رہا۔ باقاعدہ لائبریری کا بھی قیام ہوا۔ قرآن کریم برمی زبان میں شائع ہوچکا ہے، اسلامی اصول کی فلاسفی نئی ایڈیشن بھی شائع ہوگئی، کشتی نوح، نبیوں کا سردار، نماز مترجم، Muhammad in the Bible, World Crisis and the Pathway to Peace وغیرہ جو اہم کتابیں برمی ترجمہ شائع ہو چکے ہیں۔ علاوہ ہفتہ وار خطبہ جمعہ برمی ترجمہ فون پر سننے اور پڑھنے کا انتظام جاری ہے۔ پہلے تو جلسہ سالانہ اور ذیلی نتظیموں کے اجتماعات اپنے طور پر منایا جاتا ہے۔ بعدازاں خلیفۂ وقت کی منظوری سے باقاعدہ مرکزی نمائندہ تشریف لاتے رہے۔ اور جلسہ اور اجتماعات رونق افروز ہوتے رہے۔ Covid بیماری سے پہلے تو ہر سال سکول کی چھٹیوں میں ایک ماہ معلّم کلاس ہوتے اور کثیر تعداد میں خدّام اور اطفال حصہ لیتے تھے۔ اور مشن ہائوس میں ہی کھانے پینے رہائش کا انتظام کیا جاتا ہے۔ شروع میں جلسہ سیرۃ النبیؐ اپنے مشن ہاؤس میں مختصر انعقاد کرتے رہے۔ بعد میں بڑے ہال میں بڑے پیمانے پر جلسہ سیرۃ النبیؐ انعقاد کی توفیق ملی اور کثیر تعداد میں غیر از جماعت کے لوگ جن میں بدھ مذہب والے اور عیسائی اور ہندو مذہب والے بھی شامل ہوتے رہے۔ پھرجلسہ پیشوایانِ مذاھب انعقاد کی توفیق ملی۔ TV news میں بھی خبر نشر ہوئی۔ جب جلسہ سیرۃ النبیؐ۔ جلسہ پیشوایانِ مذاھب ہال میں بڑے پیمانے پرانعقاد ہوتو بک سٹال۔ حضرت مسیح موعودؑ اور خلفاء احمدیت کے تصاویر۔ بعض اہم تعلیمات بوڈ پر آویزان ہوتے ہیں۔ جس سے لوگوں کے لئے کافی دلچسپی کا باعث ہوئی خاص طور پر قرآن کریم مختلف زبانوں میں تراجم دیکھنے پر بک سٹال کے ضمن میں قابل ذکربات یہ ہے کہ 1996ء Visit Myanmar Year کے عنوان پر حکومتی سطح پر بہت بڑا میلا لگایا۔ پہلے تو دس دن کے لئے مقرر ہوا۔ بعد میں لوگوں کی دلچسپی کے باعث دس دس دن اضافہ کرتے کرتے ایک مہینہ ہوگیا۔ اکثر دنیوی کاروبار، کھیل کود، لذیذ کھانے پینے کی طرف توجہ ہیں۔ جماعت احمدیہ کی طرف سے بک سٹال لگایا تو کافی غیراز جماعت کے لوگوں تک اسلام کا پیغام پہنچا۔ غیراحمدی احباب نے بھی مطالعہ کےلئے تشریف لاتے اور بعض سوال و جواب کا موقع ملا۔ بظاہر چھوٹی جماعت ہے لیکن حضرت مسیح موعود اورخلیفۂ وقت کے دعائوں سے یہ برکت ملی اور کسی غیراحمدی کو یہ موقع میسر نہیں۔ Covid بیماری چند ماہ پہلے جلسہ سیرۃالنیؐ بڑے پیمانے پر ہال میں انعقاد کیا تووزیر مذہب خود تشریف لائے اور انہوں نے بتایاکہ میرا یہ پہلا موقع ہے کہ جلسہ سیرۃ النبیؐ میں شامل ہونے کا۔ آگے انہوں نے مذہب کے تعلق میں کچھ باتیں کیں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک حدیث کا بھی حوالہ دیا۔

آج کل مشکل حالات میں آن لائن کے ذریعہ جماعتی تعلیم وتربیت کا انتظام کیا جارہاہے۔ حضور انور ایّدہ اللہ تعالیٰ کے اہم خطبات اور نصائح مسلسل برمی ترجمہ کیا جارہا ہے۔ قرآن کریم ناظرہ پڑھانا، وقفِ نو کے پروگرام، سکول جانا مشکل ہونے پر آن لائن سے ہی سیکھانے کا انتظام ہے۔ جلسہ سالانہ، اجتماع، جلسہ سیرۃالنبیؐ سب پروگرام آن لائن کے ذریعہ بنایا جاتاہے۔

اس وقت رنگونؔ مرکزی مشن ہاؤس اور مسجد کے علاوہ مانڈلےؔ شہرمیں ایک مشن ہاؤس اور ایک الگ نماز سنٹر ہے۔ مولمینؔ شہر میں ایک مسجد ہے۔ دو نئی جگہے ہے۔ میو میاؔ شہر اور این مےؔ شہر جہاں نو مبائع احباب کی تربیت کےلئے نماز سنٹربنا۔ لیکن مخالفوں نے حکومت کے ذمہ دار لوگوں کے سامنے شکایت کرنے پر نماز سنٹر بند کرنا پڑا۔ اسی علاقے میں ایک نومبائع نے خود نماز سنٹر بنایا۔ وہاں کافی دلچسپی لینے والے موجود ہیں۔ ان شاء اللہ برماؔ کے موجودہ حالات بہتر ہو امن نصیب ہو تو وہاں تبلیغی مہیم جاری کیا جائے گا۔

قارئین کی خدمت میں عاجزانہ دعا کی درخواست ہے کہ اِن مشکل حالات میں ہم سب کو حضور انور ایدہ
اللہ تعالیٰ کے منشاء کے مطابق احسن رنگ میں خدمت بجالانے کے لئے اللہ تعالیٰ خاص تائید و نصرت فرمائے۔ آمین

(محمد سالک۔ میانمار)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 21 مارچ 2022

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ