• 18 اپریل, 2024

وقف زندگی کی اہمیت

وقف زندگی کی اہمیت
تحریرات حضرت مسیح موعودؑ کی روشنی میں

حضرت مسیح موعود فرماتے ہیں:
’’زبانی اقرار کے ساتھ عملی تصدیق لازمی ہے اس لئے ضروری ہے کہ خدا کی راہ میں اپنی زندگی وقف کرو اور یہی اسلام ہے اور یہی وہ غرض ہے جس کے لئے مجھے بھیجا گیا ہےاسلام کا منشاء یہ ہے کہ بہت سے ابراہیم بنائے پس تم میں ہر ایک کو کوشش کرنی چاہئے کہ ابراہم بنو میں تمہیں سچ سچ کہتا ہوں کہ ولی پرست نہ ہو۔ بلکہ ولی بنو اور پیر پرست نہ بنو۔ بلکہ پیر بنو۔

(ملفوظات جلد2 صفحہ138-139)

حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ انسان حیات طیبہ کا وارث نہیں ہو سکتا جب تک کہ وقف کی روح پیدا نہ کرے۔ فرمایا:
اللہ تعالیٰ کی راہ میں اپنی ساری طاقتوں اور قوتوں کو مادام الحیات وقف کر دے تا کہ وہ حیات طیبہ کا وارث ہو۔۔۔۔۔ ایک نیستی اور تذلیل کا لباس پہن کرآستانہ الوہیت پر گرے اور اپنی جان، مال، آبروغرض جو کچھ اس کے پاس ہے خداہی کے لئے وقف کر دےاور دنیا اور اس کی ساری چیز یں دین کی خادم بنادے۔

(ملفوظات جلد اول صفحہ364)

غرض یہ ہے کہ انسان کو ضروری ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں اپنی زندگی کو وقف کرے۔ میں نے بعض اخبارات میں پڑھا ہے کہ فلاں آریہ نے اپنی زندگی آریہ سماج کے لئے وقف کر دی اور فلاں پادری نے اپنی عمر مشن کو سونپ دی۔ مجھے حیرت ہوتی ہے کہ کیوں مسلمان اسلام کی خدمت کے لئے اور خدا کی راہ میں اپنی زندگی کو وقف نہیں کر دیتے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مبارک زمانہ پر نظر کر کے دیکھیں تو ان کو معلوم ہو کہ کس طرح اسلام کی زندگی کے لئے اپنی زندگیاں وقف کی جاتی تھیں۔

(ملفوظات جلد اول صفحہ369)

حضرت مسیح موعود ؑکا ذاتی شوق اور دلی تمنا

میں خود جواس راہ کا پورا تجربہ کار ہوں اورمحض اللہ تعالیٰ کے فضل اور فیض سے میں نے اس راحت اور لذت سے حظ اٹھایا ہے یہی آرزو رکھتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں زندگی وقف کر نے کیلئے اگر مر کے پھر زندہ ہوں اور پھر مروں اور زندہ ہوں تو ہر بار میرا شوق ایک لذت کے ساتھ بڑھتا ہی جاوے۔ پس میں چونکہ خود تجربہ کار ہوں اور تجربہ کر چکا ہوں اور اس وقف کے لئے اللہ تعالیٰ نے مجھے وہ جوش عطا فر مایا ہے کہ اگر مجھے یہ بھی کہہ دیا جاوے کہ اس وقف میں کوئی ثواب اور فائدہ نہیں ہے بلکہ تکلیف اور دکھ ہوگا تب بھی میں اسلام کی خدمت سے رک نہیں سکتا۔

(ملفوظات جلد اول صفحہ370)

وقف خدا کا محبوب بناتا ہے

اللہ تعالیٰ کے بندے جو دین کو دنیا پر مقدم کر لیتے ہیں ان کے ساتھ وہ رافت اور محبت کرتا ہے چنانچہ خودفرماتا ہے۔ وَاللّٰہُ رَءُوۡفٌۢ بِالۡعِبَادِ (البقرہ: 208) یہ وہی لوگ ہیں جواپنی زندگی کو جواللہ تعالیٰ نے ان کو دی ہے اللہ تعالیٰ ہی کی راہ میں وقف کر دیتے ہیں اور اپنی جان کو خدا کی راہ میں قربان کرنا، اپنے مال کو اس کی راہ میں صرف کرنا اس کا فضل اور سعادت سمجھتے ہیں۔

(ملفوظات جلد اول صفحہ364)

راحت اور دائمی لذت کا ذریعہ

بات یہی ہے کہ لوگ اس حقیقت سے نا آشنا اور اس لذت سے جو اس وقف کے بعد ملتی ہے نا واقف محض ہیں ورنہ اگر ایک شمہ بھی اس لذت اور سرور سے ان کومل جائے تو بے انتہا تمناؤں کے ساتھ وہ اس میدان میں آئیں۔ میں خود اس راہ کا پورا تجر بہ کار ہوں اور محض اللہ تعالیٰ کے فضل اور فیض سے میں نے اس راحت اور لذت سے حظ اٹھایا ہے یہی آرزو رکھتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں زندگی وقف کرنے کے لئے اگر مر کے پھر زندہ ہوں اور پھر مروں اور زندہ ہوں تو ہر بار میرا شوق ایک لذت کے ساتھ بڑھتا ہی جاوے۔

(ملفوظات جلد اول صفحہ370)

سستی دور کر نے اور ہوشیار رہنے کا ذریعہ

یاد رکھو کہ جوشخص خدا کے لئے زندگی وقف کر دیتا ہے، یہ نہیں ہوتا کہ وہ بے دست و پا ہو جاتا ہے نہیں ہر گز نہیں۔ بلکہ دین اورللہی وقف انسان کو ہوشیار اور چابکدست بنادیتا ہے سستی اور کسل اس کے پاس نہیں آتا۔

(ملفوظات جلد اول صفحہ365)

ہم و غم سے نجات کا ذریعہ

جو اس اپنے وجود کو خدا کے آگے رکھ دے اور اپنی زندگی اس کی راہوں میں وقف کرے اور نیکی کرنے میں سرگرم ہو سو وہ چشمہ قرب الہی سے اپنا اجر پائے گا اور ان لوگوں پر نہ کچھ خوف ہے نہ کچھ غم یعنی جوشخص اپنے تمام قوی کو خدا کی راہ میں لگا دے اور خالص خدا کے لئے اس کا قول اور فعل اور حرکت اور سکون اور تمام زندگی ہو جائے اور حقیقی نیکی بجالانے میں سرگرم رہے سو اس کو خدا اپنے پاس سے اجر دے گا اور خوف اور حزن سے نجات بخشے گا۔

(روحانی خزائن جلد12 صفحہ344)

یادرکھو! یہ خسارہ کا سودا نہیں ہے بلکہ بے قیاس نفع کا سودا ہے کاش مسلمانوں کو معلوم ہوتا اور اس تجارت کے مفاد اور منافع پر ان کو اطلاع ملتی جو خدا کے لئے اس کے دین کی خاطر اپنی زندگی وقف کرتا ہے کیا وہ اپنی زندگی کھوتا ہے؟ ہرگزنہیں۔ فَلَہٗۤ اَجۡرُہٗ عِنۡدَ رَبِّہٖ (البقرہ: 113) اس للہی وقف کا اجران کا رب دینے والا ہے۔

یہ وقف ہر قسم کے ہموم وغموم سے نجات اور رہائی بخشنے والا ہے۔ مجھے تو تعجب ہوتا ہے کہ جبکہ ہر ایک انسان بالطبع راحت اور آسائش چاہتا ہے اور ہموم وغموم اور کرب وافکار سے خواہستگا رنجات ہے۔ پھر کیا وجہ ہے کہ جب اس کو ایک مجرب نسخہ اس مرض کا پیش کیا جائےتو اس پر توجہ ہی نہ کرے کیا للہی وقف کا نسخہ 1300 برس سے مجرب ثابت نہیں ہو ا۔ کیا صحابہ کرام اسی وقف کی وجہ سے حیات طیبہ کے وارث اور ابدی زندگی کے وارث نہیں ٹھہرے۔ پھر اب کوئی وجہ ہے کہ اس نسخہ کی تاثیر سے فائد ہ اٹھانے میں دریغ کیا جائے۔

(جلد اول صفحہ369-370)

عمربڑھانے کا نسخہ

انسان اگر چاہتا ہے کہ اپنی عمر بڑھائے اور یہی عمر پائے تو اس کو چاہئے کہ جہاں تک ہو سکے خالص دین کے واسطے اپنی عمر کو وقف کرے۔

پس عمر بڑھانے کا اس سے بہتر کوئی نسخہ نہیں ہے کہ انسان خلوص اور وفاداری کے ساتھ اعلاء کلمۃ الاسلام میں مصروف ہو جاوے اور خدمت دین میں لگ جاوے اور آج کل یہ نسخہ بہت ہی کارگر ہے کیونکہ دین کو آج ایسے خالص خادموں کی ضرورت ہے اگر یہ بات نہیں تو پھر عمر کا کوئی ذمہ دار نہیں ہے یونہی چلی جاتی ہے۔

(ملفوظات جلد سوم صفحہ563)

جو لوگ دین کے لئے سچا جوش رکھتے ہیں ان کی عمر بڑھائی جاوے گی اور حدیثوں میں جو آ تا ہے کہ مسیح موعود کے وقت میں عمریں بڑھائی جاویں گی۔ اس کے معنی یہی مجھے سمجھائے گئے ہیں کہ جولوگ خادم دین ہوں گے ان کی عمریں بڑھائی جاو یں گی جو خادم دین نہیں ہوسکتا وہ بڈھے بیل کی مانند ہیں کہ مالک جب چاہے اسے ذبح کر ڈالے اور جو سچے دل سے خادم ہے وہ خدا کا عز یز ٹھہرتا ہے اور اس کی جان لینے میں خدا تعالیٰ کوتر دد ہوتا ہے۔اسی لئے فرمایا۔

وَاَمَّا مَا یَنۡفَعُ النَّاسَ فَیَمۡکُثُ فِی الۡاَرۡضِ

(الرعد: 18)

(ملفوظات جلد دوم صفحہ283)

عمدہ موت کا ذریعہ

حکیم آل محمد صاحب تشریف لائے اور حضرت اقدس سے نیاز حاصل کیا اور عرض کی کہ امروہہ میں میرا یہی کام ہے کہ اس سلسلہ الہی کی اشاعت کروں اور اسی خدمت میں میری جان نکل جاوے۔ حضرت اقدس نے فرمایا کہ۔
اس سے بڑھ کر اور کیا دینی خدمت ہوگی۔ مرنا تو ہر ایک نے ہی ہے اور اس جان نے ایک دن اس قالب کو چھوڑ نا ضرور ہے مگر کیا عمدہ وہ موت ہے جو خدمت دین میں آوے۔

(ملفوظات جلد سوم صفحہ484)

حضرت مسیح موعودؑکی دعاؤں کا حقدار بننے کا ذریعہ

جو حالت میری توجہ کو جذب کرتی ہے اور جسے دیکھ کر میں دعا کے لئے اپنے اندر تحر یک پا تا ہوں وہ ایک ہی بات ہے کہ میں کسی شخص کی نسبت معلوم کرلوں کہ یہ خدمت دین کا سزاوار ہے اور اس کا وجود خدا تعالیٰ کے لئے، خدا کے رسول کے لئے خدا کی کتاب کے لئے اور خدا کے بندوں کے لئے نافع ہے۔ ایسے شخص کو جو درد والم پہنچے وہ درحقیقت مجھے پہنچتا ہے۔ فرمایا۔ ہمارے دوستوں کو چاہئے کہ وہ اپنے دلوں میں خدمت دین کی نیت باندھ لیں جس طر ز اور جس رنگ کی خدمت جس سے بن پڑے کر یں۔ پھر فرمایا۔ میں سچ کہتا ہوں کہ خدا تعالیٰ کے نزدیک اس شخص کی قدرومنزلت ہے جود ین کا خادم اور نافع الناس ہے۔

(ملفوظات جلد اول صفحہ215)

للہی وقف کا مقام

مگر بموجب منشاء ہُدًی لِّلۡمُتَّقِیۡنَ ابھی تک اس مقام تک نہیں پہنچا جہاں قرآن شریف اسے لے جانا چاہتا ہے اور وہ وہ مقام ہے کہ انسان اپنی زندگی ہی خدا تعالیٰ کے لیے وقف کر دے اور یہ للہی وقف کہلا تا ہے۔ اس حالت اور مقام پر جب ایک شخص پہنچاتا ہے تو اس میں مما رہتاہی نہیں۔ کیونکہ جب تک وہ مما کی حد کے اندر ہے اس وقت تک وہ ناقص ہے اور اس علت غائی تک نہیں پہنچا جو قرآن مجید کی ہے۔ لیکن کامل اسی وقت ہوتا ہے جب یہ حد نہ رہے اور اس کا وجود اس کا ہر فعل، ہر حرکت و سکون محض اللہ تعالیٰ کے حکم اور اذن کے ماتحت بنی نوع کی بھلائی کے لیے وقف ہو دوسرے لفظوں میں یہ کہو کہ مما رزقهم ينفقون کا کمال یہی ہے جو ہُدًی لِّلۡمُتَّقِیۡنَ کے منشاء کے موافق ہے۔

(ملفوظات جلد چہارم صفحہ612)

خدمت دین کو ایک فضل الٰہی جانو

مصائب رفع درجات کے واسطے ہوتے ہیں حضرت ابراہیم اس بات پر روتے دھوتے نہ رہے کہ خدا تعالیٰ نے مجھ سے بیٹا مانگا ہے بلکہ انہوں نے اس بات پر خدا تعالیٰ کا شکر کیا کہ ایک خدمت کا موقعہ ملا ہے لڑکے کی ماں نے بھی رضا مندی دی اورلڑ کا بھی اس بات پر راضی ہوا۔ ذکر ہے کہ ایک دفعہ ایک مسجد کا مینار گر گیا تو شاہ وقت نے سجدہ کیا کہ خدا تعالیٰ نے مجھے اس خدمت میں سے حصہ لینے کا موقعہ دیا ہے جو بزرگ بادشاہوں نے اس مسجد کے بناء کر نے میں حاصل کی تھی۔

(ملفوظات جلد پنجم صفحہ418)

(رانا طاہر احمد)

پچھلا پڑھیں

تبلیغی اسٹال مجلس انصار للہ ڈنمارک

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ