• 19 مئی, 2024

رمضان کی تیاری اسوہ رسولؐ کی روشنی میں

اللہ تعالیٰ کو پانے اور لقائے باری تعالیٰ کے لئے سعی کرنے میں ایک مومن کے جو روحانی محاذ ہیں ان میں سے رمضان کا مہینہ سب سے زیادہ موزوں ہے۔ جس کے لئے بہت بڑی تیاری کی ضرورت ہے۔ کیونکہ فوج میں جتنابڑا محاذ ہو تیاری بھی اتنی بڑی کی جاتی ہے۔ آنحضرت ﷺ کے متعلق آتا ہے کہ آپؐ رمضان کے آنے سے قبل کمر ہمت کس لیتے، نوافل اور عبادات میں اضافہ فرمادیتے، محفلوں اور مجالس عرفان میں رمضان کی برکات و اہمیت کا ذکر فرماتے اور یوں روزوں کے لئے مشقت برداشت کرنے کے لئے اپنے آپ کو تیار کرتے۔
احادیث کی رو سے حضرت رسول کریم ﷺ نفلی روزے ترجیحاً شعبان میں ہی رکھا کرتے تھے۔

(بخاری کتاب الصوم۔باب صوم شعبان)

اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا (جن کے متعلق آتا ہے کہ نصف دین اگر سیکھنا ہے تو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے سیکھو) بھی شعبان میں گزشتہ ماہ رمضان کے چھوٹ جانے والے روزے رکھا کرتی تھیں۔

(ترمذی کتاب الصوم۔باب تأخیر قضاء رمضان)

دائرہ معارف اسلام میں شعبان کے لفظ کے تحت لکھا ہے کہ آنحضرت ﷺ شعبان میں اتنی کثرت سے روزے رکھتے کہ اکثر آپ ؐ شعبان کو رمضان سے ملا دیتے۔ مگر امت کو شعبان میں بکثرت روزے رکھنے سے منع فرمادیا تاکہ وہ رمضان کے لئے تازہ دم رہیں۔

ایک دفعہ شعبان کے آخری روز آنحضور ﷺ نے ایک خطبہ ارشاد فرمایا۔ جس میں رمضان کی اہمیت و برکات کا یوں ذکر فرمایا۔

اے لوگو! تم پر ایک بڑی عظمت والا مہینہ سایہ کرنے والا ہے۔ ہاں! ایک برکتوں والا مہینہ جس میں ایک ایسی رات ہے جو ہزار مہینوں سے بھی بہتر ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس کے روزے فرض کئے ہیں اور اس کی رات کی عبادت کو نفل ٹھہرایا ہے۔ اس مہینہ میں جو شخص کسی نفلی عبادت کے ذریعہ اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرنے کی کوشش کرے تو اسے اس نفل کا ثواب عام دنوں میں فرض ادا کرنے کے برابر ملے گا۔ اور جس نے اس مہینہ میں ایک فرض ادا کیا اسے عام دنوں کے ستّر فرض ادا کرنے کے برابرثواب ملے گا۔ اور یہ مہینہ صبر کا ہے اور صبر کا ثواب جنت ہے اور یہ ہمدردی وغمخواری کا مہینہ ہے اور ایسا مہینہ ہے جس میں مومن کا رزق بڑھایا جاتا ہے۔ جو شخص اس مہینہ میں روزہ دار کی افطاری کرواتا ہے تو یہ عمل اس کے گناہوں کی معافی کا ذریعہ بن جاتا ہے اوراسے آگ سے آزاد کیا جاتا ہے اور اسے روزہ دار کے اجر کے برابر ثواب ملتا ہے بغیر اس کے کہ روزہ دار کے اجر میں کچھ کمی ہو۔ صحابہ ؓ نے آنحضور ﷺ سے سوال کیا: ہم میں سے ہر ایک کی اتنی توفیق نہیں کہ روزہ دار کی افطاری کا انتظام کرسکے تو آپؐ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ افطاری کا یہ ثواب اس شخص کو بھی عطا کرتا ہے جو روزہ دار کو ایک گھونٹ دودھ میں پانی ملا کر دودھ کی کچی لسی یا کھجور سے یا پانی کے ایک گھونٹ سے ہی روزہ کھلوا دیتا ہے اور جو روزہ دار کو سیر کرکے پیٹ بھر کے کھانا کھلائے گا تو اللہ تعالیٰ اسے میرے حوض کوثر سے ایسا شربت پلائے گا کہ اسے کبھی پیاس نہیں لگے گی یہاں تک کہ وہ جنت میں داخل ہوگا۔

اور یہ ایسا مہینہ ہے جس کی ابتداء نزول رحمت ہے اور جس کا وسط مغفرت کا وقت ہے اورجس کا آخر کامل اجر پانے یعنی آگ سے آزادی کا زمانہ ہے اور جو شخص اس مہینے میں اپنے مزدور یا خادم سے اس کے کام کا بوجھ ہلکا کرتا ہے اور کم خدمت لیتا ہے اللہ تعالیٰ اس شخص کو بھی بخش دے گا اور اسے آگ سے آزاد کردے گا‘‘

(مشکوٰۃ کتاب الصوم۔ الفصل الثالث)

شعبان کو آنحضور ﷺ نے ’’شھری‘‘ یعنی میرا مہینہ اور رمضان کو ’’شھر اللّٰہ‘‘ یعنی اللہ کا مہینہ قرار دے کر اسی تیاری کی طرف اشارہ فرمایاہے۔ شعبان کے لفظ کا اگر لغات کی کتب کے حوالہ سے جائزہ لیا جائے تو بہت ہی دلچسپ مضمون اُبھرتا ہے اور شعبان میں رمضان کی تیاری کا بہت گہرا تعلق قائم ہوتا ہے۔ لسان العرب میں شعبان کے معنوں میں لکھا ہے کہ عرب قوم اس ماہ پانی کی تلاش میں نکلا کرتی تھی۔

آنحضرت ﷺ روحانی پانی کی تلاش میں پہلے سے بڑھ کر اس ماہ میں سعی فرمایا کرتے تھے۔ اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا ایک رات آپؐ کو ڈھونڈتی ڈھونڈتی جنت البقیع میں جاپہنچیں جہاں آپؐ نہایت خشوع وخضوع کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے حضور جھکے عبادات میں مصروف تھے۔

شعبان (جو عربی کا لفظ ہے) کا مادہ (root) ’’شعب‘‘ ہے جس کے بنیادی معنی اس پہاڑی سڑک کے ہیں جو انسان کو بلندی کی طرف لے جائے۔ ایک مومن شعبان میں رمضان کی تیاری کے لئے اس راستہ پرچل کر رمضان میں اپنی رفعتوں کو چھوتا ہے اور ’’شعبہ‘‘ درخت کی ایسی شاخ کو کہتے ہیں جو آگے شاخیں پیدا کرتی ہے پھوٹتی اور نئی کونپلیں نکالتی ہے۔ ان معنوں میں اگر شعبان کو لیں تو ایسا درخت جو شعبان میں شاخیں نکالتا ہے اور رمضان میں جاکر وہ پھلوں سے لد جاتا ہے اوررمضان میں ان میٹھے رس بھرے مختلف ذائقوں والے پھلوں سے مومن محظوظ ہوتا ہے۔

اسی طرح بڑی نہر سے چھوٹی نہریں جسے ہم راجباہ کہتے ہیں نکلنے کے معنی میں بھی یہ مادہ شعب استعمال ہوتا ہے اور یوں رمضان سے قبل ایک مومن شعبان میں اپنے اپنے اعمال کو کھنگالتا ہے اور جائزہ لیتا ہے کہ میں ان دینی اعمال پر عمل پیرا ہونے میں کہاں کھڑا ہوں۔ جائزہ لینے پر وہ نئے نئے عہدوپیمان باندھتا اور نئے نئے نیک عمل کرنے کا ارادہ کرتا ہے اور اس طرح ایک بڑے نیک عمل کی فروعات پر بھی عمل کرنے کی کوشش کرتا ہے۔

حضرت صاجزادہ مرزا بشیر احمؓد ایم اے رمضان سے قبل یا ابتدائے رمضان میں ’’رمضان المبارک کی برکات سے فائدہ اٹھاؤ‘‘ کے عنوان سے ایک مختصر سا مضمون افادہ عام کے لئے قلمبند فرمایا کرتے تھے جو روزنامہ الفضل میں شائع ہوتا۔ ایک دفعہ آپ نے تحریر فرمایا۔

اس بات کا عہد کرلیں کہ رمضان کا مہینہ آپ کی زندگیوں میں ایک نمایاں تبدیلی پیدا کرکے جائے گا۔

حضرت مسیح موعودؑ فرمایا کرتے تھے کہ انسان کو چاہئے کہ ہر رمضان کے موقع پر اپنے دل کے ساتھ کم از کم یہ عہد باندھ لے کہ وہ اس رمضان میں اپنی فلاں کمزوری کو ہمیشہ کے لئے ترک کردے گا۔ اور پھر اس عہد کو پورا کرکے چھوڑے تاکہ اور نہیں تو رمضان کا مہینہ اسے ایک کمزوری اورنقص سے تو پاک کرنے کا موجب ہو۔

میں سمجھتا ہوں کہ اگر ہماری جماعت کے احباب حضرت مسیح موعودؑکے اس ارشاد کی تعمیل کے لئے کمر ہمت باندھ لیں تو خدا کے فضل سے عید کا دن ہماری جماعت کے قدم کو بہت آگے پائے گا۔ ہم لوگوں میں ابھی بہت سی کمزوریاں اور نقص ہیں۔ کوئی نماز میں سست ہے۔ کوئی چندوں کی ادائیگی میں ڈھیلا ہے۔

کوئی لین دین میں صاف نہیں۔ کوئی لغو اور فضول عادات میں مبتلاہے۔ غرض کسی میں کوئی نقص ہے اورکسی میں کوئی۔ پس آؤ آج سے ہم میں سے ہر فرد یہ عہد کرے کہ رمضان کے گزرنے سے قبل وہ اپنی فلاں کمزوری کو ترک کردے گا اور پھر کبھی اپنے آپ کو اس کمزوری کے سامنے مغلوب نہیں ہونے دے گا۔ یہ کوئی بڑا عہد نہیں ہے بلکہ ایک معمولی ہمت کا کام ہے۔ اور اگر رمضان کا مہینہ اتنی بھی تبدیلی ہمارے اندر نہ پیدا کرسکے تو اس کا آنا یا نہ آنا ہمارے لئے برابر ہے‘‘

الغرض شعبان کے لفظ میں پھٹنے یا نیا راستہ نکالنے کے معنی ہیں جو آگے چل کر جنت کا راستہ دکھلاتا ہے یا زمینوں کو سیراب کرتا ہے۔ نیز شعبان کے مادہ ’’ش ع ب‘‘ سے آگے جو الفاظ بنتے ہیں ان میں ’’الشعیب‘‘ کے معنی توشہ دان یا مشک کے ہیں اور ان معنوں کو بھی اگر رمضان پر اطلاق کریں تو بہت ہی لطیف تعلق شعبان کا رمضان سے بنتا ہے۔ انسان کی نیکیوں سے اس کے روحانی توشہ دان بھرتے ہیں جو سال کے بقیہ دنوں میں اس کے کام آتے ہیں۔ آنحضور ﷺ نے فرمایا۔

اِذَا سَلِمَ رَمَضَانُ سَلِمَتِ السَّنَۃُ کہ اگر رمضان سلامتی سے گزر گیا تو پورا سال سلامتی سے گزر گیا۔

(درمنثور جلداول تفسیر سورۃ البقرہ آیت: 219)

شعبان میں رمضان کے لئے تیاری کے مفہوم کو ایک مثال سے بھی واضح کیا جاسکتا ہے۔ بعض لوگ ان دنوں کو warm up ہونے کے دن قرار دیتے ہیں۔ جس طرح ایک پہلوان اکھاڑے میں جانے سے پہلے یا ایک کھلاڑی میدان میں اترنے سے پہلے اچھل کود اور ورزش کر کے اپنے آپ کو warm up کرتا ہے۔ اسی طرح یہ دن ایک روحانی پہلوان کے لئے اللہ تعالیٰ کے پیار کو جذب کرنے کے لئے ،اللہ تعالیٰ کا ہو جانے کے لئے، اس کے پیارے رسول حضرت محمد ﷺ کا مکمل مطیع وفرمانبردار بننے کے لئے جس مجاہدہ سے اسے آئندہ دنوں میں گزرنا ہے اپنے آپ کو warm up کرنے کے دن ہیں۔ گویا کہ جہاں اس دنیا میں ایک مومن اللہ کو پانے کے لئے تیاریوں میں مصروف ہوتا ہے تو دوسری جانب اللہ تعالیٰ کے ہاں بھی رمضان کے استقبال کی تیاریاں ہو رہی ہوتی ہیں اور جنت سجائی جاتی ہے۔ چنانچہ آنحضور ﷺ فرماتے ہیں کہ ماہ رمضان کے استقبال کے لئے سارا سال جنت سجائی جاتی ہے اور جب رمضان آتا ہے تو جنت کہتی ہے کہ اے اللہ! اس مہینے میں اپنے بندوں کو میرے لئے خاص کردے۔

(سنن بیہقی شعب الإیمان-فضائل شہر رمضان۔باب الجنۃ تزین من الحول إلی الحول لشہر رمضان)

اس لئے ہر مومن کو اپنے آقاومولیٰ حضرت محمد مصطفیؐ کے اس فرمان کو سامنے رکھ کر جنت کے حصول کے لئے ابھی سے تیاری شروع کردینی چاہئے۔ آپؐ فرماتے ہیں:

’’میری امت ہرگز رسوا نہ ہوگی جب تک رمضان کا قیام کرتی رہے گی۔ اگر لوگ جان لیں کہ رمضان کے کس قدر فوائد ہیں تو پھر میری امت یہ تمنا کرے کہ رمضان سارا سال رہے‘‘

(کنز العمال۔ الجزء الثامن ۔حدیث نمبر 23715)

پھر فرمایا۔

اللہ تعالیٰ نے رمضان کو تم پر فرض کیا ہے اور میں نے اس کی راتوں کی عبادت کو تمہارے لئے بطور سنت قائم کردی ہے۔

(مسند احمد بن حنبل مسند حضرت عبدالرحمٰن بن عوف حدیث نمبر1710)

پس موسم بہار کے آنے سے قبل ہواؤں کی سرسراہٹ، بادلوں کے رنگ بدلنے اور پودوں کے مہکنے سے موسم بہار کی اطلاع مل رہی ہوتی ہے۔ اس طرح روحانی موسم بہار کے آنے سے قبل درخت وجود کی سرسبز شاخیں بھی پھل لانے کے لئے تیاری کررہی ہوتی ہیں اور روحانی مال ومتاع کو سمیٹنے کے لئے کمر ہمت کس لیتے ہیں۔ اپنے گناہوں اورغفلتوں کے بوجھ اُتار پھینک کر بخشش اور مغفرت کے آب حیات کے جام نوش کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ کی طرف جاری وساری سفر میں تیزی لے آتے ہیں تا ایسا نہ ہو کہ رمضان کے گزرنے پر ہمارے ہاتھ پھر خالی کے خالی رہ جائیں اور روح تشنہ ۔پس ہم سب کو دل کی گہرائیوں سے رمضان کو جی آیاں نوں، اھلاً وسہلًا ومرحبا کہنے کے لئے تیار رہنا چاہئے۔ اس نیت،ارادہ،خواہش اور دعا کے ساتھ کہ اللہ تعالیٰ اس کے تقدس کو قائم کرنے کی ہمیں توفیق دے۔اس کی برکات سے بھرپور استفادہ کرنے کی ہمت دے اور ہم جب رمضان کو الوداع کررہے ہوں تو یہ ہمارے اندر داخل ہوچکا ہو۔ خدا کرے یہ رمضان ہم سب کے لئے، ساری دنیا میں پھیلے احمدیوں کے لئے اور ساری انسانیت کے لئے خیر لے کر آئے اور ہم سب کو خیر دے کر جائے۔ آمین۔

اب آخر میں آئیں دیکھیں رمضان کی تیاری میں ہمیں کس قسم کے عہدوپیمان باندھنے ہیں۔ اپنا ایک زیرو پوائنٹ مقرر کر کے خدا کی طرف تیزی سے سفر اختیار کرنے کے کون کون سے امور ہیں جن کے حوالہ سے ہمیں تیاری کرنی ہے۔

  1. پنج وقتہ نماز کی ادائیگی میں باقاعدگی۔
  2. نماز تہجد کے لئے کوشش ۔
  3. نوافل کی ادائیگی میں کثرت۔
  4. تلاوت قرآن پاک میں کثرت تا رمضان میں کم از کم ایک مرتبہ قرآن کریم کا دور مکمل ہو۔
  5. قرآنی سورتوں اور ادعیہ ماثورہ جو یاد ہیں ان کو دہرانا تا رمضان میں نوافل میں کثرت سے ان کا ورد کیا جائے۔
  6. MTA پر حضور انور اید ہ اللہ کے خطبات باقاعدگی سے سننا۔
  7. بیوت الذکر میں قرآن وحدیث کے درس سن کر نیکی کی باتوں کو دلوں میں اُتارنا۔
  8. اخبارات و رسائل میں رمضان سے متعلقہ مضامین کا مطالعہ کرکے عبادات میں چاشنی پیدا کرنا۔

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں۔
ایک روایت میں آتا ہے حضرت ابو مسعود غفاری ؓ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رمضان شروع ہونے کے بعد ایک روز آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ اگر لوگوں کو رمضان کی فضیلت کا علم ہوتا تو میری اُمّت اس بات کی خواہش کرتی کہ سارا سال ہی رمضان ہو۔اس پر بنوخزاعہ کے ایک آدمی نے کہا کہ اے اللہ کے نبیؐ! ہمیںرمضان کے فضائل سے آگاہ کریں۔ چنانچہ آپؐ نے فرمایا یقیناً جنت کو رمضان کے لئے سال کے آغاز سے آخر تک مزین کیا جاتا ہے۔ پس جب رمضان کا پہلا دن ہوتا ہے تو عرش الٰہی کے نیچے ہوائیں چلتی ہیں۔

(الترغیب والترھیب ۔کتاب الصوم ۔ الترغیب فی صیام رمضان احتساباً … حدیث نمبر 1498)

پس یہ ہوائیں بھی اللہ تعالیٰ کے پاک بندوں کوجنہوں نے یہ عہد کیا ہو کہ اپنے اندر رمضان میں پاک تبدیلیاں پیدا کرنی ہیں اور تقویٰ اختیار کرنا ہے اونچا اڑاکر لے جانے والی ثابت ہوتی ہیں۔اللہ تعالیٰ کا قرب دلانے والی بنتی ہیں۔یہ جو فرمایا کہ سارا سال جنت کی تزئین و آرائش ہو رہی ہے اس کا فیض یونہی نہیں مل جاتا۔ یقیناً روزوں کے ساتھ عمل بھی چاہئیں۔ پس جب اللہ تعالیٰ اتنا اہتمام فرما رہا ہو کہ سارا سال جنت کی تیاری ہو رہی ہے کہ رمضان آ رہا ہے میرے بندے اس میںروزے رکھیں گے، تقویٰ پر چلیں گے، نیک اعمال کریں گے اور میں ان کو بخشوں گا اور میں قرب دوں گا۔تو ہمیں بھی تو اپنے دلوں کو بدلنا چاہئے۔ ہمیں بھی تو اس لحاظ سے تیاری کرنی چاہئے اور جو اللہ تعالیٰ نے موقع میسر کیا ہے اس سے فیض اٹھانا چاہئے۔

(ابو سعید)


پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 21 اپریل 2020

اگلا پڑھیں

Covid-19 اپ ڈیٹ (22 ۔اپریل2020 ء)