• 26 اپریل, 2024

بڑا بد نصیب ہے جس نے رمضان پایا اور تغیر نہ پایا

آنحضرت ﷺ فرماتے ہیں کہ

‘‘ماہ رمضان کے استقبال کے لئے یقیناًسارا سال جنت سجائی جاتی ہے ۔اور جب رمضان آتا ہے تو جنت کہتی ہے کہ یا اللہ اس مہینے میں اپنے بندوں کو میرے لئے خاص کردے ’’

(بیہقی شعب الایمان)

لیکن کیا اس مہینے کا آنا اور گزر جانا ہی ہمارے لئے کافی ہے۔نہیں بلکہ بڑا بد نصیب ہے وہ جس نے اس مبارک مہینہ کو پایا اور اپنے اندر پاک تبدیلی پیدا نہ کرسکا۔حضرت مولوی حکیم نور الدین خلیفۃ المسیح الاول رضی اللہ تعالیٰ عنہ ایک مقام پر فرماتے ہیں۔

“رمضان میں گریہ،خشیت،دعا،غذا میں تغیر پیدا کروتاکہ آسمان سے تمہارے لئے برکات کا نزول ہو میرے نزدیک إِنَّ اللّٰهَ لاَ يُغَيِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتَّى يُغَيِّرُوْا مَا بِأَنْفُسِهِمْ (الرعد:12) دلیل ہے۔بڑا بدنصیب ہے جس نے رمضان پایا اور تغیر نہ پایا۔

(ارشادات نور جلد اول صفحہ نمبر۔343)

یقیناً اللہ کسی قوم کی حالت نہیں بدلتا جب تک وہ خود اسے تبدیل نہ کرے جو ان کے نفوس میں ہے۔ اس لئےاللہ تعالیٰ کے خاص بندوں میں شامل ہونے کے لئے ماہ رمضان میں اپنے اندر گریہ(وزاری)،خشیت،دعا اور اپنی غذا میں تبدیلی پیدا کرنابہت ضروری ہے۔جب یہ تمام چیزیں ہمارے اندر ہوں گی تو یقیناً ہم اللہ کے خاص بندوں میں شامل ہونے والے بن جائیں گے۔ہم اس تعلق سے اپنا جائزہ لیتے ہیں کہ ان امور کے ساتھ کیا ہم رمضان کے یہ مبارک ایام گزار نے والے بن رہے ہیں ؟اگر ان امور کے ساتھ ہم رمضان گزاریں گے تو یقیناً ہم خدا کا قرب حاصل کرنے والے بن سکتے ہیں۔آئیے قرآن،حدیث،حضرت مسیح موعودؑ اور ان کے خلفاء کرام کےاقوال سے اس کی جگالی کرتے ہیں اور اپنا جائزہ لیتے ہیں۔

گریہ وزاری میں تغیر پیدا کروتاکہ رمضان میں آسمان سے تمہارے لئے برکات کا نزول ہو۔

اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرنے کے لئے بہت سے طریق اسلام نے بتائے ہیں ان میں سے ایک طریقہ اس کے حضور گریہ وزاری کرنا ہوتا ہے۔اور ایک انسان اپنی حاجات اور التجاء کو نماز کے ذریع بھی اللہ کے حضور پیش کرتا ہے۔اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتا ہے۔

قَدْ اَفْلَحَ الْمُؤْمِنُوْنَ۔ الَّذِیْنَ ھُمْ فِیْ صَلَاتِھِمْ خٰشِعُوْن

(المومنون:2،1)

ترجمہ: یقیناً مومن کامیاب ہو گئے۔ وہ جو اپنی نماز میں عاجزی کرنے والے ہیں۔یہ عاجزی تو بعض دفعہ دنیا دار لوگ بھی دکھاتے ہیں ۔ اس ضمن میں ہمارے پیارے امام حضرت مرزا مسرور احمد خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں۔

“عاجزی تو بعض دنیادار بھی بعض دفعہ دکھا دیتے ہیں بلکہ صرف اگر گریہ و زاری کا سوال ہے تو بعض دنیا دار ذرا ذرا سی بات پر ایسی گریہ و زاری کرتے ہیں کہ انسان حیران رہ جاتا ہے… لیکن یہ سب یا تو اپنے مفادات کے لئے یا دنیا دکھاوے کے لئے یا ایک عارضی اور وقتی جذبے کے تحت ہوتا ہے۔ خدا تعالیٰ کی رضا کے لئے یہ سب کچھ نہیں ہوتا۔ خدا تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے والا تو ان ظاہری باتوں سے بہت دُور ہوتا ہے۔”

(خطبہ جمعہ 10۔اپریل 2015ء)

ظاہری اور وقتی طور پر گریہ و زاری کا اظہار کرنے والوں کے بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ایک جگہ بیان فرمایا کہ:

‘‘بہت سے ایسے فقیر مَیں نے بچشم خود دیکھے ہیں اور ایسا ہی بعض دوسرے لوگ بھی دیکھنے میں آئے ہیں کہ کسی دردناک شعر کے پڑھنے یا دردناک نظارہ دیکھنے یا دردناک قصہ کے سننے سے اس جلدی سے ان کے آنسو گرنے شروع ہوجاتے ہیں جیسا کہ بعض بادل اس قدر جلدی سے اپنے موٹے موٹے قطرے برساتے ہیں کہ باہر سونے والوں کو رات کے وقت فرصت نہیں دیتے کہ اپنا بستر بغیر تر ہونے کے اندر لے جاسکیں’’ (یعنی جس طرح بارش ایک دم آ جاتی ہے اس طرح ایک دم ان کے آنسو بہنے لگ جاتے ہیں۔ پھر فرمایا) ‘‘لیکن مَیں اپنی ذاتی شہادت سے گواہی دیتا ہوں کہ اکثر ایسے شخص مَیں نے بڑے مکّاربلکہ دنیاداروں سے آگے بڑھے ہوئے پائے ہیں اور بعض کو مَیں نے ایسے خبیث طبع اور بد دیانت اور ہر پہلو سے بدمعاش پایا ہے کہ مجھے ان کی گریہ وزاری کی عادت اور خشوع خضوع کی خصلت دیکھ کر اس بات سے کراہت آتی ہے کہ کسی مجلس میں ایسی رقت اور سوز و گداز ظاہر کروں۔’’

(ضمیمہ براہین احمدیہ حصہ پنجم، روحانی خزائن جلد 21صفحہ 194)

حقیقی گریہ و زاری کےنظارے تو کوئی اللہ کاپیارا ہی دکھا سکتا ہے۔ کیا کوئی دنیاوی دلچسپیوں میں ڈوبا ہوا یہ نظارے دکھا سکتا ہے؟ نہیں۔ اور وہ پیارا وجود حضرت محمد مصطفی ﷺ کے سوا کون ہوسکتا ہے ۔ میرے پاس وہ الفاظ نہیں جن سے میں آپؐ کی ان خوبصورت عبادت کا نقشہ کھینچ سکوں۔ ایک روایت میں آتا ہے مطرف اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے بیان کیا کہ: “میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو نماز پڑھتے ہوئے دیکھا اس وقت شدت گریہ و زاری کے باعث آپؐ کے سینے سے ایسی آواز آ رہی تھی جیسے چکی کے چلنے کی آواز ہوتی ہے۔”

(سنن ابی داؤد کتاب الصلوٰۃ باب ابکاء فی الصلوٰۃ)

ایک دوسری روایت میں یہ آتا ہے کہ آپؐ کے سینے سے ایسی آواز اٹھ رہی تھی جیسے ہنڈیا کے ابلنے کی آواز ہوتی ہے۔

(سنن نسائی- کتاب السھو۔ باب البکاء فی الصلوٰۃ حدیث نمبر 1213)

حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ
‘‘اوّل مرتبہ مومن کے روحانی وجود کا وہ خشوع اور رقّت اور سوزوگداز کی حالت ہے جو نماز اور یاد الٰہی میں مومن کو میسر آتی ہے۔ یعنی گدازش اور رقّت اور فروتنی اور عجز و نیاز اور روح کا انکسار اور ایک تڑپ اور قلق اور تپش اپنے اندر پیدا کرنا۔ اور ایک خوف کی حالت اپنے پر وارد کرکے خدائے عزّوجل کی طرف دل کوجھکانا جیسا کہ اِس آیت میں بیان فرمایا گیا ہے قَدْ اَفْلَحَ الْمُؤْمِنُوْنَ۔ الَّذِیْنَ ھُمْ فِیْ صَلَاتِھِمْ خٰشِعُوْنَ۔ یعنی وہ مومن مراد پاگئے جو اپنی نمازوں میں اور ہر ایک طور کی یادِ الٰہی میں فروتنی اور عجزونیاز اختیار کرتے ہیں۔ اور رقّت اور سوزوگداز اور قلق اور کرب اور دلی جوش سے اپنے رب کے ذکر میں مشغول ہوتے ہیں”

(ضمیمہ براہین احمدیہ حصہ پنجم، روحانی خزائن جلد 21صفحہ 188)

چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ صرف نماز ہی نہیں بلکہ ہر ایک طور کی یاد الٰہی میں فروتنی اختیار کرنی چاہئے اور پس ہرآدمی کواس رمضان میں چلتے پھرتے ذکر الہٰی کرنا چاہئے۔ اور جب ہر ایک طور کی یاد الٰہی ہو تو ہر عمل چاہے وہ روزمرہ کے معاملات کا ہو خدا تعالیٰ کی یاد کو سامنے رکھتے ہوئے، اس کے احکام کی یاد دلاتے ہوئے عجز اور خوف کی حالت پیدا کئے رکھتا ہے۔

پھر حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ

‘‘وہ لوگ جو قرآن شریف میں غور کرتے ہیں سمجھ لیں کہ نماز میں خشوع کی حالت روحانی وجود کے لئے ایک نطفہ ہے اور نطفہ کی طرح روحانی طور پر انسان کامل کے تمام قویٰ اور صفات اور تمام نقش و نگار اس میں مخفی ہیں۔’’

(ضمیمہ براہین احمدیہ حصہ پنجم، روحانی خزائن جلد 21صفحہ 189)

لہٰذا یہ ضروری ہے کہ رمضان کے ان دنوں میں گریہ وزاری کے ساتھ نماز ادا کی جائے تاکہ ہم اللہ کا قرب حاصل کرنے والے بن جائیں اوران لوگوں میں ہم شمار ہوں جو جُوں جُوں عبادت میں ترقی کرنے والے ہوتے ہیں تو تذلّل بھی ان کا بڑھتا چلا جاتا ہے۔ عاجزی اور انکساری بھی ان کی بڑھتی چلی جاتی ہے۔ اگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جن کی عبادتوں کی خوبصورتی اور خشوع کا ہم تصور بھی نہیں کر سکتے یہ فرماتے ہیں کہ میں بھی جنت میں خدا تعالیٰ کے فضل سے جاؤں گا (صحیح البخاری )تو پھر کسی اَور کا صرف عمل اسے کس طرح جنت میں لے جا سکتا ہے ۔پس اس رمضان میں اللہ تعالیٰ کو راضی اور اس کے فضل کو جذب کرنے کے لئے مسلسل عاجزی اور اللہ تعالیٰ کا خوف ہے جو ہر ایک کو اپنے اندر پیدا کرنا بہت ضروری ہے تاکہ ہم خدا کا قرب پانے والے بن سکیں۔

خشیت الہٰی میں تغیر پیدا کروتاکہ رمضان میں آسمان سے تمہارے لئے برکات کا نزول ہو۔

اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتا ہے۔

اِنَّمَا یَخْشَی اللّٰہَ مِنْ عِبَادِہِ الْعُلَمٰٓؤُا

(فاطر: 29)

یعنی یقیناً اللہ تعالیٰ سے اُس کے بندوں میں سے وہی ڈرتے ہیں جو صاحب علم ہیں۔

رمضان کے برکات سے فائدہ اوراس ماہ میں اللہ کا قرب پانے کے لئے خشیت اللہ اپنے اندر پیدا کرنا بہت ضروری ہے۔ایک مقام پر ہمارے پیارے نبی ﷺ اس بارے میں فرماتے ہیں۔

“حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے کہ انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت فرمایا کہ یا رسول اللہ!کیا وَالَّذِیْنَ یُؤْتُونَ مَآ اٰتَوْا وَّقُلُوْبُہُمْ وَجِلَہ (المومنون: 62) کا مطلب یہ ہے کہ انسان جو کچھ چاہے کرے مگر خدا تعالیٰ سے ڈرتا رہے؟ تو آپؐ نے فرمایا: نہیں۔ اس کا یہ مطلب نہیں ہے۔ بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان نیکیاں کرے مگر اس کے ساتھ خدا تعالیٰ سے بھی ڈرتا رہے۔

(ماخوذ از مسند احمد بن حنبل جلد 8صفحہ 296-297)

نیز آپ ﷺ فرماتے ہیں۔
خدا کی خشیت سے رونے والا شخص جہنم میں داخل نہیں ہوسکتا یہاں تک کہ دودھ واپس تھنوں میں لوٹ جائے۔

(ترمذی کتاب فضائل الجہاد)

پس یہ وہ پاک نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہیں جنہوں نے خشیۃ اللّٰہ کا عظیم نمونہ ہر آن اپنی اُمّت کے سامنے پیش فرمایا۔ ہر بات دیکھ لیں، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ہر عمل دیکھ لیں اس خشیت سے بھرا پڑا ہے۔ خدا تعالیٰ کے خوف سے لرزاں و ترساں ہیں۔ باوجود اس کے کہ خدا تعالیٰ کے مقرب ترین آپ ہیں۔ ان کے ساتھ جڑنے والوں نے بھی رَضِیَ اللّٰہ ُعَنْھُمْ کی خوشخبری سنی ہے۔ پس یہ اسوہ حسنہ ہے اور یہ خَشْیَۃ اللّٰہ ہے۔ اگر ہم نے ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کی اور اس چیز کواپنے اندر پیدا کیا تو ہم بھی اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو حاصل کرنے والے بن سکتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق دے کہ اس رمضان میں اللہ تعالیٰ کی خشیت کی روح کو سمجھتے ہوئے اس کے مطابق زندگی گزارنے والے ہوں۔ اللہ کرے یہ رمضان ہمارے لئے روحانی انقلاب پیدا کرنے والا بن جائے اور یہی رنگ حضرت مسیح موعود علیہ السلام میں بھی تھا اور آپ ؑ نے اپنے ماننے والوں کے اندر بھی اس چیز کو پیدا کرنے کے لئے آے تھے۔

خشیت الہٰی کے تعلق سے آپ علیہ السلام فرما تے ہیں۔
“میں تمہیں نصیحت کرتا ہوں کہ خدا کے حضور اس کی حیثیت سے متاثر ہوکر رونا دوزخ کو حرام کردیتا ہے لیکن یہ گریہ وبکا نصیب نہیں ہوتا جب تک کہ خدا کو خدا اور اس کے رسول کو رسول اور اس کی سچی کتاب پر اطلاع نہ ہونہ صرف اطلاع بلکہ ایمان۔”

(ملفوظات جلد-اول صفحہ نمبر371طبع2016ء)

نیز فرماتے ہیں۔
“اور سچی معرفت بغیر حقیقی خشیت اور خدا ترسی کے حاصل نہیں ہوسکتی’’

(ملفوظات جلد اول صفحہ۔46 طبع 2016ء)

نیزآپ علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ
‘‘اَللّٰہ جَلَّ شَانُہٗ سے وہ لوگ ڈرتے ہیں جو اس کی عظمت اور قدرت اور احسان اور حسن اور جمال پر علم کامل رکھتے ہیں خشیت اور اسلام درحقیقت اپنے مفہوم کے رُو سے ایک ہی چیز ہے کیونکہ کمال خشیت کا مفہوم اسلام کے مفہوم کو مستلزم ہے’’

(آئینہ کمالات اسلام، روحانی خزائن جلد 5صفحہ 185)

حضرت مرزا مسرور احمد خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں۔
“پس ہمیشہ یہ بات بھی یاد رکھنی چاہئے کہ اللہ تعالیٰ بے نیاز بھی ہے۔ کسی نیکی کو قبول کرتا ہے اور کسی کو نہیں۔ یہ اُس کی مرضی ہے کس کو چاہے قبول کرے۔ کس کو چاہے نہ کرے۔ اس لئے ہر وقت خوف رہنا چاہئے کہ جب ہم اپنے مولیٰ کے حضور حاضر ہوں تو ہمارے سے بخشش کا سلوک ہو۔ کسی نیکی پر کسی کو فخر نہیں ہونا چاہئے۔”

(خطبہ جمعہ 3، اگست 2012ء)

پس اس رمضان میں اللہ تعالیٰ کو راضی اور اس کے فضل کو جذب کرنے کے لئے خشیت الٰہی میں تغیر پیدا کروتاکہ رمضان میں آسمان سے تمہارے لئے برکات کا نزول ہو۔

دعامیں تغیر پیدا کروتاکہ رمضان میں آسمان سے تمہارے لئے برکات کا نزول ہو ؛۔

اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتا ہے۔
أَمَّن يُجِيبُ الْمُضْطَرَّ إِذَا دَعَاهُ وَيَكْشِفُ السُّوءَ وَيَجْعَلُكُمْ خُلَفَاء الأَرْضِ أَإِلٰهٌ مَّعَ اللّٰهِ قَلِيلاً مَّا تَذَكَّرُونَ

(النمل :63)

(نیز بتاؤ تو) کون کسی بے کس کی دعا سنتا ہے۔جب وہ اس (خدا) سے دعا کرتا ہے اور (اس کی )تکلیف کو دور کردیتا ہے اور وہ تم (دعا کرنے والے انسانوں) کو (ایک دن )ساری زمین کا وارث بنادیگا۔کیا (اس قادر مطلق) اللہ کے سوا کوئی معبود ہے؟تم بالکل نصیحت نہیں حاصل کرتے۔

ہمیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بیعت میں آنے کے بعد اُس روح کو اپنے اندر پیدا کرنے کی کوشش کرنی ہو گی جو ایک حقیقی عبدِ رحمان میں ہونی چاہئے۔اور خاص طور پر رمضان میں اُن معیاروں کو حاصل کرنے کی کوشش کرنی ہو گی جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پیدا کرنے آئے تھے ۔آپ ؐ فرماتے ہیں۔

‘‘ تم میں سے جس کے لئے باب الدعا کھولا گیا گویا اس کے لئے رحمت کے دروازے کھول دئیے گئے۔ اور اللہ تعالیٰ سے جو چیزیں مانگی جاتی ہیں ان میں سے سب سے زیادہ محبوب اس کے نزدیک یہ ہے کہ اس سے عافیت طلب کی جائے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ انسان پر جو ابتلاء آچکے ہیں یا جن سے خطرہ درپیش ہو ان سے محفوظ رہنے کے لئے سب سے زیادہ مفیدبات دعا ہے۔ پس اے اللہ کے بندو تمہیں چاہئے کہ تم دعا میں لگے رہو۔

(سنن الترمذی۔ کتاب الدعوات۔ باب فی دعاء النبیﷺ)

پھر ایک روایت میں آتا ہے۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص یہ چاہتا ہے کہ اللہ تعالیٰ تکالیف اور مصائب کے وقت اس کی دعاؤں کو قبول کرے تو اسے چاہئے کہ وہ خوشحالی کے اوقات میں کثرت سے دعائیں کرتا رہے۔

(مشکوۃ المصابیح کتاب الدعوات الفصل الثانی حدیث نمبر 2240)

جب خدا تعالیٰ کا وصل اور قرب میسر نہیں تو پھر دعاؤں کی قبولیت بھی نہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ایک جگہ فرماتے ہیں کہ

‘‘جو دعا عاجزی، اضطراب اور شکستہ دلی سے بھری ہوئی ہو وہ خدا تعالیٰ کے فضل کو کھینچ لاتی ہے اور قبول ہو کر اصل مقصد تک پہنچاتی ہے۔ مگر مشکل یہ ہے کہ یہ بھی خدا تعالیٰ کے فضل کے بغیر حاصل نہیں ہو سکتی’’

(ملفوظات جلد3صفحہ397)

پھر آپ فرماتے ہیں۔
‘‘دعاؤں کی قبولیت کے لئے یہ بھی ضروری ہے کہ انسان اپنے اندر پاک تبدیلی پیدا کرے۔ اگر بدیوں سے نہیں بچ سکتا اور خدا تعالیٰ کی حدود کو توڑتا ہے تو دعاؤں میں کوئی اثر نہیں ہوتا’’

(ملفوظات جلد4صفحہ21مطبوعہ ربوہ)

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ایک جگہ فرماتے ہیں کہ‘‘اصل اور حقیقی دعا کے واسطے بھی دعا ہی کی ضرورت ہے’’

(ملفوظات جلدنمبر3صفحہ397مطبوعہ ربوہ)

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ایک اور مقام پرفرماتے ہیں:

‘‘مسلمانوں کی بڑی خوش قسمتی ہے کہ اُن کا خدا دعاؤں کو سننے والا ہے’’

(ملفوظات جلدنمبر2صفحہ148مطبوعہ ربوہ)

آپ ؑفرماتے ہیں۔
‘‘غرض دعا وہ اکسیر ہے جو ایک مشت خاک کو کیمیا کر دیتی ہے‘‘۔ ایک مٹی کو بھی قیمتی چیز بنا دیتی ہے۔ ’’ اور وہ ایک پانی ہے جو اندرونی غلاظتوں کو دھو دیتا ہے۔ اس دعا کے ساتھ روح پگھلتی ہے اور پانی کی طرح بہہ کر آستانہ حضرت احدیت پر گرتی ہے۔ وہ خدا کے حضور میں کھڑی بھی ہوتی ہے اور رکوع بھی کرتی ہے۔ اور سجدہ بھی کرتی ہے اور اسی کی ظل وہ نماز ہے جو اسلام نے سکھائی ہے’’

(لیکچر سیالکوٹ، روحانی خزائن جلد 20صفحہ224-222)

اللہ کرے کہ اس رمضان میں ہم اس نکتے کو بھی سمجھتے ہوئے محسنِ حقیقی کو راضی کرنے والے بن جائیں۔ رمضان کے ساتھ دعاؤں کی قبولیت، احکامات کی پابندی، ایمان میں مضبوطی اور ہدایت کے حصول کو جوڑ کر اللہ تعالیٰ نے جو ہماری اس طرف توجہ مبذول کروائی ہے کہ مَیں تو اپنے بندوں کی بہتری اور اُن کو آفات، مصائب اور عذاب سے بچانے کے لئے ہر وقت تیار ہوں لیکن بندوں کو بھی اپنا حقِ بندگی ادا کرنا ہو گا وہ اُن بندوں میں شامل ہوں جن کی دعائیں خدا تعالیٰ قبول فرماتا ہے۔ اُن بندوں میں شامل ہوں جو اپنی حالتوں میں انقلاب پیدا کرتے ہیں۔ اُن بندوں میں شامل ہوں جو مخلوق کی ہمدردی کی وجہ سے اُسے برائیوں اور اللہ تعالیٰ کے عذاب سے بھی بچانے کی کوشش کرنے والے ہوتے ہیں۔ پس یہ رمضان ہمیں انہیں باتوں کی ٹریننگ دینے اور ہمیں حقیقی عبد بننے کے معیار حاصل کرنے اور اپنے ایمانوں میں مضبوطی اور جِلا پیدا کرنے کے لئے آیا ہے۔ پس ہم خوش قسمت ہوں گے اگر اس سے بھر پور فائدہ اٹھاویں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے۔

غذا میں تغیر پیدا کروتاکہ رمضان میں آسمان سے تمہارے لئے برکات کا نزول ہو۔

قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔

يٰٓاَيُّهَا الرُّسُلُ كُلُوْا مِنَ الطَّيِّبٰتِ وَاعْمَلُوْا صَالِحًا ۭ اِنِّىْ بِمَا تَعْمَلُوْنَ عَلِيْمٌ

(المومنون۔52)

ترجمہ۔(اور ہم نے کہا )اے رسول! پاک چیزوں میں سے کھاؤ اور مناسب حال عمل کرو (اور) میں اس کو جو تم کرتے ہو جانتا ہوں۔

گویا کہ اللہ تعالیٰ نے یہ صاف فرمایا کہ پاک چیزیں اعمال کی اصلاح کے لئے توفیق عطاء فرماتے ہیں۔حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ ایک مقام پر اس پر روشنی ڈالتے ہوئے فرماتے ہیں۔

“اور یہ تو ظاہر ہے کہ خوراک کا اثر انسان کے خیالات پرپڑتا ہے۔۔۔اور غذا کا نیک اعمال کے ساتھ گہرا تعلق بتایا ہے چنانچہ فرمایا۔ يٰٓاَيُّهَا الرُّسُلُ كُلُوْا مِنَ الطَّيِّبٰتِ وَاعْمَلُوْا صَالِحًا ۭ اِنِّىْ بِمَا تَعْمَلُوْنَ عَلِيْمٌ یعنی پاکیزہ خوراک اعمال صالحہ کی توفیق کا ایک ذریعہ ہے۔

(تفسیر کبیر جلد 3 صفحہ نمبر 94 سورہ یونس آیت 58)

نیز فرمایا۔

يَا بَنِيْ آدَمَ خُذُوْا زِيْنَتَكُمْ عِنْدَ كُلِّ مَسْجِدٍ وَكُلُوْا وَاشْرَبُوْا وَلَا تُسْرِفُوْا ۚ إِنَّهُ لَا يُحِبُّ الْمُسْرِفِينَ

(الاعراف:32)

ترجمہ۔اے آدم کے بیٹوں ہر مسجد کے قریب زینت(کے سامان) اختیار کرلیا کرو اور کھاو اور پیو اور اسراف نہ کرو کیونکہ وہ (اللہ) اسراف کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔

اس آیت کے ضمن میں حضرت مرزا مسرور احمد خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ اپنے ایک خطبہ جمعہ میں فرماتے ہیں کہ۔
“کھاؤ اور پیؤ لیکن حد سے تجاوزنہ کرو۔ ایک تو اس کا یہ مطلب ہے کہ کیونکہ خوراک کا بھی انسانی ذہن پر اثر پڑتا ہے طبیعت پر اثر پڑتا ہے۔ خیالات میں سوچوں پر اثر پڑتا ہے اس لئے پاکیزہ، صاف اور حلال غذا کھاؤتاکہ کسی بھی لحاظ سے تمہارے سے کوئی ایسا فعل سرزد نہ ہو جو تمہیں تقویٰ سے دور لے جانے والا ہو۔ جن چیزوں کے کھانے سے اللہ تعالیٰ نے روکا ہے ان کے کھانے سے رک جاؤ۔ جن چیزوں کے پینے سے اللہ تعالیٰ نے روکا ہے ان کے پینے سے رک جاؤ۔ کیونکہ ان کا کھانا اور پینا اس حکم کے تحت ناجائز ہے۔ اگر کھاؤ پیؤ گے تو اللہ تعالیٰ کی حدود سے تجاوز کرو گے۔۔۔۔۔ اور اس زمانے میں جبکہ انسان بہت زیادہ تن آسان ہو گیا ہے سستی اور آرام کی اتنی زیادہ عادت پڑ گئی ہے یہ خوراک ہی ہے جو کئی بیماریاں پیدا کرتی ہے۔ یہاں یورپ میں بھی کہتے ہیں کہ جوبرگر وغیرہ زیادہ کھانے والے لوگ ہیں ان کوانتڑیوں کی بعض بیماریاں ہو جاتی ہیں۔ پھر چاکلیٹ کھانے والے بچوں کو کہتے ہیں کہ زیادہ چاکلیٹ نہ کھاؤ دانت خراب ہو جاتے ہیں، کیڑا لگ جاتا ہے۔ اور جب انسان پہ بیماریاں آ جائیں تو پھر یکسوئی سے عبادت بھی نہیں ہو سکتی۔ اس لئے حکم ہے کہ مومن کو بھوک چھوڑ کر اور اعتدال سے کھانا چاہئے۔

(خطبہ جمعہ 11۔نومبر 2005ء)

اسی لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مومن ایک آنت سے کھاتا ہے جبکہ کافر سات آنتوں سے کھاتا ہے۔

(بخاری، کتاب الأطعمۃ، باب المؤمن یاکل فی معی واحد…)

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف کھانا کھانے اوربھوک برداشت کرنے کی تلقین ہی نہیں فرمائی بلکہ عملاً یہ کرکے دکھایا۔ بعض دفعہ یہ بھی ہوتا تھا کہ پوچھتے ہیں گھر میں کچھ کھانے کو ہے۔ اگر جواب‘ نہیں’ میں ملتا تو کہتے اچھا ٹھیک ہے آج روزہ رکھ لیتے ہیں۔ اور یہ روزے بھی اکثر اوقات آٹھ پہرے ہوتے تھے۔ یعنی ایک رات کو کھایا ہے تو اگلے دن 24گھنٹے بعد رات کو روزہ افطار کیا ہے۔اور یہی وہ طریق ہے جس سے ہم اس رمضان میں قرب الہٰی کو پاسکتے ہیں۔اس امر کو اور واضح کرنے کے لئے حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ ایک مقام پر فرماتے ہیں۔

جب روزہ دار خدا تعالیٰ کے لئے اپنے رزق کو چھوڑ تا ہے تو خدا تعالیٰ اس کا متکفل ہوجاتا ہے اور یہ اس کا فرض ہے۔۔۔ مگر فرض اسلئے کہتے ہیں کہ خود اس نے اپنے ذمہ لیا ہے کہ وہ اس کو رزق دیتا ہے جو کہ انسان اس کی خاطر چھوڑتا ہے کیونکہ جیسا کہ آتا ہے۔“وَإِذَا حُيِّيْتُمْ بِتَحِيَّةٍ فَحَيُّوْا بِأَحْسَنَ مِنْهَا أَوْ رُدُّوْهَا”(النساء:87) انسان جب خدا کے لئے جسمانی رزق ترک کرتا ہے تو خدا تعالیٰ اس کے بدلے میں اس کے لئے روحانی رزق مہیا فرماتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ روحانیت میں ترقی کرنے اور خدا سے شرف مکالمہ پانے کے لئے روزے ضروری ہوتے ہیں اور آنحضرت ؐ نے نزول وحی سے پہلے روزے رکھے(بخاری کیف کان بدء الوحی الی رسول اللہ)حضرت مسیح موعودؑ نے بھی چھ ماہ تک رکھے۔پس اس طرح روزے سے روحانیت اور تقویٰ میں ترقی ہوتی ہے۔

(خطبات محمود جلد 7 صفحہ۔282تا283)

پس رمضان المبارک انسان کی روحانیت کوتیزکرنےاورنیکیوں میں ترقی کرنےکےلئے نہایت سازگار ماحول فراہم کرنے والا مہینہ ہونے کے ساتھ ساتھ انسانی صحت کےلئے بھی ایک نہایت موزوں مہینہ ہے۔

سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام روزه کی فلاسفی اور حکمت بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں ۔

“روزہ اتنا ہی نہیں کہ اس میں انسان بھوکا پیاسا رہتا ہے بلکہ اس کی حقیقت اور اس کا اثر ہے جو تجربہ سے معلوم ہوتا ہے ۔ انسانی فطرت میں ہے ۔ جس قدر کم کھاتا ہے اسی قد رتزکیہ نفس ہوتا ہے اور کشفی قوتیں پڑھتی ہیں ۔’’

(ملفوظات جلد9 صفحہ 123)

حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ علیہ روزہ صحت کے لئے افادیت کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا۔
“آنحضرت ؐ فرماتے ہیں صَومُوا تصحوا روزے رکھوتا کہ تمہاری صحت اچھی ہو اور صحت تبھی اچھی ہوسکتی ہے کہ اگر آپ روزوں سے یہ سبق سیکھیں کہ ہم جو بہت زیادہ کھایا کرتے ہیں بڑی سخت بے وقوفی تھی ۔ رمضان نے ہمیں یہ کھانے کا سلیقہ سمجھا دیا ہے درحقیقت اس سے بہت کم پر ہمارا گزارہ ہوسکتا ہے جو ہم پہلے کھایا کرتے تھے ۔ تو اپنی خوراک بچاؤ اور اس کے ساتھ اپنی صحت کی حفاظت کرو ۔ اب امر واقعہ یہ ہے کہ اس سے بہتر ڈائٹنگ کا اور کوئی طریق نہیں جو روزوں نے ہمیں سکھایا ہے ۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام اس مضمون پر روشنی ڈالتے ہوئے فرماتے ہیں کہ روزے میں کھانا کم کرنا لازم ہے کیونکہ کھانا کم کئے بغیر جو اعلیٰ مقصد ہے روزے کا وہ پورا نہیں ہوسکتا ۔ یعنی صرف یہ ہیں کہ کچھ وقت بھوکے رہنا بلکہ دونوں کناروں پر بھی صبر سے کام لو اور نسبتاً اپنی غذا تھوڑی کرتے چلے جاؤ فرماتے ہیں اس کے بغیر انسان کی توجہ اللہ تعالی کی طرف نہیں ہوسکتی ۔ ذکر الہٰی کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ ذکر الہٰی ایک روحانی غذا ہے اور روزمرہ کا کھانا ایک جسمانی غذا ہے ۔ تو رمضان کی برکت ہی ہے یا روزوں کی برکت یہ ہے کہ وہ جسمانی غذا سے ہماری توجہ روحانی غذا کی طرف پھیر دیتے ہیں اور ذکر الٰہی میں ایک لطف آنا شروع ہو جاتا ہے اور وہ روحانی لطف ہے جو آپ کی روح کو تروتازہ کرتا ہے ۔ اس کی مضبوطی کا انتظام کرتا ہے اور جسم پر جوزائد چر بیاں چڑھی ہیں ان کو پگھلاتا ہے ۔

(خطبہ جمعہ 17 جنوری 1997ء )

جب ہم ان طریقوں سے ماہ رمضان میں اپنی اصلاح کی کوشش کریں گے توروحانی اور جسمانی طور پر ایک تبدیلی پیدا ہوجائے گی لیکن انسان کمزور ہونے کی وجہ سے یہ پیدا کی گئی تبدیلیاں آہستہ اہستہ مٹتی چلی جاتی ہیں اور اس طرف توجہ کم ہوجاتی ہے اس کے حل کے بارے میں ہمارے پیارے امام حضرت مرزا مسرور احمد خلیفتہ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں۔

“ کئی لوگ لکھتے ہیں کہ رمضان کے ماحول کی وجہ سے عبادتوں کی طرف توجہ پیدا ہوئی۔ ایک ماحول بناہوا تھا، اُس کے دھارے میں ہم بھی بہتے جا رہے تھے۔ رمضان ختم ہوا تو پھر وہیں واپسی ہوگئی جہاں سے شروع ہوئے تھے۔ نمازیں ہیں لیکن اُن میں وہ لذت اور ذوق نہیں۔ پس اس ماحول میں جب دعاؤں کی طرف توجہ ہے تو اللہ تعالیٰ نے عبادت میں ذوق شوق، قوت اور ثباتِ قدمی کی جو دعا سکھائی ہے وہ دعا بھی کرنی چاہئے تا کہ عبودیت کا صحیح حق ادا ہو اور ہمیشہ ہوتا چلا جائے۔ اگرثباتِ قدمی نہیں تو عبودیت کا حق بھی ادا نہیں ہو سکتا۔پھر آپؑ فرماتے ہیں کہ

‘‘عبد بننے کی طرف توجہ اور ثباتِ قدمی کی طلب کے بعد پھر وہ کونسی اہم چیز ہے جو ایک مومن میں ہونی چاہئے’’

(خطبہ جمعہ 26۔اگست 2011ء)

پس اس مبارک مہینہ میں ہم لوگ گریہ وزاری،خشیت الہٰی،دعا اور اپنی غذا میں جو روحانی اور جسمانی تغیر پیدا کئے ہیں اسے ہمیشہ قائم رکھنے کے لئے ثبات قدمی کے ساتھ ہمیشہ دعا کرتے رہنے کی ضرورت ہے اور جو ایام باقی ہے ان کو اس طرح گزاریں جسطرح حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ؒ فرماتے ہیں۔

‘‘جو دن باقی ہیں ان کا حق ادا کریں اور ان کو اس طرح اپنا لیں کہ آپ کو ان دنوں سے پیار ہونے لگے اور وہ دن آپ کو ایسا اپنا لیں کہ وہ اپنی برکتیں آپ کے ساتھ چھوڑ جائیں’’

(خطبہ جمعہ 2فروری 1996ء)

آمین

پچھلا پڑھیں

ماہِ رمضان

اگلا پڑھیں

اطلاعات اعلانات